مکہ محمد اور خُدائے مہتاب ایک حقیقی اسلامی نسب سے ایک حقیقی تحقیق – باب بارہ سولہ تک

حصہ ساتواں جہاد

بارہواں سبق

ابتدائی اسلامی سلطنت کی پالیسی

مقدس جنگ کاسے دفاع

یہ قدیم رسوم سے منسوب ہے ، کہ جہاد کے تصور نے لازوال نقش مغربیوں کے ذہنوں میں چھوڑے ہیں تو حقیقت میں جہاد ہے کیا تھامس ہیگس بیان کرتے ہیں کہ جہاد کی اصلاح اسلامی ڈکشنری میں :

‘‘اسلامی عقائد کی انسائکلیوپیڈیا میں دستور رسومات اور رواج کِسی خاص علم کے ساتھ اکٹھے ہیں اور یہ مسلمان مذہب میں ایک تھیالوجیکل اصطلاح ہے: لِٹ ‘‘ایک کوشش’’ یا محنت کرنا ہے ، ایک مذہبی جنگ ہے جو محمد کے مقصد میں غیر ایماندار میں ۔ یہ مذہب میں ایک عہدہ دار کے طور پر فرض ہے۔ یہ قرآن میں ، اور اپنی تعلیم کی روایات میں منظر عام پر ہے اور خاص طور پر اسلام کے ترقی یافتہ مقصد کی تاکید کرتا ہے اور مسلمانوں سے بدی کو رفع کرتا ہے۔ جب ایک کافر ملک پر مسلمان حکمرانوں نے قبضہ کیا ۔ تو اس میں بودوباش کرنے کی تین متبادل پیش کش کی گئیں : (۱) اسلام کا داخلہ ، جس میں فتح کی صورت میں اسلامی ریاست کے اندر شہریوں کو پوری آزادی ہو گی

جزیہ کی ادائگی جس میں اسلام میں غیر ایماندار محفوظ تھے اور اُن کو خاص ٹیکس ادا کرنے کے لیے ان کی رہائش میں تبدیلی دی گئی عرب کے اندر بت پرستی نہیں کرنے دیں گے ۔(۳) تلوار کے ساتھ موت:۔ اُن کے لیے جو ٹول ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔(۱)

فہرست میں دوسرے نمبر کا پوائنٹ بت پرستوں کے لیے لوگو نہیں ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر ، ہندو ، بدھ مت اور دوسرے ایک خُدا کو نا ماننے والے دوسری آپشنز میں ہے تبدیلی یا موت ، جہاد کی پالیسی کی وجہ سے مشرق کی سرزمین ہر خاص طور پر بے رحم تاریخی اور خونی فتوحات ہوئی ہیں ہیگس ایک صوفی ہے جہاد کا ظاہر تناسب بیان کرتا ہے۔

صوفی لکھاری کہتے ہیں کہ جہاد دو طرح کا ہے: الجہاد الاکبر یا ‘‘ایک بڑی جنگ وجدل’’، جو اُنکی اپنی ہی نفس پرستی کے خلاف ہے؛ اور ایک الجہاد الاصغر ہے ، یا ‘‘ چھوٹی جنگ قجدل ہے ’’ یہ کافروں کے خلاف ہے۔(۲)

دوبارہ بیاہ کرتے ہیں کہ کافروں کی مسلمانوں نے ادا کی ہے یہ اُن کے دشمنوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

ہیگس اس اصطلاح کو بیان کرتا ہے۔ کافروں کی ریاست میں مختلف قسم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ۱ ، کافر ایک وہ جو سچائی کو چھپاتا یا اس کا انکار کرتا ہے ؛ ۲ مُشرک ایک وہ جو اللہ کا شریک ٹھہرتا ہے؛ مُلحد: ایک وہ جو سچائی سے پھر جاتا ہے۔ ۴: زندیک و ایک کافر یا ایک زندوننا کا پجاری؛ ۵ منافق ، ایک وہ جو فقہیہ طور پر محمد کے مقصد کو نا مانتا ہو: مُرتد ایک وہ جو اسلام سے منحرف ہے، ۱ دہری ، بے دین (کافر) ۸ ، وسانی ، ایک وہ جو بُت پرست (۳)

بنیادی طور پر ایک کافر کِسی میں بھی شامل ہو جاتا ہے وہ جو اسلامی دستور کو نہیں جانتا۔ جسکا دعویٰ کرتا ہے کہ صرف وہی اللہ کا سچا نبی ہے ، دلچسپی سے ابتدائی مکی سورتیں کِسی بھی جہاد کے لیے اُصول بیان نہیں کرتی۔ جہاد کے قلع کی دیواروں محمد کی خدمت کو متحرک کرنے کے لیے بڑھنا تھا۔ بعد میں ، اُسکے مدینہ میں سالوں کے دوران محمد نے اپنے آپ کو سیاسی حکمران کے طور پر مضبوط بنایا اور دنیا کی فتح کی کامیابی کا نیا الہام قبول کرنا شروع کیا اسے جہاد کی ابتداء تسلیم کیا گیا ؛ افرائیم قریش ؛ اسلام مین اسلامی سلطنت کی پہلی پالیسی ہے ؛ ایک تاریخ ک کا لکھاری لکھتا ہے ؛ کہ پرانے اسلامی معاشرے کے انتخاب کی ایک بھی سرگرمی نہیں تھی ۔ یہ جنگ جو بہت مختصر تھے۔(غزوہ ، یا رضیہ ، یہ عام طور پر جانے جاتے تھے۔ یہ حملہ کرتے تھے ۔ بڑی چالاکی کے ساتھ ، اُنکے اونٹنوں ، گھوڑوں، کھانے پینے کی چیزوں یا اس کی بڑی کمی کو ضبط کرنے کے لیے اشانہ بناتے تھے ، مخالف قبیلے کی عورتوں کو غلام بنا لیتے تھے۔(۴)

زیادہ تر خانہ بدوشوں کے لیے راضیہ خوراک کا وسیلہ نہیں تھا۔بلکہ معاشرتی کوششیں خوشی سے کی جا رہی تھیں اور قبیلے کے باہمی طور پر مدد کرنے کا اقرار تھا اور فوج کے تجربات کی اقرار جیتنا تھا۔ اس لئے یہ بہت زیادہ تھا اس لیے کُچھ مفکر اس کو اس طرح بیان کرتے دوبارہ محمد بھی اسے اپنے مذہب کے سانچے میں عربیوں کی اس مشترکہ مشق پہلے سے خُوش تھا ، محمد نے اپنی ابتدائی خدمت میں جہاد کا حکم نہیں دیا تھا ، جہاد کا تشدد اُن کی فطرت میں بتدریج ترقی پا گیا تھا ، محمد نے قریش کے قبیلے کو تبدیل کرنے کے لیے کوشش کی تھی کہ وہ اُس اللہ کے الہیٰ پیغمبر کے طور پر جانیں۔ لیکن اُنہوں بڑی بے عزتی کے ساتھ محمد کو رد کر دیا تھا ۔ لیکن وہ اکثر اُسے جھوٹا شاعر ، غیب بین ، جادوگر اور شیطان کا قابض کہتے تھے ۔(۵)

اس کے رد کیے جانے پر آخر کار محمد نے اپنے ابتدائی لوگوں کو جہاد لڑنے کا حکم دیا ابن عاشق نے اس آبوہوا کے محور کو دوبارہ شمار کیا ۔

جب قریش اُسکے متعلق باتیں کر رہے تھے اور اللہ کے رسول اُن کی جانب بڑھے اور کالے پتھر کو چُوما تب وہ اُن کے پاس سے گزرا اور اُس نے اُس معبد (خانہ کعبہ) کے گرد چکر لگائے۔

جیسے ہی وہ اُن کے پاس سے گزرا اُنہوں نے اُس کے بارے میں کُچھ ناحق باتیں کہیں ۔ یہ میں اُسکے تاثرات دیکھ سکتا تھا ۔ وہ آگے بڑھا اور دوبارہ پھر اُن کے پاس سے گزرا اور دوسری دفعہ پھر انہوں نے ایسی ہی باتیں کیں ۔ تب وہ تیسری دفعہ اُن کے پاس سے گزرا اور انھیں دوبارہ پھر ایسا ہی کیا ۔ وہ رُک گیا اور فرمایا ‘‘ اے قریش کیا تم مجھے سُنو گے؟ اس کے وسیلہ سے جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے میں تم کو ذبح کرونگا۔’’(۶)

بڑی دلچسپ بات ہے ، محمد قریش کو ذبح کرنے کی ثبوت کرنے سے پہلے اُس نے اپنے چاند دیوتا اللہ کو چُوما تھا ۔ کیا محمد اپنے ذاتی بت کے رابطے سے اپنے نقطہ اعتبار سے شیطانی تاثیروں کی آمیزیش پر تکیہ کر رہا تھا۔ کیا اُس نے شیطانی چاند دیوتا اللہ کے لیے روحانی درقازہ کھولا تھا؟ ظاہر تو یہی ہوتا ہے۔

تقریباً ایک سال کے بعد ۶۲۲ء میں ہوا تھا ۔ جب محمد نے اس وحی کا ثبوت دیا جس میں یہ اسلام کے پیروکاروں کے لیے یہ بیان تھا کہ وہ اُن کے خلاف اپنے دفاع کے لیے جنگ کریں جو اُن کو نقصان پہنچانتے ہیں (۷)

ممکن طور پر قرآن کی آیات پر اُس شخص کے خلاف جہاد کا حکم دیتی ہیں وہ جو اسلام کو قبول نہیں کرتا، محمد کی اپنی ذاتی جہاد کی صفت ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے ابن عمر سے روایت ہے ۔‘‘اللہ کے رسول نے فرمایا مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ اُن لوگوں کے خلاف جہاد کرو جب تک وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر دیے کہ دنیا میں کوئی خُدا (دیوتا) نہیں ہے۔ سوائے اللہ کے اور محمد اللہ کے رسول ہیں نماز پڑھو اور زکوۃ دو اِس لیے اگر وہ یہ سب کُچھ کرتے ہیں تو اُنکیہ زندگیاں بچ جائیں گی اور اُنکی جائدایں اسلامی قانون کے مطابق ہونگی اور اُنکا شمار اللہ ہی کرے گا۔ (۸)

ایک اور اسی طرح کی حدیث ہے ۔ اُنس بن مُلک بیان کرتے ہیں کہ ‘‘اللہ کے رسول نے فرمایا مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں کے خلاف لڑوں جب تک وہ یہ نہیں کہتے ؛ کہ دُنیا میں کوئی خُدا نہین ہے سوائے اللہ کے ؛ اگر وہ یہ کہتے ہیں ؛ اور ہماری طرح ہمارے قبیلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور قربانی میں جس طرح ہم قُربانی کرتے ہیں ۔ تو اُن کا خُون اُنکی جائیدادیں ہمارے لئے واجب تعظیم ہیں اور ہم اِن میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے سوائے قانون کے اور اُن کا شمار اللہ کے ساتھ ہو گا۔(۹)

 حدیث کی گواہی اس کو بلور کی طرح واضع کر دیتی ہے۔ جو کوئی بھی اسلام کی مخالفت کرے گا وہ محمد کے غضب کا سامنا کرے گا۔نتیجے کے طور اسلامی تاریخ کے مطابق، دیناکی فتح اور مذہب میں تبدیل کرنے کے لیے ہتھیار کا اور تلوار کا استعمال کیا گیا۔حدیث جہاد کی اہمیت کو بیان کرتی ہے ۔ابو حریرہ سے روایت ہے : کہ اللہ کا رسول سے پوچھا گیاکہ ‘‘سب سے بہتر کام کیا ہے؟‘‘آپ نے جواب دیا: ‘‘اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان رکھنا ’’ سوال نے پھر پاچھا۔‘‘اگلی نیکی کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا۔ اللہ کی خاطر مذہبی جنگ میں حصہ لینا (یعنی جہاد کرنا)’’ (۱۰)

قرآن کے سارے پیراگراف بیان کرتے ہیں اور مسلمانوں کو کافروں کو مارنے کا حکم دیتے ہیں ۔ آئیں ہم اُن کے بارے میں جانیں وہ جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ وہ جو اس دنیا میں اپنی زندگی دوسروں کے لیے بیچتے ہیں وہ جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں لڑنا یا فاتح ہونا تو وہ ااُسے بڑا وسیع اعزاز دے گا اُن کے لیے جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور وہ جو بتوں کی راہ مین لڑنے کو نہیں جاتے ہیں ۔ اِس لیے جنگ کریں شیطان کے حصہ کو ختم کرنے کے لیے جنگ کریں ۔(قرآن ۴ : ۷۴ ۔ ۷۶)

کیسے کِسی پر قرآن یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ جو اللہ کو نہیں مانتے حقیقت میں وہ شیطان کے خادم ہیں ۔وہ تمام جو محمد سے رضامند نہیں ہیں یا اُس کے مخالف مار دیے گئے تھے۔ یہ سورۃ کی پیروی کرنے کی تشریح بیان کی گئی ہے۔

میں لوگوں کے دِلوں میں خوف بھر دونگا وہ جو محمد کو نہیں جانتے۔

اُن کی گردنوں کو کاٹ دوں گا اُن کی ہر ایک انگلی کو کاٹ دونگا جو اُسکی طرف اُٹھے گی۔کیانکہ یہ اِس لیے ہے کہ وہ اللہ اور اُس کے رُسول کے مخالف ہیں اللہ اُن کو سزا دے گا۔(قرآن ۸ : ۱۲ ۔ ۱۳)

موت کی دھمکی میں آکر بہت سارے محمد کے دشمنوں کو جبراً اسلام میں تبدیل کیا گیا تھا۔

مسلمان تاریخ نگار تیاری ان واقعات کا دوبارہ شمارا کیا ہے اللہ کے رُسول نے خالد بن ولید کو تاجری میں بھیجا کہ وہ اُن کو اسلام کی دعوت دے اس سے پہلے کہ وہ اُن سے جنگ کریں تین دن میں اسلام قبول کر لیں ۔ اگر وہ اُسکو ردِعمل دینا چاہیں(اسلام کو قبول کرنے کے ساتھ ) تو وہ اُن کو بھی قُبول کرے گااگر وہ انکار کریں گے تو وہ اُن کے ساتھ لڑائی کرے گا (۱۱)

بعد میں خالدنے اُن کو محمد کے سامنے پیش کیا اور اللہ کے نبی نے فرمایا: کیا مجھے خالد بن ولید نے یہ نہیں لکھا تھا ۔ کہ تم نے ہتھیار ڈال دیئے تھے لڑائی نہیں کی تھی ۔میں آپ کے سروں کو آپ کے قدموں تلے کر دوں گا۔(۱۲) اگر وہ سچے دِل سے ایمان نہ لا سکیں۔

محمد نے آہستگی سے اُن کے معاہدے کو اور اقرار کو قبول کیا تلوار کے ذریعے سے بشارت دیتا بائبل کی نئے عہدنامے کی تعلیمات سے بہت مختلف ہے۔جب ایتھوپیا کے خواچہ ایک مسیحی مبشر فلپ سے پوچھا گیا آپ اُسے بپتسمے کے ذریعے سے بچا سکتے ہیں ۔ فلپ نے جواب دیا ۔ پس اگر تو پورے دِلوجان سے ایمان لائے۔(اعمال ۸: ۳۷) سچے مسیحی کلام مقدس کی بشارت کرتے وقت کِسی کو دھمکی نہیں دیتے۔

تاریخی طور پر یسوع نے اور ابتدائی کلیسیاء نے تبدیلیکے لیے کِسی کو مجبور نہیں کیا۔ یہ بعد میں کلیسیاء کی تاریخ میں سیاست کی وجہ سے داخل ہوئی اور دولت کی چڑیا کے طور پر کلیسیاء میں شامل ہو گیا تھا۔ غلط کلیسیائی راہنماؤں نے مسیحیت میں تبدیل ہونے کے لیے لوگوں کو مجبور کیا تھا اس کے باوجود اسلام کی مذہبی پالیسی کے محمد نے غلط چاند دیوتا اللہ کو قبول کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور کیا ۔قرآن کے اس حکم کو رد نہیں کیا گیا تھا۔ بالآخر دوسری طرف عرب میں محمد کی فتح کی منزل کے لیے وسعت پیدا ہوئی۔ اُس نے ایک ہرکولس کو بھیجا جو ایک بازنطینی کی طاقتور حکمران تھا اور ہمیں لکھا تھا، ‘‘ میں تم کو اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں اگر تم مسلمان بن جاؤ گے تو تم بچ جاؤ گے۔’’ (۱۳) محمد کا یہ آخری اعلان تمام دنیا کے لیے تھا ۔ اس سے مقدس جنگ یا پھر قتلوغارت ہوتی ہے، ‘‘ اور اُن کے ساتھ اتنی اذیت ، جب تک وہ مر نہ جائیں اور مذہب صرف اللہ کا مذہب ہے۔(قرآن ۸:۳۹) اگر پھر بھی جنگ یا قتل کرنا ضروری ہو تو کرو۔ چاند دیوتا اللہ نے محمد کے مقصد وسعت دی ہے اللہ نے پوری دنیا کو اسلام کے مذہب کا مطیع کر دیا ہے۔قرآن واضع طور پر اقرار کرتا ہے کہ وہ جو اسلام کو قبول نہیں کرتا اُن پر تشدد کیا جائے گا یا پھر مار دیا جاے گا۔

صرف اُن لوگوں کے لیے یہ اعزاز ہے وہ جو اللہ کے لیے اور اُس کے رُسول کے خلاف لڑتے ہیں ۔ وہ مار دیے جائیں گے یا پھر مصلوب کیے جائیں گے یا اُن ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں گے یا زمین سے خارج کر دیے جائیں گے۔(القرآن ۵ : ۳۳)

ایک دوسری سورۃ بیان کرتی ہے۔

جب تُم لوگوں سے جنگ کرتے ہو وہ جو ایمان نہیں رکھتے تو اُن کی گردنوں کو اُڑا دو ۔ جب تک وہ راہ ِ راستہ پر نہیں آجاتے۔ اور تیزی سے اپنے میں مِلا لینا۔ اُسکے بعد اُن پر رحم کرنا یا چھوڑ دینا اور جنگ اس بوجھ کو کم کرتی ہے۔ (قرآن ۴۷ : ۴) اُن کے ساتھ متواتر دولت کے وعدے کی محمد اپنے پیروکاروں کو تحریک دیتا ہے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو لوٹ کا مال ہے ۔ تم اپنے قبضے میں کر لو گے (القرآن ۴۸ : ۲۰ ) قرآن قانونی طور پر اجازت دیتا ہے کہ کِسی کی بھی جائیداد وہ جو اسلام کو قبول نہیں کرتا لوٹ لی جائیگی یا چھین لی جائیگی۔ اکثر محمد خفیہاللہ سے لوٹ مار کے مال کے لیے یا غلام لڑکیوں کے لیے حملہ کرتا تھا ۔ کیا محمد چور یا ایک عام ڈاکو تھا ۔ تاریخی ثبوت کے مطابق جواب صاف ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔

یہودیوں اور مسیحیوں کے خلاف جہاد

اگرچہ بہت سارے مسلملان اس دعوے کا انکار کرتے ہیں کہ قرآن تمام مذہبی ایمان کے بے دینیوں (کافروں) کو مارنے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اس میں انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے والے بھی شامل تھے وہ اپنے مذہب سے برگشتہ ہیں وہ اللہ اور اُسکو حکموں کو نہیں  مانتے وہ جھوٹا کہتے ہیں ۔ قرآن واضع طور پر مسلمانوں کو یہودیوں اور مسیحیوں کو قتل کرنے کے لیے اُکساتا ہے یا کوئی دوسرے مذاہب یا دوسرے مذہبی طور پر ممانعت کرنے والے وہ جو اسلام کے تقاضوں کو رد کرتے ہیں ۔ اُن کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔

اُن کے خلاف جنگ کرنا جو اللہ کے دیے گئے احکام پر عمل نہیں کرتے اور نہ آخری دن پر اور وہ اللہ اور اُسکے رُسول کی مخالفت کرتے ہیں (رد کرتے ہیں ) یہ ایک مذہبی سچائی نہیں ہے جب تک وہ جلدی سے اپنا نذرانہ نہیں دیتے ۔ وہ شخص نیچے کر دیا جائیگا۔ (قرآن ۹ : ۲۹ )

بڑے ٹیکسوں کو ادا کرنا ۔ ایسے دکھائی دیتا ہے ، کہ جیسے یہودیوں اور مسیحیوں کو موت سے بچانے کا ذریعہ ہو ۔ کیا اس طرح کا تصور پاک خُدا کرتا ہے یا سادہ طور پر محمد کے لالچ کے وہم کا غلبہ ہے اور نفس پرستی کی خواہش معصوم لوگوں کو قتل کرواتی ہے؟

یہ ساری دُنیا اسلامی ریاست کی پالیسی ہے کہ لوگ بھاری ٹیکس ادا کرنے کے لیے مجبور ہیں۔

یہ نمایاں طور پر دیکھائی دیتا ہے کہ محمد اپنے مذہب کو دوسرے بڑے مذاہب سے بہتر قرار دیتا ہے ۔ جس میں خانہ بدوش شامل ہیں۔ یہودی اور مسیحی فرقے کو بدعت قرار دیتا ہے ۔

وہ جو عرب کی سرزمین پر گُھس گئے تھے ، اُسکی ملی جُلی صحیفوں کی تعلیم جو اُسکی کم عقلی کی وجہ سے تھھی اور بھروسہ کو زبانی منتقل کیا اور مختلف قسم کی رسومات کو اس میں شامل کیا ۔ اس سچائی کو درجِ ذیل سورۃ ثابت کرتی ہے۔

اور ایک یہودی کہتا ہے ، عزرا اللہ کا بیٹا ہے ۔ اور ایک مسیحی کہتا ہے کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ وہ اپنے منہ سے کہہ رہے تھے ، ۔۔۔ اللہ اُن کے خلاف خود ہی لڑے وہ کتنے گُمراہ ہیں ۔ انہوں نے اسے آقا کے طور پر لیا ہے اس کے علاوہ اللہ اُنکا ربی ہے اور اُنکی عبادت ہے اور مسیح مریم کا بیٹا ہے ۔ جبکہ وہ ایک ہی خُدا کی عبادت کرتے تھے (القرآن ۹ : ۳۰ ۔ ۳۱ ) اگر محمد صیحح طور پر جبرائیل فرشتے کو سُن لیتا تو وہ بائبل کے ابتداء کے صحیفوں کے ماضی کے واقعات کو سمجھنے میں کبھی غلطی نہ کرتا ۔

محمد کے مطابق مسیحیوں کا ایمان غلط ہے وہ یسوع کو ایک خُدا کے علاوہ دوسرے خُدا کی تعلیم دیتے ہیں باقی خاص بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسیحیت کو قبول کرنے سے روکا جائے تاہم حقیقت یہ ہے کہ سچے مسیحی اصل میں ایک خُدا کی ہی عبادت کرتے ہیں وہ جو اپنے آپ کا تین شخصیات کے ظہور کا انکشاف ایک ہی وقت میں کرتا ہے ۔لیکن لغوی طور پر یہ تینوں الگ الگ خُدا نہیں ہیں اس لیے کُچھ مسیحی اور مسلمان اس تصور کو سمجھنے میں غلطی کر جاتے ہیں وہ ہمیشہ سے قائم ہے اور اُسکی ایک پوشیدہ روح لوگاس ہے جس نے بذاتِ خود جسم لیا اور وہ لوگاس ظاہر ہوا یہ وہی لوگاس تھا جس کے بارے میں یوحنا رُسول لکھتا ہے کہ تمام چیزیں اُسکے وسیلہ سے پیدا ہوئیں : ابتداء میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا اور یہی ابتداء میں خُدا کا ساتھ تھا ۔

سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کُچھ بھی پیدا ہوا اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی ۔ (یوحنا ۱ : ۱۔۹ ) اس کے بارے میں خاص فقرہ یہ تھا کہ ‘‘ کلام خُدا تھا ’’ خُدا کی واحدایت کا سمجھنا بہت ضروری ہے یہاں پر تین خُدا نہیں ہیں ۔ بہت سارے دوسرے لوگ ایسا خیال کرتے ہیں اسی طرح نیا عہدنامہ دعویٰ کرتا ہے کہ یسوع خُدا کی پوشیدہ صورت ہے کیونکہ اسی میں سب چیزیں پیدا کیں گئیں آسمان کی ہوں یا زمین کی دیکھی ہوں یا اندیکھی تخت ہوں یا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات سب چیزیں اُسی کے وسیلہ سے اُسی کے واسطے پیدا ہوتی ہیں وہ سب چیزوں سے پہلے ہے ۔اور اُسی میں سب چیزیں قائم رہتی ہیں۔(کلیسیوں ۱ : ۱۶۔۱۷)

یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ کائنات کو تخلیق کرنے والا اصل میں یسوع ہے۔ خُدا کی الوہیت کی ساری معموری اُس میں سکونت کرتی ہے ، مزید اسکے جب شاگرد فلپس نے یسوع سے کہا کہ وہ اُنہیں باپ کو دیکھائے یسوع نے جواب دیا ‘‘ اے فلپس ! اتنی مدت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تو مجھے نہیں جانتا ؟ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا ۔۔۔ کیا یقین نہیں کرتا کہ جس باپ میں میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے ۔’’(یوحنا ۱۴ : ۹۔ ۱۱) کائنات کو پیدا کرنے والا ایک ہی ہے اور وہ ایک خُدا ہے ۔ محمد کے الہام اُسکے اپنے ذاتی تجربے پر انحصار کرتے ہیں۔ مسیحیوں کو ایک بدعت قرار دیتا ہے ۔ جو عرب میں رہتے تھے اور وہ اُن کو راہِ راست کے طریقے سے بیان کرتا ہے ۔

قرآن مریم کی اور مقدسوں کے بتوں کی پرستش کو روکتا ہے۔(القرآن ۵ : ۱۱۶ )

ایک دفعہ پھر محمد مسیحیوں کے اس قابلِ قبول ایمان کو قبول کرتا ہے اگرچہ پہلی صدی عیسوی میں اس قسم کی مشق کرنے کا کوئی حصہ نہیں تھا یا بائبل کی بنیاد پر یہودی اور مسیحی ہیں ۔ اور نہ ہی اُنکا مقدس پر عقیدہ ہے

محمد کے دور میں مسیحیوں نے بہت بڑی مصیبت کا سامنا کیا تھا ۔ بہت سارے غلط عقائد اور بہت ساری غلط رسومات کلیسیاء میں شامل ہو گی تھی ۔مان لیا گیا تھا کہ محمد سچا نبی تھا وہ اس بات پر جانا گیا تھا کہ کیا اُسکی تعلیمات کی ابتداء یہودیوں اور مسیحیوں کے صحیفوں کی تعلیمات کے مطابق تھیں اور نہ کہ متبرک ادارے سے لی گئی تھی ۔ بجائے اس کے کہ ان بدعتوں کے ایمان پر یقین کرے۔ اُسے مسیحیت اور اپنے ذاتی خیالات کو نمانہ بنایا تھا اور اُسکا مذہب اس کے مطابق تھا۔ محمد اپنے مرنے کے بستر پر تھا اُسکا چہرہ بار بار پسینے سے صاف کیا جا رہا تھا ، اُسے نفرت بھرے لہجے میں فرمایا کہ ‘‘ اللہ مسیحیوں اور یہودیوں پر لعنت کرے کیونکہ وہ اپنے نبی کی قبر پر جا کر اُسکی پرستش کرتے ہیں، ’’ (۱۴) ایک دفعہ پھر یہ مشق مسیحیوں اور یہودیوں میں سچی ثابت نہیں ہوتی تھی ۔ بائبل مقدس نبیوں اور مقدسوں کی پرستش کرنے سے منع کرتی ہے ۔

لیکن یہودیوں اور مسیحیوں کو یادگاری کے طور پر عبادت کے لیے اُنکی جگہوں پر عمارت بنانا ، منع نہیں کیا تھا۔ اُن کی یادگاری کے لیے جو اُن سے فائق تھے ۔ اُن کے مضبوط ایمان کی رسم ہے کہ وہ خُدا کی عبات کریں کلام مقدس آدم کی پرستش کرنے سے منع کرتا ہے جسکی جبلت میں گناہ شامل ہو گیا تھا ۔ ایسے ہی نبیوں اور مقدسوں ، مقدس مریم کی پرستش یا دوسرے لوگ جو آدم سے پیدا ہوئے ہیں پرستش کرنے سے منع کرتا ہے اسی طرح یہ سچ ہے کہ فرشتوں اور دوسری پیدا کردہ مخلوق کی پرستش کرنا منع ہے ۔ سوائے یسوع مسیح کے جس کی فطرت میں گناہ شامل نہیں تھا ۔ یا وہ صرف عورت کی روحانی فطرت سے تھا ۔ مقدس مریم نے صرف اپنا رحم یسوع مسیح کو دیا تھا اور یسوع مسیح آسمانی شخصیت تھی۔ آسمانی روٹی کی ‘‘طرح’’ (یوحنا ۶ : ۵۸ )

کُچھ لوگ بحث کر سکتے ہیں کہ یسوع نے اپنی اصل آزمائش برداشت کرنے کے لیے گناہ آلودہ فطرت اختیار کی تھی ۔ دوسرے تمام انسانوں کی طرح یقیناً اُس حکم کی انسانیت کے ساتھ پہچان کروائی تھی ۔ تاہم پہلا آدم اس طرح آزمائش میں نہیں پڑا تھا ۔ حتی بھر میں اُسکی گناہ آلودہ فطرت کی وجہ سے آزمائش ہوئی تھی؟ کیا یسوع دوسرا انسان نہیں ہے؟ منطق کے طور پر اُس نے  آزمائش برداشت کیتھی ۔ اگرچہ وہ مکمل انسان تھا ۔ آدم اپنے جسم کی خواہش کی وجہ سے آزمایا گیا تھا ۔ آنکھوں کی خواہش ، زندگی کی شیخی سے ۔ کیا یسوع بھی اسی طرح آزمایا گیا تھا ۔ مزید اس کے یسوع میں بھی انسانی خُدان تھا جو بے عیب تھا ۔ اس کا خون انسانی گناہوں کی قُربانی کے کفارے کے لیے بے عیب تھا ۔ غزوہ خندق کی لڑائی کے بعد ، فرض کریں جبرائیل فرشتہ محمد پر ظاہر ہوا ہوتا تو یقیناً یہودیوں کو سزا مِلی ہوتی۔

حدیث بیان کرتی ہے۔

جب اللہ کے رُسول غزوہ خندق کی لڑائی کے بعد واپس لوٹے ۔ اُس نے اپنے بازو نیچے کیے اور غسل کیا ۔ تب جبرائیل حاضر ہوئے ، اُنکا سر مٹی سے ڈھانپا ہوا تھا ۔ آپ کے پاس آئے اور فرمایا۔ آپ اپنے بازو نیچے کر لیں ! اللہ کا حکم ہے ۔ میں اپنے بازو تب تک نیچے نہیں کروں گا ، اللہ کے رسول نے فرمایا ۔ اب آپ کہاں جا رہے ہیں ؟

جبرائیل نے فرمایا یہی وہ رستہ ہے ، اسی نقطے کے تحت بنی قریش کے قبیلے کی طرف بڑھا جائے تو اللہ کے رُسول قریش کی جانب گئے ۔ (۱۵)

یہ کُچھ مشکوک سا دیکھائی دیتا ہے کہ جبرائیل کا پورا سرمئی سے بھرا ہوا تھا اور وہ صرف بدلہ لینے کو اُکسانے کے لیے ۔

کلامِ مقدس کے مقدس کے مطابق کہ فرشتے صاف و شفاف دیکھائی دیتے تھے ، وہ بھی مکاشفے دینے کے لیے نظر آتے تھے ، یہ تو محمد پر واضع طور پر ظہور تھا وہ صرف کِسی ناپاک روح کا تھا اور قتل کرنے کی کھوج لگارہا تھا۔ جب مسلمانوں کی فوج یہودیوں کے قبیلے بنی قریعنہ کے پاس آئی تو محمد نے اُنکے خلاف لعن طعن شروع کر دی ، انکو حقیر و ذلیل کیا اور اُن پر لعنت کی ۔ رابرٹ سپنسر، ‘‘محمد کی سچائی میں ’’ جو دنیا کے سب سے زیادہ تنگ نظر مذہب ہیں اُسکے بانی ہیں لکھتے ہیں۔

محمد اُنکی اصطلاح بیان کرتا ہے کہ اسلامی جہادیوں کے لیے خاندان کا بنانا ایک محاورہ بن چُکا ہے جب آج یہودیوں کی زبان بولی جا رہی ہے کہ تو اُسکے رستے بھی قرآن کے اندر بنائے گئے تھے ۔ آپ بنرر کے بھائی ہو ۔ خُدا تم کو بے عزت کر چُکا ہے اور خُدا اپنا انتقام تم سے لے گا ۔’’ قرآن میں یہ تین جگہوں پر بیان ہے ۔ (۲ : ۶۲ ۔ ۶۵ ؛ ۵ : ۵۹ ۔ ۶۰ ؛ اور ۷ : ۱۶۶ ) کہ اللہ یہودیوں کو سبت کے دن بندروں اور سوروں میں تبدیل کر دے گا ۔ (۱۶)

یہ دعویٰ یہودیوں کے خلاف نہیں اور یہ ابھی تک مسجدوں کے امام پوری دُنیا میں دُہراتے ہیں ۔ یہودیوں کا فیصلہ بنوں قریعنہ بڑے ہیبت ناک طریقے سے محمد پر جپھٹا تھا، اس خون آلودہ واقعہ کو ابنِ عشق ایک حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ تب رُسول مدینہ کی مارکیٹ میں گیا اور اُس کے چوگرد ایک خندق کھودی تب اُس نے اُن کو اُس میں ڈالا ، اور اُن کے سروں کو اُڑا دیا اپنی اپنی خندق میں جیسے اُس نے اُنکو گھان کی روٹیوں کی طرح باہر پھینک دیا تھا وہ تعداد میں ۷۰۰ یا ۶۰۰ تھے ، اگرچہ کُچھ اُن کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۸۰۰ یا ۹۰۰ بتاتے ہیں وہ رُسول کے کہنے کے مطابق جتھوں میں تھے ۔ انہوں نے کاپ سے پوچھا کہ وہ کیا سوچتا تھا کہ اُن کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اُسے جواب دیا ۔ ‘‘ کیا تم نہیں سمجھو گے ’’؟ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ جو طلب کرنے والا ہے وہ کبھی نہیں اُکتاتا اور وہ جو چلے جاتے ہیں وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتے؟ اللہ کے پاس ، یہ موت تھی ۔ محمد نے یہ اُن کے لیے آخری وقت ٹھہرایا تھا ۔ (۱۷) ایک دوسری حدیث اس کی مزید تصیح کرتی ہے ۔ کہ کیسے کیسے یہودی مرد خندق کے کنارے پر بیٹھے تھے اور کیسے انکار ایک ایک کا سر اور اُن کی لاشیں اس میں پھینکی گئیں تھیں ۔ عورتیں اور بچے غلاموں کی طرح بیچے جاتے تھے ۔ غلاموں کی تجارت کا منافع اور یہودی قبیلے کی ملکیت جنگ کے لوٹ کے مال کے طور پر مسلمانوں میں تقسیم کی گئی تھی ۔ (۱۸)

مختصراً ، جب محمد مدینہ میں داخل ہوا تو یہودیوں نے اُس کے نئے مذہب کی پیروی کرنے سے انکار کیا ، اُس کے نتیجے میں انہوں نے اُن کے ساتھ لڑائی کی ۔ اُس نے جلدی ہی یہودی قبیلے کو ہستی کی انتہا تک جلا وطن کر دیا اور ممکن طور پر اُنکا قتلِ عام کیا ۔ اس کے علاوہ محمد نے بزاتِ خود ان جنگوں میں حصہ لیا تھا ۔ جو اُس نے یہودیوں کے درمیان لڑائی کی تھی۔ یہ یہودی تقریباً ۶۰۰ یا ۹۰۰ مردوں کی تعداد میں تھے ۔ (بنوں قریعنہ ) (۱۹) مزید اس کے کہ تمام یہودیوں کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا گیا تھا ان میں یہودیوں کا قبیلہ قینوقہ بھی شامل تھا ۔ عبداللہ بن سلام کا قبیلہ اور یہودیوں کا بنوں ہیرا تھا ( حریرہ ) کا قبیلہ بھی شامل تھا ۔(۲۰)

دفاعی خواہش کی شدت کی وجہ سے اور یہودیوں سے دھوکے کے خلاف ، محمد کو ایک نیا اور مفید الہام ہوا تھا کہ ‘‘اگر تو کسی گروپ کے دغے سے خوف زدہ ہے تو اُن کو واپس پھینک دو، یہ ایک مساوی اصطلاح ہو گی : اللہ دھوکے بازوں سے پیار نہیں کرتا۔’’ (القرآن ۸ : ۵۸ ) اس الہام کو قبول کرنے کے بعد محمد نے یہودی قبیلے بنو قینوقہ سے آگے بڑھ کے بات کی اور فرمایا کہ ان کی جائیدادیں چھین لو ، اور ان کو مدینہ سے بدر کر دو ۔(۲۱)

۶۲۸ء میں محمد نے دوبارہ دس سالہ صُلح کے معاہدے کو توڑ دیا یا ‘‘ صُلح حدیبیہ کو ’’ توڑ دیا ۔ اُسے خُود غرضی سے شر کشی کی جو اُس قریش کے ساتھ صُلح حدیبیہ کیا تھا ۔ اُسے توڑ دیا اور بعد میں اللہ سے ایک نیا الہام چلا اس فیصلے کی منظوری کے لیے اپنا الہام مِلا تھا ۔ مسلمان اس اصول پر تکیہ کرتے ہیں کہ اسلام کا اس میں جو کُچھ بھی فائدہ تھا وہ اچھا تھا ، اور جس سے اسلام منع کرتا تھا وہ بُرا تھا۔(۲۲) محمد کے وقت میں آپریشن کرنے کا طریقہ یہ استعمال ہوا ، یہ صلیبی جنگ کے ذریعے سے تھا اور یہ آج بھی موجود ہے ۔ اُن میں وہ جو اسلامی گروپوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں یا گورنمنٹ ان کا راز ظاہر کرنے کے لیے اُنیں تلاش کرنی ہے اسی اصولوں کے تحت تلاش کرتی ہے اور ان واقعات کو تاریخ میں بیان کیا جانا ہے ۔

اُس نے اپنے ثبوت کے دعوؤں کو عرض کرنے سے دریغ کیا ۔محمد نے یہودیوں اور مسیحیوں سے بد زبانی کو جاری رکھا ، جِس طرح سورۃ میں بیان کیا گیا ہے ۔ قرآن ۹۸ : ۶ کو دیکھو وہ جو صحیفوں کے کو اور بتوں کو نہیں مانتے وہ دوزخ کی آگ میں پھینکے جائیں گے ۔ وہ کائنات کی سب سے بد تر تخلیق ہے۔’’ آپ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں ۔ یہودیوں اور مسیحیوں کی دوستی کو قبول نہیں کرتے ۔۔۔ دیکھو اللہ غلط کرنے کے لیے ہدایت نہیں دیتا۔(القرآن ۵ : ۵۱ ) محمد نے یہ کہنا جاری رکھا ، اسلام کی اس تجرد پسند فطرت کو مزید سورۃ ۵:۶۵ میں بیان کیا گیا ہے۔

اگر صحیفے کے لوگ ہی ایمان رکھیں کہ اور برائی کو تو یقیناً ہمیں اُن کے گناہوں کو معاف کر دینا چاہیے ۔ اور یقیناً ہمیں اُن کو خُوبصورت باغ میں بھیج دینا چاہیے۔

محمد خاص طور پر یہودیوں سے نفرت کرتا تھا۔ وہ یہودیوں سے انتقام کے لیے موت کے جرمانے کی ہدایت دیتا تھا عبداللہ بن عُمر ایک حدیث میں روایت بیان کرتے ہیں ۔

میں اللہ کے رسول کو کہتے ہوئے سُنا ۔ کہ یہودی آپ کے ساتھ لڑیں گے اور آپ کو اُن پر فتح ملے گی اس لیے کہ ایک پتھر کہے گا اے مسلمان کہ یہودی میرے پیچھے ہے ؛ اس کو مار دو! (۲۳)

اپنے مرگ کے بستر پر محمد نے حکم دیا کہ تمام یہودیوں اور مسیحیوں کو عرب سے خارج کر دیا جائے سپنسرمحمد کے آخری الفاظ کی مطابقت کا شمار کرتا ہے۔

‘‘ میں یہودیوں اور مسیحیوں کو عرب کے جزیرے خارج کر دونگا ۔’’ اُس نے اپنے ساتھیوں کو بنایا میں کِسی ایک بھی نہیں رہنے دونگا سوائے مسلمانوں کے اُس نے صرف مرگ کے بستر پر ایک حکم دیا تھا ۔ آج سعودی عرب کی سلطنت کے مزدور سرگرمی سے محمد کی خواہشات کو پورا کرنے اور عزت دینے پر پورے غوروفکر سے کام کر رہے ہیں۔ (۲۴)

اسلام کی روایات کے مطابق ۔آخری دِنوں میں مسلمان یہودیوں کے خلاف لڑیں گے مسلمان اُن کو ماریں گے جب تک یہودی اپنے آپ کو اُن پتھروں کے پیچھے نہ چھپا لیں گے یا درختوں کے پیچھے تب پتھر اور درخت کہیں گے : دے مسلمان یا اللہ کے نوکر کہ میرے پیچھے ایک یہودی چُھپا ہوا آجوؤ اور اُسے مار دو۔’’(۲۵)

محمد اور قرآن اور اسلام حد سے زیادہ مسیحیوں اور یہودیوں کے خلاف ہیں (مخالفِ مسیحیت، مخالفِ یہودیت ) جب ایک مسلمان اپنے مذہب کا دعویٰ !دن اور تحمل سے کرتا ہے تو وہ اپنی مقدس تحرورں کو رد کرتے ہیں ۔ سادہ طور پر ریا کاری کرتے ہیں ۔ کُچھ صورتوں میں مسلمان وہ ہے جو قتل وغارت کو نظر اندازی نہیں کرتا ، لیکن وہ اسلامی مومن نہیں ہیں ۔ کیونکہ وہ قرآن کی بنیادی تعلیمات کا انکار کر رہا ہے ۔ مسلمانوں نے اپنے دشمنوں کے ساتھ اللہ کی خاطر دھوکا دینا اور جھوٹ بولنا سیکھا ہے کوئی بھی جو اسلامی شریعت کی مخالفت اُسے بغیر رحم کے تباہ کر دینا چاہیے ۔ یہ ایک سیاسی اور جابرانہ جنگجوؤں کا مذہب ہے اور یہ مذہب اس کی پوری آزادی دیتا ہے۔

تاریخ میں اسلامی فتح

قدیم رسوم کا جہاد

محمد کا مقصد اور چاند دیوتا اللہ نے ہو سکتا ہے قرآن میں ایک آیت شمار کیا ہواور اُن سے تب تک لڑو جب تک ایذارسانی ختم نہ ہو جائے (قرآن ۸: ۳۹ )

بالکل تاریخ میں ، مسلمانوں کو اللہ کے نام میں فتح اور مالِ غنیمت مِلا ہو۔ فارا خان میں ، اسلام اور مذہب امریکہ کو مار رہے ہیں مودی آدم سے روایت ہے کہ ، محمد نے ہمیشہ ہمسایہ ملکوں پر ۲۷ حملوں میں راہنمائی کی اور ان میں ۹ حملوں میں وہ خود لڑے اور ہزاروں کو قتل کیا ۔ وضاحت میں اُس نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ کم سے کم ۴۷ حملے کریں تاکہ ہمسایہ ملکوں کی حکومت ختم ہو جائے۔(۲۶)

۲۵ سالوں میں محمد کے پیروکاروں نے شام کو ، ایران کو ، فلسطین کو اور مِصر کو فتح کر لیا تھا ۔ دو آدمی اس ابتدائی فتح کے ذمہ دار ہیں جو خلیفہ ابو بکر صدیق اور خالد بن ولید تھے ۔ ان دونوں نبی پیغمبر بہت عزت کرتے تھے ۔ اُس کے بعد کُچھ اور اسلامی قتل وغارت کی مثالیں نظر آتی ہیں ۔ ابو بکر نے خالد کو حکم دیا کہ ایراینوں کو فتح کرے۔ اور عراق کی بندر گاہ کو استعمال کرکے اُس نے اعراق کے جنرل حرمیض کو حکم دیا تھا کہ اسلامکو قبول کریں اور خاص ٹیکس کو ادا کریں جو جزیہ کہلاتا ہے ۔ یا اُس نے لڑائی کےانتخاب کے لیے کہا تھا۔ حرمیض نے اس تجویز کو رد کر دیا ۔ اُس نے ایرانیوں کو لوٹا اور ۱۵ جنگی ہتھیار پکڑ لیے گئے ۔ عراق کے بارڈر پر ابلیس کی جنگ کے دوران ۷۰،۰۰۰ لوگوں کو خالد نے مار دیا ،

اس وقت دُنیا کی آبادی میں لغزش کھانے والی تعداد تھی ۔

ایانالتمر ، عراق ، اُن میں ایک قلعے پر محاصرہ کر لیا تھا اس کے بعد خالد نے اُن تمام رہائشیوں کو مارنا شروع کر دیا جہنوں نے اسلام کو قبول کرنے کا انکار کیا تھا ۔ ابو بکر نے شام پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یارمیک کی لڑائی میں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔(۲۷)

اسلامی سلطنت کی فتح کے پیچھے کونسی قوت عمل کر رہی تھی؟ محمد نے خیال انکو دیا تھا کہ دُنیا کو اسلام کے قدموں تلے لاؤ اور اس مقدس فرمان کو نفع کے مقصد کے لیے متحد کرو۔ محمد نے ہمیشہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ جنگ میں لوٹا ہوا مال (مالِ غنیمت) اُن لوگوں کے لیے ہو گا جہنوں نے اس مقدس جنگ میں حصہ لیا تھا ۔ محمد کے جانشین اور پہلے خلیفہ نے بازنطینی سے لوٹے ہوئے مال کا وعدہ کیا تھا ۔اسی طرح محمد کا داماد چوتھا خلیفہ تھا۔ علی ابن طالب ، ایک خیال سے ورغلایا اس سے پہلے کہ آپ جھوٹے ہوں یہ عراق کی زرخیز سرزمین ہے اور وہ اُنکے بڑے خیمے ہیں۔’’(۲۸)

تیسرا خلیفہ عثمان محمد کا دوسرا داماد ہے اس نے ان جنگوں سے بڑی دولت حاصل کی ہے ۔ کارش اس بات پر تبصرہ کرتے ہیں کہ اُس نے اپنے قریب القتل کے وقت جولائی ۶۵۵ ء میں اُس نے اپنے آپ کو ۱۵۰،۰۰۰ دینار کے قسمت کے جال میں پھنسایا۔ ایک ملین دینار کیش میں تھا اور ریاست کی رقم کی قدر ۲۰۰،۰۰۰ دینار تھی ۔ اُس نے اونٹو اور گھوڑوں بڑے جتھوں سے الگ تھے۔

اس کی قسمت کی دولت کا موازنہ محمد کے کُچھ قریبی ساتھیوں کی جمع کردہ فرضی دولت کے ساتھ تھا ۔ زبیر ابنِ اعوام اپنا کُچھ سرمایہ صرف کیا ۔ جسکی کُچھ رقم ۵۰ ملین درہم اور ۴۰۰،۰۰۰ دینار تھی وہ مدینہ و عراق اور مِصر میں بے شمار جائیداد کا مالک تھا ۔ طلحہ ابنِ عبداللہ ایک اسلام کے ابتدائی تبدیل لوگوں میں سے تھا ۔ جن کے ساتھ محمد نے جنت میں جانے کا وعدہ کیا تھا ۔ کُچھ اختیارات کے مطابق اُس ۲۰۰،۰۰۰ دینار اور ۲۔۲ ملین درہم کیس مین چھوڑے تھے۔ اس کی سلطنت میں ان کی قدر ۳۰ ملین درہم تھی۔ صرف اس کی اکیلے ہی عراق میں سرمایہ کاری تھی ۔ اور جسکی آمدنی ایک ہزار دینار ہر دن کی تھی۔(۲۹)

اسلامی اصولوں کے ساتھ بغداد میں منتقل ہوئی اس سے وسیع تجارت کے رستے کُھلے تھے اور یہ دور دراز سے وہاں پہنچے اور اسلامی معاشیات کی طاقت کو بڑھانے میں تبدیل ہو گی تھی ۔ یہ تمام نئی دولت اُن کے لیے خرچ کا باعث بھی بنی وہ جہنوں نے فتوعات کیں تھیں ۔مثال کے طور پر انہوں نے سونے کو نا بجھنے والی حوس کے طور پر حاصل کیا تھا۔ مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال ِ غنیمت ان کے لیے تمام ذرائع تھا ۔

انہوں نے ایرانیوں کی جگہوں سے بہت بڑی رقم لوٹی تھی ۔ اور حتیٰ کہ انہوں نے مصر میں فرعون کے محل پر بھی حملہ کیا تھا ۔ مزید اسکے اسلامی منافع بخش غلام ، کالے مشرقی غلام جہنیں گرفتار کرکے عزیز بچوں کی طرح تجارت کرتے تھے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لائے جاتے تھے اور ان کو نمک کے میدانوں ں مزدوروں کے طور پر بصرہ کے قریب کام کرانے پر مجبور کیا جاتا تھا ۔ ان کی کلاس کی طرح حاضری بولی جاتی تھی ۔ اُن خاندانوں سے غریبوں کی طرح برتاؤ کیا جاتا تھا۔ اور اُن کو تھوڑی خُوراک مہیا کی جاتی تھی ۔ حیران کن بات ہے کہ اسلامی پیروکار آج بھی افریقیوں کو مطیع کرتے ہیں اور اُن کو قابو کر کے غلاموں کی طرح تجارت کرتے ہیں ۔ (۳۰)

اسلامی خانہ بدوز لوگوں نے اپنی سلطنت کو وسعت دینا جاری رکھا ہوا ہے ۔ بالکل اس طرح قدیم دنیا کے متعلق جانا جاتا ہے ابتدائی آٹھ صوبوں میں ، اسلامی مملکت کے مرکزی ایشیاءکو فتح کر لیا تھا اور بڑا علاقہ انڈیا برصیغر ، مغربی چین کی ریاست ، اور بازنطینوں کے دارلخلافہ قسطنطنیہ پر قابض ہو گئے تھے اور شمالی ایفریقہ اور سپین پر بھی حملہ کر دیا تھا ۔ (۳۱) وضاحت میں جنوبی اٹلی او میڈیٹریرین کا جزیرہ (کورسیکا ، سائپرس ، سریٹ ، رہوڈیس ، مالٹا  اور سارڈینیہ ) اسلامی فوجوں نے فتح کر لیے تھے ۔

کارش محمد نے پیروکاروں کی تابعداری کا ایک بڑا دلچسپ تاریخی بیان کیا ہے ان پیروکاروں کو محمد پوری دنیا کو اللہ کے لیے محکوم بنانے کے لیے بُلاتا ہے۔

‘‘میں نے تمام مردوں کو اُس وقت لڑنے کا حککم دیا تھا ۔ جب تک وہ یہ نہ کہیں کہ دنیا میں کوئی خُدا نہیں ہے سوائے اللہ کے ۔۔۔ (نبی پاک )

محمد کا ظطبہ الوادع، مارچ ۶۳۲

‘‘ میں سمندر پار اُنکی سر زمین پر اُنکا تاقب کروں گا جب تک زمین کی سطح پر کوئی بھی شخص باقی نہ رہے جو اللہ کو نہ جانتا ہو ۔

صِلاح دین جنوری ۱۱۸۹ ء

‘‘ ہم پوری دُنیا میں اپنا انقلاب لائیں گے ۔۔۔ جب تک یہ آواز نہ آئے کہ دُنیا میں کوئی خُدا نہیں ہے سوائے اللہ کے ، اور محمد اللہ کے رُسول ہیں ۔ اور یہ گونج پوری دُنیا میں سُنائی دے گی ۔۔۔ عطااللہ کھومینی ۱۹۷۹ء۔‘‘ میں نے لوگوں کو حکمدیا کہ وہ اُس وقت لڑیں جب تک وہ یہ نہ کہہ دیں کہ دُنیا میں اللہ کے سواکوئی خُدا نہیں ہیں اور محمد اُس کے نبی ہیں۔’’

 اسامہ بن لاددبن نومبر ۲۰۰۱ (۳۲)

قستیطنطینہ کی جنگ

اسلامی لوگوں کے کرشن کے بتوں کو اُکھاڑا علاوہ ازاں مشرقی مسیحیوں کی حد بندی کی اور ہر اُس شخص کو ذبح کر دیا جاتا تھا وہ جو اللہ کو نہیں جانتا تھا ۔ ۷۰۵ ء میں مسلمانوں نے آرمیتی معزز مسیحیوں کو چرچ میں بند کر دیا تھا اور اُنکو جلا دیا اور وہ مر گئے ۔

اِن اسلامی حملوں کے دوران بہت سارے مسیحیوں اور یہودیوں کے خلاف قتلِ عام ہوا۔(۳۳)

بہت سارے تاریخ نگار قسطنطنیہ کے خلاف محصروں کی فتح پر (۶۷۸۔۶۷۴ اور ۷۱۷ ۔ ۷۱۸ ) ہو ئی ہوئی عزت دیتے ہیں اور اُسے تاریخ میں ایک بڑے تبدیل ہونے والے نقطے کے طور پر بیان کیا گیا ہے ، بازنطینی کے دارلخلافہ قسطنطنیہ کے طاقتور مسیحیوں نے اُس کے چوگرد بڑی مضبوطی سے قلعہ بندی کی تھی ۔ اُسکا دروازہ یورپ تھا اور ان کا آخری مقابلہ مشرقی اسلامی فوج کے خلاف تھا۔ (۳۴)

خلیفہ ماویہ نے باز نطینی فوج کو مِصر ، شام کو اور جتنے شمالی افریقہ کے ساتھ مُلک تھے شکست دی ۔ خلیفہ بہت بھاری آرمی ۵۰،۰۰۰ اسلامی جہادی بازنطینی کے دِل قسطنطنیہ میں لایا تھا ۔

یہ صرف ٹیکنالوجی کے فائدہ کی بالادستی کو بہتر بنانے کے لیے لایا تھا طاقتور قلعہ بندی اور ایک راز نفرت انگیز ہتھیار ہے ، جِس نے بازنطینی اسلامی محاصرے پر قابض ہونے کے لیے قابل ہوئے تھے ۔

خُدا کے فوجی دستہ میں رونڈی سٹارک قسطنطینہ کی دیواروں کے متعلق بیان کرتے ہیں :

کہ یہ دیواریں عام نہیں تھیں ؛ انہوں نے ان پر حیران کُن انجیئنرنگ کا کام کیا ہوا تھا ، بابر کی دیواروں کے ساتھ بڑے ستون کا بھاری برکم کام کیا گیا تھا اور عالیشان فیصل اور اُس کے اندر کی جانب مضبوط دیوار تھی ۔ اس کی چالیس فُٹ اونچائی اور ۱۵ فٹ موٹائی اسکی مزید تفصیل بڑی فصیل اور بڑے ستون ہیں ۔ اگر یہ کافی نہیں تھا ۔ ساحل کی جانب بڑی خندق تھی بیشک دوسری تینوں اطراف سے حملہ آور صرف کشتی کے ذریعے ہی دیواروں تک پہنچ سکتے تھے ۔ (۳۵)

بازنطینی اسلام کے سامنے کے حملے کو روکنے کے قابل ہو گے تھے ، تاہم مسلمانوں نے بحری رستہ بند کرکے شہریوں کو بھوک سے مارنے کی کوشش کی تھی ۔ اتفاقی طور پر واقعہ ہونے والے وقت میں شامی انجینئرنگ فنِ تعمیر کا ماہر جسکا نام ہیلی اوپلوس کا کالنیکوس تھا ۔ اُس نے اپنی سر زمین پر مسلمانوں سے ایذارسائی برداشت کی تھی اور وہ قسطنطینہ میں رہتا تھا ۔ اُسے یونانی آگ کی ایجاد کا اعزاز دیا گیا تھا ۔ تاہم قدیم عبارت کی بنیاد پر کیمیائی ٹیکنالوجی کو چلانے کا ٓغاز حقیقت تھا یا پھر اسکندریہ کی لائبریری سے پرانی مصری داستانوں کے علم کو محفوظ کیا گیا تھا ۔

یونانی آگ موجودہ پٹرول کی جیلی کی مشابہت رکھتی تھی ۔ یہ بہت زیادہ اشتعال پذیری تھی اور یہ پانی سے بجھ نہیں سکتی تھی ۔ بازنطینوں نے اُسے منجنیق کے ذریعے سے روکنے کی کوشش کی یا پھر پمپ جیسی اشیاء کا استعمال کیا تھا ۔ منجنیق اس اٹ کے شیشے میں چھپے ہوئے مادے کو پھینک سکتی تھی ۔ یا اس برت کو ۴۰۰۔ ۵۰۰ گز تک پھینک سکتی تھی اس کے بعد اس شعلے کے دھماکے کا پھیلاؤ ۷۵ فٹ کے احاطے میں ہو سکتا تھا اور اس سے دشمن کے جہازوں کا نقصان قابلِ غور حصے تاہم منجنیق کو جہازوں سے چلانا شکل تھا ۔ اس لیے یونانیوں نے ااگ کو پھینکنے کے لیے پمپ جیسی چیز کو ایجاد کیا اور یہ پانی کے دریا کو روک سکتی تھی پرانے جنگی جہازوں کی غلیل میں نلی کے ذریعے لگائی جاتی تھی اور یہ پانی نما دریا کو روک سکتی تھی ۔ باز نطینوں نے اس ٹیکنالوجی کے ہتھیار سے مسلمانوں کے جہازوں کے اوپر بار بار پھینک کر انہیں تباہ کر دیا تھا ۔

۷۱۷ ء میں قسطنطینہ کے خلاف ۱۸۰۰ جنگی جہازوں کے ذریعے آگے بھاری برکم حادثات کے لیے تھے ، باز نطینوں نے بوسپوریس پر مسلمان نبوی کو دھوکے سے مارا اور بعد میں یونانی آگ کے ساتھ اُنکو مارا ، اُنکے زیادہ تر جہاز تباہ ہو گئے تھے اگلی بہار میں مسلمانوں نے نئی نبوی کے ساتھ کوشش کی یونانی آگ کے اسلحے سے بازنطینوں کی چڑھائی سے وہ دوبارہ مغلوب ہو گے تھے ۔(۳۶) بالکن کے ذریعے اسلام کے یقینی حملوں سے یورپ کو بچانے کے لیے قسطنطینہ کی مشہور اور فیصلہ کن جنگیں تھیں ۔

سیاحوں کی جنگ

اُن کی دُنیا پر قبضہ کرنے کی شدید جستجو تھی ، اسمای جنگ میں انہوں نے اپنی مشینوں کو مغ؟رم پر سامنے سے حملہ کرنے کے لیے یورپ کے دل کی سرزمین پر لگایا۔ مسلمان حملہ آور عبدالرحمٰن کو کی کی راہنمائی میں انہوں نے شمالی سپین کو فرانس میں دھکیل دیا ۔

اس طریقے سے مسلمانوں نے مسیحیوں کی بہت ساری فوج کو ذبح کیا ، گرجا گھروں کو جلا دیا اُنکو لوٹا گیا اور انکو غارت کیا گیا ۔ وہ سینٹ مارٹن کے دورے کے دوران لوٹنے والے تھے ، لیکن پہلے انہوں نے لوٹ مار اور محاصرے اور فتح کی خُوشی کو منانا بہتر سمجھا اسی اثناء میں چارلس مارٹل اور اُسکے مشہور امیر و وینگین اس سے ملے وہ بہادری سے مستحکم طور پر آگے بڑھے عبدالرحمٰن کی فوج پر چڑھائی کر دی

مارٹل غیر معمولی لمبا اور طاقتور تھا۔

اسکی نہایت اعلی ٰفتوعات الیماتائی ، باعیئرین ، اور فرانس کے خلاف تھیں اور جرمنوں نے اُسے کارولنجین ملک کو فتح کرنے کی حماقت دی تھی ۔ وہ درحقیقت شمال مشرقی گال کا حکمران تھا جس نے فرانس کی سلطنت کو مستحکم کیا۔

بعد میں اسکا نام فرانس پڑ گیا وہ آرمی کا چہرہ اور صاف دِل شخص تھا اُس نے اسلامی فوج پر ۷۳۲ میں چڑھائی کی ، چارلس مارٹن کی فوج اور عبدالرحمٰن الغفاکی کی فوج میدانِ جنگ میں خطرناک طریقے سے سات دِن تک لڑتے رہے تھے جو سیاحوں اور پوٹیرس کے درمیان ہوئی تھی ۔ جو تقریباً ۱۵۰ میل پیرس کے جنوب میں واقعہ ہے ۔ اس جنگ کے دوران میں تاریخ نگاروں نے اندازہ لگایا تھا کہ ہر جگہ پر مسلمان ۳۰،۰۰۰ سے بڑھ کر ۳۰۰،۰۰۰ تک مارے گئے تھے ۔

مسلمان خطرناک طریقے سے اس حادثے سے دوچار ہوئے تھے عبدالرحمٰن بھی مارا گیا تھا ۔ مارٹل کی اس عظیم فتح سے ایک عنوان مشہور ہوا ‘‘دی ہیمیر’’ جو اُس کے نام سے منسلک تھا ۔ممکن ہے کہ یہواہ میکاہیس کی طرف اشارہ ہو رہا ہو ۔

‘‘دی ہیمیر’’ مشہور میکاہسین سے پھر گئے تھے ۔ممکن طور پر چارلس مارٹل مقدس رومن سلطنت کا طاقتور شہنشاہ گرینڈ فادر بن گیا ۔ بہت سارے تاریخ نگار اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس فتح نے یورپ کو اسلامی فتح سے مکمل طور پر بچایا تھا شاید یہ اس جنگ کی سب سے اہم فتح تھی ۔ ۷۳۵ میں اسلامی فوجوں نے دوبارہ گاؤں پر حملہ کر دیا ۔ لیکن مارٹل اور اس کے بہادروں نے اُن کو شکست دی بلکہ اُسی فوج کے ساتھ اور مسلمان دوبارہ کبھی حملہ نہیں کریں گے اور وہ جنوبی یورپ سے دور بھگا دیے گئے ہیں۔ (۳۷) نفرت کے ساتھ ان حملوں میں خلل ڈالا گیا ، اسلامی مملکت کی فوجیں لگاتار تعداد میں بڑھتی گئیں اور دوسرے علاقوں میں پھیلتی گئی تھی ۔ محمد کا فرمان رد نہیں کیا گیا تھا ۔ اسلامی حکومت کا جزبہ تھا کہ پوری دنیا پر قبضہ کرنا تھا۔

الحاکم (مہندی)

اسلامی شعیہ سے روایت ہے کہ وہ مِصر میںچھے خلیفوں پر یقین کرتے ہیں ، طارق الحاکم مرا نہیں تھا اور وہ بارہویں امام کے طور پر دوبارہ واپس آئیگا یا مہدی آخری دِنوں میں واپس آئیگا وہ سات سال حکومت کرے گا ۔ مسیحیت میں اسلام کا مہندی اصل میں مخالف ِ مسیح ہے ۔ تمام مسلمان آخری وقت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کا دُنیا کا راہنما مہدی کہلاتا ہے لیکن ہر فرقہ اُس کے ظاہر ہونے کی تشریحات خُود ہی تبدیل کر رہا ہے ۔ ۹۹۶ ء میں (الحاکم بارہ سال کی عمر میں مِصر کا خلیفہ بن گیا تھا اور اُس نے حکومت کی جب تک ۳۶ سال کی عمر کا اختتام نہ ہوا تھا ۔ اُسکی حکمرانی کا کردار بے رحم ایزا رسائی اور تباہی تھا ۔ سٹارک حاکم کی عجیب حکمرانی کو اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔ اُس نے حکم دیا کہ کیرو میں تمام کتوں کو مار دیا جائے کہ انگور نہ بڑھیں یا کھائیں نہ جائیں ( اور نہ ہی شیراب بنانے کے لیے محفوظ کیے جائیں ) نہ کوئی عورت اپنے گھر باہر نکلیں اور موچی عورتوں کے جوتے بنانا ترک کر دے ۔ حاکم بھی قانون سے باہر چیزیں کھاتا تھا ۔ پنیر اور واٹر کرس کھاتا تھا کوئی چھلکے کے بغیر مچھلی کھاتا تھا ۔ اچانک اُس نے تقاضہ کیا کہ شخص رات کے وقت کام کرے اور دن کے وقت سوئے اس وقت یہ اُس کے دوسروں سے بہتر گھنٹے تھے ۔ اُس نے اپنے اُستاد کو قتل کر دیا اور قریب قریب اُس کے تمام وزیر اور بڑی تعداد میں اُس کے سرکاری آفیسر ، شاعر اور طبیب اور اُس کے بہت زیادہ رشتہ دار اکثر کو اُس نے بزاتں خود مار دیا تھا ۔ اُس نے اپنی جگہ میں غلام عورتوں کے ہاتھوں کو کاٹ دیا تھا ، اُس نے بیان کیا ہے کہ وہ عورت کے پبلک میں غُسل کرنے کے خلاف ہے اور اُس نے ایک دم سے ایک دیوار میں داخل ہونے کا رستہ بنایا تاکہ تمام عورتیں اس کے اندر ہی رہیں ۔(۳۸)

سٹارک اِن ایذا رسائیوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔

حاکم نے تمام مسیحیوں کو عبور کیا کہ وہ اپنے گلوں کے چوگرد چار پونڈ کا کراس (صلیب) پہنیں اور یہودی مساوی وزن کا ایک کالف (بچھڑا) پہنیں (عبادت کے لیے ندامت کے طور پر سونے کا بچھڑا )

آخر کار ، حاکم نے مسجدوں میں عبادت کے دوران اللہ کے لیے اپنا نام متبادل قائم کیا ۔۔۔ حاکم تمام مسیحی گرجا گھروں کو جلانے اور قبضے میں لینے کا حکم دیا ۔( ممکنا طور پر ، تیس ہزار چرچوں کو جلایا گیا اور لوٹا گیا ) یہ ایک لمبی فہرست تھی ۔یروشلم میں مقدس مزاروں کے گرجا گھروں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ اُن تمام مزدوروں کے اندر باہر کیا ہے کھوج لگائی گئی ۔

حاکم پہاڑوں کے سفر کے دوران غائب ہو گیا تھا ۔ جہاں وہ اکثر عِلم نجوم سے تر ہو جاتا تھا ۔ اُسکا گدھا اپنی پیٹھ پر فون کے ساتھ واپس مُڑ جاتا تھا ۔ بہت سارے ایمان رکھتے تھے کہ اُس نے کوئی قتل کیا تھا ۔ ۱۰۲۷ ء میں اگلے حکمران کے باز نطینوں کو دوبارہ گرجا گھر کے مقدس مزار تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی ۔ لیکن اُن میں بہت سارے بہت زیادہ تباہ ہو چکے تھے وہ تعمیر کے قابل نہیں تھے ۔ (۴۰)

یہ خبر اُن کے لیے انتہائی حماقت انگیز تھیں اور مقدس جگہوں کے بے حُرمتی یورپ میں رہنے والوں کو غُصہ دلا رہی تھی اور یہ لگاتار اُن کے لیے لعنت کے طور پر پروان چڑھ رہی تھیں ، یہ مقدس مقاموں کی واپسی کی رپورٹ میں درج ہے ۔ یہ ایک دلچسپ نوٹ ہے کہ امام مہدی کا رویہ مخالفِ مسیح کے لوگوں میں شمار کیا گیا ہے وہ جہنوں نے مقدس جگہوں کی بے حُرمتی کی تھی ، ایذا رسائیوں کا بھاری ادارہ جو اپنے رتبے میں خُدا سے بڑھ کر ہے۔ اور بڑا یہ ایک بڑے آدمی کے شابہہ ہے جو آخری دِنوں کو بڑی چالاکی کے ساتھ پورا کرنے کے لیے کھڑا ہو گا لیکن ایک بڑے رُتبے کے ساتھ اسلامی قتلِ عام بِلا تخیف جا رہی تھا ۔ ابتدائی گیارہ صدیوں کے دوران ۱۰۳۲۔ ۱۰۳۳ میں چھ ہزار یہودیوں مراکو میں ذبح کیا گیا اور یہ کم سے کم ان میں بہت سے چھوٹے بم کککے ساتھ مرے تھے۔ (۴۱)

نارمن اٹلی کی آزادی اور سیسلی باشندے

۱۰۳۸ ء میں جارج مینکس ایک مشہور باز نطینی جنرل تھا جس نے باقاعدہ طور پر اپنے شکر کی راہنمائی کی تھی ، لومبرڈز ، اور ایک عارضی طور پر خُود غرضی ، جس میں ایک نارمن بہادر بھی شامل تھا ، جہنوں نے پوری جنوبی اٹلی کو رہائی دی ، اور سیسلبوں کو مسلمانوں سے رہائی دی تھی ۔ نارمنوں کی آرزو تھی یا ‘‘ شمالی لوگ ’’ بہت طاقتور جنگ جو تھی ، وہ جہنوں نے فرانس کے شمالی علاقے میں رہائش کی تھی ، اور یہ نارمنڈے کی سلطنت کی بنیاد بنی تھی۔ اُن کے حملے مکمل طور پر کامیاب ہوئے ۔ اُس وقت جب تک مینکس پر کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اُنکے اعزازات کا بھی بیان کیا تھا ۔ ایک سرکش نے بازنطینی آرمی کے درمیان پھوٹ ڈال دی تھی ، اور مسلمانوں نے سیسلبوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔

۱۰۴۱ ء میں ، نارمن نے خُداوند کی لڑائی میں جِس کی راینمائی طاقتور سورما ولیم آف بائیوئیلی نے کی ۔ (آئرن آرمی) اُس نے فیصلہ کیا کہ اُنکے لیے سیسلی پر قبضہ کرنا ہے ، وہ اُن پر قابض ہو کر قلعہ بندی کرنے کے قابل ہو گے تھے اور انہوں نے حِلفی کی بنیاد کو بنایا ۔ باز نطینوں نے مقالے کے لیے اور اُنکو عزت کرنے کے لیے اپنی آرمی کو نارمن کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بھیجا تھا ۔ اگرچہ وہ بہت بڑی تعداد میں تھے ، نارمنوں نے اُن کے بڑی بہادری اور طاقت سے لڑائی کی اور اُن بہادری سے باز نطینوں کو وقت بہ وقت مارا ۔ نتیجے کے طور پر دوبارہ شکست ہوئی اور باز نطینی دوبارہ کبھی بھی اٹلی میں کُھلے عام نارمنوں کے ساتھ لڑائی نہیں کریں گے ۔

۱۰۵۹ ء اور ۱۰۷۱ ء کے درمیان نارمن ، رابرٹ گِسکارڈ نے جنوبی اٹلی میں نارمن سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ اور سیسلی میں مسلمانوں کو اُکھاڑ دیا گیا ۔ اِسی طرح باز نطینی اور مسلمان دوبارہ کبھی بھی اُن پر دہشت گردحملہ نہیں کریں گے

۱۰۹۸ ء میں رابرٹ گِسکارڈ کا بڑا بیٹا ، بوہمینڈ نے انطاکیہ کے شہر کی قلعہ بندی کے خلاف فتح کے لیے صلیبی جنگجو فوجوں کی راہنمائی کی ۔ نارمن اور ناروے کے بحری باشندوں نے مسیحی سر زمین کی آزادی میں ایک دائرے کا کردار اسلامی فوجوں کے خلاف ادا کیا تھا ۔ گیارہویں اور بارہویں صدی کے دوران جس میں مقدس زمین پر صلیبی جنگیں بھی شامل تھیں ۔(۴۲)

اِل سیڈ

سپین میں مسیحی فوجوں نے وشِگو تھیک تولیڈو کی سابق سلطنت پر مسلمانوں نے ۱۰۸۵ پر قبضہ کرنے کا دوبارہ دعویٰ کیا تھا ۔ ٹولیڈو عربیوں میں گِر چُکا تھا اور آٹھویں صدی میں بِیر بِیر مسلمانوں نے اور لمبے عرصے تک مضبوط اسلامی کنٹرول کو بنائے رکھا تھا اور ان میں سے ایک شاہی گھرانے امیر مسلمان تھا ۔(۴۳)

جب بادشاہ اُلفونوسو آف لیون ، کیسٹل نے تولیڈو پر قبضہ حاصل کیا تھا ۔ اسلامی اختللاقیات میں یہ بہت طاقتور تھا ۔

۱۰۹۲ ء سے ۱۰۹۸ ء تک مسلمانوں نے ابیریا پنسلیویا  میں بہت سنجیدہ نقصان اُٹھایا تھا ۔ سپین میں بہت سارے مشہور مسیحی سورما تھے روڈاِگوڈیذ دی وائیویر ، ویسے تو وہ اِل سیڈ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ایک چار لٹن ہیسٹین کہلاتا ہے ۔ اُس نے ۱۹۶۱ ء میں اِل سیڑ کی فلم میں روڈ اگو ڈیز کا کردار ادا کیا تھا ۔ اِل سیڈ کے عنوان کا ترجمہ ‘‘آقا’’ یا مالک کے طور پر کیا گیا ہے اور اعزاز کے طور پر اُس کے عنوان کو کیمپیڈر یا چمپیئن کے طور پر دیا گیا تھا ، بادشاہ نے جنگوں میں بڑے نقصان کی ذمہداری اپنے اوپر کی اور حکم دیا اور اکثر اُسکی تجویز لڑائی کے لیے بہادر سومار تھے اور ایک چمپیئن سومار پوری فوج کی مخالف کرتا ہے ، فتح کرنے والے شہر میں یا شہروں میں لڑائی کرنے کا دعویٰ کریں گے ۔ روڈاگوڈیز فوجوں میں ملٹری کا محافظ روح انسان تھا ۔ خواہ وہ اکیلا ہی لڑائی کرے یا بڑی آرمی کی راہنمائی کرے ۔ اُسکو کبھی بھی شکست نہیں ہوےئ تھی ۔

اِل سیڈ اپنے مخالف لڑنے والوں کے خلاف ایک عقل مند فاتح تھا اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اور والنیسا کے شہر کے قلعوں کی حفاظت کرنے کے طریقے کو بہت سارے مسیحی سورماؤں نے تحریک پائی اور انہوں طریقے کو اتنا پسند کیا ۔

بھارت

ان میں ایک عظیم جینو سائیڈز نے تاریخ کو جاری رکھا اور تابعداری بھی اُس مین شامل تھی ۔ہندوستان برصغیر کی آبادی کے دسویں حصے کو تباہ و برباد کر دیا تھا انسانیت کے خلاف جرم کو مسلمانوں نے لغوی طور پر محمد کی تابعداری میں اُس کے اُس حکم کی پیروی کی کہ اللہ کی خاطر ساری دنیا کو مطیح بنانا ہے ۔ تاریخ نگار کے ایس ۔ لال نے جا ئز ہ لیا کہ ۱۰۰۰ اور ۱۵۲۵ سالوں کے درمیان آٹھ میلین لوگ اسلام کے نام کی خاطر مارے گئے ہیں وہ یہ بھی شمار کرتا ہے کہ دو ملین لوگ محمود غزنوی کے حملوں میں مارے گئے تھے ۔ جِس نے سلطنت پر قبضہ کیا ہوا تھا ۔ پاکستان و افغانستان ، ایران اور شمالی مشرقی ہندوستان پر یہ علاقے اسلامی جہاد کی فتح میں موت کے حادثات کا شکار تھے۔

سلجوق ترکیوں کا مشہور حملہ آور

صلیبی جنگ میں :مقدس زمین کے لیے جنگ کی مستند تاریخ تھا مِس ایسبریج نے مشرقسے ایک نئے اسلامی خوف کا بیان کیا :

دیگر ڈرامائی ردوبدل جیسا کہ ترکیوں کی آمد نے گیارہویں صدی میں اسلامی دُنیا کو پیدل کرکے رکھ دیا ۔

۱۰۴۰ کے قریب یہ بے گھر قبائلی لوگ مرکزی ایشیاء سے (یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ لوگ اپنے جنگجو کردار کی وجہ سے جانے جاتے تھے ) وسط ایشیاء میں آنا شروع ہو گئے ۔ سلجوق ایک شاہی قبیلہ تھا ۔ (روس سے لیکر آرل کے سمندر تک ) ۔۔۔ تُرکی مہاجروں کے حملہ آور دستے پیلے ہوئے تھے ۔ ۱۰۵۵ سے سلجوق قائد جنگ نگرہورل بیگ تھا جیسے بغداد میں سلطان کے طور پر فائز کیا گیا تھا سُنی اسلام پر اس کی حکمرانی کا دعویٰ کر سکتا تھا۔ (۴۴)

نگر ہورل بیگ مسلمان فوجوں نے مسیحی آرمنیاکی سلطنت پر حملہ کرکے اُن پر اجارہ داری قائم کی تھی ۔ انہوں آرذڈن شہر کو لوٹ لیا تھا ۔ لوگوں کو ذبح کرایا تھا ۔ عورتوں کی عزت لوٹی گئی تھی اور بچوں کو غلام کے طور پر چھین کرتے گئے تھے ۔

مزید اُس کے آرمنیا کے باہر کے کُچھ شہروں میں خونریزی اطمینان کے ساتھ عام کی گئی تھی ۔ لاشوں کے بہت بڑے انبار لگا دیے گئے تھے انہوں نے تمام گلیوں کو لاشوں سے روک دیا گیا تھا ۔ ممکنہ طور پر یہ واقعات بازنطینوں کی طرف ردِعمل ظاہر کرتے ہیں ترکی فوجوں باز نطینوں کے خلاف لڑائی کو جاری رکھا تھا اور مسیحی مشرقی سلطنتیں صدیوں کے لیے مصیبت میں آگئیں ہوں گی ۔

اِٹسائز بن اووق کی راہنمائی میں ترکیوں نے دان پر قابض ہونے وسعت کو جاری رکھا اور مقدس سرزمینوں پر حملے کرنے جاری رکھے ۔ ۱۰۷۴ میں انہوں بہت ساری زمین پر قبضہ کر لیا تھا ۔ ۱۰۷۵ء میں انہوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا تھا ۔میں انہوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا ۔ ایٹسائز نے وعدہ کیا کہ یروشلم کے رہائشیوں کو حفاظت دی جائے گی ۔لیکن جب دروازے کھوئے گئے تھے ، ہزاروں لوگوں کو ذبح کیا گیا تھا ترکیوں نے شہریوں کو رملہ ، غزوہ ، تائر اور جافہ باہر نکلا دیا تھا ۔ (۴۵)

اور درمیان میں قتل و غارت ، مسیحی مقدس مقامات کو ایذارسان کیا گیا تھا ۔ وہ جو باہر نکال دیے گئے ۔یہ بڑی دہشتناک قبر تھی اِس بڑی حماقت کا ارتکاب مسلمان ترکی خانہ بدوشوں نے کیا تھا ۔

اسی اثنا ء میں سلجوق نے اپنے آپ کو روم کا سلطنت مقرر کیا (روم ، نئے روم قسطنطنیہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے ) اور اسی سال نیسیا میں بھی سلطان مقرر ہوا ۔(۴۶) اِس لیے ترکیوں نے اپنے دارلخلافہ اصلی قسطینطنیہ کے قریب اس کو مرکز بنایا ہو گا ۔جنگ جاری تھی کیا مسیحیوں کی چھوٹی سی سلطنت بازباقی رہ گئی تھی ۔ دنیا پر اسلامی حکمرانی کو تاریخ نگار ثابت کرتے ہیں اور دنیا پر قبضہ اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا اور نہ ہی نظر انداز کرنا چاہیے۔ بہت سارے اس سبق میں حوالہ جات صرف خدمت کے طور پر جھلک دیتے ہیں ۔ یا تاریخ کے اُن واقعات کی جھلکیاں لوگوں کو دیکھاتا ہے اور زمین محمد کی عزت میں برباد کی گئیں تھیں ۔ بے رحم اسلامی ایجیڈے کو قبول کرنا ۔ دنیا کی فتوعات کے لیے یہ صدیاں گیارہویں صدی کے آخر تک راہنمائی کرتیں ہیں ۔ بقائے حیات کے لیے ذہن ایک جگہ پر قائم ہے وہ جو آزادی کے لیے صلیبی جنگ میں جانے کے لیے چُنے گئے تھے ۔ اسلامی حکمرانی کے طریقے سے ایک مسیحی مقدس سرزمین کو کنٹرول کرتا ہے ۔

 

 

 

سبق تیرہ

صلیبی جنگوں کا ردِ عمل

صلیبی جنگیں۔ تعریف بمقابلہ فرضی داستان

جب لفظ صلیبی جنگ گفتگو میں شامل کیا گیا تھا ، بہت سارے پھٹ جانے والے خیالات آتے تھے ، ذہنی تصاویر کھل کر سامنے آئیں بد قسمتی سے بہت ساری فرضی داستانوں کی موجودہ سمجھ صلیبی جنگوں کے بارے میں گھوم رہی تھیں ۔ یہ سبق ایسے غلط تصورات کو واضع طور پر تاریخ کی صلیبی جنگوں کے بارے میں بیان کرنے  کی خواہش کرتا ہے۔

حقیقی اصطلاح ‘‘صلیبی جنگ’’استعمال نہیں ہوئی تھی یا پوپ ارمن دوئم نے اُسکا جواب نہیں دیا تھا ، جب اُس نے اُسکو پہلی صلیبی جنگ کہا تھا۔ ایس بریچ مختصر طور پر تاریخ کی تعریف کرتا ہے عام طور پر ہم عصر اصطلاح صلیبی جنگ ہی ہے ۔ ( پہلی صلیبی جنگ ) آسان کہہ سکتے ہیں ۔ یہ ایک سفر ہے یا سیروسیاحت ( مقدس مقامات ) ابھی تک گیارہویں صدی ختم نہیں ہوئی تھی اس سے خاص اصطلاح میں صلیب کے نشان جیسے لفظ میں ترقی ہوئی ۔صلیبی جنگجوؤں کے لیے اور ممکن طور پر فرانس کی اصطلاح کروسیڈ کو تسلیم کیا گیا تھا ، جسکا ترجمعہ ‘‘ صلیب کے راستے کے طور پر کیا گیا تھا ۔ ( ۱ ) تاریخ میں بہت سی صلیبی جنگیں ہوئیں ۔تاہم تاریخدان عام طور پر یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ صلیبی جنگیں وہ سات بڑی فوجی مہم ہیں جو کہ مغربی یورپ سے شروع ہوئیں تاکہ مقدس زمین کو اسلامی حکمرانی سے آزاد کرائیں۔ پہلی صلیبی جنگ کے لیے پوپ اربن دوئم نے ۱۰۹۵ میں بلایا اور یہ جنگ ۱۰۹۹ میں شروع ہوئی ۔ ساتویں صلیبی جنگ ۱۲۵۰ میں اپنے انجام کو پہنچی اور آخری صلیبی جنگ ۱۲۹۱ میں شہروں کو مسلمانوں کے حوالہ کیا گیا ۔( ۲ )

تحریک صلیبی جنگ میں یورپ کا ہر ملک اور ہر طبقہ شامل تھا حقیقت میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ جیسے کہ کلیسیاءسیاست، ادب ، معاشی اور معاشرتی بڑی تعداد میں شامل تھے ۔( ۳ )

اسلام کا صلیبی جنگوں کے بارے نظریہ

      ۱۹ء صدی سے قبل مسلمانوں نے صلیبی جنگوں کے لیے معمولی دلچسپی کا اظہار کیا زیادہ تر اسلامی تاریخدانوں نے انہیں بطور بے توجہی اور مُردہ دلی لیا اِن میں سے بہت سے عالموں نے حقیر تُرکیوں کو نکالنے کے لیے رعایت کرنے کو ترجیح دی اور اُنہیں آگے مصر میں بڑھنے سے روکا ۔ تاہم ایک بہت طاقتور اسلامی شہنشاہ عثمان جو ‘‘ یورپ کا بیمار آدمی ’’ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ طاقت کی زوال پزیری اور تاثیر، ناراضگی کی وجہ مغرب کے خلاف مسلمانوں میں بڑھ رہی تھی ، مزید اسرائیل کی قوم کی ریاست کے طور پر بڑھتا گیا جسکا حکم دیا گیا تھا ۔ اگرچہ سب سے اہم حصہ اسلامی نصاب صلیبی جنگوں کے خلاف پیدا ہوا اور یہ صلیبی جنگیں گیارھویں صدی میں ایجاد ہوئیں ۔( ۴ )

( صلیبی جنگوں کیلئے قوت رفتار۔‘‘ جاڑنے والی مکرو چیز ’’ )

موجودہ دور میں ایک مشہور  لائن خیال جانی کہ پوپ اور بادشاہ کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں نئی سرزمین پر اُس کی طاقت کو بڑھانے کے لیے اورمسلمانوں کو مسیحیت میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں ۔جس وقت ستمبر ۱۱، ۲۰۰۱ میں حملہ ہوا تو  بہت سارے شہریوں نے اور دنیا نے لیڈروں نے مسلمانوں سے صلیبی جنگوں سے معافی مانگی تھی کیا یہ وجوہات تاریخ سے تصدیق کر سکتی ہیں یا یہ منطق ہے؟ یا مسلمانوں کو چاہیے بلکہ سابق مسیحیوں کی سرزمین پر مسلمانوں کی خُونریزی سے مسلمانوں کو معافی مانگینی چاہیے ۔ دنیا پر اُنکی فتح کے لیے خُونریزی پر معافی مانگنی چاہیے؟ ۔اسلامی ملٹری کا یورپ کے حملوں کا اتحاد اور بے حرمتی بھی اور مقدس سرزمین پر قبضہ کرکے حکمران یہ دو ابتدائی وجوہات تھیں جو ملٹری کے منصوبے کا ردِعمل کہلاتی ہیں ۔ اسلامی حملے مقدس سرزمین پر ۶۳۹ میں شروع ہوئے تھے جب خلیفہ عمر نے سفورنیس کو حکم دیا تھا جو  یروشلم چرچ کا بشپ تھا وہ ایک یادگار مسجد یروشلم میں بنانے جا رہا تھا (چٹان پر گنبد) اس جگہ پر یہودیوں کی پرانی ہیکل تھی محمد نے اس پر بنانے کا حکم دیا تھا۔ سفورنیس اس صدمے سے ٹوٹ گیا تھا ۔

حقیقت میں اس تباہی کے بارے میں دانی ایل نبی نے نبوت کی تھی اور اب یہ مقدس جگہ میں کھڑے ہیں عمر نے اسی بوڑھے مسیحی بشپ سفورنیس کو قید میں مزدور کے طور پر کام کروایا اور سفورنیس تھوڑے عرصے کے بعد مر گیا تھا۔ مسلمانوں نے دونوں پر فتح پائی اور مقدس شہر یروشلم کو تباہوبرباد کر دیا تھا ۔ ( ۵ ) سفورنیس مختلف مسیحی یہودیوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے کلام کی آیات بیان کرتی ہیں کہ جب مسجد بننے کا حکم دیا گیا تھا ‘‘ جاڑنے والی مکروہ چیزیں’’ پہلے دانی ایل ۱۲: ۱۱۔۱۲ میں بیان کرتا ہے۔ اس وقتسے روزانہ قربانیاں دی گئیں اور جاڑنے والی مکروہ چیزیں اُس پر رکھی گئی ۔ ۱۲۹۰ دن پورے ہو گئے تھے مبارک ہے وہ جو ۱۳۳۵ دنوں کا انتظار کرتا ہے۔

دوسری مرقس ۱۳: ۱۴ میں بیان مِلتا ہے ۔

‘‘ پس جب تم اُس جاڑنے والی مکروہ چیز اسکی جگہ کھڑی ہوئی دیکھو جہاں اسکا کھڑا ہونا روا  نہیں ( پڑھنے والا سمجھ لے) اُس وقت جو یہودیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاک جائیں’’

تیسری لوقا ۲۱ : ۲۰ میں بیان ملتا ہے

‘‘ پھر جب تم یروشلم کو فوجوں میں گِھرا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اُسکا اجڑ جانا نزدیک ہے۔’’

‘‘ جاڑنے والی مکرو چیز ’’ یسوع مسیح کے بعد کے واقعات کا بیان کرتی ہے ۔مختلف مفکر اسکی تھیوری کے ‘‘ چٹان پر گنبد ’’ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ جاڑ دینے والی مکروہ چیز تھی ۔ جسطرح بشپ سفورنیس کا ایمان تھا۔ یہ تفصیل یروشلم کی تباہی کے وقت کو تاریخی طور پر اور اسکی تباہی اثرات کو بیان کرتی ہے۔

پہلی تباہی کی ہر ۷۰ سال سے طِطس نے یروشلم پر قبضہ طکیا ہوا تھا اور اسکی جگہیں ویران کر دی تھیں۔ یہ ایک اندازہ لگایا گیا کہ ۵۔۱ ملین یہودی یروشلم میں اور یروشلم کے قریبی علاقوں میں قتل کیے گئے تھے دوسری تباہی کی ہر ۱۳۲ ۔ ۱۳۵ میں وقوع پزیر ہوئی تھی ۔ وہاں پر دوسرے ۶۰۰۰۰۰ سے ۷۵۰،۰۰۰ ۔ یہودیوں کو ذبح کیا گ یا بارکو کوبہ کی روگردانی کے دوران اس قتلوغارت کے باوجود بھی یہودی اور مسیحی لگاتار پسے ہوئے تھے اور دوبارہ اُن کو یروشلم میں رواں ہونا پڑا تھا۔ تاہم ۶۳۹ میں ایک آخری تباہی ہوئی ۔

تیسری تباہی کے ہر یروشلم میں وقوع پزیر ہو جب اسلامی فوجوں نے حضرت عمر کی راہنمائی میں یروشلم پر قبضہ کیا۔ (۶)

اسلامی جمعہ کے بعد ۶۳۷ میں یروشلم پر قبضہ ہو گیا تھا اور مکمل طور پر سرکاری ڈھلوان بن چکا تھا اور نفرت کے ساتھ مقدس ہیکل کی جگہ مسجد بنا دی گئی تھی غور کریں کہ اصلی زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسکو قائم گیا ، جاری کیا گیا ۔

اگرچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ یہ تمام بیانات اکھٹے لسانیات کی تعلیم کو بڑھانے کے لیے دلائل پیش کرتے ہیں ۔ یا بنیاد کی اُس جگہ کو جہاں پر اسکا کوئی تعلق نہیں بناتا۔ مزید برآں شٹان پر مسجد کا گنبد اللہ کی بے حرمتی کی فہرست میں شامل ہوتا ہے قرآن بیان کرتا ہے ۔ قرآن ۱۹ : ۳۵ یہ موزوں نہیں ہے۔( اسے اللہ کی شان ) کہ اللہ کو ایک بیٹا پیدا کرنا چاہیے۔

یروشلم بہت سارے موقعوں پر فوجوں میں گِرا رہا تھا ؛ ۷۰ ، ۱۳۲ ، ۶۳۹، ۱۰۹۹، ۱۱۸۷ ، ۱۹۴۸، اور ۱۹۶۷ تک فوجوں کے قبضوں میں رہا ۔ ۶۳۹ اور ۱۹۴۸ کے دوران یروشلم خاص طور پر اسلامی حکمرانوں کے قبضے میں رہا سوائے کُچھ خاص اوقات کے واقعات کے دوران صلیبی جنگوں سے مسیحیوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا تھا ۔ دانی ایل کے حساب کے دنوں سے ایک سال حساب کے مطابق مِلتا ہے ۔ تاریخوں کی ان چابیوں میں ایک بڑا دلچسپ تعلق ملتا ہے ، ۱۲۶۰ سال تھے ۔ ( دانی ایل میں ان کا شمار ) اس سے حقیقی طور پر چٹان کا گنبد ۶۸۸ میں بنیاد بنا تھا ( تاریخ کا دورانیہ ۶۸۸۔ ۶۹۱ ) اور سرکاری طور پر اسرائیل کی ریاست کو ۱۹۴۸ میں بحال کیا گیا یہ ۱۲۹۰ دنوں یا سالوں کی دانی ایل کی تیس سالوں کی نبوت کا وقت پورا ہوتا ہے ۔ یہ دیکھائی دے گا کہ قابض لوگ ( اور ممکن ہے کہ مقدس مقام کو اللہ کے گنبد کی عمارت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا ‘ وہ دوسرے تیس سالوں کی شمار کرتے ہونگے ۔ بائبل میں کُچھ دوسرے ، غیر اور تاریخیں دی گئیں ہیں ۔ جو نیا شمار کی جاتی تھیں ۔ ۶۸۸، ۱۹۴۸ اور ۱۹۶۷ کی تاریخوں کا مفہوم موزواں دیکھائی دیتا    ہے ۔

۶۸۸ اور ۱۹۴۸ کے درمیان یروشلم ایک تباشدہ زمین تھی ۔۱۸۶۷ میں مارک تائیوان نے اس مقدس شہر کو وزٹ کے دوران اپنے تاثرات دیئے ۔

( اے ) تباہ شدہ مُلک جس کی زمین کافی زرخیز ہے لیکن اب یہ پوری طور سے جڑی بوٹیس پیدا کر رہی تھی اور بڑی کشادگی سے خاموش اور ماتم میں ہے ۔  ۔۔۔۔یہاں پر تباہی ہے اور نہ ہی کوئی فضل کا تصور کر سکتا ہے۔ زندگی کی شانوشوکت اور اعمال کے ساتھ ۔۔۔۔۔ ہم نے پورےمجمع میں کِسی ایک انسان کو بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ وہاں بڑی مشکل سے ایک درخت تھا وہاں پر ہر طرف جھاڑیاں تھیں ، حتیٰ کہ زیتون کا کٹلس ناقص زمین کے دونوں خاص دوست ہیں زیادہ تر ملک کا اندر صحرا ہی تھا ۔ (۷)

تاریخی موقعوں اور تاریخی نبوت میں نفرت انگیز اسلامی نظام بڑا حیران کن دیکھائی دے رہا تھا ایک مفروضے کا تجزیہ کرنا باقی ہے کہ کُچھ بےوفا اعتبار کرتے ہیں اور بائبل کی ادبی سائنز پر سوچ وبچار کرتے ہیں ۔

ابتدائی گیارھویں صدی کے بعد میں ، حاکم ، مہدی ایک خاکے کی طرح ہے ، مزید مسیحیوں اور یہودیوں نے جگہوں کو سمجھ لیا تھا اور یروشلم کے شہریوں کے خلاف قابلِ نفرت قدم اُٹھائے گئے تھے یہ لعنتیں اسلامی گروہوں کے ہاتھوں لگاتار گیارہویں صدی کے مسیحیوں کے مقدس مقاموں اور مقدس زمینوں کی مخالف ہو رہی تھیں۔ مسیحیوں کے مقدس مقامات کی پہلی گواہی یورپ میں معزز لوگوں کی حماقتیں ہیں ۔ گیارہویں صدی کے دوران ، چرچ کو مرتب کرنا اور پرہزگاری پورے یورپ میں پھیل گئی تھی اور تمام فرقوں کو یہ پرہیز گاری چھو گئی تھی ، ان میں بہادر جنگجو بھی شامل تھے ،

ایس بریچ مقدس سرزمین کی شہرت اور اسکے تحفظ کی اہمیت کو صلیبی جنگوں کی تحریک کے طور پر قبول کرتے ہیں

گیارہویں صدی کے اختتام سے آگے کو صلیبی جنگوں کا گزارا ہوا دورانیہ مشرقی میڈ ٹرینین کے مسلمانوں کے خلاف صاف اور واضع ہے یہ ایک بڑی گالی نہیں تھی ۔ ان صلیبی جنگوں کا مقصد پہلے پہل اسلام کو جڑ سے نکالنا تھا یا مسلمانوں کو مسیحی ایمان میں تبدیل کرنا تھا بلکہ اسلام کا انجام یہ تھا کہ مقدس سرزمین پر قبضہ کرنا اور مقدس شہر یروشلم پر ۔  ( ۸ ) بہت سارے سوال ہیں ایک محمد اور اس کے پیروکاروں کا تمام فلسطین اور یروشلم پر قبضہ کرنے کا کوئی حق تھا ۔؟ جواب بالکل واضع ہونا چاہیے۔ محمد عربی دہشت گردوں میں رہتا تھا اور یروشلم پر دعویٰ کرتا صرف اسکا ایک خیال تھا وہاں اسکا مطلب یہ تھا کہ جنت کی طرف یروشلم سے بڑھنا تھا ۔ تاہم کوئی بھی ایسا گواہ نہیں ملا تھا جو محمد نے ذاتی خواب پر تکیہ کرتا ہو ۔ مزید برآں محمد اس بات کا دعویٰ کرتا ہے وہ سرائیل کے نبیوں کی لائین میں آخری نبی ہیں ، کیا یہ حقیقت ہو سکتی ہے ؟ درحقیقت نہیں ۔ محمد کا قرآن غلطیوں سے بھرا پڑا ہے اور یہ کہانیوں کی غلط بیان کرتا ہے حالانکہ اسکا اصل عبرانی متن میں کوئی وجود نہیں ہے۔

وضاحت میں مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد نبیوں کا سردار ہے ۔ اگر یہ حقیقت تھی تو کیسے اس نے کوئی بھی فوق الفطرت معجزہ نہیں کیا تھا ۔یا پھر شفائیہ قوت جیسے پیچھلے عبرانی نبی کرتے تھے ؟۔ اس کا جواب صاف اور واضع نظر آتا ہے وہ ایک دغاباز تھا اور آسان یہ کہ وہ ہمیشہ بدعتی عقائد کو بیان کرنے والا تھا ۔ جو عقائد عرب کے صحراؤں میں گھوم رہے تھے ۔ مسلمانوں کا قانونی طور پر یروشلم پر کوئی دعویٰ نہیں ہے یا مقدس سرزمین مذہبی وجوہات کی بنیاد ہے ۔ صرف یہودی اور مسیحیوں کے صیحیح نبی رہ رہے تھے اور انہوں نے ان جگہوں پر خدمت کی تھی

( صلیبی جنگوں کیلئے قوت ۔ بازنطینوں کی محاصرے میں مدد )

وضاحت میں یہ کہ مقدس سرزمین کی آزادی خواہش تھی ، یورپ کے خلاف اسلامی مداخلت اور اسلامی مداخلت کے خلاف دفاع کے کے لیے جنگ کرنا ، قانونی وجہ تھی ۔ بازنطینوں کی مسیحی مملکت کے تمام صوبے دس برس کے لیے حملوں کے قبضے میں رہتے تھے ۔ جس میں یروشلم کھو گیا تھا اور اب اُسے ہیبتناک مدد کی ضرورت تھی ۔ ترکی کے مسلمان قسطنطینیہ کے ایک سو میل تک اندر گُھسے ہوئے تھے ۔ باز نطینی شہنشاہ الیگزیس کامنیس نے ایک خط کو خاص اپیل کے ساتھ جلدی کاؤنٹ آف فلینڈرز کو بھیجا جس میں حملہ کرنے والوں کی مدد لینے کے لیے درخواست کی گئی تھی ۔ ۱۰۹۵ مارچ میں پوپ نے یہ خط پیپاسینزا کونسل میں پہلے پیش کیا روایت بیان کرتی ہے کہ فرانس کی سرزمین پر اُسکی واپسی تھی؛ پوپ اربن دوئم ریمنڈ سینٹ گلیز کے ساتھ ملے تھے آزادی کی مہم میں فوج کے راہنما کے طور پر کاؤنٹ آف ٹاولکیس نے ممکن طور پر کردار ادا کیا ۔

پوپ اربن دوئم نے بعد میں کلر سوفٹ پر ایک کونسل بلائی ۔ فرانس نے شہنشاہ الیگزیس کا خط پڑھا ۔ اس کو دوبارہ قتل کی جغرافیہ تفصیل کا خط میں شمار کیا جس میں بیان کیا گیا تھا کہ ترکی کے مسلمانوں نے مسیحیوں پر تشدد، مقدس مقاموں کی بے حرمتی ، تباہی ، مقدس جگہوں کی تباہی کی ، اس کے بعد جلد ہی ۲۷ نومبر ۱۰۹۵ میں پوپ دوئم اربن دوئم نے کلر مونٹ شہر کے باہر چراگاہ میں ایک پلیٹ فارم قائم کیا اور اُس نے اپنی طاقتور آواز کے ساتھ شہریوں کے بڑے ہجوم کے ساتھ خطاب کیا جس میں کسان دہیاتی ، معزز، اہل کلیسیاء کے لوگ بھی شامل ہیں اُسکی تقریر نے ہمیشہ کے لیے تاریخ کو بدل دیا تھا۔سٹارک پوپ اربن دوئم کی تقریر کا بیان جیسا کرتا ہے اور سب نے بازو  اُٹھا کر کہنا شروع کر دیا۔ ‘‘ انہوں نے مذبحوں کو تباہ کر دیا ، اس کے بعد انہوں نے ناپاکی سے مذبحوں کو گندہ کر دیا ہے ، وہ مسیحیوں کا ختنہ کرتے ہیں اور وہ ختنے کے خُون کو مذبحوں پر انڈیلتے ہیں یا انہوں نے اس خُون کو بپتسمہ کے بڑے حوض میں انڈیل دیا ہے ۔ جب انہوں نے موت کی بنیاد پر لوگوں پر تشدد کی خواہش کی ، انہوں نے اُنکی نافوں میں سوراخ کر دیے جب انہوں نے بے رحمی کے ساتھ باہر کو کھینچا تو انتڑیاں باہر ننکل آئیں۔ لکڑی کے ساتھ انہوں نے مسیحیوں کو باندھ دیا اور تب انہوں نے اُن کو کوڑوں کے ساتھ مارا انہوں مصیبت زدہ کے چوگرد راہنمائی کی جب تک جسم کے اعضاء باہر نکل نہ آئے تھے اور شکار ذدہ لوگوں کی غدودیں مثانے باہر نکل کر زمین پر گر گئے تھے ۔ میں عورتوں کی قابلِ نفرت بے حرمتی کے بارے میں کیا کہوں نگا؟ اس سے بدتر بولنے سے بہتر ہے کہ خاموش روہوں اس لیے وہ جو انتقام کی مزدوری کر رہے ہیں یہ وہ غلط کر رہے ہیں اور اس علاقے کے عہدداروں کو قابو کر رہے ہیں ۔ اگرچہ یہ آفت تم  پر نہیں آتی ہے اگر آپ فاتح ہیں تو آپ جلال ہونگے اور آپ اُس جگہ پر ہونگے جہاں پر یسوع مسیح ہے اور خُدا آپ کو کبھی نہیں بُھولے گا اور وہ آپ کو مقدس دستے کے طور پر پاتا ہے ۔۔۔۔دوزخ کے سپاہیوں زندہ خُدا کے سپاہی بن جاؤ۔ (۹)

خُدا کی مرضی یہی ہے چلاؤ، خُدا کی مرضی ہی ہے لوگوں نے اپنے کپڑے اور جوتے پھاڑے اور صلیبوں کو بنانا شروع کر دیا اور اُن کو اپنی چھاتیوں پر سی لیا اگلے سال وہ صلیبی جنگ کرنے کے لیے تمام رضامند تھے ۔

یہ قابلِ غور نہیں تھی کہ پوپ نے کہیں بھی اپنی تقریر میں مسلمانوں کی تبدیلی کی بلاہٹ کے لیے کوئی حوالہ نہیں دیا تھا ۔ یہ نو آبادکاری جذبات تھے ۔ اُس نے سادہ طور پر مقدس سرزمین کے ابتدائی مسیحیوں کی آزادی کے لیے کہا تھا ۔ ویمنڈ گلیز کے سینٹ نے اپنے مقصد کو دہرایا اس بات کا دعویٰ کرتے ہوئے کہ مقدس مقامات کی خاطر غیر ملکی لوگوں سے جنگ کرنے جا رہا ہے اور وحیشی قوم کو شکست دے گا ۔ ایسا نہ ہو کہ مقدس یروشلم کے اسیر ہو جائے یسوع مسیح کا مقدس کے مزاروں کو خراب کر رہے ہیں۔ ( ۱۰ )

فرضی خزانے کی تلاش کی جستجو

 ایک اور داستان دعویٰ کرتی ہے کہ صلیبی جنگیں چھوٹے بیٹوں کو جائیدادوں سے عاق کرنے کے لیے لڑی گئیں تھیں دولت اور امیری خواہش تسکین نہیں دے سکتی تھی ۔ جو اُن کے لیے جمع کی جاتی ہے جو اس پر قابض ہوتے ہیں یہ بالکل حیران کن بات ہے کہ کیسے ایسی کہانیاں کِسی ثقافت میں زور پکڑ سکتی ہیں جبکہ تاریخی طور پر اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ حقیقت میں بہت ساری صلیبی جنگیں بالخصوص تھوڑے سے خاندانوں کے گہرے تعلقات کی بنا پر ہوئی ہیں ، صلیبی جنگ کرنا ایک ذاتی طور پر قُربانی کا روپے پیسے کا وسیع ذریعے کا تقاضا کرتا ہے ۔ ہر کوئی اپنے خاندانوں کو گھروں میں مہیا کرتا تھا ۔ یا مشرق کی طرف لمبے سفر کے مقصد کے لیے تیار کرتا تھا ۔ یہ اندازہ لگایا گیا کہ ہر صلیبی مجاھد کو اس سفر کو کرنے کے لیے چار یا پانچ دفعہ سالانہ تنخواہوں کو اٹھا کرنا تھا ۔ بہت سارے لوگوں نے اپنے سفر کے سرمائے کے لیے اپنی جائیدادوں کو بیچ دیا تھا اور اپنی ذاتی استعمال کی چیزوں کو بھی اُن میں سے صلیبی جنگ کا راہنما بیولین کے گارڈفرائے نے مُلک کا وارڈن فرانس کے بادشاہ فلپس کو بیچ دیا تھا اور اُسے اپنے مُلک بیولین کے قابلِ عزت بشپ کو فرضی ضمانت کے طور پر دیا ۔(۱۱) ایک اور دوسرا جنگی راہنما نارمنڈے کا رابرٹ نے اپنی ڈیوک کی ریاست میں اپنے بھائی کو ضمانت کے طور پر پیش کیا۔ (۱۲)ٌ

مشرق میں بہادری کے ساتھ مرنے والوں کی شرح فیصد بہت زیادہ تھی اور رہن کی ہوئی چیزوں کی ضبطی بھی کثیر تعداد میں تھی ، صلیبی جنگجوؤں کے خاندانوں نے اس مقصد میں حصہ کے لیے بہت بڑی مالی قیمت چاہنی تھی ۔ فی الحقیقت مال ومتاع کو رکھنا آسان تھا۔ کیوں دس سے پندرہ فیصد بہادر لوگوں نے پوپ کی پکار پر اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور صلیبی جنگوں میں حصہ لیا تھا؟ جواب بالکل  واضع ہے ؛ بعوض اس کے انہوں نے زیادہ تر اپنے مال ومتاع کو پیش کیا تھا اور اس جستجو میں حصہ لینے کے لیے انہوں نے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا تھا ۔

سلطنت کی صلیبی جنگ ۔ وسعت اور وقت کا نقشہ

پہلی صلیبی جنگ (۱۱۰۲)

پہلی صلیبی جنگ بہت بڑے لوگوں کے گروہ کو عارضی طور پر جمع کرتی ہے ۔ ایس بریچ بیان کرتے ہیں ۔ ۶۰،۰۰۰ اور ۱۰۰،۰۰۰ کے درمیان یونانی مسیحی پہلی صلیبی جنگ میں مارے گئے تھے ۔ جس میں ۷۰۰۰ سے ۱۰،۰۰۰ بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے مرے تھے ۔ شاید ۳۵۰۰۰ سے ۵۰۰۰۰ سپاہ سالاروں کا دستہ تھا اور باقی دس ہزار نمبر جنگ جو تھے جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے تو لازم کیا ہے یہ کہ صلیبی جنگ کے لیے کہا جانا ظاہری طور پر ایک قاعدے کے خلاف تھا اس پیمانے قرونِوسطیٰ کی کمر توڑ دی تھیھ ۔ حھکومت اس وقت کی حکومت میں فوج ایک سائز میں اکھٹا نہیں کیا گیا تھا ۔ یہ بہادروں کی آمرانہ طرفداری تھی کہ یہ درمیانی عمروں کے جنگجو مقرر ہوئے تھے ۔ (۱۳ )

یہ مشکل کام صلیبی جنگ کے ‘‘شہزادے’’ کے طور پر جانا جاتا تھا ۔ اُس وقت دو میجر پہلی صلیبی جنگ میں شامل ہوئے تھے اُن کے نام نارمنز اور فرینکس تھے اور جن کو پانچ راہنماؤں کی راہنمائی میں شامل کیا گیا تھا: (۱) ۔ ہاگ ، ورمنڈس کا شمار ( ۱۰۵۳ ۔ ۱۱۰۱ ) میں ہوا فرانس کے بادشاہ ہنری کا بیٹا تھا اور شہزادی سکینڈائیوین ، کیوکی آن ؛ (۲) گارڈ فرائے بیولین (۱۰۶۰ ۔ ۱۱۰۰ ) ڈیوک ریاست کی عمر لورین ( اور اسکی ماں ) یہ ایک چارلی میحبین کا براہ ِراست ظہور تھا ۔ گارڈ فرائے اپنے بھائی ایسوئیس سوئم کے ہمراہ تھا اور بیولوگوں کا بالڈنون ( جو بعد میں بالڈون یروشلم کا بادشاہ بن گیا تھا ) ؛  ( ۳ ) ٹرائنٹو کا بوہیمنڈ ( ۱۰۵۸ ۔ ۱۱۱۱ ) ، رابرٹ گیوس کارڈ کا بیٹا تھا ۔ جہنوں نے اکٹھے جنوبی اٹلی میں نارمن سلطنت کو قائم کیا سیسلیوں پر بازنطینوں اور مسلمانوں نے حکومت کی ۔ بوہیمنڈ نے نارمن بہادروں کی بڑی فوج کو پختہ طریقے سے راہنمائی کی تھی ۔ ( ۴ ) ٹویولوئیس کے ریمنڈ ( ۱۰۴۱ ۔ ۱۱۰۵ ) جنگ میں شامل تھے جو سینٹ روغنڑے کے نام سے جانے جاتے تھے ، گیلز اور جو بوڑھے جنگ جو راہنما ۳۰ پچپن سال کی عمر کے تھے انہوں نے بھی صلیبی جنگ میں شراکت کی تھی، ؛ ( ۵ ) نارمنڈے کا رابرٹ ڈیوک نے ( ۱۰۵۱ ۔ ۱۱۳۴ ) شمولیت کی ، ولیم کا بڑا بیٹا فاتح ہوا تھا ۔ البرٹ انگلینڈ ، سکاٹلینڈ اور نارمنڈے سے بہادر نارمنوں کو لایا تھا ۔ یہ پانچ عارضی فوجیں بروقت دسمبر ۱۰۹۶ اور مئی ۱۰۹۷ کے درمیان لڑنے کے لیے قسطنطینہ میں پہنچی تھیں ۔( ۱۴ )

بھاری اور باتربیت فوجوں کے بہادر بازنطینی سلطنت کے شہنشاہ الیگزیئس پر فخر کرتے تھے وہ اُن کے لیے بالکل حیران کُن شخصیت کے طور پر تھا۔ وہ زرخرید اور غلاموں کو خریدنے میں پہل کرنے والا تھا ۔ لیکن اب اُسے ہزاروں مقرر جنگجوؤں کا مقابلہ کرنا تھا جو اُن کی اپنی آزاد مرضی سے فوج کی مہم میں مرکزی نگا بن کر آ رہے تھے۔

لاطینی بازنطینوں کی دور افتادی پر یقین کرتے تھے اور الیگزنیس کی ان ہیبتناک اور خطرناک صلیبی جنگجوں کی سوچوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے الیگزنیس کی پہلی صلیبی جنگجوؤں کے طور پر لڑنے والی فوج تھی جس نے اُس کی وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا اور سرزمین بازنطینوں سے بھر گئی تھی، اسکے بعد جلد ہی اُس نے اعلان کیا کہ وہ اپنی فوج کو اُن کے ساتھ مقدس سرزمین پر نہیں بھیجے گا وہ صرف ایک چھوٹا عارضی دستہ وسطیایشیاء کی بازنطینوں کی سرزمین پر قابض ہونے کے لیے مدد کرنے کو بھیجے گا ۔ نتیجے کے طور پر شہنشاہ کے دھوکے دہی کے مختلف واقعات کی وجہ سے صلیبی جنگجوؤں نے الیگزنیس پر کسی بھی قسم کے الزام پر ممکنہ طور پر انکار کر دیا ہو گا ۔(۱۵) بوہمینڈ کی راہنمائی میں صلیبی جنگجوؤں کو نیسیا ڈورے لہیوم اور انطاکیہ میں بھیجا گیا تھا انہوں نے ترکیوں ، عرب ، عرب کے خانہ بدوشوں کے خلاف آرمی کو اکٹھا کیا اور لڑائی کی اور فتوعات کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے خطرناک لمبے سفر کو پہاڑوں کے پار اور سورج کی گرمی میں بے رحم صحرا کو برداشت کیا۔ انطاکیہ میں گُھس کر انہوں نے شہر کے قعلے کو خوفناک بنا دیا اور ایک وقت میں پری میٹر پر ترکی کی آرمی کو تباہ برباد کرکے شکست دی ۔ بڑی ہوشیاری کے ساتھ اور بوہمینڈ نے جنگی ترکیب کے ساتھ آخر کار انطاکیہ پر قبضہ کر لیا تھا ۔ جون ۱۰۹۸ میں ، نارمن شہزادہ بوہمینڈ نے صلیبی جنگ کے تمام کمانڈروں کے حکموں کو قبول کر لیا تھا ۔ زیر نہ ہونے والے فرق کے خلاف اسکی اپنی فوجی طاقت کی وجہ سے قبول کیا تھا ۔ بوہمینڈ کو انطاکیہ کے لوگوں نے ہیرو کے طور پر قبول کیا اور اُس نے انطاکیہ پر اپنے کنٹرول کو قائم رکھا جب تک یروشلم میں دوسرے جنگ کر رہے تھے ۔(۱۶)

یروشلم کا شہر پوری دنیا کے لیے ایک بڑی قلعہبندی کے طور پر قبول کیا جاتا تھا جیسے ہی صلیبی جنگ جو یروشلم شہر کے قریب پہنچے تھے اُن کی تعداد کم ہو ۱۳۰۰ بہادر جوان رہ گئے تھے اور ۱۰۰دس ہزار فوج کے سپاہسالار شاید صرف دو تہائی آرمی کے برابر تھے جہنوں نے نیسیا پر دو سال تک حملہ کیا تھا جیسے انطاکیہ کے ساتھ صلیبی جنگ جو فوجیں یروشلم پر قابض ہو گئیں تھیں اور وہ یروشلم میں اتفاقی طور پر واقع ہونے والے حالات کی مدد کرنے کے ساتھ اُس پر قابض ہو گئے تھے ۔ بروقت جینوز کے بحری جہازوں کی خوراک اور ضروری تعمیری سامان کے ساتھ بروقت پہنچ ، تعمیری کاموں کے لیے مشینری یہ سب کُچھ جنگ جو کو فتح حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے ۔(۱۷) ۱۵ جولائی ۱۰۹۹ کو یروشلم پر قبضہ کر لیا گیا تھا اور بنیادی طور پر یروشلم ایک سلطنت بن گئی تھی ممکنہ طور پر یروشلم کی سلطنت کو فرانس کے لفظ آؤٹیر مئیر کے طور پر جانا گیا تھا ۔ یہ سلطنت ویسے ہی علاقے پر پھیلی ہوئی تھی جس طرح پرانے فلسطین کا علاقہ تھا ۔

گارڈ فرائے یروشلم کے خلاف فتح حاصل کرنے کے لیے راہنمائی کی تھی اورع اسکا دفاع کیا تھا جب مصر کی فوج نے اُسکے خلاف حملہ کیا تھا ۔ انہوں نے کوشش کی کہ وہ دوبارہ اس پر قابض ہو جائیں ۔ ( ۱۸ )

سٹارک گارڈ فرائے کے بارے میں بیان کرتا ہے:

گارڈ فرائے اس سرزمین پر بادشاہ کا تاج پہننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہاں پر سونے کا تاج نہیں پہن سکتا تھا ۔ جہاں پر کانٹوں کا تاج پہننا تھا۔’’

اس سے پہلے کہ وہ مقدس مزار کا دفاع کرنے والے کے طور پر خطاب حاصل کرتا اُس نے انکار کر دیا ۔

سٹارک مسیحیوں کی نئی سلطنت کے بننے کا بارے میں بیان کرتا ہے،

مزید اس کے کہ یروشلم کی سلطنت میں وہاں پر سلطنت کے تین دوسرے جھوٹے جنگجو بھی تھے یہ ایڈیسہ کے علاقے کے تھے ۔۔۔ اور انطاکیہ کے حکمران تھے۔جو پورے انطاکیہ کے شہر کو گھیرے ہوئے تھے جو اب موجودہ ترکی ہے ؛ اور ٹریبولی کا علاقہ ، انطاکیہ کے جنوب کی طرف واقع ہے اور لینبیز کاسٹل میں بھی جو شہر کا نام پھیلے ہوئے تھے انطاکیہ اس علاقے کا بہت بڑا شہر تھا ۔ جس میں تقریباً چالیس ہزار رہائشی تھے ۔ ایڈسیہ میں تقریباً ۲۴ ہزار لوگ تھے ۔ ڈٹریپولی میں تقریباً آٹھ ہزار : یروشلم اکیلے میں تقریباً آٹھ ہزار لوگ رہتے تھے ۔ (۱۹)

یہ حیرانکن تاریخ تھی کہ صلیبی جنگ جوؤں نے سلطنت کو اسلامی فوجوں سے دوبارہ واپس جلدہ نہیں لیا تھا ۔ سلطنت کی بنیاد رکھنے کے بعد بھاری تعداد میں صلیبی جنگ جو یورپ واپس لوٹے تھے اور وہاں پر صرف تین سو بہادروں کو چھوڑا تھا اور بہت سارے فوجی سپاہسالاروں نے سلطنت کو ریاستوں کے قلعوں کی فوج کو کنٹرول کیا ۔ دوبارہ فتوعات کو سہارا اسلامی سلطنت میں پُر شور تفرقے کی وجہ سے چلا تھا اور جو صلیبی جنگجوؤں کے سامنے اکٹھے نہ ہو سکے۔ پہلی صلیبی جنگ کا وقت بھی قابل غور تھا ، دونوں سلطنتوں کو بچانے کے لیے مسیحی فوجوں کی طرفداری بہت اہم تھی۔

سلطنت کا دفاع ۔ بحری ڈاکیوں سے مدد

ایک سال کے بعد گارڈ فرائے کلر گیا تھا اور تین دنوں کے بعد اُسے یروشلم لے جایا گیا ۔ اُس کے بعد اُسے بھائی بالڈون نے کرسمس کے دن کا ۱۱۰۰ میں بادشاہ کا تاج پہنا حقیقت میں بالڈون سلطنت کے بانی نے سلطنت کو وسعت دینے کو بڑی اہمیت دی ۔ ابتدائی فتوعات میں سلطنت کو وسعت اور دفاع کو بڑھایا ۔ ناروے کے پاکیزہ لوگوں نے اور مسیحی مجاہدین نے سختی سے رسد کی ضرورت کو مہیا کرنے میں معنی خیز کردار ادا کیا اور فوج کو باہم مدد پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ شروع میں پہلے مسیحی بادشاہ یورپ سے بھیجا گیا تھا اس کی ایک مثال کا شمار کرتے ہیں ۔ یہ بادشاہ سیگرڈ تھا ۔ ناروے کے یاتری (مقدس، حاجی ) اس مقدس سر زمین میں آزادی کی بہادری کے کارناموں کی ناقابلِ بیان کہانیاں لے کر واپس لوٹے تھے ۔ یہ تحریک بالڈون کی مدد کے مقصد میں تبدیل ہو گی ۔ یروشلم کا نیا بادشاہ تھا ۔

بادشاہ سیگرڈ کو مقدس سرزمین کی ڈاکیوؤں کی فوج کی راہنمائی کے لیے منقتہ طور پر چنا گیا تھا ۔ ۱۱۰۷ میں بادشاہ سیگرڈ ۶۰ بحری جہاز اور پانچ ہزار مسیحی بحری جنگ جو ( بحری ڈاکوں ) کو لیکر مقدس سرزمین کی طرف روانی ہوا ۔ اس سفر کے دوران انہوں نے سات اہم جنگیں لڑیں ۔ ان میں کُچھ بتپرست بحری ڈاکیوں کے خلاف تھیں اور دوسرے وقت میں اسلامی فوجوں کے خلاف لڑیں ۔ سیگرڈ بذاتِ خود جنگ میں فیصلہ کُن فتح کے ساتھ لڑا۔ اُس نے سیسلی میں اسے بند بھی کر دیا تھا اور اس نے نارمن راہنماؤں کے ساتھ مضبوط باہمی تعلق بنائے تھے ، جنکا شمار روجر دوم نے کیا ہے ۔

اسکے بعد فلسطین ۱۱۱۰ میں پہنچے، سیگرڈ بالڈون کے مِلا جس نے اسکا استقبال بڑے اچھے طریقے سے کیا ۔ انہوں نے اکٹھے دریائے یردن میں جھڑی ڈالی او وہیں پر سِگرڈ نے بپتسمہ لینا پسند کیا تھا اور دوسرے عام مقدس کاموں کی مشق بھی کی تھی اور سِگرڈیت جڑ سے لیکر موسم سرما کے آغاز تک یروشلم میں ہی ٹھہرا رہا ۔ قدیم ناروے کے لٹریچر ، ہیمسکرائنگلہ: میں ناروے کے بادشاہوں کی تواریخ درج ہے۔ ستوری سٹیورلسن ریکارڈ کرتے ہیں:۔

بادشاہ بالڈون نے بڑی شانوشوکت کے ساتھ بادشاہ سِگرڈ اور اسکے تمام لوگوں کی دعوت کی اور اُسے بڑی مقدس یادگاریں دیں بالڈون کے اور کلیسیاء کے بزرگوں کے حکم سے مقدس صلیب سے لکڑی ایک چپٹی نکالی گئی اور اس مقدس یادگار کے ساتھ اُن دونوں نے حلف اُٹھایا یہ جو لکڑی تھی مقدس صلیب کی تھی ۔ جس پر خُدا نے بذاتِ خود بڑی تکلیف اُٹھائی تھی اور تب یہ مقدس یادگار بادشاہ سِگرڈ کو دی گئی اس صورت میں وہ اور اُس کے بارہ مرد اور بھی تھے ۔ اس بات کی قسم کھانی چاہیے کہ وہ مسیحیت کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ پھیلائے ۔

اگر ممکن ہو تو اس لکڑی کلو ناروے میں آرچ بشپ کی سیٹ پر نصب کرے اور اس مقدس صلیب کو وہاں لے گئے وہاں پر جہاں مقدس بادشاہ اولاف رہتا تھا ۔۔۔ اس کے بعد بادشاہ سِگرڈ اپنی مزروعہ زمین کی طرف لوٹنے کے لیے واپس بحری جہاز پر گیا تب بادشاہ بالڈون شام میں کفاروں کے قبضہ سیڈاؤن کو جانے کی تیاری کی ۔ اُس کی وسعت پر بادشاہ سِگرڈ نے اس کا ساتھ دیا۔ اُس کے بعد بادشاہ نے کُچھ وقت کے لیے اُس گاؤں کو محاصرے میں لے لیا تھا ۔ اُس کے بعد انہوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیے تب بادشاہوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ (۲۰)

سیٹورنسن نے فرنگیوں کے تسسل کی ایک پرانی نظم کو ریکارڈ کیا ۔ جو اُس واقعہ کی روح کی عکس مندی کرتی ہے۔

اینارسکلاسن نے بھی اس کے بارے میں بیان کیا ہے

‘‘ باروے کا کا بادشاہ ہکلاڈز کہتا ہے۔

کافروں کا قصبہ سیڈاؤن ہے

خطرناک شور کے ساتھ انجن چل رہا ہے

دیواریں اور پتھروں کی چھتیں تباہ ہو چُکیں ہیں

قصبوں کی دیواروں کی بربادی قریب ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناروے کے باشندے ان سیاہ دیواروں پر چڑھ گئے ہیں

وہ بزرگ جہنوں نے اُن کے غارت کرنے کے اعلان کو پڑھا۔

جھوٹوں کے قصبے کو اپنی مرضی سے جیت لیا۔(۲۱)

اگرچہ بڑی بہادری کے ساتھ اُن کے خلاف زبردست لڑائی سے بڑی فتوعات حاصل ہوئیں اور وہاں پر بہت جانوں کا نقصان بھی ہوا تھا۔ جس طرح ماضی میں بیان کیا گیا تھا ۔ قرونِ وسطیٰ کے مفکر ایس بریچ نے دعویٰ کیا کہ از صلیبی جنگوں پر ۱۰۰،۰۰۰ زندگیاں اُٹھائی گئیں وہ جوان صلیبی جنگوں میں مریں تھیں ۔ہو سکتا ہے یہ تعداد بہت زیادہ ہو۔ صلیبی جنگوں کے تاریخ نگار، رونڈی سٹارک ۱۳۰،۰۰۰ کا حوالہ دیتے ہیں جو مقدس سرزمین کے لیے بندی ہوئیں تھیں اور ۸۸ فیصد یروشلم کو حاصل کرنے کے وقت ضائع ہو گئیں تھیں سٹارک مزید لکھتے ہیں یہ اُس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک یورپ کے اعلیٰ درجے کے بیٹے پہلی جنگِ عظیم کے دوران خندق میں ذبح نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے یورپ نے ساری راہنمائی کی نس کو کھو دیا تھا جو پہلی صلیبی جنگ میں اُس جگہ پر بڑے تھے ۔ اُن میں وہ جو اُس دوران مشرق میں چلے گئے تھے اپنے اچھے وقت میں۔(۲۲)

پہلی صلیبی جنگ لڑنے والوں کی قربانیاں بہت حد مہنگی تھیں اور زیادہ تر زندگیاں اُنکی مقدس سرزمین کی آزادی کو حاصل کرنے کے لیے ضائع ہو گئیں تھیں ۔

سلطنت کا دفاع ۔ بیت المقدس کی حفاظت کرنے والے سورما اور رفائے عامہ کی جماعت

وضاحت میں بحری ڈاکو صلیبی جنگجوؤں اور فوج کو حکم جاری کیا کہ مقدس مقامات بنائیں جائیں اور اُس کا دفاع کیا جائے اور اُن کا جو اس سلطنت میں رہ رہے تھے ، اولیت کے مطابق ۱۱۱۹ میں ہیوہیگس دی پینس نے تیس قرینکش سے یروشلم میں راہنمائی بالڈون دوئم کے دورِ حکومت کے شروع میں ہوا تھا ۔ جس نے سلطنت پر حکومت کرنے کے لیے تین سال کے لیے حلف اُٹھایا اور مقدس حکم کو پورا کیا ان جنگ جوؤں کی خاص مہارت پر غور کریں ۔ بالڈون نے حکم دیا کہ وہ مقدس وعدوں کو حکم کو ترک کر دیں کہ وہ مقدس مقامات کو بچانے کے لیے اُسکی مدد کریں اُن کو جگہ کا نام دیا گیا اور سلیمان بادشاہ کے گھر کا بھی (سلیمان کی ہیکل کی نوعیت پر بھروسہ کرنا ) اور اُن کے نئے گھر کا بھی پتہ دیا۔

۱۱۲۵ ہیوہیگس دی پینس نے یورپ میں نئی تقویت کی تلاش میں یروشلم کو چھوڑا اور اُس نے صلیبی جنگجوؤں کے احکام کو حکم کے طور پر قانوناً مستحکم پایا۔ پینس یورپ میں صاحبِ اختیار آدمی حمایت کو حاصل کرنے کے قابل ہو گیا تھا ۔ اس کا نام برنارڈ آف کِلوویکس تھا ۔ برنارڈ اپنے دورے کے بہت معزز اور قابل ِ عزت تھیالوجی کے ماہر تھے اور اُس نے آرچ بشپوں ، بادشاہوں اور پوپوں کو بغیر کسی تعلق اور خوف کے اُن کو رد کیا ، وہ بذاتِ خود ایک بہادر آدمی تھا اور اُس کے حکم دینے کی ساخت آرمی کی طرح تھی ، برنارڈ ابتدائی طور پر زبردست بہادری کی وکالت کرتا تھا اور بہت سارے تجویز کرتے تھے کہ اُسکی خدمت کرنے کا انداز پرانے سر گلہاڈ کی طرح ہے ۔ برنارڈ نے قانون وقواعد کو لکھا جو ۷۲ آرٹیکل پر مشتمل تھا ۔ جس میں قواعد کی فہرست کو بھی شامل کیا تھا ۔ دُعائیں ، پرستش ، پاکیزگی، تقامیل اور لباس کے کوڈ بھی شامل تھے بہادروں کا لباس باحیا ہو ، جس پر چاندی کی کڑھائی کی گئی ہو یا اُن کے بازوں پر سونا نہ جڑا ہو اور وہ سفید پوشاک پہنے گئے۔ مشہور سرخ صلیب اُنکی چھاتیوں پر بعد میں شامل کی گئی تھی ۔ ۱۱۲۸ میں ایک چرچ کونسل ٹورس میں ہوئی جہاں یہ قانونی طور پر حکم جاری کیا گیا جس میں مسیح کے غریب بہادروں کے طور پر حکم جاری کرنے کی اور سلیمان کی ہیکل کی تصدیق کی گئی تھی ۔ ( جو بعد میں بیت المقدس کے بہادر دفاع کرنے والے کہلائے ، بیت المقدس کے دفاع کرنے والوں میں صرف اُن کو اجازت تھی جو بالغ اور پکے بہادر تھے۔ (۲۳)

۱۰۷۰ کے قریب ( ایک ہسپتال میں جو بعد میں سینٹ جان کے نام جانا گیا )

ایک نرس جو بیمار تھی جو یروشلم کے مقدس مقامات میں زخمی ہوئی تھی ۔ممکنہ طور پر لیڈرشپ نے یروشلم کے مقدس مقامات کی حفاظت شروع کر دی تھی اور جس میں تقریباً ۴۵ قلعے گریژن تھے ، یہ جنگ جو کالے چوغے پہنے ہوئے تھے اور اُن کے چھاتیوں پر سفید صلیبیں تھیں ۔ ۱۱۲۰ کے دوران وہ بیت المقدس کے دفاع کرنے والے کے پاس حریف آئے ہونگے اور اس وقت انہوں نے بہت ساری جنگوں میں حصہ لیا تھا ۔ سٹارک ان بہادروں کے بارے میں بیان کرتے ہیں ؛

قانونی طور پر سینٹ جان کے حکم کے طور پر جانا جاتا ہے۔

بہادر رفائےعامہ کی جماعت بیتالمقدس کے دفاع کرنے والوں کی اصطلاح برابر ہے اور اُنکی لڑائی کی قابلیت برابر ہیں اور حادثات جو انہوں نے برداشت کیے تھے بالکل برابر تھے جب وہ مقدس سرزمین کو چلا رہے تھے اور رفائےعامہ کی جماعت یورپ میں نہیں آئی تھی لیکن صرف اوڈس نے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کو جاری رکھا تھا ۔

اوریب لوڈس وہاں پر تھے ، وہ مالٹا پر قابض ہو گئے تھے انہوں نے مسلمانوں کے حملوں کو دوبارہ پسپا کیا ۔۔جھگڑا بہت زیادہ تعداد میں تھا ۴۰ ہزار اور چھے سے زیادہ جنگجوؤں کے درمیان ہوا تھا۔ فیالحقیقت اب مالٹا کے جنگجوؤں کے طور پر جانے جاتے تھے ، رفائےعامہ کی حمایت وہاں پر موجود تھی۔

( ۲۴ )

موجودہ تاریخ کی ترمیم میں رحجان

کیا صلاحدین ایک روشن خیال اور صابر مسلمان تھے؟

بارہویں سبق کے ابتداء میں ہم نے با اصول اور پوری دنیا کو اُس کے لیے محکوم بنانے کی دھمکی کے حکم کو بیان کیا تھا اور محمد کے کھڑے ہونے کے انداز کے طور پر آغاز ہی تھا۔ ۱۱۸۹ میں صلاحالدین نے  اس کے لے علاوہ حالیہ میں ۱۹۷۹ میں کھومیانی اور نومبر ۲۰۰۱ میں اُسامہ بن لادن منظر عام پر تھا ۔ ( دو مہنے کے بعد ۹ ۔ ۱۱ کے واقعات ) یہ طنزیہ طور پر تھا ، تاہم صلاحدین نے آسمان کی بادشاہی کی سکاٹ کے جنگ نامہ کی رہائی کی تصویر کشی کی ہے وہ بڑے روشن خیال مسلمان راہنما تھے انہوں نے رحم اور صبر کے ساتھ اس جنگ کو ختم کیا

اُن کے لیے جہنوں نے صلیبی جنگجو کی وحشیانہ تصویر کی تائید کی اور انہوں نے مسلمانوں کی پیاری سرزمین کے اندر امن اور صبر میں مداخلت کی تھی ۔ یہ طفلم گھر کو چلانے کے لیے ہٹ ہوئی تھی ۔ ریڈی سکاٹ کی ٹیم نے امریکہ میں مسلمان کے ساتھ تعلقات ( سی اے آئی آر ) کی کونسل کا انتظام کیا تھا اور دوسرے گروپوں نے اس خیال کی حمایت کی اوٹ میں مخالف احساسات سے پرہیز کیا تھا۔ ہالی وڈ نگار دلال سیاست کو درست کرنے کے لیے اکررہائی تھامس کبھی کبھار صحیح تاریخ کا نقشہ کھینچنا تھا۔

ریڈلی سکاٹ ناقابلِ بیان طریقے سے اس حیران کن فلم کا بیان کرتا ہے لیکن یہ بد قسمتی ہے کہ وہ اس حوالے کا انتخاب کرتا ہے کہ یہ اسلامی دباؤ کا نمانہ ہے ۔ یہ انٹریمبنٹ کے مقصد کے لیے جنگ نامے کو تاریخی طور پر حیس بنانا ایک مسئلہ ہے ۔ لیکن ایک دوسرا مسئلہ ہے جب تاریخ ہو جاتی ہے تو اس سوچ کو ماننا الٹ ہو جاتا ہے جس طرح یسعیاہ نبی دعویٰ کرتا ہے ۔ یسعیاہ ۵ : ۲۰ ‘‘ اُن پر افسوس جو بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہتے ہیں اور نور کی جگہ تاریکی کو اور تاریکی کی جگہ نور کو دیتے ہیں اور شیرینی کے بدلے تلخی اور تلخی کے بدلے شیرینی رکھتے ہیں ۔ ’’ بہت ساری برطانیہ کی اکیڑمیاں اس فلم پر الزام لگاتی ہیں کہ یہ مکمل طور پر تاریخ کی سچائی پر لاگت ہے اور یہ مسلمان معاشرے کی طمانیت کرتی ہیں ۔ دوسرے تاریخ نگاروں کی بحث کا یہ ایک صدری عکس ہے۔

پروفیسر یونتھن ریلے سمتھ، صلیبی جنگجو کی مختصر تاریخ کا ایک مصنف ہے اور وہ دنیا کے تاریخ نگاروں کے دور کی راہنمائی کرنا ہے ۔ وہ فلم کو ‘‘ کوڑا کرکٹ’’ کہتا ہے وہ تفصیل بیان کرتا ہے کہ یہ تمام درست تاریخ نہیں ہے یہ مسلمانوں اور اُن کی تہذیب کی باطل دلیل پیش کرتے ہیں اور صلیبی جنگ تمام بے رحم اور وحشی تھے ۔ حقیقت میں کرنے کے لیے کُچھ نہیں تھا ؛ اوہ اور مسلمانوں کا مقابلہ یہودیوں اور مسیحیوں سے نہیں تھا ، یہ بالکل بے معنی بات ہے۔(۲۵)

مزیداس کے ریلے سمتھ نے کہا کہ فلم مکمل طور پر سر والٹر سکاٹ کی کتاب ‘‘ دی تالسمین ، جس کی اشاعت ۱۸۲۵ میں ہوئی تھی ۔ یہ روحانی طرز کی تحریر تھی اس میں صلیبی جنگجوؤں کی ۔۔۔۔۔دیکھائی گئی ۔ اس پر بھروسہ کرنی تھی ۔ اب مکمل طور پر اس کی بدنامی تاریخ نگار اکیڈمیوں کو جاتی ہے ۔ سپینز دوسرے تاریخ نگاروں کا شمار کرتا ہے۔

پروفیسر یونتھن فلپ ‘‘قسطنطینہ کو بچانے کے لیے ، چوتھی صلیبی جنگ کا ’’ مصنف ہے اس نے بھی فلم کی تصویر کو بھی ختم کیا ۔ وہ تاریخی سچائی کو بیان کرنا ہے اور اس نے اس موضوع کی یعنی صلیبی سورماؤں اور بیت المقدس کے محافظوں کے طور پر تصویر کھینچتی ہے ، بیتالمقدس کے محافظ ‘‘باڈیذ ’’ کے طور پر صرف مسلمانوں کے ظاہری تناسب سے سہارا دے رہے تھے اور ‘‘ باڈیذ ’’ یہظاہر کرنے کا کوئی غلط رستہ ہے یہ واقعی کوئی غلط رستہ ہے انکو مسلمانوں سے بڑی دھمکیاں چلی ہیں اور بہت سارے آخر تک مار دئے گئے تھے ۔ کیونکہ انکی شمشیرزنی کی صلاحیت صرف مقدس سرزمین کا تحفظ تھا۔ (۲۶ )

صلاح الدین کون تھا؟ وہ کرد کا باشندہ تھا اور شاہرُخ کا بھتیجا تھا، اُس نے ۱۱۶۹ میں مصر کو فتح کیا تھا ۔ اُس نے اُس شام پر فتح مند حکمرانی کی تھی ۔ نورالدین جس نے صلیبی سلطنتوں کے سورماؤں کے خلاف بہت دفعہ مہم جوئی بھی کی تھی اور صلاحالدین نے اسے فتح کیا تھا۔ ( ۲۷ ) صلاح الدین نے ۴۵ سال کی عمر میں الہ الدین کی بیوہ سے شادی کی اور تخت کو چھین لیا تھا اور ایک ہی حکمرانی کے ساتھ اس کو مصر اور شام میں لے گئے ۔ صلاح الدین دونوں بہت ساری صلیبی جنگجوؤں کے خلاف لڑائیاں جیتی اور ہاری بھی ہیں ، صلاح الدین نے اپنا عمل محمد کی بے درد جنگوجدل کے مطابق عمل کیا تھا ۔ ہیٹن کی لڑائی جولائی ۱۱۸۷ میں ہوئی ۔ اُسے بذاتِ خود آگے بڑھ کر رفائے عامہ کی جماعت اور بیت المقدس کے محافظوں کے طور پر حصہ لیا تھا اور تب اسکی فوج ختم ہو گئی تھی جو باقی بچنے والے بہادر تھے انہی پر تکیہ کیا تھا ۔ ( ۲۸ )

کُچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یروشلم کو فتح کرنے کے بعد صلاح الدین کے کام رحم کرنے والے کام تھے ۔ یہ غلط تھا اسکی ذاتی طور پر خواہش تھی کہ وہ مکمل طور پر مسیحیوں کو جہاں سے نکال دے ۔ مگر اسکا موزوں ذریعہ دولت حاصل کرنا تھا ۔ صلاح الدین نے بازنطینی شہنشاہ کے صلح نامہ پر مہر کر دی تھی اگرچہ یہ قانون کی پابندی کی آمیزش کرنا تھا ۔ یہ بہت زیادہ ممکن تھا ۔ وہ سات ہزار یروشلم میں رہائشیوں سے اور ۳۰ ہزار بسنت کے رہائشیوں کو آزاد کرنے پر راضی ہو گیا تھا ۔

اور دوسرے شہر کے آدھے لوگ مارکیٹ میں غلاموں کی طرح بیچ دیئے گئے تھے ۔ اس لیے صلاح الدین کا ایک رحم کا نمونہ یروشلم کو لوٹا ہے اور شہر کے آدھے لوگوں نے غلاموں کی طرح مارکیٹ میں بھیجنا تھا۔

جبکہ دوسرے نمونے خاص طور پر اسلامی بدلے اور تیزی سے جنگ و جدل محمد کے مسلمانوں نے کردار کے نمونے کی خاص درسگاہ تھی ۔ وہ کِس قسم کا روشن خیال اور رحم دل ہیرو تھا۔؟ صرف وہ جو اسلام کو رفع کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور اسلام کی سچائی کو انوکھی اور غلط تصویر میں ایک اسلام کے ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بذاتِ خود اکثر کُتب خانوں ، کتابوں اور علم کی تباہی میں شامل تھا ۔ اسلام کے ابتدائی سالوں میں سکندریہ کو فتح کرنے کے بعد مسلمان کمانڈر نے خلیفہ عمر سے پوچھا کہ دمشق کی عظیم لائبریری کے بارے میں کیا کرنا چاہیے ۔ جس میں سینکڑوں ہزاروں طومار پڑے ہوئے ہیں ۔ سپنسر ان واقعات کا دوبارہ شمار کرنا ہے ۔

عمر کو کہا گیا کہ اس کا جواب دے، ‘‘ کہ جو کُچھ اس پر لکِھا گیا کیا اس کے ساتھ خُدا کی کتاب (قرآن  ) متفق ہے، اگر یہ متفق نہین ہے تو ان کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لیے اِن کو ضائع کر دیا جائے ’’ اس طرح سے ان چار ہزار عام طوماروں کو شہر کے ایندھن کے طور پہ استعمال کیا گیا اور اس جلائے جانے میں چھ مہنے لگے۔ ( ۲۹  )

اِسی طرح صلاح الدین نے قاہروؓں میں لائبریریکو بند کر دیا گیا اور کتابوں کو ترک کر دیا۔ ( ۳۰ )

اسلام سائنسی اور بیصرت کے لیے ایک عظیم ذخیرہ ہے؟

ایک اور مشہور عقیدہ جو سالوں سے گردش کرتا رہا ہے کہ مسلمانوں نے فن، موسیقی، ثقافت، تعمیر، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی ہے تاہم اِن دعوٰوں کو چیلنج نہیں کیا گیا ۔ سب سے پہلی بات حدیث میں ایک بڑی فہرست ذکر کرتی ہے اور ایک مفصل وضاحت بیان کرتی ہے کہ محمد نے پُرزور طریقے سے فنون، تصاویر، موسیقی، موسیقاروں خاص آلات یہاں تک کہ پالتو جانوروں جیسے کہ کتے اُن کی مخالفت کی تھی ۔ اسلامی قانون کے مطابق ثقافت ایک لعنت تھی اور مسلمانوں کے لیے ممنوع تھی کیوں محمد کے ڈینمارک میں کارٹونوں کے فنکاری کے ڈرامے پر یہ غُل گپاڑا تھا؟ یہ مادہ سی بات ہے کہ یہ اسلامی فلسفہ قانون کے مطابق اور محمد کے نقطہ نظر کے مطابق ایک لعنت تھی۔

تقریباً تمام اسلامی ثقافت اور سائنس کی ترقی براہ راست یہودی ، مذہبی ثقافت سے لی گئی جو اُس زمین میں بستے تھے جو لوگوں نے فتح کی ۔ اسلامی تعمیر کی کمزور داستان جو مسجدوں کے نمونوں کی صورت مں ہے ۔ وہ مشرقی رومی سلطنت کے مضبوط مسی

ھی ڈھانچوں سے لی گئی ۔ چٹان کا مشہور گنبد مشرقی رومی سلطنت کے دستکاروں اور معماروں نے پیش کیا اور یہ کلیسیاء کے پاک حصہ سے مشابہت رکھتا ہے ۔ بہت سے مشہور مساجد مسیحیوں کے گرجا گھروں سے اضافی میناروں اور کُچھ اندرونی ڈئیزان کی تبدیلیوں کے ساتھ بنائی گئی ہیں ابتدائی سائنسی کتاب جو عربی میں لکھی گئی وہ شام کے مسیحی کاہن جو اسکندریہ میں بہتا تھا اُس نے طِب پر لکھی ۔ یہ کتاب فارسی یہودی فزیشن کی کتاب کا عربی میں ترجمہ ہے۔ ( ۳۱ ) اسٹاک اسلامی ادویات کی بنیاد کا خلاصہ کرتا ہے:

‘‘ مسلمان ’’ یا ‘‘ عرب ’’ ادویات درحقیقت مسیحی دوائی کی حقیقی شکل ہے۔  یہاں تک کہ بڑے بڑے مسلمان اور عرب کے ڈاکٹر بھی عظیم نسٹورین میڈیکل سنٹر جو شام میں نسی بس میں تربیت پا چکے ہیں نہ صرف ادویات بلکہ ترقی یافتہ تعلیم کا ایک مکمل سلسلہ بھی نِسی بس میں دوسرے سیکھنے کے ادارے بھی نسٹورین نے قائم کیے جن میں سے ایک جنڈیشر پُر ہے جو کہ سائنس کی تاریخ میں اعلیٰ مقام رکھتا ہے ۔ جارج سرمُون نے ( ۱۸۸۴ ء ۔۔۔ ۱۹۵۶ ء ) میں اِس کو اُس وقت کا سب سے بڑا دانش کا مرکز کہا ۔ اِس طرح سے نسٹورینس نے جلد ہی عرب میں اپنی ایک ساکھ قائم کی جس میں اُس نے بہترین اکاونئنٹ ماہر تعمیر، فلکیات دان، بنکر، ڈاکٹر، تاجر فلاسفر ، سائنس دان ، بتالہ نویس اور اساتزہ پیش کیے ۔ درحقیقت نوی صدی کی ابتداء میں تقریباً تمام پڑھے لکھے مفکرین جو اسلامی علاقوں میں تھے وہ نسٹورین مسیحی تھے ۔( ۳۲ )

 مشہور عربی عدد شماری کرنے والوں نے زیرو کا تصور ایجاد کیاجِس کو مسلمانوں نے اپنی ایجاد کے طور پہ بنا لیا ۔

اگرچہ یہ حقیقت میں اسلام سے پہلے ہندوستان میں ایک ہندو کی ایجاد تھی یہاں تک کہ مار ما ڈیوک پکٹیل جو کہ قرارن کا ایک مشہور مترجم تھا اور جس نے اسلام قبول کر لیا اُس نے اِس بات کو تسلیم کیا کہ جدید اسلامی ثقافت مقامی فاتح لوگوں میں سے ہو کر آئی ہے ۔ اسلامی نیو بحری فوج بھی اسی سے بنی ہے اور بذہنٹائن اور دستے بھی اِسی سے بنے کیونکہ عرب والوں کو سمندری سفر کا کوئی علم نہ تھا۔ ( ۳۳ ) یہ مثالیں مسلمانوں کے اُدھار لئے گئے کلچر تہذیب کی سطح کو  کریدتی ہے اور یہ کریدنے کا کام اِس مقامی سر ذمین میں رہنے والے لوگوں نے کیا۔

جہادوں کا خلاصہ

جہادوں کا آغاز ۱۰۹۵ میں ہوا اور ساتواں جہاد ۱۲۵۰ تک رہا آخری جہادی شہر اور علاقے ۱۲۹۱میں مجبوراً اسلام قبول کر گئے۔ پہلے جہاد ( ۱۰۹۸ء سے ۱۰۹۹ ء ) کو ایک بہت کامیاب جہاد قرار دیا گیا جس میں یروشلم کو دوبارہ فلسطین میں بطور ایک مسیحی مضبوط علاقے کے قائم کیا گیا ۔

دوسرا جہاد ( ۱۱۴۶ء سے ۱۱۴۸ ء ) میں مکمل ہوا یہ جہاد ناکام قرار دیا گیا کیونکہ ۱۱۴۴ءمیں ابتدائی مسلمانوں نے اِس میں کامییابی پائی ۔ تیسرا جہاد ۱۱۸۸ ء سے ۱۱۹۲ ء میں پوپ گریگری ہشتم نے صلاح و دینکی فتح کے جواب میں ہیٹن میں ۱۱۸۷ ء میں اُن جہادی جو یروشلم میں تھے اُن کے خلاف کیا ۔ یورپ کی بہت ساری مشہور شخصیات اِس مزن میں شامل تھیں جن میں انگلینڈ کے شیردل بادشاہ رچڑڈ سے اور فرانس کے بادشاہ فلپ اور شہنشاہ فریڈرک بار با رُوسا اُنہوں نے یروشلم تو نہ لیا لیکن وہ اِس قابل ہوگئے کہ وہ ساحل لیوینٹ کے ساتھ ساتھ کی جہادی زمین پر قبضہ کر لیں ۔ چوتھا جہاد ( ۱۲۰۱ ء سے ۱۲۰۴ ء)میں کونسٹنٹ ٹائن کی جنگ میں تبدیل ہوگیا اورلاطینی بادشاہت کے قیام پر ختم ہو گیا اس عرصے کے دوران بہت سارے ادرونی شاہی خفیہ راز بھی سامنے آئے جہنوں نے سابقہ بیذینٹائن لڑایئوں کو جہادوں میں اکٹھا کر دیا اور یہ سب دارلخلافہ بیذینٹان کا نتیجہ بنے ۔ پانچواں جہاد (۱۲۱۸ ء سے ۱۲۲۱ء ) میں ہوا ۔ چھٹا جہاد (۱۲۲۸ ء سے ۱۲۲۹ ء) میں ہوا اور ساتواں جہاد ۱۲۴۸ء سے ۱۲۵۰ء میں ہوا جس کا مرکز بنیادی طور پہ مِصر تھا اور اِس کا زیادہ تر حصہ ناکامیوں کا ہے ۔ ساتویں جہاد کے دوران کٹر مذہبی بادشاہ لویس نہم نے اس مہم کی راہنمائی کی ۔جہادی کُچھ عشرے تک دباؤ ڈالتے رہے لیکن آخرکار اِن کی قوتیں ۱۲۹۱ء میں بٹنی شروع ہو گئی ۔ ( ۳۴ )

 کُچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جہاد ناکام ہوئے کیونکہ اِس کے بعد بادشاہتیں نہیں رہیں لیکن یہ نتیجہ مندرجہ ذیل حقائق کے سبب سے ناکام ہے جیسا کہ پچھلے باب میں ذکر کیا گیا ہے کہ کونسٹنٹ ٹائمپل اور ٹورذ کی لڑائیاں مسلمان سپین کے فاتحین مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے فاتحین کے قصے مشہور ہیں ۔ اسلامی گِدی نشینوں نے ویانہ کی اور ورنا کی اور قصاؤ  کی بڑی بڑی لڑایئوں میں یورپ کو بھی فتح کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن یہ بائلون کے گاڈفربے بوہی مونڈ کے ٹرائنٹو شیردل بادشاہ رچرڈ بادشاہ لوئیس نہم اور بہت سے دوسرے ہیروز نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اسلامی فوج کو یورپ میں سے نکال دیا گیا اگرچہ یہ اُن کے بُہت سارے حصوں پر اختیار لے چُکی تھی۔ ( ۳۵ ) درحقیقت یورپ میں اچانک اسلامی حملوں میں اِن جہادوں کے عرصے کے دوران بہت سے لوگ ختم کر دیئے گئے ۔ اس بات پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ مغربی لاطین نے بیذینٹائن شہنشاہ کی درخواست جو اُس نے مدد کے لیے کیاُس کو نظرانداز کر دیا گیا ۔ اسلامی فوجوں کو کونسٹنٹ تائمپل سے نکال گیا اور یورپ کے بڑے حصے میں دھکیل دیا گیا ۔جہادیوں نے سفر کا انتخاب کیا اور ایشیاء مائنر سے لیکر بیذینٹائن تک بہت سارے علاقوں کو بحال کیا جبکہ فلسطین میں اپنا تسلط قائم کیا۔

جہاد اور بائبل کا ‘ حیوان ’

گدی نشینیوں کی باشاہت کی وُسعت

بارھویں صدی کے ابتدائی حصے کے دوران بسیار خور منگولوں نے ایک لاکھ خانہبدوش جنگ جوئیوں کے ساتھ خود کو مغرب کی طرف دھکیل دیا اور اُن کی راہنمائی جن جیس خان ( جو کہ ایک بینالاقوامی حکمران تھا ) نے کی جین جیس خال ۱۲۲۷ ء میں مر گیا لیکن اپنی وسیع سلطنت چار بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دی ۔ یہ نئی بادشاہتیں گولڈن منگولی بادشاہتیں کہلائیں جس کا زیادہ تر حصہ روس، یوکرائن، جنوبی پولینڈ، بلغاریہ، اور ہنگری سے لیکر ساحل ایڈرئیٹک تک قائم ہوئیں۔ ( ۳۶ ) ( ۱۲۹۴ ء سے ۱۳۰۴ ء ) میں غزنی سلطنت کے دوران منگول حکمرانوں نے اسلام قبول کیا اور دوسری اسلامی قوتوں کے خلاف جس میں سلجک ترک شامل تھے اور یہ وہ لوگ تھے جہنوں نے اِنسٹولیا کے بہت سارے حصے میں حکومت کی تھی ۔ منگولوں کے حملے سے بچ کر ترکوں نے مغربی انسٹولیا کے علاقے کے پہاڑوں کی طرف ہجرت کی اور اس بات نے دنیا کی تاریخ میں ایک بہت اہم نقطہ گدی نشین شہنشائیوں کے مستقبل کے لیے ثابت کیا کراش اِن اسلامی جہادوں کے بارے میں بیان کرتا  ہے :

اس معاشرے پر غزا کے فوجیوں کا اختیار تھا اور یہ ابتدائی دنوں کے اسلامی لوگوں کی یاد دلاتے ہیں جہنوں نے جہاد سے محبت کو فروغ دیا اور اس کی ہتھیائی ہوئی چیزوں علاقے اور ساخت کو دنیا کی بے قیام مذہبی وبسگی کو ضائع کر دیا ۔ غزنیوں کے دستوں جو کہ مذہب کے جہادی تھے سارے ملک میں اُسے فروغ دیا وہ ہتھیائی ہوئی چیزوں پر زندہ  رہتے تھے جو اُنھوں نے بیذینٹائن کے لوگوں کے ساتھ مسلسل لڑائی کے ذریعے سے حاصل کی تھیں ۔ ان میں زیادہ تر ترک منافع خور تھے۔ ( ۳۷ )

سوگٹ سے ایک ترک علاقی جو مغربی انسٹولیا میں ہے وہ عثمان کی خلیج کے نام سے مشہور ہوا ۔ ( ۱۲۵۸ ء سے ۱۳۲۶ ء اور یہی گِدی نشین کہلائے۔ ۱۳۰۱ء میں گدی نشین جِس کے ترجمے کا مطلب ہڈی توڑنے والے کیا گیا اُنھوں نے بہت شہرت حاصل کی کیونکہ اُنھوں نے جنوبی کونسٹنٹ ٹائمپل کی زبردست بیذینٹائن قوت کو شکست دی ۔ گدی نشین نے اُنھیں بیذینٹائن کے علاقے تک دھکیلا اور گدی نشینوں کے سردار نے اپنے بیٹے اُوریان کو فوجی طاقت میں چھوڑا اور اُس نے اپنی بادشاہت کو پھیلا لیا ۔ اُوریان نے بیذینٹائن کی قوتوں کو جو انسٹولیا میں تھی علامتی طور پہ نظرانداز کر دیا اور جنوب مشرقی یورپ میں چڑھائی کی ۔ اُوریان کے بیٹے مُراد نے ( ۱۳۶۱ ء سے ۱۳۸۹ء ) تک اسلامی وسعت کو جاری رکھا اور جنوبی کونسٹنٹ ٹائمپل تک لے گیا اور پھر بلغاریہ اور سربیا کی زمینوں تک اگلے دو عشروں کے لیے مُراد نے اپنے علاقوں کو اختیارکے لیے مسلسل وُسعت دی ۔ ( ۳۸ )

مُراد نے جینی سریز  لوگوں کو دریافت کیا جینی.سریز ابتداء میں جوان باکن لڑکے تھے جن کی عمریں عام طور پہ دس سے بارہ سال تھی اور اِن کو ۸ اور ۲۰ کے درمیان کے لڑکے بھی تصور کیا جاتا تھا ۔ تُرکی منتظمین اس سلطنت میں سکائٹ ہوتے تھے اور مسیحی خاندانوں سے اُمیدوار لڑکوں کو قبضے میں لیا جاتا تھا اور اُنھیں عثمانی سلطنت کے لیے مضبوط جہادی جنگ جُو بنایا جاتا تھا ۔ یورپ کے بعد ابتدائی روم میں پہلی منظم فوج بنائی گئی ۔ سپنسر اس کے بارے میں بیان کرتا ہے:

جینی سریز عثمانی سلطنت کے سب سے زیادہ خطرناک جنگ جو تھے جو مسیحیت کے خلاف تھے اور اِن فوجوں کے اندر جو لڑکے تھے وہ مختلف علاقوں سے جمع کئیے گئے تھے ۔ مسیحی باپ مجبور تھے کہ وہ اپنے بیٹوں کو اس میں بھیجتے اور مسلمانوں نے مضبوط ترین اور ذہین ترین لڑکوں کو لے لیا تھا جو دوبارہ کبھی بھی اُس وقت تک اپنے گھروں میں نہ آئے جب تک کہ وہ اُس علاقے کی مسلمان فوج کا حصہ نہ بن گئے۔ ( ۳۹ )

یہ جوان لڑکے مکمل طور پر اسلامی خیموں کے نیچے اُن کے زیرسایہ تعلیم پاتے اور اُن پر شدید نظم وضبط لاگو کیا جاتا تھا ۔ جینیسریز ہر بڑی عثمانی جنگ لڑیں گئے اور وہ جہادی سربرائیوں کے خلاف بھی محاصرہ کریں گئے۔ ( ۱۵۲۲ء )

اسلامی عثمانی حملہ آوروں نے مزید ( ۱۳۸۵ء) میں صوفیہ کی فتح کے ساتھ وُسعت پائی اور بعد میں مزید دو سالوں  میں سیلونیکا کی بندرگاہ کو بھی فتح کیا۔

 ( ۴۰ ) ۱۳۸۹ء میں مُراد نے اپنی فوجوں کو مسیحیوں کے خلاف کسوو کی لڈائی میں لایا ۔ سپنسر اِس کے بارے میں لکھتا  ہے ۔

جنگ سے پہلے کی رات میں عظیم وزیر نے قرآن کھولا اور اُس سے فوجیوں کو اُکسایا اُس کی آنکھیں اُس آیت پر گئیں جس میں لکھا ہے ۔ ‘‘  اےنبی منافقوں اور بے ایمانوں کے ساتھ لڑ۔’’ اُس وزیر نے کہا کہ یہ مسیحی کتے بے ایمان اور منافق ہیں۔

ہم اِن کے ساتھ لڑتےت ہیں ۔ وہ اِن کے ساتھ لڑا اور ایک بڑی فوج اِن کے خلاف پھیل گئی اور ۱۵ جون کے دن سربیوں کے خلاف یومِسوگ منایا۔

( ۴۱ )

بِضد نے ۱۳۸۹ء سے لیکر ۱۴۰۲ء تک اپنی سلطنت کو بڑھایا اور ستمبر ۱۳۹۶ء کو ایک منظم جہاد میں جو کہ نیکو پوُلس کے شہر میں بلغاریہ کے قریب ہوا شکست دی۔ اِن فوجی دستوں کے جوتوں کی بڑھتی ہوئی آواز نے ترکی کرنلوں کو جو بلقان کے علاقے میں نئے نئے آباد ہوئے تھے ہلا کر رکھ دیا۔ ( ۴۲ ) یورپ کی اسلامی اختیار نے خود کو جلد رونما کیا۔

خوش قسمتی سے یورپ کے لیے جیس خاں کے منگول ورثاء یورپ میں آئے جو تمرلین یو تمُوری کہلائے۔ ( ۱۳۳۶ء سے ۱۴۰۵ء ) تیُموری لوگوں کا یہ فرقہ اسلامی فرقے نقشبند سوفی فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور یہ ترکی جہادی فوجوں کے خلاف بہت سے اسلامی علاقوں میں لڑے ۔ تموریوں نے ۱۴۰۲ء میں ترکوں کو انقرہ میں شکست دی اور پھر اپنی توجہ چین کی طرف کر لی۔ اِس صورتحال میں عثمانی سلطنت کمزور پڑ گئی۔ یورپ کے لیے یہ وقفہ مختصر ہوا کیونکہ ۱۴۰۵ء میں تموری سلطنت اُس کی بادشاہ کی وفات کے بعد الگ ہو گئی۔ عثمانیوں نے اپنے کھوئے ہوئے علاقوں کو دوبارہ لے لیا۔ محمود دوم نے بیذینٹائن کے دارلخلافہ کو جیتنے کی کوشش کی اور دوبارہ بیذینٹائن کے شہنشاہ نے لاطینی کلیسیاء کو اسلامی جہادیوں کے خلاف فوجی مدد کے لیے کیا، شہنشاہ جون ہشتم آرتھوڈوکس اور کاتھولک کلیسیاؤں کو فلورین کی کونسل میں اکٹھا کرنے پر اپنے شہنشاہت کے دفاع کی اُمید پر متفق ہو گیا، پوپ ایگنس ہشتم پولینڈ ہنگری اور والکیا سے ایک فوج کو بھینے پر رضامند ہو گیا۔

ورنا ہنگری کی مشہور لڑائی ( ۱۴۴۴ء ) میں مُراد نے تیس ہزار جہادیوں کی ایک فوج کو شکست دی۔ ( ۴۳ )

ورنا کے مقام پر شکست کے بعد ابھی زیادہ دیر نہیں گذری کہ عثمانی دستے نے اپنے بہت لمبے عرصے کے انٹظار کیے ہوئے مقاصد کو ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء میں حاصل کر لیا۔  محمود دوم نے اپنا سفید گھوڑا کونسٹنٹ ٹائمپل میں دوڑایا تاکہ اِس قابل فخر شہر کو اپنی سلطنت کے نئے دارلخلافہ کے طور پہ لے سکے اور جیت کے ٹائٹل کے ساتھ فاتح کا ٹائٹل لکھ سکے یہ مغرب کے لیے ایک بڑی شکست تھی اِس شہر کے لیے یہ ہمیشہ عظیم یورپ کی دیوار کا ٹائٹل لگتا تھا ۔ محمود کی بادشاہت کے تحت عثمانیوں نے یونان ، سربیہ، بلقان کے ایک بہت بڑے حصے اور کرائیمن پینی سولہ کو بھی فتح کیا روس مرکزی ایشیاء اور یورپ کے درمیان اہم تجارت کے راستے اب عثمانی حکومت کے تحت تھے ۔( ۴۴ ) اِن حکمرانوں کے تحت اسلامی عثمانی سلطنت فلسطین ، مصر ، عرب، عراق، شمالی افریقہ ہنگری کے بہت بڑے حصول اور جنوبی اٹلی تک پھیلتی چلی گئی ۔

 ۱۵۲۹ء میں ترک ویانہ کے دروازوں تک تھے ۔ عثمان کی حکومت میں عظیم بادشاہ سلیمان ۱۵۲۰ء سے ۱۵۶۶ء تک اسلام کا گھر تھا اس نے دوبارہ ایک ہی سلطنت الہی خلافت میں بدل دیا۔ کرش اِن واقعات کے بارے میں بیان کرتا ہے:

جلد ہی عثمانی سلطنت بلندترین مقام تک پہنچ گئی ۔

ایسے مقام تک جِس نے پہلے کبھی بھی اتنا عروج نہیں پایا تھا ماضی کی مسلمان سلطنتوں کو دبا دینے والے پریشر سے پستی کے عمل کا سامنا بھی تھا اُن کے درمیان تنظیمی ابتری بھی تھی اور ہر طرح کے سالوں سال رہنے والے مسائل بھی تھے جس کے سبب سے وہ آفتوں کا شکار رہے معشیت آہستہ ہستہ پستی چلی گئی لیکن اب اِس نے بہتر ہونا شروع کیا لیکن جنگوں پر بہت زیادہ روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی وجہ سے عثمانی حکومت تجارت کے خسارے میں چلی گئی ۔ جس کے سبب سے ناصرف خام مال اور مقامی صنعتیں متاثر ہوئیں بلکہ سونے اور چاندی کا کاروبار بھی بہت زیادہ انحصار میں چلا گیا۔ ( ۴۵ )

 ایک سلطنت کے یہ کردار پستی میں چلے گئے اور پھر تاریخ میں یہی ہوتا رہا۔ سلطنت اور ریاستیں دھوکہ دیتی رہیں ایسا دھوکہ جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوا کیونکہ اُنھوں نے ایک ایسا منصوبہ باندھا کہ وہ کِسی بھی مسئلے کو حل کرنے میں بچے عثمانی سلطنت نے اپنی جنگوں کی وسعت کو جاری رکھا ۱۶۸۳ء میں ترکوں نے ویانہ کو لینے کی کوشش کی لیکن اُن کا سامنا ایک اور بڑے گروہ سے ہو گیا ۔ پاک رومی سلطنت اور پالش لیتھینن کومن ویلتھ یعنی ( ہولی لیگ ) سے تاریخ دانوں نے ۸۰۰۰۰ سے ۸۴۰۰۰ مغربی گروہ کے جنگجوؤں کا تخمینہ لگایا ہے جِس کی راہنمائی پالش بادشاہ جانتھری، جانسن سوم، صوبیسکی کر رہا تھا یہ جنگ میں ایک لاکھ تیس ہزار سے لیکر ایک لاکھ پچاس ہزار عثمانی ترکوں کے خلاف تھے اِن میں ایک بڑا گروہ آلیڈ جینسری کا بھی تھا۔ ویانہ کی لرائی میں تاریخ کا سب سے بڑا گھوڑوں کے دستوں کا گروہ بھی شامل تھا ۔ یورپین اتحاد نے اپنی فتح کو ثابت کیا اور وہ مغربی تہذیب کے ہیرو کہلائے آخرکار عثمانی سلطنت مزید گِر گئی اور اُس کو ایک بُرے استعارے یعنی ‘‘ یورپ کے بیمار آدمی ’’ کا نام دیا گیا ۔ آہستہ آہستہ مزید بربادی پہلی جنگِ عظیم تک جاری رہی اور اسلامی عثمانی خلافت ۳ مارچ ۱۹۲۴ء کو آئنی طور پر برپا ہو گئی اور مکاشفے کی کتاب میں لکھا ہوا ‘‘ حیوان ’’ اب زخمی ہو گیا ۔

آرمینیاء کی نسل کشی

گرائے جانے کے باوجود ترکوں نے بہت سی لڑائیاں لڑی اور بہت سے وحیشیانہ جرائم اپنی آخری بربادی تک کرتے رہے بیسویں اور اکسیویں صدی میں سلمان گروہوں نے تشدد کو جاری رکھا ۱۸۹۴ء سے ۱۸۹۶ء تک ترک مسلمانوں نے آرمینیاء کے ۲۵۰۰۰۰ مسیحیوں کو ذبح کیا ۱۹۰۴ء اور ۱۹۰۹ء میں مزید ۳۰۰۰۰ آرمینیوں کو مارا گیا ۔ ۱۹۱۵ء میں ایک بار پھر پہلی جنگِ عظیم سے پہلے مسلمان ترکوں نے انتظامی طور پر ایک ملین آرمینیوں کی نسل کشی کر دی بہت سارے گولی کا شکار ہوئے بہت سوں کو ڈبو دیا گیا جن میں بچے بھی شامل تھے اور بہت سوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں سے گرا دیا گیا اور جو بچ گئے اُن کو ملک بدر کر دیا گیا یا غلام بنا لیا گیا۔ ( ۴۶ ) کوئی بھی شخص اِن کی نسل کشی پہ غور کر سکتا ہے کہ یہ کتنی متاثر ہوئی ۔ اسلامی ترک اداروں میں تشدد کے لیے ہتھیار موجود ہیں اور یہ ادارے تشدد اور موت کے خطرات پیدا کرتے تھے ایک بار پھر آرمینیوں نے اپنی دفاع کے سارے ذرائع کو کھو دیا جب اُنھیں ملک بدری اور قتل کے ذریعے سے بڑے پیمانے پر ذبح کرنا شروع کیا گیا ایک اور ملک بدر پالیسی کے تحت مسلمان اِس قابل ہوئے کہ وہ دوسری قوموں کو دھوکہ دینے میں مداخلت کریں۔ حقیقت میں اُن میں زیادہ تر اُن کو ذبردستی ٹرینوں کاروں میں راستے ہی میں مار دیا گیا یا بھوک سے مار دیا گیا ۔

دوسرے جو سمندر کے راستے گئے اُن میں سے اکثر کو پانی میں ڈبو دیا گیا وہ جہنوں نے سریا کے صحرا کے ذریعے سے سفر کیا جو کہ افرات کے ساتھ ساتھ ہے اُن کو یا تو قتل کر دیا گیا یا بیماری سے مر گئے۔ ( ۴۷ )

اِسی اثنا میں مکمل مذہبی صفائی پورے آرمینیاء کے صوبوں میں ہوئی ۔ کرشن وین کے صوبے کی ایک مثال بیان کرتا ہے:

بڑا قاتل ڈی جے ویدت پاشا تھا جو کہ جنگ کے منسٹر ایبتر پاشا کا سالہ تھا جو کہ فروری ۱۹۱۵ء میں وین کا گورنر بنا اور ایک بری ترین خبر یہ تھی کہ آرمینیاء میں متاثرین کے بدنوں پر گھوڑوں کے پاؤں کے نشاناتت تھے۔ ڈی جے ویدت نے کوئی ۸۰۰ لوگوں کو ذبح کیا جن میں زیادہ تر بوڑھے آدمی عورتیں اور بچے تھے۔ اپریل تک مرنے والوں کی تعداد دس ہزار ہو گئی اور آنے والے مہنوں میں وین کے علاقہ میں اِن کی آبادی اور زیادہ بڑھ گئی۔ ( ۴۸ )

ہٹلر آرمینیوں کی نسل کشی کے اِس نمونے کو اپنے ہتھیار کے لیے زبردست تباہی کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ ہٹلر اور ہینرچ ہملر دونوں ہی اسلامی فرقوں کے طریقوں سے جو اُنھوں نے نسل کشی کے لیے استعمال کیے اُن سے متاثر تھے ۔ ہٹلر سٹائِطن، مائیو، پولپوٹ اور بہت سے دوسرے اِس نسل کشی کے طریقے سے متاثر تھے اور اُنھوں نے اِس کو اپنایا اور اپنی حکومتوں میں دہشتگردی اور لاکھوں کے ذبح کرنے میں اِس کو اختیار کیا مسلمان اِس منصوبہ سازی میں بانی تھے اور اکیسویں صدی کے تمام تر عظیم ڈکٹیٹروں نے اِنھی کی نقل کرنی شروع کی۔

ریاست متحدہ امریکہ کے شہریوں نے یہ برکت اپنے آباواجداد کی باریک بینی سے پائی کہ وہ اپنے حق کو آہنی قوانین کے تحت حاصل کریں۔ بانیوں کو یہ بات بڑی گہری طور پہ پتہ چلی کہ وحشیانہ حکومتیں لوگو کی جاتی ہیں اور اِن کی بنیاد یورپ کی تاریخ میں موجود ہے اور اُن کی جدوجہد ایک نئی ریپبلک حکومت کو قائم کرنے میں تھی ۔

   مزید برآں ہتھیاروں کی ضبطی میں ہٹلر نے بھی خیموں کے مظلوموں تک پہنچانے کے لیے ٹرینوں کو آمدورفت کے لیے بھی استعمال کیا اور اِس میں تین گنا اہلیت سے ذیادہ لوگوں کو بھر دیا اِس طرح سے بہت سے راستے میں ہی مر گئے ۔

مزیدبرآں ہٹلر نے بھی رعایا کو آزادانہ اذیت دی جیسے کہ مسلمانوں نے کیا ۔ والدشوبد نے اپنی کتاب تشدد کے لیے خُدا کی لڑائی : اسلام نبوت اور بائبل ، میں تاریخی بیان دیتے ہوئے لکِھا:

     ‘‘ ہٹلر ترکوں کے نسلکشی کے کام سے اِس قدر متاثر تھا کہ اُس نے ۲۲ اگست ۱۹۳۹ء کو اپنے پولینڈ کے لیے وسیع منصوبوں کو بیان کرتے ہوئے اس بات کو شامل کیا کہ وہ دستوں میں موجود آدمیوں ، عورتوں اور بچوں کو مار ڈالے گا اُس نے کہا کون آج آرمینیاء کی نسل کشی کو یاد نہ کرے گا ؟ ’’۔

 ( ۴۹ )

 ہٹلر نے مسلمانوں کے اِس ناپاک کام کو یہودیوں کو دوسری جنگِ عظیم میں مارنے کا کام جاری رکھا ۔ یہ بات مکمل طور پہ قابلِ فہم ہے کہ ہمارےت موجودہ اقتصادی ، سیاسی اور دنیا کی فضاء میں بائبل کے آخری دِنوں کے متعلق جو کُچھ بتایا گیا ہے اُس میں اسلام اور مستقبل کے زورآور مطلقالعنانوں کے درمیان لڑائیاں ہو گئیں اور ممکنہ طور پہ مسلمان دنیا میں ایسا کریں گئے ۔ یوحنا رُسول نے نبوت کی ہے ‘‘ اورمیں نے اُس کے سروں میں سے ایک پر گویا زخم کاری لگا ہوا دیکھا مگر اُس کا زخم کاری اچھا ہو گیا اور ساری دنیا تعجب کرتی ہوئی اُس حیوان کے پیچھے پیچھے ہو لی۔

( مکاشفہ ۱۳ : ۳ ) ۱۹۲۴ء میں اسلامی خلافت کے خاتمے پر یہ کاری ذخم حیوان کے ؛گا اور پھر اب یہ تازہ ہورہا ہے ، ٹھوس ہو رہا ہے اور ساری زمین پر پھیل رہا ہے ۔ آخر کار حیوان کا یہ زخم ٹھیک ہو جائے گا ۔ جب خلافت دوبارہ قائم ہو گی۔ یوحنا اِس بیان کو جاری رکھتا ہے ۔

 ‘‘ یہ جو تو نے حیوان دیکھا یہ پہلے تو تھا مگر اب نہیں ہے اور آئندہ اتھاہ گڑھے سے نکل کر ہلاکت میں پڑے گا اور زمین کے رہنے والے جنکے نام بنایِ عالم کے وقت سےکتابِ حیات میں لکھے نہیں گئے اِس حیوان کا یہ حال دیکھ کر کہ پہلے تھا اور اب نہیں اور پھر موجود ہو جائیگا تعجب کرینگے ۔’’ ( مکاشفہ ۸ : ۱۷ )

خلافت کا انقلاب

اسلام پوری دنیا میں ایک ہی حکومت یا خلافت پر زور دیتا ہے جِس کی بنیاد شریعت کے قانون پر ہے اور اب یہ بات بخار کی طرح ہو چکی ہے اسلامی انقلاب نے موجودہ عشروں میں بے شمار مثالوں میں سر نکالا ہے ۔

چند مختصر جھلکیاں اِس بڑھتے ہوئے رُجحان کو ظاہر کرنے کے لیے یہاں دی گئیں ہیں کہ موجودہ زمانے میں یہ تصور اِس قدر بین الاقوامی سطح تک پھیل گیا ہے ۔

بہت ساری شمالی افریقہ کی قومیں اسلامی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ وہ اپنے شریعت لا کے تصورکے ساتھ تمام مسیحی مخالفت کو ختم کر دیں ۔ عیدی امین کے یوگینڈا میں حکومت میں آنے کے بعد اُس نے اسلام قبول کیا اور نتیجے کے طور پہ تین لاکھ شہریوں کا قتل عام کیا جن میں زیادہ تر مسیحی تھے۔ آج مصری مسیحی زیادہ تر بڑے منظم طریقے سے مارے جاتے قیدی بنائے جاتے تشدد کیے جاتے اور موت کے گھاٹ اُتارے جاتے۔ عشروں سے اسلامی جوشیلے کوشش کر رہے ہیں کہ مصر کی سیکولر حکومت کو برباد کر دیں اور اِس کو اسلامی شریعت کے تحت لے آئیں ۔

اب وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے زور لگاے ۔ نائجریا میں بھی مسلسل حملوں کے تحت ملک کے شمالی حصے کے مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ جنوبی حصے میں بھی اسلامی حکومت کو قائم کریں ۔ نائجریا میں خوش قسمتی سے مسیحی مبشرین جیسے کہ رہنہارڈ بونکی لاکھوں کی تعداد میں مشتمل عبادات کروائی ہیں اور لوگوں نے مسیحیت کو قبول کیا ہے شاہد لہر بھی اسلامی زیادتوں کئے خلاف جنوب میں ایک بہتری کا قدم ہے۔ ۱۹۸۵ء سے سوڈان کی حکومت نے بھی شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ شروع کی ہے جو دہی علاقوں میں ہے اور اِس کا آغاز نیوبہ کی پہاڑیوں سے ہوا ہے سوڈان کی حکومت نے ایک طے شدہ پروگرام کو سارے ملک میں اسلامی حکومت لاگو کرنے کے لیے طے کیا ہے ۔ اِس کا تخمینہ لگایا گیا ہے کہ گورنمنٹ آف سوڈان کے ۱۰ لاکھ لوگوں نے ۸۰ کی دہائی کے آخر میں اور ۹۰ کی دہائی کے شروع میں اِس بات کے لیے خیمے لگائے ہیں ۔ پیٹر ہمینڈ نے اپنی دستاویز ‘‘ آگ کے نیچے ایمان ’’ میں اپنی ابتدائی گوائیوں میں اِن خیموں کے بارے میں بیان کیا ہے :

سوڈان کی حکومت میں نسل کشی کا ایک مرکزی حصہ لوگوں کے ساتھ زیادتی میں مذمر ہے ۔ نیوبہ کی ہر خاتون کو ‘‘ پیس کیمپ ’’ کے اندر یا تو اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے یا اُس کو زیادتی کی دھمکی دی گئی ہے ۔ ۹ سال کی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے جس  کے لیے سپاہیوں نے حدیث میں سے یہ دلیل پیش کی تھی کہ محمد نے بھی ۹ سال کی عائشہ کے ساتھ شادی کی تھی۔ خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی جیسے ہی اُن کو اغواہ کیا گیا اور جیلوں  میں آمد پر بھی اجتماعی زیادتی ہوئی اور اِن زیادتوں کو ‘‘ پیس کمیپ ’’ میں یا لیبر کیمپ میں دہرایا گیا یا مسلمان سپاہیوں نے اپنی ڈیوٹی کے دوروں کے دوران اُن کے ساتھ عارضی شادیاں کیں اِس جنسی تشدد اور غلامی کی پالیسی کا مقصد نیوبہ کے معاشرے کے سماجی طور پر برباد کرنا تھا ۔( ۵۰ )

 موجودہ لوگوں کی نسل کشی دارفر کے شہر میں ہوئی اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی میڈیا نے اِسی کا نوٹس لینا شروع کیا۔

     جہاد کی ہدایت کی آڑ میں مشرقِ وسطیٰ میں دہشت گردی کو مغرب میں آفت بنایا گیا ایران میں آیت اللہ خمینی کے زیر سر پرستی اسلامی انقلاب ناقابلِ فراموش ہے۔

 فروری ۱۹۷۹ء خمینی نے اپنے زور کا استعمال کیا اور نومبر میں تہران میں یو۔ایس ایمبسی کو قابو کیا جنوری ۱۹۸۱ء میں ترپین مکفول اشخاص کو قید کر لیا گیا جب تک کہ رونلڈ ریگن نے جو کہ امریکہ کا صدر تھا اِس کا چالیس گنا ادا نہ کر دیا ۔ اکتوبر ۱۹۸۳ء میں بنیاد پرست مسلمانوں نے لبنان میں ۲۴۱ امریکی سپاہیوں کو قتل کر دیا گیا اپریل ۱۹۸۸ء میں اسلامی دہشت گردوں نے پین امریکی ورلڈ ایئرویز نمبر ۷۴۷ جیٹ ایر لائینز میں ایک بم نسب کر دیا جیسے ہی جہاد لاکر بی سے سکاؤٹلینڈ سے اُڑا یہ پھٹ گیا اور ۲۵۹ لوگ جو جٹ کے اندر تھے مارے گئے اور گیارہ جو زمین پر تھے وہ مارے گئے۔ خلیجفارص کی لڑائی کے دوران صحرائی طوفان مغرب کے معصوموں کے خلاف جاری رہا جس کو شدید طریقے سے سُنا جاتا رہا ۔ ۱۹۹۳ء میں ۶ مارے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے مسلمانوں نے بارود سے بھری ہوئی ایک ویگن نیویارک سٹی کے جڑواں ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بھیجی جون ۱۹۹۶ء میں مسلمانوں نے ایک ایندھن سے بھرے ہوئے ٹرک میں خوبر سعودی عربیہ سے بھیجا جس نے ۱۹ امریکیوں کو مار دیا اور ۴۰۰ زخمی ہوئے ۔ اگست ۱۹۹۸ء میں دو بڑے بم نیروبی، کینیاء اور دائرے اسلام کی ایمبسیوں میں بھیجے جس نے ۲۲۴ کو مارا اور پانچ ہزار زخمی ہوئے۔

 ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو مسلمانوں نے مِل ملا کر چار جیٹ ایئرلائینز کو اغواہ کیا دو جہازوں کو جڑواں ٹریڈ سنٹر کے ٹاورز کی طرف اُڑا دیا تاکہ اِس کے ڈھانچوں کو برباد کر دے ۔ ایک پینٹاگون کی طرف اُڑ گیا اور چوتھا وشگیٹن ڈی سی کی طرف اُڑا جو شینکس وائل، پینسولینیہ میں ہی مستقل طور پر برباد ہو گیا کیونکہ مسافروں نے بہادری کے ساتھ جہاز دوبارہ قابو کر لیا ۔ اسلام نے دنیا کے مختلف بہت سارے حصوں میں اپنے بین الاقوامی غلبے کے لیے لڑائی کو جاری رکھا ہے اِس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کی ہجرت کے وسیلے سے بھی مغربی ملکوں میں آہستہ آہستہ داخل ہوئے ۔ یہ پس منظر کلیسیاء کے اندر بھی بطور اُن کے ایان کے گواہوں کے طور پہ دیکھا جا سکتا ہے ۔ بد قسمتی سے یورپ میں مسیحی ایمان سے لوگ گِر رہے ہیں اور امریکہ میں بھی اِسی بات کی پیروی کی جا رہی ہے اِس طرح سے بغیر کِسی روحانی بیداری کے بہت ساری مغربی قوموں میں مسلمان اِس بات کو ترجیح دیں گئے کہ وہ اِن قوموں سے وفاداریوں کا الحاق کر لیں ۔ جیسا کہ مسلمانوں کی آبادی قوموں میں بڑھتی ہے تو شریعت لا کے لاگو ہونے کا مطالبہ بھی مقامی سطح پر آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اور آخرکار یہ شدد اختیار کرکے قومی سطح تک پہنچ چُکا ہے تاریخی تخمینے کے مطابق جو اسلامی جہاد میں لوگ مارے گئے اُن کی تعداد ۱۲۰ ملین افریقی تھے جن میں ۷ ملین مسیحی تھے ۸۰ ملین ہندو تھے اور ۱۰ ملین بدوہست تھے ۔ اصل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ بین الاقوامی طور پہ حقائق بکھرے ہوئے ہیں اِس طرح سے اسلامی جہاد نے تقریباً ۲۷۰ ملین لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ( ۵۱ ) یہ تعداد حیرت انگیز طور پر اُن لوگوں کی اکثریت پر مشتمل ہے جو اِن صدیوں کی ابتداء میں تھے۔ اِس کو دیکھنے کے لیے دو زبردست ویب لنکس ہیں جو کہ روزانہ اسلام کے دنیا بھر میں تشدد کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں ۔

پہلی سائٹ

http://www.thereligionofpeace.com/

 یہ اسلام سے متعلقہ اموات کو ۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ سے اب تک روز بروز تصدیق کرتی ہے اور اِس سائٹ میں تعداد کو تاریخ ، ملک اور شہر کے حساب سے لکھا گیا ہے غالباً بہترین ساٗئٹ

http://www.thereligionofpeace.com/

 ہفت روز کی نئی کہانیوں کو جو جہادی سرگرمیوں یا اسلامی افزائش سے متعلق ہے پیش کرتی ہے اس سائٹ کے اندر لنکس بے شمار ہیں اور ہر کسی کے لیے جو موجودہ دنیا کے اسلامی تحریکوں کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں بہت مفید ہیں اور یہ پوری دنیا کی خلافت کو بھی بیان کرتے ہیں ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

باب چودہ

مرتد ہونے پر جہاد

مرتد ہونے کی تعریف

حدیث کے اندر بہت سارے پیراؤں میں اُن تمام لوگوں کے لیے موت کا اعلان کیا گیا جو اسلامی ایمان کو چھوڑتے ہیں ۔ ایک حدیث بیان کرتی ہے ، ‘‘ جو کوئی اپنے اسلامی مذہب کو چھوڑ دے تو اُسے مار ڈالو۔ ’’ ( ۱ ) ایک اور حدیث اس طرح کی موت کے بارے بتاتی ہے۔ ابو موسیٰ کے ایک طرف ایک آدمی کھڑا تھا موتھ نے پوچھا یہ آدمی کون ہے ؟ ابو موسیٰ نے کہا وہ ایک یہودی تھا اور مسلمان ہو گیا اور پھر دوبارہ یہودی مذہب میں واپس چلا گیا پھر ابو نے موتھ سے درخواست کی کہ بیٹھ جائے لیکن موتھ نے کہا کہ جب تک یہ آدمی مارا نہ گیا میں نہیں بیٹھوں گا یہ اللہ اور اُس کے رُسول کی عدالت ہے اور اُس نے تین بار یہ بات کہی پھر ابو موسیٰ نے حکم دیا کہ اِس آدمی کو مار دو اور اُسے مار دیا گیا۔ ( ۲ )

مرتد ایمان کے لیے محمد کا حکم تھا کہ اُسے فرداً سزائے موت دو۔ حدیث میں مزید ایک اور گواہی ہے بے شک میں نے اللہ کے رُسول کو یہ کہتے ہوئے سُنا آخری دِنوں میں کُچھ بیوقوف نوجوان ظاہر ہونگے جو بہت سی اچھی باتیں کہے گئے لیکن اُن کا ایمان اُن کے گِلوں سے باہر نہیں آئے گا اور وہ مذہب کو ایسے چھوڑ دیں گئے جیسے کھیل کے وقت تیر چھوڑا جاتا ہے بس جہاں کہیں اُن کو دیکھوں اُنہیں مار دو اور جو کوئی اُنھیں مارے گا اُن کو روز محش میں انعام ملے گا۔ ( ۳ )

اِن مرتد لوگوں کے مارے جانے والوں میں عورتیں بھی شامل تھیں اور عورت جو اپنے ایمان سے پھر جائے اُسے بھی مارا جانا چاہیے۔ ( ۴ ) محمد کے وقت سے آج تک اُن تمام تر لوگوں کو جو مرتد ہو جاتے ہیں جوشیلے مسلمان مار دیتے ہیں اسلامی قانون کے مطابق مرتد کی تعریف یہ ہے ۔ ۱۔ جو اسلام کو ترک کرنے کا اعتراف کر لے ۲۔ بنیادی اسلامی قوانین کا انکاری ہو ۔ ۳۔ قرآن اور محمد کا تمسغر اُڑائے مسلمانوں نے اپنے نبی محمد کی مثال کی پیروی کو جاری رکھا۔ جنوری ۱۹۹۶ ء میں ایک بین الاقوامی امام نے جنوبی افریقہ کے پروپیکشن کے سنٹر میں مرتدوں کے خلاف جہاد کو دفاع کیا ۔ اُس نے اُن مسلمانوں کی مصلوبیت کی حمایت کی جہنوں نے سوڈان میں مسیحیت کو قبول کیا سوڈان کی اسلامی حکومت نے اِس  بات کی برائے راست ذمہداری لی کہ وہ سینکڑوں مسیحیوں کو مصلوب کریں گئے۔ ( ۵ )

نبی محمد نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ اُن سب کو مار ڈالیں جو محض اُن پر تندید کرتے یا اُس کے اختیار اور اُس کے اعلیٰ حکمرانی کے استْحقاق پر سوال اُٹھاتے ہیں ایک سو سالہ بوڑھے یہودی شاعر ابو عقیق نے محمد پر تنقیدی نظمیں لکھیں اور محمد نے حکم دیا کہ اِسے مار ڈالو۔ ( ۶ ) ایک جوان خاتون شاعرہ عصملہ بنتِ مروان نے نبی پر تنقید کو جاری رکھا اور اُس کے وحشیانہ اعمال پر ملامت کی ۔ محمد نے اِس ناگوار حالت کو جو اُس نے

 بیان کی سُنا اور اُس کے پیٹ کے اندر بچے سمیت اُسے مار دیا۔ تاریخ دان برنارڈ لوئیس اپنی کتاب تاریخ میں اسلام خیالات، لوگ اور قرونِ وسطیٰ میں واقعات کے اندر لکِھتا ہے اور بہت سارے قتلوں کا ذکر اُس نے کیا :

ایک خاصڈ یہودی عبداللہ ابن کھتیر نے نبی کے کردار پر چھینٹے اُڑانے والی نظموں کی دُھنیں بنائی جِس کو عوام کے اندر دو غلام لڑکیوں نے گایا اُن میں سے ایک کو قتل کر دیا گیا اور دوسری کو معافی مانگنی پڑی ایک بہت مشہور مثال کعب ابن الہ اشرف جو کہ شاعر تھا اور نبی کا مخالف اور جِس نے واضح طور پر وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف آیات لکھیں۔ ایک مقامی کہانی کے مطابق نبی نے پہلے اُس سے واقفیت بڑھائی اور پھر اس کو قتل کرکے کعب ابن الہ اشرف سے چھٹکارا پایا۔ ( ۷ )

اِن بیانات کے اندر مزید محمد کے بہت سارے اپنے دوسرے مرتد تھے۔ مخالفت کرنے والے بھی تھے اور اِن سب کو قتل کر دیا گیا اُس نے اپنے پیغام کے خلاف کِسی قسم کی تردید کو قبول نہ کیا ہر شخص کے لیے موت تجویز کی گئی جس نے اُس کی نبوت کے خلاف دعویٰ کیا۔ محمد نے دعویٰ کیا کہ وہ بائبل کے نبیوں کا پیروکار ہے پھر بھی اُس نے بائبل کی تعلیم کی مخالفت کی یسوع نے اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں ‘‘ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کر کرینگے اور سائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہنگے تو تم مبارک ہو گئے ۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔ اِس لیے کہ لوگوں نے اُن نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اِسی طرح ستایا تھا ۔ ( متی ۱۲ ۔ ۱۱ : ۵ )

  ‘‘ بعض ٹھٹھوں میں اُڑائے جانے اور کوڑے کھانے بلکہ زنجیروں میں باندھے جانے اور قید میں پڑنے سے آزمائے گئے۔ ’’ ( عبرانیوں ۳۶ : ۱۱ )

پُولس رُسول نے نہ صرف مخالفت کو برداشت کیا بلکہ اپنے پختہ انداز کا اعلان بھی کیا۔

‘‘ اور اپنے ہاتھوں سے کام کرکے مشقت اُٹھاتے ہیں لوگ بُرا کہتے ہیں ہم دُعا دیتے ہیں وہ سُتاتے ہیں ہم سہتے ہیں وہ بدنام کرتے ہیں ہم مِنت سماجت کرتے ہیں ۔ ہم آج تک دُنیا کے کوڑے اور سب چیزوں کی جھڑن کی مانند رہے ۔ ( ۱۔ کرنتھیوں ۱۳ ۔ ۱۲ : ۴ ) وہ مزید واضح طور پہ اپنی خونی برتری کے خلاف خبردار کرتا ہے۔

 ‘‘ اے عزیزوں ! اپنا انتقام نہ لو بلکہ غضب کو موقع دو کیونکہ یہ لِکھا ہے کہ خُداوند فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے بدلہ میں ہی دونگا۔ بلکہ اگر تیرا دشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کِھلا ۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پِلا کیونکہ ایسا کرنے سے تو اُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائیگا۔ بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعے سے بدی پر غالب آؤ۔ ’’ ( رومیوں ۲۱ ۔ ۱۹ : ۱۲ )

 کلام ِ خُدا معصوم لوگوں کے خُون کے بدلے کے لیے محمد کو ملامت کرتا ہے جہنوں نے اُس کے پیغام پر شک کیا وہ جہنوں نے اُس کے کردار کے حوالے سے سوال اُٹھائے اور جہنوں نے اُسے اللہ کے آخری رُسول ماننے کا انکار کیا ۔ اُن کے لیے اُس نے یقینی موت کا اعلان کیا۔ محمد نے ایک بار پھر بائبل کی نبوت کے سچا ہونے کے امتحان میں ناکامی حاصل کی۔

سلمان رشدی کا معاملہ

اسلام کی برداشت نہ کرنے کی فطرت کے بارے میں بیان اور اِس کے جہاد کے اصولوں کے تعلق سے اکثر مصنفین کو موت کی دھمکیاں دی گئیں یا اُن کو قتل کیا گیا جہنوں نے اپنے مذہب کی پڑتال کی یا آزادی تقریر کی عزت کی واضح طور پر اسلامی عقیدہ ہر قسم کے آزادانہ خیال اور اُن کے مذہبی یا سیاسی تصورات کو چیلنج کرنے پر مخالفت کرتا ہے شاہد سب سے اہم مرتد ہونے کا کیس جو شائع ہوا وہ سلیمان رشدی کے ناول شیطانی آیات کا کیس تھا ۔ برنارڈ لوئیس جو کہ برطانوی امریکی تاریخ دان ہے اُس نے اِس بیان کا ذکر کیا : ۱۴ فروری ۱۹۸۹ ء کو آیت الہ خمینی نے جو کہ ایران میں اسلامی مذہبی اختیار کا اعلیٰ مرتبہ رکھتا ہے اُس نے ایک فتویٰ جاری کیا اِس فتویٰ میں اُس نے دنیا کے تمام جوشیلے مسلمانوں کو اطلاع دی کہ وہ شیطانی آیات کے نام سے کتاب لِکھنے والے مصنف کا خون بہائیں کیونکہ یہ کتاب اسلام ، نبی اور قرآن کے خلاف تالیف کی گئی۔ پرنٹ کی گئی اور شائع کی گئی ہے اور اُن لوگوں کو بھی اِس میں شامل کیا جائے جہنوں نے اِس کی فہرست کو جانتے ہوئے بھی اِس کو شائع کیا میں اِس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ تمام جوشیلے مسلمان اِن کو تیزی سے قتل کر دیں جہاں کہیں بھی یہ ملیں ۔ تاکہ کوئی بھی دوبارہ اسلامی تقدس کی بے حرمتی کرنے کی جرات نہ کرے اور جو کوئی اِس راہ میں خود قتل ہو گیا وہ شہید مانا جائے گا ۔ ( ۸ )

مسلمان متشددین نے مرتد رُشدی اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف ریلیاں نکالی ۔ شیطانی آیات کے بہت سارے مترجمین کو شکار بنایا گیا اور اُنھیں قتل کیا گیا ۔ مزید برآں اسلامی عدالت نے سلیمان رُشدی کے قاتل کو ایک ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ برطانوی حکومت نے فوراً ہی مسٹر رُشدی کے لیے حفاظتی قوت فراہم کی جس کے لیے برطانیہ کے ٹیکس ادا کرنے والے سالانہ ایک ملین سے زیادہ اب تک ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

دانیل پائپ نے اپنی دستاویز رُشدی کے معاملات : ناول ، آیت الہ اور مغرب کے بارے میں بیان کرتے ہوئے رُشدی کے ناول کی اشاعات کے بارے میں مندرجہ ذیل باتیں لکھیں:

خمینی کے مددگار بھی گلیوں میں نکل آئے ۱۵۰۰۰ بنیاد پرست مسلمان جِن میں زیادہ تر پاکستانی تھے اُنھوں نے پیرس میں احتجاج کیا اور کیمروں کے اندر رُشدی کو موت دو کے پلے کارڈ لگائے۔ ہینگی میں ۵۰۰۰ مسلمان منصٹری آف جسٹس کے آگے اکٹھے ہوئے اور شیطانی آیات کی بہت ساری جلدیں اور مصنف کی تصویری نظرِ آتش کی اور سلیمان رُشدی کی موت کے بارے میں مطالبہ کیا۔ تقریباً ۲ ہزار مسلمانوں نے چوبیس فروری کو مانچسٹڑ میں اور اگلے دن نیویارک سٹی میں دس ہزار لوگوں نے احتجاج کیا اور ۲۵ تاریخ کو ہی ایک ہزار مسلمانوں نے اُوسلو میں مارچ کیا اگلے دن ۲ ہزار لوگوں نے کوپن ہیگن میں مارچ کیا سیکنڈ نیوبا کے احتجاج کرنے والے اُس عشرے کے سب سے بڑے احتجاج کرنے والے تھے دوبارہ انگلینڈ میں تین ہزار مسلمانوں نے رُشدی کی کتاب کے خلاف ۳ مارچ کو ہیلی فِکس میں احتجاج کیا ۔ چوتھی دفعہ شیف فیلڈ میں سلیمان رُشدی کی موت کے لیے احتجاج کیا ۔

چھٹی دفعہ دوبارہ تین ہزار مسلمانوں نے ڈربی میں مارچ کیا اور شیطانی آیات کی کتاب کی جلدیں نظر آتش کیں ۔ ( ۹ )

اور اِس موت کے رُکے ہوئے اِن فطرات کے لیے بہت زیادہ پوری دنیا میں انتظامات کیے گئے ۔ پائپ نے اِس کی مثالوں کی کُچھ وضاحت دی ہے۔:

سیاست دانوں کو مزید حاظت دینی پڑی ۔ کینڈا میں منسٹڑ کو ، برطانیہ میں وزیراعظم کو ، وزیر خارجہ کو اور ہوم سیکرٹری کو ، فرانس میں قومی اسمبلی کے صدر کو ، فرانس ، نائجریا اور مِصر میں فنکاروں کو دھمکیاں دی گئیں ۔ برطانوی ٹیلی ویژن کے انٹرویو لینے والے پیٹر سینسز نے ایک ایرانی ڈپلمیٹ سے سوال پوچھا ، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بحیثیت ایک مہذب شہری ہمیں دوسروں کی آراء پر اُنھیں قتل کرنا چاہیے۔ مسلمان جوشیلوں نے اِس سوال کو اپنی بے عزتی سمجھنا اور سینسز کو بھی جان کی دھمکیاں دیں ۔ پس اُسے بھی اپنے ساتھ پولیس کا محافظ رکھنا پڑا ایک عوامی آسٹریا کے شیطانی ٓیات کے ریڈر کو بھی معتطل کر دیا کیونکہ اُس کو بھی ٹیلی فون پر بم کے حملہ کی دھمکیاں ملیں ۔ اِن میں سے ایک دھمکی ویانہ میں ایرانی امبیسی میں پہنچی۔ خمینی کے پیروکاروں نے درجنوں کی تعداد میں اشاعات گھروں میں اور کتاب گھروں میں جو کہ مغرب میں موجود تھے دھمکیاں جاری کی۔ ( ۱۰ )

سلیمان رُشدی کو ضرور قتل کیا جانا چاہیے اِس کی بازگشت پوری دُنیا میں سُنائی دی ۔ یہاں تک کہ مشہور شخصیات جو نئی نئی اسلام میں آئیں تھیں اُنھوں نے بھی اس کی موت کی حمایت کی ۔ پائپس نے اِس بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا :

اس میں فرانس کے دانشور ونسنٹ منصور اور سوئس صحافی احمد حبر بھی شامل تھے ۔ کیٹ سیٹونز جو کہ سابقہ راک سنگر تھا اور جس نے ۱۹۷۷ء میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام تبدیل کرکے یوسف الہ اسلام اُس نے سرے کے مسلمان طالب علموں کو بتایا کہ اُسے ضرور مارا جانا چاہیے۔ قرآن اِس کو واضح کرتا ہے ۔ اگر کوئی نبی کی توہین کرتا ہے تو اُسے ضرور مارا جانا چاہیے ۔ اسلام ( کیٹ سیٹونز ) نے دو مال پہلے ٹیلی ویژن پر اپنا انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر سلیمان رُشدی میرے دروازے پر مدد کے لیے آئے تو میں آیت اللہ خمینی کو فون کروں گا اور اُس شخص کا پتہ اُسے ٹھیک ٹھیک بتاؤنگا ۔ ( ۱۱ ) اِس قسم کی سر چڑھتی تقریروں کا مظاہرہ ٹرائنٹو کینڈا میں بھی ہوا جہاں راہنماؤں نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہم چاہتے ہیں اسلامی قانون نافذ کیا جائے ہم دنیا کے دوسرے قوانین کی پرواہ نہیں کرتے۔ ( ۱۲ ) اپنی ابتداء ہی سے اسلام تمام دنیا کے لیے ہمیشہ ایک خطرہ رہا ہے ۔

جوشیلے مسلمانوں نے جیسے ہی قرآن و حدیث کو قبول کیا تو اُنھوں نے اسی کو مقام دیا اور پوری دنیا کو فتح کرنا چاہا ۔

‘‘ تمام مذاہب اللہ کے لیے ہیں قرآن ۳۹ : ۸ ) اگر اسلامی قانون ( شریعت ) مغرب میں کافی زور پا جاتا ہے تو تمام سابقہ آزادیاں منسوخ کی جائیں گئیں اسلامی قانون مذاہبوں کی جمہوریت کے اُصولوں اور آزادی کی مخالفت کرتا ہے ۔ اسلام دنا میں تیزی سے بڑھنے والا مذہب اور انسانیت کی آزادی کے لیے تیزی سے بڑھنے والا خطرہ ہے جب تک کلیسیاء اور باقی آزاد دنیا پوری سرگرمی کے ساتھ اِس خطرے کو پختہ طور پر نہیں روکتی تو اسلام پورے طور پہ اپنا مقصد جو دنیا پر حکومت کرنے کا ہے یقیناً پورا کر سکتا ہے ۔ اسلامی منصوبہ سازی ہمیشہ ہی استعمال کی جاتی رہی ہے ۔ جہاں نہیں اِس نے حکومت کو وسیع کرنے کا کام ضروری سمجھا اور اِس منصوبہ سازی میں جھوٹے امن کے محادوں ٹوٹے پھوٹے مقالوں ، جنگوں اور علاقائی نفود میں جو کہ انسانی ہجرت کے ذریعے کی گئی اُس کے عمل کو اِس میں شامل کیا صرف ایک ہی امن جو اسلامی مذہہب چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر ملک پورے طور پہ اُن کی حکومت کے تحت ہو وہ کِسی بھی دھوکے فریب سے حاصل کی جائے۔ دنیا کے مسلمان فاتحین کی ہمیشہ یہی منزل رہے گی۔

رُشدی اور اُس کا ناول ( شیطانی آیات )  ۱۹ جون ۱۹۴۷ ء کو سلیمان رُشدی ممبی کے ایک آزاد خیال مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ۔ ماسوائے بڑے بڑے کُچھ عید کے موقعوں پہ اُس کے والدین اپنے ثقافتی ایمان کی کم ہی مشق کیا کرتے تھے ۔ اُس نے ایک مختلف مذہبی ماحول میں نشوونما پائی چونکہ اُس کی نانی مسیحی تھی اور اُس کے دوست ہندو سکھ اور پارسی تھے ۔ ۱۳ سال کی عمر میں اُس نے انگلینڈ کے ایک سکول میں شمولیت حاصل کی بعد میں ۱۹۶۵ ء میں وہ کنگز کالج کیمرج میں تاریخ کی تعلیم پانے کے لیے چلا گیا ۔ اُس کے ابتدائی سالوں میں اُس نے اسلامی اصلیت کو مرکز بنایا اور اسلامی تاریخ میں ۱۹۸۸ ء کو ( شیطانی آیات ) کے نام سے اِس کو شائع کیا جب وہ یہ ناول لکھ رہا تھا تو رُشدی نے اپنے آپ کو ایک مسلمان نہ جانا دوسری طرف کہ آیا وہ مسلمان ہے یا غیر مُسلم اِس امتیاز کے بغیر محمد کی ایک سیکولر انسان کے طور پہ بے عزتی کی جِس کو اسلامی قانون کی عدالتوں کے مطابق موت کی سزا دی جانی چاہیے تھی یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ رُشدی کے ناول کے ۵۶۱ صحیفوں میں سے صرف ایک باب کے ۳۶ صفحات متضاد شیطانی آیات کے بارے میں بات کرتے ہیں اس کتاب کا زیادہ تر حصہ اسلام سے متعلقہ نہیں ہے اور اِس میں زیادہ تر برطانیہ اور ہندووں کی سماجی زندگی کو مرکز بنایا گیا اِس ناول کے دوسرے باب میں رُشدی محمد کی ابتدائی خدمت کا مقامی حصہ بھی بیان کرتا ہے۔ اُس نے بہت سارے حقائق کو بھی استعمال کیا ہے جو کہ اِس کتاب کے ابتدائی حصوں میں پہلے سے بیان کیے جا چُکے ہیں رُشدی ایک سابقہ مسلمان کے طور پہ محمد کے نبوت کے دعوؤں کے بارے میں شک پر مبنی بیانات دیتا ہے اور وہ اِس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ کِس طرح سے درحقیقت اسلامی عمل نے ترقی کی۔

۲۰۱۲ ء میں اب تقریباً دو عشرے گذر چُکے ہیں کہ سلیمان رُشدی کے خلاف ابھی تک شریعت کے متوالے پر جوش طریقے سے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں یہاں تک کہ وہ ابھی اپنی زندگی قتل کیے جانے کے خوف کے بغیر امن سے نہیں گزار سکتا۔ رُشدی نے جے پور لِٹری فیسٹیول انڈیا میں ایک تقریب میں شرکت کی جہاں بہت سارے اور مصنفین بھی آئے ہوئے تھے ۔ بد قسمتی سے رُشدی کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اِس کو منسوخ کرے کیونکہ بہت ساری مسلمان تنظمیں زہر آلودہ خطرات کو اگل رہی تھیں ۔ فیسٹیول والوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اِس فیسٹیول میں شرکت کے لیے رُشدی کو اجازت دیں گئے کہ وہ ایک وڈیو کے ذریعے اس میں شرکت کرے۔ دوبارہ مسلمانوں نے اِس کو مرتدی کے باعث دھمکیاں دیں اور اِس فیسٹیول کے منتظمین کے خلاف اس کی وڈیو کے منسوخ کرنے پر زور دیا۔ ( ۱۳ )

جبکہ بائبل کو پچھلے ۲۰۰ سالوں سے ایک تنقیدی مضمون بنایا ہوا ہے ۔ مغربی مفکرین نے حال ہی میں اسلامی قرآن کی جانچ پڑتال شروع کی ہے ۔ موت کی سزا اُن کے خلاف نہیں ہے جو بائبل مقدس کے خلاف تنسیخی مقالے اور کتابیں لکھتے ہیں اِن میں وہ مُسلمان بھی شامل ہیں جن کے اعمال اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ پاک صحیفوں پر حقیقی طور پہ ایمان نہیں رکھتے ۔ جبکہ اِس کے بالکل متضاد مسلمان دنیا اُن تمام لوگوں کے لیے قتل کا حکم دیتی ہے جو قرآن کے تنقیدی تجزیئے یا محمد کی تاریخ بیان کرنے کی جرات کرتے ہیں ۔ محمد اپنی ساری تاریخ میں بطور جنگ اور قاتل کے شہزادے کے طور پہ جانا گیا جیسے کہ اُس کا باپ شیطان ہے ۔ جبکہ اِس کے برعکس یسوع مسیح کو بطور صُلح کے شہزادے کے نبیوں نے اُس کی پہلی آمد پر پیش کیا اور اِس بات کا ذکر یسعیاہ ۶ : ۹ آیت یسوع مسیح نے اُن سب کو برداشت کیا جہنوں نے اُسے ردکیا یا اُس کی باتوں پر شک کیا ۔ لیکن محمد نے ہر اُس کفن کو جِس نے اُس کے کاموں پر تنقید کی یا اُس کی نبوت کے دعوے پر اُس کو قتل کروا دیا ۔ محمد کا فلسفہ اپنی فطرت میں واضح طور پہ مخالف ِ مسیح کا فلسفہ تھا اور اُس کے کام اور اُصول شیطان کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے جو کہ جھوٹوں کا باپ نفرت پھیلانے والا اور قاتل اور جدائیاں ڈالنے والا اور وہ یسوع کی محبت اور معافی کے خلاف تھا۔

یسوع مسیح نے ایسے کام کرنے والے لوگوں کے بارے میں بیان کیا ہے کہ یہ شیطان کے بچوں کے کام ہیں تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو وہ شروع ہی سے خونی ہے اور سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے ۔ ( یوحنا ۴۴ : ۸ )

محمد نے اُن تمام کو ذبح کروا دیا جہنوں نے اُس کے دعوے پر شک کیا مزید برآں اُس نے اصلی بائبل کے صحیفوں میں تضاد پیدا کیا اور اُنھیں بدل دیا جو کہ پہلے ہی سے موجود تھے۔

 

 

 

 

 

 

باب پندرہ

غلامی کا جہاد

محمد ( نسلی غلام تاجر ؟ )

حیرت انگیز طور پر امریکہ کے ہزاروں سیاہ فارم لوئیس فرقان کی ‘‘ اسلامی قوم ’’ کو سیاہ فارم تسلیم کرتے ہیں اور اُنھوں نے سیاہ امریکی آدمیوں کے لیے سفید فارم نسلی لوگوں کے لیے جنگ جاری رکھی ہے جس میں یہودی بھی شامل ہیں۔ فرقان نے دھوکے کے ساتھ اِس بات کو یقینی بنایا ہے کہ افریقی معاشرے کو اپنی جنگ لڑنی ہے وہ جو اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ فرقان کی نسل کے خاص حصے کی پیروی کریں تو اُن کو ضرور اُس کی تنظیم کی غلط باتوں کی وفاداری کرنی ہے۔

مندرجہ ذیل پیرائے اس بات کا ثبوت ہے کہ تاریخی طور پہ یہ حقیقت موجود ہے کہ بنیادی طور پہ اسلام کا مذہب سیاہ فارم افریقیوں کی نسل سے تھا۔ بہت سارے افریقی سیاہ فارم جنگ جو اسلامی گروپ اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی ایمان اور محمد کی تعلیمات ضابط حیات ہے۔ بہت ساروں نے اپنے ہی طور پہ اسلام کے عقائد کو خلاف معمول شامل کر لیا ہے ۔ انھوں نے انسانی شکل میں خُدا کے بیٹے کے عقیدے کی تنسیخ کی ہے اور سمجھتے ہیں کہ اُن کا رہنما اسلامی سیاہ فارم ہے جبکہ بہت سارے مسلمان اِس کو سچے اسلامی عقیدے نہیں سمجھتے ۔

محمد ایک سفید آدمی تھا

امریکہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں ایک عقیدہ گردش کر رہا ہے کہ محمد ایک سیاہ آدمی تھا اِس مفروضے کو کوئی تاریخی پذیرائی نہیں ملی ۔ حڈیث اِس کے لیے واضح گواہی پیش کرتی ہے کہ محمد ایک سفید آدمی تھا ۔ ایک حدیث واضح طور پہ محمد کی جسمانی ظاہریت کو پیش کرتی ہے :

ہم نبی کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ، جب ایک آدمی اُونٹ پر سوار ہو کر آیا اُس نے مسجد کے سامنے اپنے اوُنٹ کو بٹھایا اُس کی ٹانگیں باندھی اور کہا : تمہارے درمیان محمد کون ہے ؟ اُس وقت میں نبی ہمارے درمیان اپنے بازوؤں کے بل جُھکے ہوئے تھے ۔ ہم نے جواب دیا کہ یہ اپنے بازؤں کے بل کمر ٹِکا کر بیٹھنے والا سفید آدمی محمد ہے ۔ ( ۱ ) مزید ایک حدیثی شہادت بیان کرتی ہے : ۱ ‘‘ اور ایک سفید آدمی ( یعنی نبی ) جس نے بارش کے لیے دُعا کی درخواست کی ۔۔۔۔ ’’ ( ۲ ) ۲۔ اُس نے اپنے رانوں کو ننگا کیا ‘‘ اور ہم نے اُس کی ران کی سفیدی کو دیکھا۔ ’’ ( ۳ ) ۳۔ ‘‘ جب نبی نے دُعا کی ، اُس نے اپنے بازؤں کو پھیلایا اور ہمہ نے اُس کے بازوؤں کی سفیدی دیکھی ۔ ’’ ( ۴ ) ۴۔ ‘‘ نبی الہ احزاب کی لڑائی کے دن ہمارے ساتھ زمین کو اُٹھا رہے تھے اور ہم نے دیکھا کہ اُن کے پیٹ کی سفیدی پر مٹی تھی ۔ ’’ ( ۵ ) اِن واضح شہادتوں سے اِس بات کے لیے کوئی شک کی کہ محمد ایک سفید آدمی تھا۔

محمد نے سیاہ غلاموں کو لیا

حدیث تاریخی طور پہ اِس بات کا ریکارڈ بیان کرتی ہے کہ محمد نے ذاتی طور پہ سیاہ غلاموں کو خریدا ، ‘‘ پس میں اُوپر والے کمرے میں گیا جہاں نبی تھے اور اُس نے اپنے سیاہ غلاپ سے کہا کیا تم عمر کو اندر لاؤ گئے ’’ ؟ ( ۶ )

نبی کی سوانح عمری میں اُس کے بہت سارے سیاہ فارم غلاموں جیسے کہ بلال ، ابو ہریرہ ، اُسامہ ابن زید اور رابہ شامل تھا اُن کا ذکر ملتا ہے اِن میں سے ایک افریقی مرد غلام تھا جِس کا نام مہران تھا اِس کا دوبارہ نام سفینہ رکھا گیا اور یہ نام محمد نے رکھا ۔ ایک نا معلوم مصنف نے اپنی کتاب پردے کے پیچھے : بے نقاب  اسلام میں اِس غلام مہران یعنی سفینہ کے بارے میں لِکھا : ‘‘ خُدا کے رُسول اور اُس کے ساتھی ایک سفر پر گئے اور جب اُن کا سامان اُٹھانے کے لیے بہت زیادہ بھاری ہو گیا تو محمد نے مجھے کہا کہ اپنا کپڑا پھیلاؤ اُنھوں نے اِس کو سامان سے بھر دیا پھر اُنھوں نے اس کو مجھ پر رکھ دیا خُدا کے رُسول نے مجھے بتایا اِسے اُٹھاؤ کیونکہ تم ایک جہاز ہو یہاں تک کہ مجھے چھ یا سات گدوں کے سامان کے ساتھ لاد دیا جب ہم اُس سفر پر جا رہے تھے جو کوئی اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا وہ اپنے کپڑے ، اپنا بکتر یا اپنی تلوار مجھ پر پھینک دیتا اور میں اُسے اُٹھا لیتا۔ نبی نے مجھے بتایا کہ تم ایک جہاز ہو ۔ ’’ ( ابن قائم ، پی پی ، صفحہ ۳۶۹، احمد سے بیان کیا گیا ۔ ۵ : ۲۲۲ ) ۔ ( ۷ )

محمد کے سیاہ فارم لوگوں کے لیے مذمتی بیانات محمد نے بار بار ایتھوپیا کے لوگوں کے لیے بے دین لوگوں کے طور پہ بیان دیئے۔ ( ۸ ) ایک دفعہ اُنھوں نے ایک خواب میں ایک سیاہ فارم عورت کو دیکھا اور اُسے برائی کی نمائندہ اور آنے والی وبائی مرض سے تعبیر کیا۔ ( ۹ ) دوسری رویتوں میں اُنھوں نے کہا کہ سیاہ فارم لوگ چپٹی ناک والے غلام ہیں۔ ایک اور بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ محمد افریقی سیاہ فارم لوگوں سے کہرایت کھاتا تھا ۔ اُس کی نسلی عداوت جو کٹرپن کی حد تک تھی وہ سیاہ فارم مشترک قومیت کی تحقیر کرتی تھی۔

اسلامی غلامی کی تاریخ

محمد نے بہت سارے لوگوں مردوزن کو غلام ببنایا اور مسلمانوں نے اُس کی مثال کی پیروی کی اور ظالمانہ حد تک چودہ سو سالوں تک غلاموں کی تجارت کی اور یہ اسلامی غلاموں کی تجارت آج بھی جاری ہے ۔ تاریخی شواہد کی دستاویز موجود ہیں کہ عرب والوں نے سیاہ فارم غلاموں کو بیچنا ایک ادازے کے مطابق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ۶۵۰ ء سے لیکر ۱۹۰۰ء تک عرب والوں نے ۴ ۔ ۱۴ ملین سیاہ فارم غلاموں کو افریقہ سے چوری کیا۔( ۱۰ ) انسانی حقوق کی تذلیل کرتے ہوئے پوری دنیا میں براہ راست ۲ یا زیادہ چیزوں کے تعلق کے ساتھ اسلامی لوگوں نے غلاموں کو بیچا اور اِن لوگوں کا عقیدہ نیئے عہدنامے کی تعلیمات کے متضاد ہے ۔ جب مسلمان پہلی دفعہ شمالی افریقہ گئے تو اُنھوں نے لوگوں کو ایک چناؤ دیا کہ ی تو مسلمان ہو جاؤ یا پھر غلام بن جاؤ۔ مسلمانوں اور اہل یورپ کے درمیان تجارت غلاموں کی تجارت کی اسلامی مشق سے روک دی گئی۔ افریقہ سے بہت سے بڑے قبائل نے خود کو مسلمانوں کے ساتھ صف باندھ لی تاکہ دشمن قبیلوں کو قیدی بنا لیں۔ پس افریقیوں نے ایک دوسرے کو ، مسلمان غلاموں کے تاجروں کے ساتھ ، غلام بنا دیا ۔ اسلامی یو پوری غلاموں کی تجارت سے پہلے ، افریقہ میں سخت غلامی کی رسم تھی انکے اپنے ہی لوگوں کے درمیان حدود کی فتح اور طاقت کے لیے۔ جنسی غلامی میں بہت پہلے دوسری اقوام کے ساتھ ملوث تھے ۔ انہوں نے اُن کو فتح کر لیا ، لیکن مسلمانوں نے عالمی منڈی کی سستے مزدور کے لیے لالچی بھوک کو پُر کرنے کے لیے یہ کام بہت بڑھایا۔ آج اسلامی برسراقتدار ممالک میں ، بلا تخفیف، بڑی سطح پر غلاموں کی تجارت جاری ہے ۔ حبشیوں کی تجارت سفید فارموں کی تجارت ایشیائی لوگوں کی تجارت ، دوسرے مشرک گروہوں کی تجارت اور حتیٰ کے بچوں کی تجارت جاری ہے ۔ ان میں سے اکثر بچوں کو دولتمند گاہکوں کے لیے بطور جنسی کھولنے استعمال کیا جاتا ہے۔ سوڈان میں ، عرب ؟غلام تاجر ابھی تک خاندانوں اور دوستوں کو ڈنکا  غلاموں کی خریدوفروخت ہوتی ہے ۔ ان غلاموں میں زیادہ تر کو مشرقِ وسطیٰ کی دولتمند اقوام کو ترسیل کیا جاتا ہے تاکہ طاقتور تیل کے تاجر شیخوں کی خدمت کی جائے۔

حال ہی میں تاجروں کے بہت مال کا اندازہ ہزاروں میں دس ہے ۔ نئے پکڑے جانے والے غلاموں میں سے کُچھ نے بچ نکلنے کی کوشش کی اور اکثر اس کے نتیجہ میں قتل ہو گئے ۔

اکثر عورتوں اور جوان  لڑکیوں کے ساتھ بے رحمی نے زبردستی زنا کیا گیا اور غیر طبعی جنسی کام کیے گئے۔ قرآن نے کسی بھی لڑکی کے ساتھ مباشرت کرنے کی اجازت دی ہے۔ ( کسی بھی عمر کی ) جس کو وہ ملکیت رکھتا ہو، ‘‘ تمام شادی شدہ عورتوں کو منع کیا گیا اُن کو بچاؤ ( قیدیوں ) کو جو تمہاری ملکیتی ہیں ۔ ’’ ( قرآن ۴ : ۲۴ ) ۔ اسلام میں کسی غلام کو کوئی قانونی حق نہیں ہے مرد یا عورت سے ظالمانہ سلوک کیا گیا اور صرف مادی جائداد تصور کرو ۔ ابنِ ورق نے ایک حیران کن اطلاع پیش کی :

فرانسیسی میگزین میں ایل وی ( نمبر ۲۵۶۲ ، ۶ اکتوبر ۱۹۹۴ء ) ۴۵۰۰۰ جوان افریقی حبشی ہر سال ابھی تک اغواہ ہوتے ہیں اور غلامی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے ۔ بطور خلیجی ریاستوں کے اور مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کے نوکر ۔ ( ۱۱ ) ان میں سے کئی غلام جنوبی سوڈان سے حاصل کیے جاتے ہیں ۔ سوڈان کی اسلامی حکومت مالی طور پر اور اکثر عسکری طور پر ، جنوبی سوڈان کے کالے مسیحیوں کو زنا بالجبیر اور مغلوب کرنے کے لیے مدد کرتی ہے۔

۱۹۹۲ ء کے موسم گرما کے دوران، میرے افریقہ کے تیسرے مشنری دوسرے پر میں نے ان رویوں کے ثبوت گواہی دی ۔ میں نیروبی کلیسیاء کے ایک نشیبی گاؤں میں ایک طرف کھڑا تھا اور ایک اچھی بولی بولنے والا ادھیڑ عمر شخص میرے قریب آیا۔ اُس نے مجھ سے سگریٹ مانگی لیکن میں نے کہا میں ایک مشنری ہوں برونڈی جانے والا ہوں اور سگریٹ نوشی نہیں کرتا ۔ اس نے اُس اپنی حالیہ داستانِ غم مجھے سنانا شروع کی ۔ مجھے حیران کرنے کے لیے اس نے سوڈان سے نیروبی تک چلنے کا مطالبہ کیا اور تنزانیہ میں ملیشیاء ٹریننگ کیمپ میں خواہش اور شرکت کے لیے منصوبہ بندی کر رہا تھا ۔ اس کے منصوبے تھے کہ وہ خُود کو ضروری تربیت سے اور ہتھیاروں سے مسلح کرے اور آخر کار واپس آئے اور اپنے وطن جنوبی سوڈان میں مزاحمتی تحریک سے لڑے۔

اس کا خاندان اور دوست احباب شمالی سوڈان سے مسلمان افواج کی طرف قتل کر دیے گئے تھے ۔ اُس نے اپنے ٹخنے دکھانے کے لیے اپنی پلیٹ اوپر کی جو بہت زیادہ فاصلہ طے کرنے کی وجہ سے جو اس نے پہلے کیا تھا جو سورج کہ سو فٹ بال سے زیادہ بڑے ہو گئے تھے ، شاید کوئی ۶۰۰ ۔ ۹۰۰ میل کا فاصلہ ۔ اس سے میں لا جواب ہو گیا چونکہ ذرائع نے اِن واقعات کے بارے کم بتایا تھا ۔ میں نے اُسے کُچھ ڈالر دے اور کہا کہ تمہارا سفر مبارک ہو ۔ یہ کوئی عشرے کے بعد کی بات نہیں ، ڈارفر کے مسئلہ کے دوران یہ کہ ذرائع اور مشہور شخصیات نے اسلامی مجرموں اور گروہوں کے وحشیانہ  شرمناک کاموں کی نشاندہی کرنا شروع کر دیا ۔ بہترین قائم شدہ ایجنسیوں نے تخمینہ لگایا کہ ۳۰۰۰۰۰ سے ۴۵۰۰۰۰ مارے گئے اور ۲ ملین سے زیادہ بے گھر ہوئے ۔ مجموعی طور پر ان شکار ہونے والے سوڈانیوں کی بڑی تعداد کو بطور غلام اسیر کر لیا اور اکثر سے زنا بالجبیر کیا گیا ۔

غلاموں کے عرب تاجروں کی طرف سے حبشیوں کو مغلوب کرنے کی یہ صرف چند مثالیں ہیں ۔ اسلام انسانی حقوق کے لحاظ سے اخلاقیات کو نہیں بڑھاتا ۔ جنسی غلط استعمال ، غلامی اور نسل پرستی کا اسلامی عمل نے بڑی اچھی تحریری شہادت دی ہے ؛ یہ تعصب کا عدم برداشت اور جنگ کا دان رہ جاتا ہے بے شک معقول وجہ دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ اسلامی نظام کی پیروی کرتا ہے وجہ یہ ہے کہ تاریخی علم اور آگاہی کی کمی ہے اس تحریری شہادت میں معاملات کو کھولا گیا ہے ۔

مسیحیت غلامی کی مذمت کرتا ہے

مسیحیت کے ابتدائی رسول رومی سلطنت کے طاقتور دور میں رہتے تھے ۔ وہاں غلامی ایک معیار تھا ۔ ابتدائی مسیحی مصنفین سرکاری ملازم نہ تھے اور غلامی کے متعلق موجود رومی قوانین کو ختم نہ کر سکے ، لیکن انہوں نے ایسے کاموں کی کھلم کھلا مخالفت کی کہ یہ ایک بُرائی ہے ۔ پولس رسول نے مسیحیوں کو اس مکروہ منڈی میں کسی قسم کی شرکت سے بچنے کی ہدایت کی ۔ فلیمون کے اپنے مسیحی خط کی سولہویں آیت میں اس نے کہا کہ بھاگے ہوئے غلام انیسمس کو واپس آنے دے اور عزت سے پیش آنا ، ‘‘ اب سے غلام کی طرح نہیں بلکہ غلام سے بہتر ہو کر پیارے بھائی کی طرح ’’۔ متن میں نوکر کی اصطلاح کا مطلب ہے ‘‘ غلام ’’ یونانی میں کوئنے۔ نئے عہدنامے میں غلاموں کی تجارت کو ایک سنجیدہ گناہ خیال کیا جاتا ہے۔ بائبل نے اس جرم کو دوسروں میں شمار کیا ہے :

 بے آئین اور فرمان لوگوں کے لیے ، غیر ایمانداروں اور گناہگاروں کے لیے ، ناپاک اور خُدا کی چیزوں کی بے حرمتی کرنے والوں ، ماؤں کو قاتلوں کے لیے ، بندے اغوا کرنیوالوں کیلئے زناکاروں کے لیے، انکے لیے جو خود کو انسانیت کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہیں ، جھوٹی قسم کھانے والوں کے لیے اور اگر کوئی دوسری چیز یہاں ہے جو مضبوط تعلیم کے خلاف ہے ۔ ( ۱۔ تمتھیس ۱ : ۹ ۔ ۱۰ ) اصلی یونانی زبان اغواکاروں کو پیش کرتی ہے یعنی یونانی لفظ ( انتراپوڈ سٹیاس ) یعنی اغوا کار ’’، غلاموں کا ایک تاجر ، اغواء کرنے والا ایک وہ آدمی جو بے انصافی سے انسانوں کو غلامی میں مفت لے لیتا ہے ، یا وہ جو دوسروں کے غلاموں کو چُرا لیتا ہے اور فروخت کر دیتا ہے ۔ ’’ کوئی بھی بندہ جس نے غلاموں کی تجارت میں یا کاروبار میں حصہ لیا ہو یا غلاموں کا مالک ہو کر نئے عہدنامے کی تعلیمات کی خلاف ورزی کی ہے ۔

حتیٰ کہ مسیحیوں میں غلامی کی بُری ریت متحدہ ریاستوں میں خونی سولِ جنگ کا نتیجہ بنی یہ گناہ ایک ہی ایمان رکھنے والے بھائیو اور بہنو میں بڑی خونریزی لایا ۔

کلامِ پاک کی تعلیمات کی نافرمانی آخر کار یہواہ کی عدالت لاتی ہے ۔ تاہم ، محمد نے بھی ، اپنے طریقہ دہائے زندگی کی حمایت میں اصلی بائبلی نوشتوں کی مخالفت کی ۔ اکثر اس نے موسیٰ کو بطور ایک عظیم رہنما کا دعویٰ کیا جس نے اپنے لوگوں کو مصری اسیری سے باہر لانے کیلئے رہنمائی کی ؛ پھر بھی ، ریاکارانہ طور پر اس نے ذاتی طور پر ( محمد نے ) ، غلاموں کی تجارت میں بطور مالک اور اُکسانے والا دونوں میں اپنی مصروفیت کا اظہار کیا ۔

واضح طور پر ، محمد بائبل کے اصول اور نئے عہد نامے میں بیان کردہ اعتقاد کے مطابق نبی نہ تھا ۔ آخر کار محمد اور اُسکے ساتھیوں نے یہودی الہام کی نافرمانی کی وجہ سے اور چاند دیوتا اللہ کی پیروی کی وجہ سے آخری عدالت کا سامنا کیا۔

سبق نمبر سولہ

مخالفِ مسیح کا جہاد ( مہدی )

بائبلی نبوتی نوشتوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ، ایک یروشلِم مرکزی گفتگو شنید کو کام میں لانا ضروری ہے۔ اکثر نبوتی نوشتے یروشلِم ، اسرائیل اور اردگرد کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایک دفعہ یہ مضبوط تفسیری پہنچ نبوت کو زیادہ سمجھنے کے لیے توجہ دیتی ہے۔

اسلامی مہدی کی تعریف سُنی اور شعیہ اسلام کی شاخیں اپنے آنے والے مسیحائی رہنما مہدی کا انتظار کرتے ہیں سُنی مسلمان اس کی طرف اشارہ کرتے یں کہ ‘‘ وہ ایک درست رہنمائی کرنے والا اور جس کا انتظار ہوتا ہے ایک ہے ۔ ’’ اور شعیہ مسلمان اُسے صاحب الزمان کا لقب دیتے ہوئے مانتے ہیں، ‘‘ زمانے کا آقا ’’۔ بائبلی نوشتے اس شخصیت کو بطور شیطان جانتے ہیں جو ‘‘ زمانے کا مالک ’’ کی طرح کہلاتا ہے۔ مسلمانوں کا مسیح مسیحیوں کا مخالفِ مسیح ہے۔ ویلڈ شعبت ، گاڈزوارآنٹیرر: اسلام، پروفیسی اینڈ دی بائبل رائٹس:

 اسلامی روایت کے مطابق، مہدی صرف بطور ایک غیر واضح مذہبی رہنما ظاہر نہیں ہوتا؛ وہ خلافت کی حکومت کو بحال کرنے کے لیے پھر آئیگا۔ اسلام اس کے پیروکاروں کو ہدایت کرتا ہے : اگر تم اُسے دیکھو ، جا کر اس کی اطاعت کرو، حتیٰ کہ اگر تمہیں برف پر رینگنا ہڑے، کیوننکہ وہ اللہ کا نائب ( خلیفہ ) مہدی ہے ۔‘‘ کیونکہ وہ راہ صاف کرے گا اور حکومت قائم کرے گا ، محمد کے خاندان ( کمیونٹی ) کی ۔۔۔ ہر ایماندار اسے سہارا دینے کے لیے اسکی اطاعت کرے گا ۔ ’’ ( ۱ )

خلیفہ پارسائی کے طور پر مذہبی معاملات میں پوپ جیسا ہے۔ تاہم ، خلیفہ بھی اسلامی دنیا کی حکومت ( خلافت ) کے ایک سردار حکمران کے طور پر حکومت کرتا ہے ، اسلامی شریعت میں مطلق اختیار کے ساتھ ۔ شُعبت آنیوالی خلافت ایک درست خلاصہ دیتا ہے :

لیکن ۱۹۲۴ ء سے ‘‘ الہیٰ حکومت ’’ کی تقریباً چودہ صدیوں کے بعد خلیفہ کی حکومت آخر کار موقوف ہوگئی۔ آج پوری مُسلم دُنیا میں خلافت کو بحال کرنے کے لیے قوت کے ساتھ آتشفشاں پھٹنے والا ہے۔ مہدی اور خلیفہ کی دونوں نشستوں کے لیے اختیار کے ساتھ ایک ہی شیز ہے، محمد نے کہا، ‘‘ میری اُمت کے آخری زمانے میں ایک خلیفہ ہو گا ۔ ۔ ۔ وہ امام مہدی ہو گا ۔ ’’ دوسرے الفاظ میں ، یہ آخری خلیفہ ، جب اپنے عہدہ پر بیٹھے گا ، آخری زمانوں کا مہدی ہو گا۔ ( ۲ )

تمام مسلمانوں کو آنے والے مہدی کے لیے تعظیم اور مکمل اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ایک اعتدال پسند مسلمان کی زبردست فرضی داستان بذاتِ خود بطور ایک مکمل طور پر ظاہر ہو گی ایک دفعہ مہدی حکم قبول کرتا ہے ۔ آج مسلمانوں کی ایک تھوڑی تعداد پر تشدد بنیاد پرست ہے؛ لیکن جب مہدی ظاہر ہوتا ہے تو اعتدال پسندوں کو قبول کرنے اور اس کی اطاعت کے لیے مجبور کیا جائیگا ۔ آخری دنوں میں مسلمانوں کی اکثریت، جہادی ذہن کی اکثریت بن جائیگی اور نافرمان آزاد خیال مسلمان فوراً قتل کر دیے جائیں گے ۔ آنے والے مہدی پر ایمان لانے کے لیے عالمی ضرورت کو مسلم ورلڈ لیگ کی طرف سے ۱۹۷۶ء میں اسے ایک فتویٰ قرار دیا گیا ۔ بےشمار احادیث آنے والے مہدی کی تصدیق کا بیان کرتی ہیں اور تمام مسلمانوں کے لیے ایمان لانے کے لیے بطور لازمی حوالہ دیا گیا ۔ ( ۳ )

۲۰۰۵ ء میں کئی اقوام کو مہدی کی پرستش کا قبل از وقت منظر دکھایا گیا جب انہوں نے ایرانی صدر محمود احمدی نثاد کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے نیویارک میں خطاب کرتے سُنا شُعبت لکھتا ہے :

احمد نثاد نے اصلی طور پر دعا کی ، اے قادرِمطلق مالک ، میں تم سے دعا کرتا ہوں کہ جلدی سے اپنے آخری راز کو آشکارا کہ ، جس کا تو نے وعدہ کیا ، جو کامل اور خالص انسانیت ہے وہ شخص جو اس دنیا کو انصاف اور امن سے بھر دے گا۔ ’’ مہدی جسکا اس طرح حوالہ دیا گیا ہے کامل انسانیت جو تمام انبیاء اور نیک آدمیوں کا والی ہے ۔ ’’ مہدی سارے نبیوں کا والی ہے؟ اسلام کے مطابق، محمد آخری نبی ہے اور کامل انسان ہے ۔ جو احمد نثاد جو کہہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ مہدی محمد کا دوبارہ تجسم ضروری ہے ۔ ۔ ۔ ابن خطیر اسلام کا مشہور عالم نے آٹھویں صدی میں بیان کیا کہ ، ‘‘ اس وقت کے اظہار اور اضافے کی تھوڑی نشانیوں کے بعد ، انسان ایک عظیم اذیت کے مرحلے میں پہنچ چُکا ہو گا۔ پھر آنیوالا مہدی ظاہر ہو گا ؛ وہ اُس زمانے کی نشانیوں میں سے پہلی واضح تر نشانی ہو گی۔ ’’ ( ۴ )

ہو سکتا ہے کہ کوئی حیران ہو اگر کوئی ایسا جیسے احمدی نثاد عالمی طور پر آتشزدگی کی تحریک دینے کا خواہاں تاکہ زیادہ سے زیادہ مصیبت آئے اور اُن کے آنے والے من پسند مہدی کے آنے کی رفتار بڑھے۔

مہدی اور مخالفِ مسیح ایک جیسے ہیں

اسلامی مہدی اور مخالفِ مسیح کے درمیان بہت ساری باتیں ایک جیسی ہیں۔ اسلام اپنی روح میں مخالفِ مسیح ہے اور سب سے بڑے کامل گستاخ شیطان کا ہم خیال ہے تمام تر ضروری عقائد جو مسیحیت کے اندر نجات کے لیے ہے اسلامی عقیدے اُن کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اسلام مکمل طور پر مسیحیت کے خلاف ہے اور اُس کا مواد مسیحیت کا مخالف مواد ہے یہاں تک کہ سیاہ و سفید میں مسیح یسوع اور مہدی جو کہ مخالفِ مسیح ہے اُن کے خطبات میں بھی تضاد ہے یسوع مسیح خُدا کا بیٹا ہے جب کہ مخالفِ مسیح بربادی کا فرزند ہے ( تباہی کا قہر کا بدکاری کا یعنی شیطان کا ) ( ۲۔ تھسلنیکیوں ۸ ۔ ۳ : ۲ ) ، یسوع مسیح کو سچائی کہا گیا جبکہ مخالفِ مسیح ( شیطان ) کو جھوٹوں کا باپ کہا گیا ( یوحنا ۴۴ : ۸ ) یسوع کو پاک کہا گیا جبکہ مخالفِ مسیح کو ہلاکت کا فرزند کہا گیا ۔ ( ۲ ۔ تھسلینیکوں ۳ : ۲ ) یسوع مسیح کا نام خوفں خُدا کا مکاشفہ جب کہ مخالفِ مسیح کا خُطاب روکنے والی تاثیر ہے۔ ( ۲۔ تھسلنیکیوں ۷ : ۲ ؛ مکاشفہ ۵ : ۱۷ ) ۔( ۵ )

تثلیث اور مسیح کے بیٹے ہونے کا انکار

اسلام خُدا کے ثالوث ہونے کی فطرت کا انکار کرتا ہے ۔ ‘‘ بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خُداؤں میں تیسرا ہے ۔ ’’ ( قرآن ۷۳ : ۵ ) اسی طرح اسلام خاص طور پہ بہت ساری سُورتوں میں خُدا کے بیٹے ہونے کی مخالفت کرتا ہے :

‘‘ ۔ ۔ ۔ اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے جو باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں اگلے کافروں سے بات بناتے ہیں اللہ اُنھیں مارے کہاں اُوندھے جاتا ہے ۔ ’’ ( قرآن ۳۰ : ۹ ) ‘‘ وہ کہتے ہیں رحمان نے اولاد اختیار کی بے شک تُم حد کی بھاری بات لائے فریب ہے کہ آسمان اِس سے پھٹ پڑے اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گِر جائیں ڈح کر اُس پر کہ اُنھوں نے رحمان کے لیے اولاد بتائی اور رحمان کے لیے لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے۔ ’’ ( قرآن ۹۲ ۔ ۸۸ : ۱۹ ) ؛ بے شک کافر ہوئے وہ جہنوں نے کہا کہ اللہ مسیح بن مریم یہی ہے ۔ ’’ ( قرآن ۱۷ : ۵ ) بائبل واضح طور پہ بیان کرتی ہے ، ‘‘ کہ وہ جھوٹا ہے جو یسوع کے مسیح ہونے کا انکار کرتا ہے وہ مخالفِ مسیح ہے جو باپ اور بیٹے کا انکار کرتا ہے جو کوئی بیٹے کا انکار کرتا ہو وہ باپ کا بھی انکار کرتا ہے لیکن جو بیٹے کا اقرار کرتا ہے اُس کے اندر باپ بھی ہے ۔ ’’ ( ۱۔ یوحنا ۲۳ ۔ ۲۲ : ۲ ) اِسی طرح ، ‘‘ خُدا کے روح کو تم اِس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی روح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہو کر آیا ہے وہ خُدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی روح یسوع کا انکار نہ کرے وہ خُدا کی طرف سے نہیں اور یہی مخالفِ مسیح کی روح ہے ۔ ۔ ۔ ’’ ( ۱ ۔ یوحنا ۳ ۔ ۲ : ۴ ) دوبارہ اسلام مخالفِ مسیح ہونے کے کردار سے بھرا ہوا ہے جب وہ خُدا کے بیٹے کے مجسم ہونے اور خُدائے ثالوث کا انکار کرتا ۔

مصلوبیت اور جی اُٹھنے کا انکا ر

 مسیح کے خلاف اسلام کی گستاخ جاری رہتی ہے اور وہ مسیح کے مُصلوب ہونے اور زندہ ہونے کی گواہی کا بھی انکار کرتی ہے :

‘‘ اور اِن کے اِس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رُسول کو شہید کیا اور ہے یہ کہ اُنھوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ اِسے سُولی دی بلکہ اِن کے لیے ان کی شبیہ کا ایک بنا دیا گیا اور جو اِس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اُس کی طرف سے شبے میں پڑے ہوئے ہیں اِنھیں اِس کی کُچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور بے شک اُنوں نے اِس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے اُسے اپنی طرف اُٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ ( قرآن ۱۸۸ ۔ ۱۵۷ : ۴ )

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام مسلمان اس پیرائے پر متفق نہیں ہو سکتے ۔ درحقیقت وہ تمام پریشان ہیں اور اُن کے پاس کوئی خاص علم نہیں ہے اور اِن مسلمانوں میں سے ایک اکثریت اس تشریح پر ایمان رکھتی ہے کہ یسوع ابھی بھی بدن میں زندہ ہے اور امام مہدی کے آنے کے بعد ظاہر ہو گا ۔ اسلامی علم و آخرت کے مطابق یسوع امام مہدی کا اُمتی ہو گا ۔ ایک دفعہ پھر اسلام اس بات پر ایک دوسرے کا مخالف ہے جبکہ بائبل فرماتی ہے کہ مخالفِ مسیح ( مہدی کو مسیح خُداوند شکست دے گئے اور اُسے آگ کی جھیل میں ڈالیں گئے ۔ ( مکاشفہ ۲۰ : ۱۹ )

ایک دوسرا فرقہ اس بات پہ ایمان رکھتا ہے کہ مسیح اب حقیقی بدن میں نہیں ہے بلکہ صرف صلیب پر مرا ہوا ظاہر ہوا ۔ خیر ان دونوں میں سے کوئی بھی تشریح کیوں نہ ہو مسلمان اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مسیح صلیب پر موا۔ مسلمان تبصرہ کرنے والے اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ خُون کی قُربانی کے عقیدے کی الیات سے مِلتا جُلتا ہے اور مُسلمان گناہوں کے کفارے کو بھی رد کرتے ہیں۔ اِس طرح سے اسلام یہودیوں اور مسیحیت میں نجات کے ضروری تصور کو بھی رد کرتا ہے ۔

یوحنا رُسول نے لکھا ہے ‘‘ کیونکہ بہت سے ایسے گمراہ کرنے والے دنیا میں نِکل کھڑے ہوئے ہیں جو یسوع مسیح کے مجسم ہو کر آنے کا اقرار نہیں کرتے ۔ گمراہ کرنے والا اور مخالفِ مسیح یہی ہے۔ ’’ ( ۲ ۔ یوحنا ۷ : ۱ ) دوبارہ اسلام اِس عقیدے کا انکار کرتا ہے کہ مسیح بیٹے کی صورت میں مجسم ہو کر آیا ۔ مخالفں مسیح کو ایک ‘‘ دھوکہ دینے والا ’’ بھی کہا گیا ہے اور اِس کا کردار بالکل مہدی کے ساتھ ملتا ہے اللہ کو اصل عربی زبان میں مُکارا بھی کہا گیا ہے ۔ ( یعنی بہت بڑا دھوکہ دینے وال ) اِسی طرح سے مہدی بھی شیطان کے قبضے میں ہے اور وہ بھی پوری دنیا کو دھوکہ دے گا کہ اُسے سجدہ کریں۔

اسلامی عقیدہ بار بار یہواہ پاک خُدا کے خلاف گُستاخی کرتا ہے اور مستقبل میں بائبل کی نبوت کے مطابق مخالفں مسیح ( مہدی ) بھی یہی کُچھ کرے گا :

‘‘ اور بڑے بول بولنے اور کفر بکنے کے لیے اُسے ایک منہ دیا گیا اور اُسے بیالیس مہینے تک کام کرنے کا اختیار دیا گیا اور اُس نے خُدا کی نسبت کفر بکنے کے لیے منہ کھولا کہ اُس کے نام اور اُس کے خیمے یعنی آسمان کے رہنے والوں کی نسبت کفر بکے اور اُسے یہ اختیار دیا گیا کہ مقدسوں سے لڑے اور اُن پر غالب آئے اور اُسے ہر قبیلے اور اُمت اور اہل زبان اور رقوم پر اختیار دیا گیا ۔ ’’ ( مکاشفہ ۷ ۔ ۵ : ۱۳ )

مقررہ وقتوں اور قوانین میں تبدیلی کی کوشش

دانیل نبی کے مطابق مخالفِ مسیح ‘‘ اور وہ حق تعالیٰ کے خلاف باتیں کرے گا اور حق تعالیٰ کے مقدسوں کو تنگ کرے گا اور مقررہ اوقات اور شریعت کو بدلنے کی کوشش کرے گا ۔ ’’ ( دانیل ۲۵ : ۷ )

 اسلامی کیلنڈر کی بنیاد محمد کی زندگی پر ہے اور چاند کے گھومنے پر جِس کی تمام مسلمان پیروی کرتے ہیں ، مزید برآں شریعت کا قانون بھی مذہبی قانونی نظام کے مطابق اسلامی معاشروں کے شہریوں پر لاگو کیا جاتا ہے ۔ ایک دفعہ مخالفِ مسیح کی دنیا بھر میں خلافت کا کنٹرول ہو گیا تو وہ تمام تر آئنی قوانین کو شریعت کے قوانین میں بولنے کی اور اسلامی کیلنڈر کو ایک ادارہ بنانے کی کوشش کرے گا ۔

خواتین کے حقوق کا انکار

مہدی اور مخالفِ مسیح دنیا میں نئی خلافت کے دور میں دونوں خواتین کے حقوق کا انکار کرتے ہیں ۔ ‘‘ وہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کی پرواہ نہ کرے گا اور نہ عورتوں کی مرغوبہ کو اور نہ کِسی اور معبود کو مانے گا ۔ ’’ ( دانیل ۳۷ : ۱۱ ) کُچھ نبوتوں کا تجزیہ کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ مخالفِ مسیح ہم جنس پرست ہو گا ۔ عبرانی کے اصل متن میں یہ بات بہت واضح ہے کہ وہ عورتوں کی خواہش کی عزت نہیں کرے گا ۔ خلافت کے تحت شریعت کا قانون نافذ ہو گا اور خواتین کے حقوق پامال کیے جائیں گئے۔

جنگ کے خُداؤں کی عزت کی جائے گی

آخری دنوں میں مخالفِ مسیح مکمل طور پہ شیطان کے قبضے میں ہو گا اور مہدی کو اللہ کنٹرول کرے گا اللہ کے ۹۹ خطبات میں سے ایک ‘‘ المومیت ’’ ہے جس کا لفظی ترجمہ ‘‘ ایک ایسا شخص جو موت کی طاقت کے قبضے میں ہے ، موت کا سبب بننے والا ہے ، زندگی لینے والا یا اُسے برباد کرنے والا ’’

بائبل کا یہ سارا بیان شیطان کے ساتھ مُلتا جُلتا ہے ، چور نہیں آتا مگر چرانے اور مار ڈالنے اور ہلاک کرنے کو ۔ ۔ ۔ ’’ ( یوحنا ۱۰ : ۱۰ ) مکاشفہ ۱۱ : ۹ میں شیطان کا ایک نام ابدون ہے ( یعنی برباد کرنے والا ) اور یونانی میں اُپلیون ہے ، بائبل کے بہت سارے دوسرے حوالے بھی شیطان کو موت کا لانے والا اور برباد کرنے والے کے طور پہ آئے ہیں ۔

مہدی کے لیے ہیگز نے بیان کیا ہے :

صحیح بخاری کی رویات کے مطابق محمد کے بارے میں یہ کہا گیا اور المہدی بھیجا جائے گا جو اماموں کی مہر ہے وہ تمام مذاہب کو فتح کرے گا ۔ وہ قلعہ بنائے گا اور لوگوں کو برباد کرے گا اور بتوں کے تمام قبیلوں کو گرائے گا اور خُدا کے شہیدوں کی اموات کا انتقام لے گا۔ ( ۶ )

  یہ بیان دوبارہ مخالفِ مسیح کے ساتھ مِلتا جُلتا ہے یہ ساری خلافت کی سلطنت کی رہنمائی کرے گا ۔ اُس نے کہا کہ چوتھا حیوان دُنیا کی چوتھی سلطنت ہے جو تمام سلطنتوں سے مختلف ہے اور تمام زمین کو نِگل جائے گی اور اُسے لتاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرے گی۔ ’’ ( دانیل ۲۳ : ۷ ) ؛ ‘‘ اور اِس حیوان کی مانند کون ہے۔؟ کون اِس سے لڑ سکتا ہے؟ ’’ ( مکاشفہ ۴ : ۱۳ ) شُعبت مہدی کی قوت کے بارے میں مسلمانوں کے تصور کو پیش کرتا ہے:

یہاں تک کہ بہت سارے جدید اور بین المذاہب تصور رکھنے والے مُسلمان مفکرین بھی اِس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ مہدی فوجی حکومت کے ساتھ دُنیا میں حکمرانی کرنے آ رہا ہے ۔ ہارون یحییٰ جو کہ ایک جدید دور کا دعویٰ کرنے والا اور وسیع خیال مسلمان مصنف ہے اُس نے ویب سائٹ پر ایک سوال کے جواب میں کہا۔ ‘‘ مہدی مشرق اور مغرب کے درمیان تمام جگہوں پر حکومت کرے گا ۔’’ اِس طرح یحییٰ مہدی کی خوبیوں کا بھی ذکر کرتا ہے جو کہ تمام دنیا پر قبضے کے حوالے سے ہے : ‘‘ کوئی بھی مہدی کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا اور وہ تمام دنیا پر حکمرانی کرے گا۔’’ ( ۷ )

مسلمان مفکرین اِس بات پر یقین کرت ہیں کہ مہدی دنیا کے قوموں کے خلاف بہت سارے جہادوں میں رہنمائی کرے گا اور وہ اسلام کے لیے دنیا بھر میں راج کرے گا جس طرح سے پانویں باب میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ جغرافیائیہ طور پر گناہ کے تمام دیوتاؤں کے برابر ہے اور عُلمکا ( یعنی سائبین دیوتا ) یہ دونوں جنگ کے دیوتاؤں کے طور پہ جانے جاتے ہیں ۔ اپنی کتاب مون تہیم میں جوئیل ناتن لکھتا ہے:

مرد چاند دیوتاؤں میں مشرقِ وسطیٰ میں ہلال چاند کی شکل شمشیر کی سی ہے جو اِس بات کو ظاہر کرتی  کہ چاند دیوتا قُدرتی طور پر جنگجو دیوتا ہے اور اِس حقیقت کی پہچان گلِگیمش کرواتا ہے ۔ گلِگیمش اپنے گناہ کے لیے ایک کلہاڑے اور ایک تلوار کو جو کہ رات کے وقت تنے ہوئے شیروں جو کہ رات کو گشت کرتے ہیں اُن کو مارنے میں اپنی اہلیت بتاتا ہے ۔ ( ۸ )

اللہ ایک جنگ کا دیوتا ہے اور بہت سارے اسلامی جھنڈے اور اُس کی چہرہکشی کے نمائندے تلواروں کے نشان کے طور پہ اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔

دانیل نبی ایک پیرائے میں مخالف مسیح اور اِس کے مذہبی عقائد کی اہمیت کو بیان کرتا ہے :

‘‘ وہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کی پرواہ نہ کرے گا اور نہ عورتوں کی مرغوبہ کو اور نہ کسی اور معبودوں کو مانے گا بلکہ اپنے آپ ہی کو سب سے بالا جانے گا اور اپنے مکان پر معبود حصار کی تظیم کرے گا اور جِس معبود کو اُس کے باپ دادا نہ جانتے تھے سونا اور چاندی اور قیمتی پتھر اور نفیس ہدیے دیکر اُس کی تظیم کرے گا وہ بیگانہ معبود کی مدد سے محکم قلعوں پر حملہ کرے گا جو اُس کو قبول کریں گئے اُن کو بڑی عزت بخشے گا اور بہتوں پر حاکم بنائے گا اور رشوت میں ملک کو تقسیم کرے گا۔ ’’ ( دانیل ۳۷ : ۱۱ )

اصلی عبرانی زبان میں ، ۳۷ آیت میں جو لفظ ‘‘ معبود ’’ کے لیے استعمال ہوا ہے اُس کا ترجمہ جمع کی صورت میں یعنی ‘‘ معبودوں ’’ میں ہونا چاہیے تھا ۔

(۹ )کیا یہ محمد کی طرف سے اسلام کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا؟ اُس کے ٓباؤاجداد نے کعبہ کے مزار میں ۳۶۰ معبودوں کی پوجا کی اور اُس نے تمام بتوں کو توڑ دیا لیکن جمرہ اسود کو جو کہ اللہ کی نمائندگی کرتا تھا اُس کو پوجا ۔ تاہم محمد بہت سارے نئے مختلف عقائد کے درمیان ہم آہنگی کے مذاہب اور بدعتی عقائد جو کہ اللہ کی پوجا کے ساتھ ملتے تھے۔

اُن کے ساتھ جُڑا رہا۔ جلد ہی مادہ پرستوں کا اللہ ریاکار چاند دیوتا میں بدل گیا اور اُس کی خصوصیات ، خوبیوں اور ایمان میں اضافہ ہوا۔ محمد کا نیا مذہب اسلام اِس کو وحدانیت کا نام دیا گیا یہاں تک کہ وہ خُود اپنے ہی قبیلے کے لوگوں اہل قریش کے خلاف ہو گیا اور اُن میں سے بہتوں کو ذبح کیا اِس طرح سے محمد نے اپنے آباؤاجداد کے دیوتاؤں کی نہ تو مزید پیروی کی اور نہ ہی اُن کی عزت کی اگر مخالفِ مسیح مہدی آنے والے دور میں اسی پس منظر سے آتا ہے تو یہ بات اُس کے لیے پوری آنی ہے اور اسلام کے لیے بھی مخالفِ مسیح اپنے ہی دیوتا کو عزت دے گا ۔

دوسرے لفظوں میں وہ جنگ کے دیوتا کو عزت دے گا ( یعنی چاند دیوتا اللہ کو ) اور بڑے بڑے مضبوط قلعوں پر حملہ کرے گا ۔ ( یعنی دوسری بڑی بڑی فوجی قوتوں پر ) مخالفِ مسیح شیطان کے قبضے میں ہو گا ، ‘‘ وہ کِسی دیوتا کو عزت نہیں دے گا : کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو سب سے بڑا بنائے گا ۔ ’’ ( دانیل ۳۷ : ۱۱ ) شیطان ایک بہت بڑا باغی تھا اور اِسی سبب سے اُس نے اپنے آپ کو خُدا سے بھی بڑا ہونے کے لیے پیش کیا اور ایک طور پہ اُس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ صرف اُسی کی پرستش ہو ۔ مخالفِ مسیح مہدی صرف شیطان کی پیروی کرے گا جِس نے اُس پر مکمل طور پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ صرف جنگ کے دیوتا کی عزت کرے گا اور دنیا پر اُس کے اختیار اور فتح کے لیے اُس سے درخواست کرے گا ۔ ‘‘ اے غیب بتانے والے نبی کافروں پر اور منافقوں پر جہاد کرو اور اُن پر سختی فرماؤ اور اِن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور کیا ہی بُرا انجام ۔۔۔۔ ’’ ( قرآن ۹ : ۶۶ )

‘‘ اور اگر اُن سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فساد باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کا ہو جائے پھر اگر وہ بعض رہیں تو اللہ اُن کے کام دیکھ رہا ہے اور اگر وہ پھریں تو جان لو کہ اللہ تمہارا مولا ہے تو کیا ہی اچھا مولا اور کیا ہی اچھا مددگار اور جان لو کہ جو کُچھ غنیمت لو تو اُس کا پانچواں حصہ اللہ اور رُسول اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے ۔ ’’ ( قرآن ۴۱ ۔ ۳۹ : ۸ )

شیطان بطور ہلال نئے چاند کے طور پہ پیش کیا گیا ہے قضاہ کی کتاب میں جدعون نے مدیان کی فوجوں کے خلاف اسرائیل کا دفاع کیا اُن میں سے کُچھ نسلاً اسماعیلی تھے۔ ‘‘ جدعون سارے زیورات یہاں تک کہ جو اُونٹوں کی گردن میں بھی تھے لے گیا۔ ( قضاہ ۲۱ : ۸ ) اصلی عبرانی ترجمے کے مطابق یہ زیورات چاند یا الہلال کے معنی رکھتے ہیں۔ عبرانی رسم الخط کے مطابق اور جو اس کی زبان کی جڑ ہے ۔( ۱۰  ) ہو سکتا ہے کہ یہ زیورات جو اُونٹوں کے گلوں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے وہ ہلال چاند کی طرح کے ہیں ( قضاہ ۲۶ : ۸ ) یہ لوگ چاند دیاتا کی پوجا کرتے تھے جس کے سبب سے اُنھوں نے اپنے جانوروں کے گلے میں اِس قسم کے زیورات پہنائے ۔ زباندانی کی قربت میں اِن کا ترجمہ ہلال چاند ہی بنتا ہے قضاہ ۲۱ : ۸ میں اگر ہم اِس کو ایک لفظ کے ساتھ جوڑے تو اِس کا ترجمہ شہار کیا گیا ہے اور بعد میں یسعیاہ ۱۲ : ۱۴ میں بھی ہے اِسی طرح پرانے تصور کے مطابق لفظ سِن کے لیے شِن استعمال ہوتا تھا ۔ اِسی سبب سے چاند دیوتا کے لیے بھی پہلے لفظ ڈاؤن استعمال ہوتا تھا اور یہ اصل متن میں ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں ۔ یسعیاہ بابلیوں کے بادشاہ سے خطاب کرتا ہے۔ ( یہ بھی شیطان کی ایک قسم ہے اور آنے والے مخالفِ مسیح مہدی کی صورت بھی ) :

‘‘ اے صُبح کے روشن ستارے تو کیونکرآسمان سے گِر پڑا اے قوموں کو پست کرنے والے تو کیونکر زمین پر ٹپکا گیا تو تو اپنے دل میں کہتا تھا میں آسمان پر چڑھ جاؤں گا ۔

میں اپنے تخت کو خُدا کے ستاروں سے بھی اُونچا کروں گااور میں شمالی اطراف میں جماعت کے پہاڑ پر بیٹھوں گا میں بادلوں سے بھی اوپر چڑھ جاؤں گا میں خُدا تعالیٰ کی مانند ہونگا لیکن تو پاتال میں گڑھے کی تہہ میں اُتارا جائے گا اور جن کی خطر تجھ پر پڑے گی تجھے غور سے دیکھ کر کہے گئے کیا یہ وہی شخص ہے جِس نے زمین کو لرزایا اور مملکتوں کو ہلا دیا ۔ ’’ ( یسعیاہ ۱۶ ۔ ۱۲ : ۱۴ )

غور کیجیے شیطان اور مخالفِ مسیح پہلے بھی ٹھیک ایک طرح سے بیان کیے گئے ہیں ، ‘‘ وہ اپنے آپ کو سب سے بالا جانے گا۔’’ ( دانیل ۳۷ : ۱۱ ) مزید برآں قرآن اصل میں حکم دیتا ہے کہ مسلمان شیطان کی پوجا کریں ، ‘‘ کہو میں صبح کے خُدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ ’’ ( قرآن ۱ : ۱۱۳ )

سے کہری شرٹس لکھتا ہے :

 مزید برآں شیطان اور ہلال چاند کے درمیان کافی مماثلت ہے ویب سائٹ

www.backyardprofessor.com

گلیزن ایل آرچر نے اپنی کتاب ‘‘ انسائیکلوپیڈیا آف بائبل ڈیفیکلٹیز ’’ جو کہ ذونڈوارن پریس سے ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی اُس میں لکھا کہ عبرانی زبان میں ‘‘ ہیلل ’’ کا ترجمہ یونانی زبان کے ‘‘ ہیوس فورس ’’ میں کیا ہے لیکن اِس کاحقیقی مطلب ‘‘ صبح لانے والا اور صبح کے ستارے ’’ کی طرف کیا گیا ہے وہ مزید اِس کی واضح وجہ بیان کرتا ہے جو کہ ابتدائی قریبی مشرقی زبانوں میں سمجھا جاتا ہے اِس کے مطابق لفظ سیریاک پشتہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قریب ترین ہیلل سے مِلتا جُلتا ہے اِس کو ‘‘ آلل ’’ بھی کہتے ہیں ایک ممکنہ طور پر عربی نسل اِس کو ‘‘ ہیللن ’’ کہتی ہے جس کا مطلب ہے ‘‘ نیا چاند ’’ اگر اِس کی جڑیں عبرانی کے ہلال سے ملتی ہیں ( یعنی عربی کے ہالہ سے ) تو اِس کا مطلب ہے ‘‘ آب و تاب سے چمکنا ’’ ( عقائدین نسل میں ‘‘ ایلو ’’ ایک اِسم صفت ہے جس کا مطلب ‘‘ چمکنا ’’ ہے ) ، اِس طرح سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ‘‘ ہیلل ’’ کا مطلب ‘‘ چمکنے والا ’’ ہے ( صفحہ نمبر ۲۶۸ ) وہ مزید بیان کرتا ہے کہ لوسیفر کو طنزاً ‘‘ شہار ’’ بھی کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے ‘‘ ایک چمکنے والا ’’ ( صفحہ نمبر ۲۶۹ ) ۔ ( ۱۱ )

عربی زبان عبرانی زبان کے قریب ترین زبان ہے اور اکثر ابتدائی لفظوں کے مطلب کی صیحح اصلی جڑ کو دیکھنے کے لیے مفید ہے ۔ عربی نسل کا لفظ ہیلن کا ترجمہ نیا چاند ہے جس کا مطلب ہے کہ یہواہ ابلیس کی عدالت کا مذاق اُڑاتا ہے ۔ یہواہ ابلیس کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ وہ ایک چمکتا ہوا صبح کا سُتارا تھا جو اپنی روشنی کھو بیٹھا اور آخرکار وہ بُجھ جائے گا ۔ دوسرے اِس پیرائے کو وینس کے ستارے کے مساوی بھی سمجھتے ہیں جس کی جڑیں اسلام سے پہلے عرب کے کاموں سے تھی جن کا تزکرہ پچھلے ابواب میں ہوا ہے ۔ اسلامی جھنڈے میں ہلال چاند اور ستارے کی تصویروں کی شبیہ نظر آتی ہے۔

جن ( بد روحیں ) قرآن سے پیار کرتی ہیں

جن جو کہ بدروحوں کے مساوی ہیں اِسی طرح کی اور روحیں یا شیطان قرآن کی سورتوں میں ہے اور اِس کا تعلق اسلام سے پہلے کی اصل سے ہے ۔ اِنھوں نے اسلام کے راستے کی پیروی کی اور قرآن کی تعریف کی ۔

‘‘ تم فرماؤ مجھے وحی ہوئی کہ کُچھ جنوں نے میرا پڑھنا کان لگا کر سُنا تو بولے ہم نے ایک عجیب قرآن سُنا کہ بھلائی کی راہ بتاتا ہے تو ہم اُس پر ایمان لائے اور ہم ہر گز کِسی کو اپنے رب کا شریک نہیں کریں گئے ۔۔۔ اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت سُنی اِس پر ایمان لائے تو جو اپنے رب پر ایمان لائے اُسے نہ کِسی کا خوف اور نہ زیادتی کا ، ہم نے تسلیم کیا ۔ ۔ ۔ ’’ ( قرآن ۱۳ ، ۲ ۔ ۱ : ۷۲ )

کیوں کوئی مسلمان ایسے خُدا کی پوجا کرے گا جس کی بدروحیں بھی پوجا کرتی ہیں ؟ کیا کِسی کو سمجھنا نہیں چاہیے کہ یہ اِسی بات کی علامت ہے ؟ کیا یہ کِسی کے لیے ٹھیک ہے کہ وہ اُسی شیطانی چاند دیوتا اللہ کے آگے جُھکے جِس کی پوجا بدروحیں بھی کرتی ہیں۔

قتل کرنے کی بڑے پیمانے پر مشق

ایک بہت بڑی نظریں جما کر دیکھنے والی مشاہبت جو مخالفِ مسیح اور مہدی کے درمیان ہے وہ ہے مارنے کا طریقہ کار ‘‘ پھر میں نے تخت دیکھے اور لوگ اُن پر بیٹھ گئے اور عدالت اُنکے سُپرد کی گئی اور اُنکی روحوں کو بھی دیکھا جنکے سر یسوع کی گواہی دینے اور خُدا کے کلام کے سبب سے کاٹے گئے تھے اور جہنوں نے نہ اُس حیوان کی پرستش کی تھی نہ اُس کے بُت کی اور نہ اُسکی چھاپ اپنے ماتھے اور ہاتھوں پر لی تھی ۔ وہ زندہ ہو کر ہزار برس تک مسیح کے ساتھ بادشاہی کرتے رہے۔ ’’ ( مکاشفہ ۴ : ۲۰ )

مزید برآں مخالفِ مسیح کی سلطنت مندرجہ ذیل ایمان بھی رکھے گی : ‘‘ لوگ تم کو عبادتخانوں سے خارج کر دینگے بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ جو کوئی تم کو قتل کرے گا وہ گمان کریگا کہ میں خُدا کی خدمت کرتا ہوں۔ ’’ ( یوحنا ۲ : ۱۶ )

دوبارہ اسلام کی ساری تایخ نے ساتویں صدی سے متحدہ ہو کر قتل کرنے کی ایک بڑی مشق کی ہے ۔ محمد نے خود بھی ۶ سو اور ۹ سو یہودی آدمیوں کو جو کہ بنو قریزہ سے تھے قتل کرنے میں حصہ لیا اِس کے بعد جلد ہی اُس نے اور ۴ سو یہودیوں کو مارنے کا حکم دیا۔ ابن عشاق اِس واقعے کو بیان کرتے ہیں :

ابو عبیدہ نے مجھے ابوامر کی سربراہی میں مجھے بتایا کہ مدیان میں جب رُسول نے بنو قریزہ نے یہودیوں میں سے ۴ سو آدمیوں کو مار دیا جو کہ آس کے اتحاد میں سے خزراج کے خلاف تھے اُن کے لیے قتل کا حکم دیا گیا ۔ ( ۱۲ )

محمد نے مسلمانوں کے لیے پیروی کا ایک طریقہ کار قائم کیا، ‘‘ تمہارے پاس بلاشبہ اللہ کے رُسول بہترین نمونہ ہے ’’ قرآن ۲۱ : ۳۳ ) بے شک بعد میں آنے والی تمام خلیفوں کی نسلوں اور اسلامی رہنماؤں نے محمد کے سر قلم کرنے کے طریقہ کار کو جاری رکھا یہاں تک کہ ۱۹۸۰ء کے جدید دور میں افغان جہادی جنگجوؤں نے اندازاً ۳۰۰۰ سویت فوجوں کے سر قلم کیے۔ ( ۱۳ ) سعودی عربیہ کی حکومت نے اِس قانون کو جاری رکھا کہ سعودی عربیہ کی بادشاہت میں جادوگروں نشہ لینے والوں اور ہم جنس پرستوں وغیرہ کے سر قلم کیے جائیں گئے شُعبت اپنے تجزیے میں لکِھتا ہے : کسی  بھی دوسری حکومت نے اسلام کی طرح سر قلم کرنے کی مشق کو اختیار نہ کیا ۔ رومی حکومت نے بنیادی طریقہ کار میں غیر شہریوں کے قتل کے لیے صلیب دینے کا طریقہ اختیار کیا ۔ جبکہ کاتھولک کلیسیاء نے ڈبونے یا جلانے کا طریقہ اپنایا صرف اسلام نے ہی اس قتل کی تاریخی روایت کو لمبے عرصے کے لیے جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ اُن کے خاص احکامات جو اُن کی ‘‘ پاک کتاب ’’ میں ہے ۔ ‘‘ اُن کے سرتن سے جُدا کر دو ۔ ’’ ( قرآن ۴ : ۴۷ ) ۔ ( ۱۴ )

ہو سکتا ہے کہ کِسی کو القاعدہ کی تقسیم کی ہوئی وہ ویڈیوز یاد ہوں جن میں زندہ لوگوں کے سر کاٹے گئے ۔ ایک دفعہ اسلامی خلافت اگر سرکاری حکومت بن جاتی ہے اور مہدی اُس کا سربراہ ہوتا ہے تو پوری دنیا میں سر کاٹنے کا کام ہو گا اُن سب کے لیے جو اُس کے نشان کے سامنے جُھکنے سے انکار کریں گئے۔

پوری دنیا میں مخالفِ مسیح کی حکومت

بطور بائبل کی نبوتوں کے ریکارڈ میں جو مخالفِ مسیح کا مُستقبل میں خطابات ہونگگے وہ ساری دنیا میں بادشاہی کرے گا اُسے بابل ، اُسوریہ کا بادشاہ طائر

( لبنان ) کا شہزادہ اور مِصر کا فرعون کہا جائے گا ۔ جغرافیائی طور پہ یہ نبوت بڑی جامع ہو گی مسیح کے بارے میں نبوت ہوئی کہ وہ مِصر ، بیت الحم اور ناصرت سے آئے گا اور سچی نبوت کے مطابق یسوع بیت الحم سے آیا ۔ ہیرودیس کے زمانے میں مِصر کی طرف بھاگا اور ناصرت میں پلا بڑھا۔

دس قومی اسلامی سیاسی اتحاد

شُبت اُن قوموں کا ایک خلاصہ بیان کرتا ہے جو مخالفِ مسیح مہدی کنٹرول کرے گا ۔ یسعیاہ کی کتاب میں اِس کا زیادہ تر حتمی حصہ ملتا ہے کہ مسیحا اور مخالفِ مسیح کے درمیان جنگ ہوتی ہے ۔ تاہم جب ہم درحقیقت خاص قوموں کو جو اُس ‘‘ نبوتی حصے ’’ کی زد میں آتے ہیں یا اِس بات کا ‘‘ بوجھ ’’ رکھتے ہیں کہ وہ مسیح کے خلاف ہو تو وہ ساری مُسلم اقوام نظر آتی ہیں۔ اِن قوموں پر غور کیجیے اِن میں زیادہ تر جن پر زور دیا گیا ہے : بابلیوں۔ یسعیاہ ۱۳ باب ؛ اُسوریہ اور فلسطین یسعیاہ ۱۴ باب ؛ موآب ۔ یسعیاہ ۱۵ باب ؛ دمشق ۔ یسعیاہ ۱۷ باب کش ( سوڈان اور صومالی لینڈ ) ۔ یسعیاہ ۱۸ باب ؛ مصر ۔ یسعیاہ ۱۹ باب ؛ مصر اور کش ۔ یسعیاہ ۲۰ باب ؛ بابل ( عراق اور عرب ) اور ادوم ( عرب ) ۔ یسعیاہ ۲۱ باب ؛ طائر ( لبنان ) ۔ یسعیاہ ۲۳ باب ۔ ( ۱۵ )

یہ دس اسلامی ملکوں کا سارا اتحاد ہے ، ‘‘ اور وہ دس سینگ جو تو نے دیکھے دس بادشاہ ہیں ۔ ابھی تک اُنہوں نے بادشاہی نہیں پائی مگر اُس حیوان کے ساتھ گھڑی بھر کے واسطے بادشاہوں کا سا اختیار پائینگے۔ ’’ ( مکاشفہ ۱۲ : ۱۷ ) یہ دس حکمران حیوان کے ساتھ ایک اتحاد بنائے گئے شُعبت لکھتا :

۲۰۰۲ء میں خلافت کی دوبارہ تشکیل کا ایک منصوبہ ابوقنات الہ شریف الحیسنی جن کا تعلق گائیڈنگ ہیلپر فائنڈیشن سے تھا اُس نے لکھا اِس منصوبے کا نام ، ‘‘ خلافت کی واپسی کا منصوبہ’’۔ تھا ۔ اِس منصوبے کے مطابق ، دس لوگوں کی ایک کونسل کا ہونا ہے جو ‘‘ معاون خلیفے ’’ ہونگے اور یہ خلافت کی حکمرانی کی معاونت کریں گئے ۔ یہ معاونین یا اراکین کی کونسل آج کی حکومتوں کے بہت سارے وزراء کی طرح ہونگے ۔ ( ۱۶ )

دوسری اسلامی گروہ اور تحریکیں اِسی طرح کا نظریہ پیش کرتی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں تمام دنیا کی سلطنت کے لیے اِس مقصد کے لیے کام کر رہی ہیں اور پوری دنیا کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ اِن بادشاہتوں میں سے اُسوریہ پچھلے دِنوں میں کافی اُبھر کر سامنے آئی ، اسرائیل کی جنگ کے ساتھ لشکروں کے خُدا نے فرمایا۔ ‘‘ میں اپنے ہی ملک میں اُسوری کو شکست دونگا اور اپنے پہاڑوں پر اُسے پاؤں تلے لتاڑونگا۔ تب اُس کا جوا اُن پر سے اُتریگا اور اُس کا بوجھ اُنکے کندھوں پر سے ٹیلگا۔ ( یسعیاہ ۲۵ : ۱۴ )

سات سر

یوحنا رُسول نے آخری وقت کے حیوان یا بادشاہی کی گواہی دی ‘‘ پس وہ مجھے روح میں جنگل  کو لے گیا ۔ وہاں میں نے قرمزی رنگ کے حیوان پر جو کفر کے ناموں سے لِپاہوا تھا اور جِس کے سات سر اور دس سینگ تھے ایک عورت کو بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ ۔ ۔ یہی موقع ہے اُس ذہن کا جس میں حکمت ہے ۔ وہ ساتوں سر سات پہاڑ ہیں جن پر وہ عورت بیٹھی ہوئی ہے اور وہ سات بادشاہ بھی ہیں پانچ تو ہو چُکے ہیں اور ایک موجود ہے اور ایک ابھی آیا نہیں اور جب آئیگا تو کُچھ عرصہ تک اُس کا رہنا ضرور ہے اور جو حیوان پہلے تھا اور اب نہیں وہ آٹھواں ہے اور اُن ساتوں میں سے پیدا ہوا اور ہلاکت میں پڑے گا ۔ ’’ ( مکاشفہ ۱ ۔ ۹ ؛ ۳ : ۱۷ )

دُرست تفسیری مطالعہ میں ، لفظ پہاڑ کو ‘‘ بادشاہت ’’ میں ترجمہ کیا جانا چاہیے تھا ۔ جِس طرح کہ دوسرے نبوتی پیراؤں میں ہے دوبارہ شُعبت کے شاندار مشرقی وسطیٰ کے تجزیئے میں وہ اِ آیات کی ایک زبردست بیصرت دیتا ہے :

سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں اِس وقت جو کُچھ لِکھا گیا اِس کے مطابق پانچ حکومتیں پہلے گرائی جا چُکی ہیں جِس کہ جملے میں دیکھا گیا ‘‘ پانچ گرائی جا چُکی ہیں ’’ یہ حکومتیں ہیں :

۱ ۔ مصری شاہنشاہیت

۲۔ اُسوری شاہنشاہیت

۳۔ بابلی شاہنشاہیت

۴۔ فارسی شاہنشاہیت

۵ یونانی شاہنشاہیت

اِن پانچ کے بعد فرشتے نے یوحنا کو بتایا کہ ایک پہاڑ ( شاہنشاہت ) ‘‘ ہے ’’ اِس وقت میں یوحنا نے مکاشفہ کی کتاب میں لکھا کہ یہ رومی شاہنشاہت تھی اِس نے مشرقِ وسطیٰ ، شمالی افریقہ اور بہت سارے یورپ پر حکومت کی ۶ ۔ رومی شاہنشاہت ۔ ( ۱۷ )

  پس، ساتویں صیغہ راز میں ہے ۔ یوحنا رُسول کی زندگی کے دوران یہ ساتویں شاہنشاہت موجود نہ تھی ۔

آٹھویں آخری حکومت ساتویں حکومت کی تجدید کرے گی ہر کامیاب حکومت پہلی حکومت کو جذب کرے گی اور اپنے اختیار کو باہر کی طرف مزید وسع کرے گی ۔ یوحنا کے دور کی رومی حکومت زور آور تھی لیکن اُس پر اسلامی عثمانیہ کی شاہنشاہت کی خوبیوں کو پورا کیا اور یہی ساتویں شاہنشاہت ہے یہ اسلامی شاہنشاہت برباد ہو گی لیکن آخری دِنوں میں آٹھویں شاہنشاہت کے طور پر سُپر پاور ہو گی ۔ یہ تمام تر شاہنشاہتیں یروشلم کو مرکز بنا کر یروشلم پر قبضہ کریں گئیں ۔

ترکی بطور مخالفتِ مسیح کے ایک مضبوط سلطنت

کوئی بھی مسیح کے واپس آنے کے دن یا گھڑی کو نہیں جانتا لیکن وہ نشان گواہی ہونگے جو اِس موقعے پر ظاہر ہونگے ۔ بائبل کی نبوتیں جدید ترکی کی طرف بطور مخالفتِ مسیح کی ایک مضبوط حکومت ہونے کے اشارہ کرتی ہے اِس حوالے سے اِس حصے کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ ‘‘ اور میں نے اُس کے سروں میں سے ایک پر گویا زخم کاری لگا ہوا دیکھا مگر اُس کا زخم کاری اچھا ہو گیا اور ساری دنیا تعجب کرتی ہوئی اُس حیوان کے پیچھے پیچھے ہو لی۔ ’’ ( مکاشفہ ۳ : ۱۳ ) جِس طرح سے اِس ترھویں باب میں پینگوئی ہوئی ۔ ساتویں شاہنشاہت کا ہُڈ کوارٹر کونسٹنٹ ٹائمپل ہو گا ۔ ترکی ( مشرقی رومی سلطنت کا سابقہ دارلخلافہ تھا ) وہ زخمی ہوا جب ۱۹۲۴ء میں خلافت ختم ہوئی ۔ حزقی ایل کی نبوتوں میں سے ترکی اخیر زمانے ایک خاص بڑا کھلاڑی ہے جو کھڑا ہوتا ہے اور اسرائیل کے خلاف جنگ کرتا ہے ۔ حزقی ایل مخالفِ مسیح کو جُوج کے نام سے نبوت کرتا ہے :

‘‘ کہ اے آدمزاد جُوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مِسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اُس کے خلاف نبوت کر اور کہہ خُداوند خُدا یوں فرماتا   ہے کہ دیکھ اے جُوج روش اور مِسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالفِ ہوں ۔ ۔ ۔ اور اُن کے ساتھ فارس اور کُوش اور نوط جو سب کے سب سُپر بردار اور خُود پوش ہیں ۔ جُمرا اور اُسکا تمام لشکر اور شمال کی دُورا اطراف کے اہل تجرمہ اور اُنکا تمام لشکر یعنی بہت سے لوگ جو تیرے ساتھ ہیں ۔ ’’ ( حزقی ایل ۶ ۔ ۵ ؛ ۳ ۔ ۲ : ۳۸ )

اِن نبوت کی آٹھ جگہں میں سے پانچ خاص طور پر ترکی کے جدید بارڈرز پر واقع ہے اُن علاقوں میں موجوج ، مسک ، توبل ، گومر، جُمرا کے علاقے ہیں یہ اس علاقے کے ساتھ شامل ہیں اور جدید دور میں فارص ( جدید دنوں میں ایران ) ، کُوش ( سوڈان اور صومالیہ ) فوط ( مغربی مِصر ممکنہ طور پہ لیبیاء ، الجیریا ، تنسیہ اور مُری طانیہ ) یہ تمام تر علاقے اسلامی ہیں ۔ ( ۱۸ ) اِس نبوت میں بُہت ساری چیزیں عبرانی سے غلط ترجمہ ہوئی ہیں ‘‘ بڑے شہزادے ’’ کا ترجمہ بطور ‘‘ روش کے شہزادے ’’ کے کیا ہے ۔ یا ‘‘ بڑے ’’ کو بطور رُوش ترجمہ کیا گیا ہے ۔ زبندانی کے لحاظ سے یہ رُوش رس یا رشیہ کے مترادف ہے ۔ یہ عبرانی زبان سے تعلق نہیں رکھتا جیسے کہ براؤن ڈرائیور برگز اور دوسروں نے یہ کہا ہے لفظ رُوش یا بڑا یا سردار تمام تر بائبلی بیان میں ایک خاص مقام رکھتا ہے ۔ ( ۱۹ ) اِس لیے دُرست پڑھنے میں جُوج بطور ایک رہنما ( ‘‘ کا سردار ’’ یا ‘‘ کا بڑا سردار ’’ ) یہ تمام اسلامی علاقے ہیں۔

موجوج سنطیہ کے علاقے کے طور پر متعارف ہوا ہے جس نے ‘‘ ایشیاء ماوئنر ( ترکی ) ، اور بہت سارے مرکزی ایشیائی مملک ( ترکمانستان ، قانقستان ، تاجکستان ، ازبکستان وغیرہ وغیرہ ) ’’ یہ سارے کے سارے سابقہ سوویت یونین آف رشیہ کے حصے ہیں اور اب مُسلم ممالک میں بدل چُکے ہیں ۔

( ۲۰ )  یہ تمام علاقے سابقہ اُسوری سلطنت کے حصے تھے جس طرح کہ پہلے چار نبوتی علاقے مِسک ، توبل ، گومر اور جُمرا کی سلطنتیں جو کہ تمام جدید ترکی کی سرحدوں میں ہیں۔

پرگُمن کا مذبح بطور شیطان کا ایک تخت

  مکاشفہ کی کتاب میں سات کلیسیاؤں کے لیے یسوع مسیح کا پیغام ایشیاء مائنر کے لیے تھا ( جدید ترکی ) :

 ‘‘ اور پر گُمن کی کلیسیاء کے فرشتہ کو یہ لکھ کہ جس کے پاس دو دھاری تیز تلوار ہے وہ فرماتا ہے کہ میں یہ تو جانتا ہوں کہ تو شیطان کی تخت گاہ میں سکونت رکھتا ہے اور میرے نام پر قائم رہتا ہے اور جن دِنوں میں میرا وفادار شہید انتپاس تم میں اُس جگہ قتل ہوا تھا جہاں شیطان رہتا ہے اُن دِنوں میں بھی تو نے مجھ پر ایمان رکھنے سے انکار نہیں کیا ۔ ’’ ( مکاشفہ ۱۳ ۔ ۱۲ : ۲ )

ابتدائی پرگُمن پیگن لوگوں کی پرستش کا مرکز سمجھا جاتا تھا ۔ جو ایشیاء مائنر یعنی ترکی میں تھا اور اِس کو بطور تمام تر ماضی کی سلطنتوں میں ایک وسیع دیوتاؤں کے مقام کے طور پہ جانا جاتا تھا  ۔ اس کے جنوب کے حصے میں زیس دیوتا کا ایک بُہت بڑا مذبحہ تھا اور یہ   مذبحہ گھوڑے کے جُوتے کی شکل میں تعمیر کیا گیا تھا اور اِس کے پہلو ۶۴ ۔ ۳۵ میٹر کُھلے اور ۴ ۔ ۳۳ میٹر گہرے تھے اِس مندر کی نیچے والی جگہ بہت سرد تھی جِس کو جیسجینٹ میسی کا نام دیا گیا تھا اِس جگہ پہ جنوں اور دیوتاؤں کے درمیان لڑائی ہوتی تھی اِس کا خدوخال جرمن کے جٖغرافیائی دانوں نے بنایا تھا اور اِسے برلن جرمنی میں لائے تھے

پہلا پرگُمن عجائب گھر ۱۹۰۱ ء میں کھولا گیا تاہم یہ آخر کار ڈھانچے کے طور پہ ان فٹ ثابت ہوا اور آخر کار اسے ۱۹۳۰ ء میں ایک بڑے عجائب گھر کی شکل میں بدل دیا گیا ۔ ۱۹۳۴ ء سے ۱۹۳۷ء کے درمیان نازی پارٹی کے بڑے معمار ایلبرٹ سوئیر نے پرگُمن کا ایک مذبحہ زی پیلن ٹرائیل کے لیے بنایا جو کہ نیوریم برگ ریلیوں کے لیے شاندار جگہ تھی ۔ اس مذبحہ کے درمیان میں کانسی کا ایک بیل بنایا گیا جو انسانی قُربانیوں کے لیے تھا اِس بیل کو ہٹا کر اُس کی جگہ ہٹلر کا پلپٹ بنا دیا گیا ۔

 اِس بیل کی اُس کے مظلوموں کے لیے ایک لمبی خوفناک تاریخ ہے ۔ مسیحی بشپ اینٹی پاس کو یوحنا رُسول کے مکاشفے کے مطابق اس قربان گاہ پر قتل کر دیا گیا اینٹی پاس نے بُہت ساری بدروحیں اس شہر سے نکالی جِس کی وجہ سے پیگن دیوتاؤں کی پوجا میں خلل پڑا اور اُنھوں نے رومی گورنر سے اِس مسئلے کی شکایت کی جب اینٹی پاس نے رومی شہنشاہ کے بُت کو بطور ‘‘ آقا ’’ اور ‘‘ دیوتا ’’ قربانی چڑھانے سے انکار کر دیا تو اُس کو موت کی سزا دی گئی ۔ پیگن روایت کے مطابق اِس بیل کی قربانی میں دروازہ کھولنے کا حصہ بھی شامل تھا جس میں بیل کے لیے دروازہ کھولا جاتا اور انسانی قربانی کو بیل کے سر پر ادا کیا جاتا اور اُس کا جسم انسانی جسم کے ساتھ ہوتا آگ اُس کانسی کے بُت کے نیچے جلائی جاتی جس میں اُس زندہ مظلوم شخص کو آہستہ آہستہ بُھونا جاتا ۔ بیل کا سر ایک پائپ کے ساتھ فٹ کیا گیا تھا اِس لیے جب ایک مظلوم کو دُکھ دیا جاتا اور وہ درد کے ساتھ چلاتا تو بیل زندہ ہو جاتے ۔ ( ۲۱ )

اور اِسی قربان گاہ کے مرکز سے ہٹلر نے اپنی مافوق الفطرت قوت کا دعویٰ کیا اور پیغام سُنائے اور دُنیا کی فتح کے لیے لوگوں کی ریلی نکالی۔ لفظ ہولوکاسٹ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ۔‘‘ جانور کی قُربانی کا مکمل طور پہ جلایا جانا ۔ ’’ چھ میلین یہودی ہٹلر کے بڑے احکام کی وجہ سے اِس طریقہ سے قُربان کیے گئے ۔ یہ مناظر نیوریم برگ کے اجتماعات میں ٹارچ لائٹ کے ساتھ ہوئے ۔ جس میں ہٹلر کو بطور ایک دیوتا پیش کیا گیا ۔ اس کے حوالے سے ایک مشہور فلم بھی بنائی گئی جس کا نام ‘‘ ارادے کی فتح ’’ تھا ۔ یہ فلم مشہور جرمنی کے اداکار لینی ریفنستھل نے ڈیریکٹ کی ۔ ہٹلر نے بڑے محتاط ہو کر اس کے ہر سین کی اجازت دی اور یہ جرمنی میں ۱۲ سال تک دکھائی جاتی رہی ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب پر گُمن کا مذبحہ روسیوں نے ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل قوم پیدا ہوئی لے لیا تو یہ مذبح ۱۹۵۸ ء میں واپس آیا۔

۲۰۰۶ ء میں ترکی نے پرگُمن کا مذبح جرمنی سے واپس لانے کی کوشش کی لیکن اُنھوں نے انکار کر دیا ۔ ترکی کی حکومت نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اِس مذبحے کو اِس کے اصلی مقام پر دوبارہ تعمیر کیا جائے ۔ بائبل کے صحیفے اور چرچ کی تاریخ کے گواہوں نے اِس حقیقت کو تصدیق کیا کہ شیطان اور اُس کی شیطانی طاقتیوں نے قوموں ، شہروں ، عمارتوں ، جانوروں، لوگوں اور یہاں تک کہ وقتوں کو بھی اپنے قابو میں کیا ۔ ایشیاء مائنر ترکی پر بھی سالوں تک شیطان کا قبضہ رہا اور یہ قبضہ اسلام کی سلطنت کے ساتھ تھا ۔ دارلخلافہ جو کہ پرانے وقتوں میں پیگن شہر تھا ، اُس وقت میں پرگُمن جغرافیائی طور پہ مشرقی رومی سلطنت کے دارلخلافہ ( کونسٹنٹ ٹائمپل ) کے نزدیک تھا جو کہ اب استنبول ہے جو کہ اسلامی عثمانی سلطنت کا دارلخلافہ ہے اور جلد ہی یہ مخالفِ مسیح اور پیگنوں کے چاند دیوتا اللہ کے تحت آجائے  گا ۔

ترکی میں اسلامی اور فوجی رُجحان

دانیل کی کتاب میں مخالفِ مسیح کی ایک نبوت بیان کرتی ہے :

‘‘ اور اُنکی سلطنت کے آخری ایام میں جب خطاکار لوگ حد تک پہنچ جائینگے تو ایک ترش رو اور رمز شناس بادشاہ برپا ہو گا ۔ یہ بڑا زبردست ہو گا لیکن اپنی قوت سے نہیں اور عجیب طرح سے برباد کریگا اور برومند ہو گا اور کام کریگا اور زورآوروں اور مقدس لوگوں کو ہلاک کریگا اور اپنی چترائی سے ایسے کام کتیگا کہ اُسکی فطرت کے منصوبے اُس کے ہاتھ میں خوب انجام پائینگے اور دل میں بڑا گھمنڈ کریگا اور صُلح کے وقت میں بہتروں کو ہلاک کریگا ۔ وہ بادشاہوں کے بادشاہ سے بھی مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو گا لیکن بےہاتھ ہلائے ہی شکست کھائیگا اور یہ صبح و شام کی رویا جو بیان ہوئی یقینی ہے ۔لیکن تو اِس رویا کو بند کر رکھ کیونکہ اِس کا علاقہ بُہت دور کے ایام سے ہے ۔ ’’ ( دانیل ۲۶ ۔ ۲۳ : ۸ )

‘‘ اور وہ ایک ہفتہ کے لیے بہتوں سے عہد قائم کریگا اور نصف ہفتہ میں ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کریگا اور ِٖیصلوں پر اُجاڑنے والی مکروہات رکھی جائینگی یہاں تک کہ بربادی کمال کو پہنچ جائینگی اور وہ بلا جو مقرر کی گئی ہے اُس اُجاڑنے والے پر واقع ہو گی ( دانیل ۲۷ : ۹ )

مخالف مسیح تعلق قائم کرنے کا اور فریب دینے کا ماسٹر ہو گا وہ اسرائیل اور دوسری قوموں کے ساتھ سات سال کے لیے ایک عہد باندھے گا اور درمیان میں اِسے توڑ دے گا ۔ محمد اور اللہ کا نام نہاد مکاشفہ اس جُھوٹے امن کے محاہدے کو قائم کرے گا اور اسلام کی ترقی کے لیے مزید کام کرے گا ۔ محمد نے دس سال میں حدیبہ میں عہد کو توڑا جیسے ‘‘ صلح حدیبہ ’’ کہتے ہیں اور اُس کے پیروکار ساری تاریخ میں اِس جُھوٹے فریبی امن کی پیروی کی مثال ہیں ۔

ترکی وزیراعظم ریسِپ طیئی اپ ایرڈگن اور صدر عبدالہ ( لفظی طور پر جس کا ترجمہ ‘‘ بدروح اللہ کا نوکر ’’ ) نے ترکی میں بطور ایک رہنما کے پوزیشن اختیار کی جِس نے مشرقی وسطیٰ امن کے لیے کوشش کرنی تھی ۔ ترکی نے بہت سارے امن کے محادوں کے درمیانی کے طور پر اپنا کردار ادا کیا تاہم یہ بات قابلِ غور ہے کہ ای یو کی رُکنیت حاصل کرنا اور مغرب کی مخالفت کرنا اُن کی خواہشیں تھیں ۔ اسی اثناء میں اسلامی بنیاد پرست پس پردہ شدید یہودی مخالفت اور مسیحی مخالفت کا جزبہ پورے ترکی میں پھیلا رہے تھے ۔ اِس بات کو ایک دھچکا نہیں لگنا چاہیے کہ اِن لوگوں نے اسلامی دارلخلافہ سے یہودیوں اور مسیحیوں کی ایک لمبے عرصہ کے لیے مخالفت کی ۔ ترکی حکومت نے مسلسل کِسی بھی رسمی پہچان کا ارمینیاء کے مسیحیوں کے قتل کے لیے انکار کیا ۔ جیسے کہ اُنھوں نے یہودیوں کے مذبح پر ذبح ہونے کا انکار کیا ۔ ۲۰۰۷ ء میں ایرڈگن نے گورنمنٹ ادارہ کی پالیسی میں ایک نیا قانون جاری کیا جِس میں ۱۹۱۵ ء کے واقعے کے لیے نام نہاد امن کو ارمینیاء میں قتل ہونے والے مسیحیوں کے نام کے ساتھ جُوڑا گیا ۔ یہ واضح طور پہ ۱۹۱۵ء میں ارمینیاء میں ہونے والے قتل کے خلاف ایک یک جہتی کی کوشش تھی ۔ ۲۰۱۲ ء میں فرانس نے ارمینیاء کے قاتلوں سرکاری طور پرسزا دینے کی بات کی جِس کے لیے تُرکی نے اِس کے تاریخی حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اِسی اثناء میں ترکی نے شریعت کے قانون جِس میں ۱۴۰۰ فیصد عورتوں کے مرنے کی شرح تھی اور بہت سوں کو اِسی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ اُس کی سلائیڈیں جاری کیں۔

بُہت ساری مثالیں اِس بات کی بھی ملتی ہیں کہ جدید ترکی میں مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے بُہت زیادہ مذہبی تُصب پایا جاتا ہے ۔ ۲۰۰۶ء میں ترکی فلم ‘‘ ایراق : بھیڑیوں کی وادی ’’ نے ترکی میں زش کا ریکارڈ قائم کیا۔ اور اِسی طرح جرمنی کے مہاجر طبقوں کو بھی جو تترکی میں آباد تھے ۔ ایک فلم ‘‘ ہُڈ انسیڈنٹ ’’ ان ایراق بھی شامل ہے جس میں ترکیوں نے خاص فوجی دستے دکھائے جن کو امریکی فوجوں نے پکڑا ہوا تھا اور اُن کے سروں پر ہُڈ رکھے ہوئے تھے ۔ ترکی کے کمانڈو نے بے عزتی محسوس کی اور ترکی کے لوگوں کی طرف سے مخالفت اُبھری۔ ایک تشدد کی صورت میں اِس فلم میں امریکیوں کو برائی کے مُجرم دکھایا گیا اور اُن کے ساتھ ایک یہودی ڈاکڑبھی جِس کا کردار گیری بسی نے کیا اور یہ شخص ٹیل آویو، نیویارک اور لندن میں بلہُل مارکیٹ میں اعراقیوں کے عضاء بیچ رہا تھا ۔ ( ۲۲ )

آن لائن درسپائجل انٹرنیشنل نیوز نے اپنی سائٹ میں یہ بیان جاری کیا ۔ ‘‘ اِس طرح کا کوئی بھی بُرا کام نہیں کیا گیا جبکہ فلم والوں نے ترکیوں اور مسلمانوں کی وحیشیانہ مخالفت کو پیش کیا اِس فلم میں بُرے لوگ کالے تھے اور سفید دنیا امریکی تھے یعنی کُرد، مسیحی اور یہودی ’’۔ ( ۲۳ ) بہت سارے ترکوں نے اِس فلم کی تظیم اِس طرح بھی کی کہ اِس کو ایک زبردست فلم کی پذیرائی ملی اور درحقیقت اِس کی بنیاد ایک پروپیگینڈے پہ تھی ۔ اس کے بعد جو فلم آئی وہ ‘‘ بھیڑیوں کی وادی ’’ : فلسطین ’’ یہ فلم دعحقیقت واضح طور پر صیون کے خلاف ایجنڈا تھا جو کہ فلسطین میں ‘‘ فلوٹیلا ’’ مسائل کے بارے میں تھا ۔ ترکی کی نفرت کے بارے میں دوسری اُبھرتی ہوئی مثالیں مختلف کتابوں کا ہاتھوں ہاتھ بِکنا تھا اِن میں ‘‘ آڈولف ہٹلر ’’ کی کتاب ‘‘ میری حدود ’’۔ ، پوپ پر حملہ ، صیون کے بزرگ کا پروٹوکول اور ہنری فورڈ کے بین الاقوامی یہودی ۔ ( ۲۴ )

صدر عبدالہ گُل اور وزیراعظم ایرڈوگن دونوں کی جڑیں ترکی کی اسلامی تحریک سے ہے جو کہ اے کے پی کی لیبرل جماعت کے تحت ہے ( اسلامی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ۔ ایرڈوگن بین الاقوامی امن اور مگربی جمہوریت کی بات کرتا ہے جبکہ اُس کی جڑیں اسلامی ہیں شُعبت کُچھ مثالیں بیان کرتا ہے :

ایروڈوگن کو یہ غیر مشہور بیان دیتے ہوئے پکڑا گیا ، ‘‘ جمہوریت ایک گلی کی کار کی طرح ہے ۔ آپ اِس کو اُس وقت تک چلاتے ہیں جب تک کہ منزل نہ آئے اور پھر آپ اُتر جاتے ہیں ۔’’ یہ بھی بیان کیا گیا کہ ایروڈوگن کی سیکرٹری نے یہ بیان جاری کیا کہ یہ ضروری تھا کہ سیکلرازم اور ریپبلک ازم کو یٹا دیا جاتا ہے اور اسلامی نظام کی شرکت ہوتی ۔ ایک اور موقع پر ایک نایاب لمحے میں ایروڈگن نے ایک زبردست نظم لکھی اُس نے لِکھا : ‘‘ مسجدیں ہمارے نشان ہیں گنبد ہمارے ہیلمٹ ہیں اور مینار ہمارے ایمان کا حصہ ہیں اور سارے ایماندار سپاہی ہیں یہ پاک فوج میرے مذہب کے محافظ ہیں ۔ قادرِ مطلق کی طرف ہمارا سفر ہماری منزل ہے اور ہمارا اخیر شہادت ہے ۔ ’’ ( ۲۵ ) یہ بیانات ایروڈگن کی نیت جو اسلامی ادارے کے لیے تُرکی پر حکومت کرنے کے لیے تھی اُس کی فطرت کی عکاسی کرتی ہے ۔ اِس قسم کے بیانات نے اُس کے لیے القاعدہ کی لیڈرشپ کی طرف سے جیسے کہ الزواری اور دوسروں کی طرف سے عزت بڑھائی ۔ مختصر عرصے میں اے کے پی نے ایروڈگن کے قبضے میں ایک اسلامی سلطنت کو جمہوریت کے بھیس میں اسلام کے نزدیک کیا جوئیل رچرڈسن کے بھیس میں اسلام کے نزدیک کیا جوئیل رچرڈسن کے ایک آرٹیکل کے مطابق جس کا عنوان ترکی اپنی فوج کو دوگنا کرتا ہے ’’ اور اے کے پی نے ۲۰۰۲ سے مندرجہ ذیل کام کیے۔

‘‘ صدارت پر قبضہ ؛ وزیراعظم کی نشست پر قبضہ پارلیمنٹ کی بُہت ساری نشستوں کو حاصل کرنا ؛ اسلامی ججوں کی جیوری کا بھرنا ؛ فوج کا سر قلم کرنا ؛ پولیس کی قوت میں مداخلت کرنا ( تقریباً ۷۰ فیصد اراکین اسلامی گُولن مومنٹ کے ہیں ) ؛ جیل میں قید ترکی کے صحافی ( پوری دنیا میں کِسی بھی دوسری قوم سے زیادہ ترکی کے صحافی قید میں ہیں جو کہ چین اور ایران سے بھی زیادہ ہیں ) ۔ ’’ قوم کی قیادت اب ترکی کے آہن کو دوبارہ لِکھنے کے لیے بِل پاس کرنے کے اختیار پر کام کر رہی ہے ۔ فوج اور عدلیہ کی قوتوں کو صاف کیا جا رہا ہے ۔ ( ۲۶ )

تُرکی کے لیے یہ منصوبہ کیا گیا کہ اُس کی فوج کو دوگنا کر دیا جائے جو کہ پہلے ہی نیٹو کی فوج کی دوسرے نمبر پر آنے والی فوج ہے جِس کی تعداد تقریباً ۵۰۰۰۰۰ سپاہی ہیں۔ ترکی کا ایک سنجیدہ مسئلہ بے روزگاری کی ایک تحریک ہے ۔ مزید برآں اِس تنخواہ دار فوج کی بقاء کے گورنمنٹ خاموشی کے ساتھ اپنے نیوکلیائی مقاصد کو بھی بڑھا رہی ہے ۔ ۲۰۰۶ء میں ایروڈگن نے اپنے نیوکلیائی پاور پلانز کی تجدید کی اور پارلیمنٹ سے ۲۰۰۷ءمیں یہ منظوری ملی کہ ۲۰۱۰ء میں رشیا اور ترکی اِس عشرے میں ایک  نیوکلیائی پلانٹ تعمیر کریں گئے جبکہ میڈیا ترکی میں ہونے والے اِس بڑے منصوبے کے بارے میں خاموش رہا ۔ ( ۲۷ )

مغربی قوتوں کی اب ہو سکتا ہے کہ دلچسپی ہو کیونکہ اسلامی عثمانیہ کی شہنشاہت نے اپنی نئی زندگی کے نشانات کو ظاہر کیا ہے اور مشرقی قوموں کے ساتھ مغربی اقتدار کے لیے منصوبے بنا رہی ہے ۔ ترکی عام طور پر ‘‘ اینا ٹوین ایگل ’’ کے ساتھ مل کر اپنی طاقت کی مشقیں کرتا ہے ۔حال ہی میں اسرائیلیوں کو تہران میں ایرانی ائیرسپیس پر اُڑایا ۔ ( ۲۸ ) یہ تمام تر نشانات دکھاتے ہیں کہ مخالفِ مسیح کی بادشاہت جاگتی ہے اور قوموں کے لیے بربادی ہے۔

مغرب میں بُہت سارے اِن اسلامی نشانات سے غافل ہیں اور اِس مقصد پر اُن کی فوجیں اِس تصور سے دور ہیں اور اُنھوں نے کبھی بھی اِس کا نوٹس نہیں لیا ۔ تاہم بڑی تیزی کے ساتھ یہ سپر پاور کے طور پر چلتی ہے ۔ اسلامی مُلاء اپنے لوگوں کو یہ تبلیغ کرتے ہیں کہ مُسلمان اُسی طرح مغرب کو شکست دے دیں گئے جِس طرح سے مسیحیوں نے پیگن روم کو دی تیسری صدی کے نتیجے کے طور پہ روم ایک فوجی اکثریت بنا لیکن اُس میں اقتصادی بحران بھی آیا ۔ شہنشاہ ڈی اولیشن نے فیصلہ کیا کہ وہ بڑھتے ہوئے اقتصادی بحران کے سبب چیزوں کی قیمتوں مقرر کر دے آہستہ آہستہ اُس نے مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے ساری سلطنت میں مخالفت کو بڑھا دیا جس نے بین الاقوامی انقلاب کو جنم دیا جو حال ہی میں مسیحی ہونے والوں کی طرف سے آیا اور یہ کونسٹنٹ ٹائن کی طرف سے تھا ۳۱۲ء میں رومی سلطنت کا پیگانی دور ختم کیا گیا اور کونصٹنٹ ٹائن ایک بادشاہ کے طور پہ سامنے آیا کیا دنیا میں ایسے ہی قوتیں اسلام کے لیے بھی واقع ہو سکتی ہیں ۔ مسیحیوں نے پوری رومی سلطنت میں مسیحیت کو پھیلایا اور یہ محض وقت کی بات تھی کہ اِس نے ایک فتح حاصل کی اِسی طرح سے پہلی اسلامی سلطنت نے مسیحی بیزن ٹائن کو فتح کیا ( جو کہ پہلے رومی حکومت تھی اور یہ محض چند عشروں میں ہویا کیا تاریخ بین الاقوامی اسلامی سلطنت کے لیے خُود کو دہرائے گی ؟ مسلمان مغرب میں وسیع پیمانے پر ہجرت کر گئے اور بڑے پیمانے پر بڑھ گئے کیا اِسی پس منظر میں اگلے چند عشروں میں دنیا کی طاقت اِسی طرح منتقل ہو گی۔ جواب اس موجودہ معاشی اور اقتصادی رُجحان کی بنا پر سنجیدہ ہے ۔

حیوان کا نشان

  حیوان کا عدد مکاشفہ کی کتاب میں لکِھا گیا ہے بہت سارے تفسیر کرنے والے اِس نشان کو ہائی ٹیک ڈیوائس بتاتے ہیں جو کہ دہنے ہاتھ یا ماتھے پر ہو گی یہ بات ممکن نظر آتی ہے لیکن کیا اِس کی کوئی متبادل تفسیر بھی ہو سکتی ہے ۔ مندرجہ ذیل تجزیہ مزید تحقیق کا متحامل ہے جو کہ الہیات دان پیش کریں گئے۔

ایک دلچسپ یو ٹیوب ویڈیو جو کہ جاری کی گئی اُس میں اِس نشان اور اُس کی خصوصیات کو بیان کیا گیا یہ ویڈیو پڑھنے والوں کو بہُت فائدہ دے گی اگر ممکن ہو تو ضرور دیکھیے کیونکہ اِس کتاب میں اِس کو دکھانا مشکل ہے ۔

http://www.youtube.com/watch?v=JIXdFjuAJ-w&feature=player-embedded

مکاشفہ ۱۸۔ ۱۶ : ۱۳

‘‘ اور اُس نے سب چھوٹے بڑوں دولتمندوں اور غریبوں، آزادوں اور غلاموں کے دہنے ہاتھ یا اُن کے ماتھے پر ایک ایک چھاپ کرا دی۔ تاکہ اُس کے سوا جِس پر نشان یعنی اُس حیوان کا نام یا اُس کے نام کا عدد ہو اور کوئی خریدوفروخت نہ کر سکے۔ حکمت کا یہ موقع ہے ۔ جو سمجھ رکھتا ہے وہ اِس حیوان کا عدد گِن لے کیونکہ وہ آدمی کا عدد ہے اور اُس کا عدد چھ سو چھیاسٹھ ہے۔ ’’

اس لفظ کے متبادل ممکنہ ترجمہ جو یونانی میں سے کیا گیا وہ اِن مندرجہ بالا آیات سے ملتا جُلتا ہے۔ لفظ ‘‘ نشان ’’ یونانی کے لفظ چیراگامہ سے لیا گیا ۔ ( ایک اعلیٰ یونانی کلیدالکتاب کے حوالہ نمبر ۸۰ : ۵۴ دیکھیئے اس لفظ کا مطلب کھودنا یا کھرچنایا مہر کرنا ہے ۔( ایک کندہ کیا ہوا نشان جو مجسمے پہ کیا جاتا ہے : ‘‘ کندہ کیا ہوا تصور ’’ رومہ پیرائے میں چیراگامہ شاہی مہر کو کہتے ہیں جو سرکاری دستاویز کے ساتھ رکھی جاتی ہے۔ یہ مہر بھی ایک اختیار کی بات کرتی ہے جو عام طور پر غلاموں کی ملکیت کو ثابت کرنے کے لیے لگائی جاتی تھی ۔ فوجی اکثر اپنے پسندیدہ جرنیل کا نام لِکھتے اور اِسے بدعتی عقیدے کے طور پہ اپنے پسندیدہ دیوتا کے ٹیٹو کی شکل میں بطور اپنی عقیدت اور تعلق کے علامتی طور پر بناتے تھے۔ ( ۲۹ )

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسلامی جہادی اور اسلام کے لیے وقف لوگ اکثر اپنے ماتھوں پر پٹیاں باندھتے اور اپنے دہنے بازوؤں پر عطات گزاری کا نشان باندھتے ( یعنی بسمہ اللہ اسلامی عقیدہ ‘‘ کہ اللہ کے نام میں ’’ ) اور اِس کے ساتھ ہی دو تلواریں کراس کی شکل میں ہوتی ہیں اور ۶۶۶ کا عدد کلیسیاء کے لیے پہچان ہے کُچھ لوگ اِس کو عدد سے زیادہ ایک علامت سمجھتے ہیں اور یہ نشان بسمہ اللہ سے مشاہبت رکھتا ہے اور تلواروں کا اِس طرح سے نشان کو پیش کرنا کائناتی اسلامی اتحاد کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

اسلامی مُلاء سکھاتے ہیں کہ آخری وقت میں کِسی کے پاس بھی کوئی اور حل نہیں ہو گا کہ وہ اِس کے بغیر زندہ رہے اِس لیے ہر کسی کو اللہ کی تابعداری میں یا اُس کے لیے سر کٹوانے کے لیے اسلامی مذہب کو قبول کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی اللہ کی عطات کا انتخاب کرتا ہے تو اُن کو اجازت ہے کہ وہ پوری دنیا میں خلافت کی شہنشاہت پر ایمان رکھتے ہوئے کُچھ بھی بیچے یا خریدیں ۔

اِس پس منظر میں بائبل بتاتی ہے ۔۔ ۔ اور اُن کی روحوں کو بھی دیکھا جنکے سر یسوع کی گواہی دینے اور خُدا کے کلام کے سبب سے کاٹے گئے تھے اور جہنوں نے نہ اُس حیوان کی پرستش کی تھی نہ اُسکے بُت کی اور نہ اُس کی چھاپ اپنے ماتھے اور ہاتھوں پر لی تھی ۔ وہ زندہ ہو کر ہزار برس تک مسیح کے ساتھ بادشاہی کرتے رہے۔’’ ( مکاشفہ ۴ : ۲۰ )

دوبارہ اسلام اِس سر قلم کرنے کے مرکز کے لیے بڑا مناسب ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اسلام کی تابعداری نہیں کرتے یا مہدی یعنی مخالفِ مسیح کی یا ( اُس کی پوجا نہیں کرتے ْ اُس کے سامنے جُھکتے نہیں ْ یا اُس کی تابعداری نہیں کرتے ) اُس کی تصویر کی ( یعنی ہلال چاند کی یا مکہ کے حجرہ اسود کی ) جِس کے اِس کتاب کے ابتدائی ابواب میں بیان کیا گیا ہے کہ اِس حجرہ اسود یعنی اِس بُت کی تاریخی ، جغرافیائی اور الہیاتی تعریف کیا ہے تمام مسلمانوں کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی روزانہ کی نمازوں میں اِس حجرہ اسود کے سامنے جُھکیں۔

 یونانی ترجمے کے مطابق ماتھا اور بازو لفظ ‘‘ اُن کے ’’ کی وجہ سے فقرے میں جمع کے صیغے میں آتا ہے اور یہ پیشانی کے لیے اور بازو کے لیے پھر بھی انفرادی طور پہ استعمال ہوا ہے ۔ دائیں ہاتھ یا بازو اور ماتھے کی اہمیت اسلامی پس منظر میں اُن کی رویتوں سے لی گئی ہے ولید شُعبت اِس حقیقت پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں :

حیران کُن طور پر اور بائبل کی اِس پیشن گوئی کو بُہت لمبے عرصے پہلے سچ ثابت کرنے کے لیے حیوان کے اِس نشان کو نبی پاک نے اپنے اُوپر اسلامی حکم کی حقیقت میں لیا اور حکم دیا : ‘‘ اللہ میری قوم کو روزِ محشر سے بچائے گا اور اُس کے سامنے گناہ کے ننانوے رجسٹرڈ ہو گئے اور ہر رجسٹرڈ دیکھا جا سکتا ہے پھر اُس سے پوچھا جائے گا کیا تم اِن میں سے کِسی کا انکار کرتے ہو پھر وہ کہے گا نہیں خُدا یا پھر وہ اُس سے پوچھے گا کیا اِن کے لیے تمہارے پاس کوئی بہانہ وہ کہے گا نہیں خُدایا پھر اُسے بتایا جائے گا لیکن تمہارا ایک نیک کام ہے اُس کی وجہ سے تمہیں سزا نہیں ملے گی پھر ایک پٹی لائی جائے گی اور اُس طومار پر یہ الفاظ لکھے ہونگے کوئی خُدا نہیں ماسوائے اللہ کے اور محمد اُس کا رُسول ہے پھر وہ اُس سے اُس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا وہ کہے گا اے خُداوند اِس پٹی اور ان رجسٹروں کا کیا مطلب ہے ؟ اُسے بنایا جائے گا تمہیں کوئی سزا نہیں ملے گی ایک ہاتھ پر اُس کے اعمال ہونگے اور دوسرے پر پٹی پھر رجسٹرڈ تیرے گئے اور اُس پٹی کا وزن اُن رجسٹروں سے زیادہ ہو گا ۔ ’’ ( ترموتھی ۳۹ : ۲۶ ) ۔ ( ۳۰ ) شُعبت اِس کے بارے میں بتاتا ہے :

‘‘ حیوان کا نام ’’ اللہ کے مختلف ناموں کے ساتھ ساتھ ہو گا اور یہ آدمی کے بازو یا ماتھے پر عطات گزاری کے لیے باندھا ہوا ہو گا اسلام عطات گزاری اور غیر معبودوں کے ساتھ تعلق کو پیش کرتا ہے اور اُن کے گُستاخ ہونے کی شہادت دیتا ہے اور یہ پٹیاں اُن کے ماتھے پر بندھی ہوئی ہیں یہ ساری چیزیں مِل ملا کر بائبل کے مطابق حیوان کے نشان کو پیش کرتی ہیں۔ ( ۳۱ )

شہادت اسلام کا ایک عقیدہ یا اُن کے ایمان کا اعلان ہے یہ ایک عربی محاورہ ہے ‘‘ لا الہ اللہ محمد رُسول اللہ ’’ جِس کا مطلب ہے ‘‘ کوئی خُدا نہیں ماسوائے اللہ کے اور محمد اللہ کا بھیجا ہوا رُسول ہے ۔( اللہ کا رُسول ) ’’یہ عقیدہ دونوں طرح سے گُستاخی کی تعریف کے لیے پورا اُترتا ہے : پہلے نمبر پر یہ یہواہ کے علاوہ کِسی اور کو سچے خُدا کے طور پہ پیش کرتا ہے ؛ دوسرے نمبر پر یہ محمد کو ایک ایسی خاص جگہ پہ پیش کرتا ہے جس جگہ کو صرف یسوع ہی پُورا کر سکتا ہے۔ ( ۳۲ )

ایک اور پہلو یہ ایک غور کریں تو اسلام اور بائبل کے پیراؤں کے درمیان دہنے ہاتھ کا ایک تعلق نظر آتا ہے جیسے کہ چھٹے باب کے نتیجے میں یہ پیش کیا گگیا ہے ۔ محمد نے اپنی ایک فرضی اور سخت رسم میں کہا کہ ہر کام سیدھے ہاتھ سے کرو اور اپنے پیروکاروں کو بھی حکم دیا یہ بات سختی سے محمد نے کہی اور موجودہ زمانے میں یہی عادت جاری ہے ۔ میرے ایک دوست نے جو انگلش کا سعودی عرب میں ایک استاد ہے میرے ساتھ ایک تجربے کو بانٹا ۔ پہلے دن اُس نے اپنی آمد پر متعلقہ افسر کو رپورٹ دی وہ ایک داڑھی والا بوڑھا شخص تھا جو داڑھی کے ساتھ اپنی مذہبی عقیدت کو پیش کر رہا تھا ۔ افسر نے اپنے دہنے ہاتھ سے میرے دوست سے اُس کی دستاویز لینے کی کوشش کی اور میرے دوست نے بائیں ہاتھ سے یہ دستاویز دی کُچھ سیکنڈوں کے لیے یہ بڑا بُرا لگا جب اُس نے میرے دوست پر جُھک کر اُس کے کان میں کہا ‘‘ سیدھے ہاتھ ’’ سے پکڑاؤ۔ ایک دفعہ جب پیپر سیدھے ہاتھ سے دیئے گئے تو اُنھوں نے اسے فوری طور پر قبول کر لیا اِس روایت کی روشنی میں کوئی بھی اِس بات کو اسلام اور جانور کے دہنے ہاتھ پر نشان کے ساتھ پیش کر سکتا ہے ۔ موجودہ دور میں اسلام کے ساتھ وقف لوگ بسمہ اللہ کا نشان پہنتے ہیں یا اسلامی عقیدے کو اپنے دہنے بازوؤں پر رکھتے ہیں لیکن مستقبل میں یہ آسانی سے دہنے ہاتھ پر بدل دیا جائے گا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلامی روایت مکہ کی طرف بطور حیوانی نظام کے اشارہ کرتی ہے ۔ شُعبت دو اسلامی حدیثوں کو پیش کرتا ہے : ‘‘ حیوان المسجد اور مکہ میں الحرم سے آئے گا ’’۔

‘‘ محمد مجھے صحرا میں مکہ کے نزدیک ایک جگہ پر لے گیا یہ ایک ریت کے سبب زمین کا خشک ٹکڑا تھا ۔ محمد نے کہا حیوان اِس جگہ سے نمودار ہو گا، یہ ایک بہت چھوٹا علاقہ تھا۔ ’’ ( ۳۳ )

اِسی طرح بائبل میں فرشتہ بھی یوحنا کو صحرا میں ایک ‘‘ عورت ’’ یا ‘‘بابل کی فاحشہ ’’ جو حیوان پر سوار تھی دکھانے کے لیے لے گیا اور یہ بھی عرب کے صحرا میں سے آرہی تھی۔ بائبل کے بُہت سارے پیرائے ہیں جو ‘‘ بابل کی فاحشہ ’’ کے مساوی ہیں اور جغرافیائی طور پر عرب کو پیش کرتے ہیں جو کہ ابتدائی بابلی شہنشاہت کا حصہ تھا ۔

 مزید برآں وہ جو غیر معمولی بائبل کی نبوت سے دلچسپی رکھتے تھے جیسے کہ نوسترہ دامس نے بھی پیشن گوئی کی کہ مخالفِ مسیح عرب میں سے آئے گا ۔ اور پس منظر کے مطابق اسلامی لیڈر مہدی عرب سے آئے گا اور ترکی پر اور ممکنہ طور پر اسلامی کونفیڈریسی پر حکومت کرے گا یا یہ علاقہ مخالفِ مسیح کے لیے حیوانی نظام جِس کی ابتداء عرب سے ہوئی کو آگے بڑھائے گا ۔ یہ مقالہ مزید تحقیق کے لیے ایک قائلیت کی روح فراہم کرے گا اور اِس سے علم و الہ آخرت کے مطالعہ میں تحقیق اہم پہلو پیش کریں گی۔

نتیجہ

اسلام چاند دیوتا یعنی اللہ کے ذریعے سے اُن سب کو چیلنج کرتا ہے جو قرآن کے اختیار پر شک کرتے ہیں :

‘‘ مگر ایک بہُتان جو اُنھوں نے بنا لیا ہے اور اُس پر اور لوگوں نے اُنھیں مدد دی ہے بے شک وہ ظالم اور جھوٹ پر آئے اور بولے اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اُنھوں نے لِکھ لی ہیں تو وہ اُن پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں ۔ ’’ ( قرآن ۵ ۔ ۴ : ۲۵ ) پھر قرآن ایک اور بیان دیتا ہے جو ایماندار بے ایمانوں کو دیتا ہے ۔ ‘‘ تُم فرماؤ اُسے تو اُس نے اُتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چھپی بات جانتا ہے ۔۔۔ ’’ ( قرآن ۶ : ۲۵ )

یہ پیرائے بغیر کِسی شہادت کے اِس بیان کو مدد دینے کی وجہ پیش کرنا چاہتا ہے مفکرین نے اِس بات کو دیکھا ہے کہ قرآن کی ساری کہانیاں یا تو پہلے سے موجود ہیں یا محمد کی زندگی کے بارے میں ہے ۔ قرآن میں کُچھ بھی نیا نہیں ہے ۔ بہت سارے قرآن کے قابل ذکر پیرائے اسلام سے پہلے کی تاریخ یا حدیث کے حوالوں کے بغیر نہیں سمجھے جا سکتے ۔ ( ۱ ) مثال کے طور پہ سورما اُونٹنی کا ذکر ایک مشہور عربی کی دیوار کے عقیدے سے لیا گیا ہے ۔ قرآن ۷۸ ۔ ۷۷ : ۷ ) مزیدبرآں قرآن کی یہودی کہانیوں جیسے کہ ‘‘ بندر آدمی ’’ کی کہانی جس میں لوگ بندروں کی صورت میں بدل جائیں گئے ۔ ( قرآن ۶۵ : ۲ ؛ ۱۶۶ : ۷ ) مسیحی ذرائع بھی جیسے کہ غار کے ساتھی کا حوالہ بُہت زیادہ لیے گئے ہیں ۔ ( قران ۲۶ : ۱۸ ) یہ کہانی ید دلاتی ہے کہ کیسے کُچھ نوجوان ۳۰۹ سالوں کے لیے غار کے اندر گئے اور پھر ٹھیک حالت میں زندہ پائے ۔ ( ۲ ) کُچھ مثالیں ایسی ہیں جن کا پرانے عقائد سے جو کہ محمد کے قرآن سے پہلے ہی عرب میں موجود تھے سامنے آئی ہیں۔

اِن عقائد کے لیے مزید اسلام سے قبل کی رواتیں بڑھی پڑی ہیں۔ یہ کتاب اِن میں سے بُہت ساری روایتوں کو پیش کرتی ہیں ۔ مقدس پتھروں کو چُومنے اور رگڑنے کی مادہ پرستی کی رسمیں جو کعبہ میں تھیں طواف کرنے کی رسم چاند دیوتا اور الرحمان کی بدعت اور اللہ کی تین بیٹیاں یہ سب مادہ پرستوں کی رسمیں ہیں ۔ یہ ساری کی ساری اسلام سے پہلے کی رسموں اور اسلام کی مشق کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں جن کو تحقیق اور مطالعہ کے ساتھ ایک تاریخی شواہد میں دستاویز کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔ ( ۳ ) دوسری مشقیں بھی جو موجود نہیں تھیں وہ بھی شامل کی گئی اِس میں مادہ پرستوں کی دن میں پانچ دفعہ مکہ میں نماز پڑھنے کی رسم ، دو پہاڑوں کے درمیان دوڑنے کی رسم، کنکریاں مارنے کی رسم ، ہفتے کی بجائے جمعے کو لوگوں کے اکٹھے ہونے کی رسم مہنے میں دن کے وقت روزہ رکھنے کی رسم ، نماز سے پہلے وضو کرنے کی رسم ، ناک میں پانی ڈالنے اور نکالنے کی رسم، عربیوں کے جنوں پر ایمان لانے کی رسم، چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی رسم یہ سب پہلے موجود تھیں۔

مزید ، اور بُہت ساری مادہ پرستی کی رسمیں حدیث کے اندر موجود ہیں ۔ جِس میں : ٹیبوز کی رسم، بُری آنکھ کی رسم ، جادو کی رسم ، بد دعاؤں کی رسم، ناموں کی رسم، کامیابی کی رسم ، قسم کھانے کی رسم، خاص قربانیوں کے وسیلے قسم توڑنے کی رسمیں ، تہم پرستی کے عددوں کی رسمیں ، شمانیت کی رسمیں اور روحوں کی رسمیں ۔  ( ۴ ) اِن تمام تر مشقوں کو محمد کی تعلیمات کے ساتھ جوڑ کر اسلامی ایمان بنا دیا گیا۔ بُہت سارے مسلمان تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کہانیاں اور رسمیں عربوں کی تاریخ میں پہلے سے موجود تھیں ۔ جب بہت ساری چیزوں میں اسلام کی یہ شکلیں موجود تھیں تو پھر کیوں اِس بات پہ اصرار کیا جاتا ہے کہ قرآن آسمان سے نازل ہوا ہے ۔ تاہم تاریخی شواہد اور جغرافیائی دریافتوں نے اِس کے خلاف چیزیں تیار کر لی ہیں ۔ تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ محمد نے پرانے عقیدوں ، رسموں اور بائبل کی پہلے سے موجود کہانیوں سے اِس کو تیار کیا ہے۔

جیسے کہ اِس کتاب میں بیان ہوا ہے کہ محمد نے تمام تر ذرائع اپنے ہی ارد گرد سے لیے ہیں اُس کی ملاقات عربی بدعتوں اور مختلف ایمانداروں سے ہوئی۔ ( مسیحی ، یہودی اور خوفِ خُدا رکھنے والے ) اور یہ ملاقات اُس کے کارواں کے سفروں میں ہوئی۔ مختلف علاقوں میں گھومنے کے بعد اور ہر عقیدے کے ٹکڑے لینے کے بعد محمد نے اپنی پوری زندگی کے دوران قرآن کا اصل مواد جمع کیا ۔

حیرت انگیز طور پر حجرہ اسود کی پرستش کا عقیدہ اِن تمام تر رسموں میں حٰیران کُن ہے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلمان بُت پرستی کے خلاف سرگرم ہیں تو پھر وہ کیوں حجرہ اسود کو چومنے پر اصرار کرتے ہیں ؟ بائبل کی تعلیمات کے مطابق حجرہ اسود کی پرستش غلط ہے اور یہ بھی بُت پرستی ہے۔ یہ سنجیدہ تضاد محض اِس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ محمد نے عرب کی مادہ پرستی کی رسموں کو اختیار کیا اور پتھروں کی بدعت ابتدائی عرب سے آئی ۔ بُت پرستی کی اِس شکل کو اکثر ‘‘ پیترا آلوترے ’’ ( یعنی پتھروں کی پوجا کرنا ) کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور اِس کی مشق بُہت ساری ثقافتیں پوری دنیا میں کرتی تھیں۔ پتھروں کی پرستش مادہ پرستی کی بڑی شکلوں میں سے ایک ہے ہر سال لاکھوں مسلمان مکہ کی زیارت کرتے ہیں یعنی اللہ کے گھر کی جِس کی نمائندگی حجرہ اسود کا بُت کرتا ہے ۔ مسلمان اِس شہادت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو اِس حقیقت کو پیش کرتی ہے کہ اللہ کی پوجا محض اسلام سے پہلے کے پتھروں کی پوجا کی ایک فریبی شکل ہے جِس کو وحدانیت کے نام میں پیش کیا گیا۔ جب آپ پانچواں باب پڑھتے ہیں تو آپ کو شہادت ملتی ہے کہ اللہ ایک چاند دیوتا ہے جِس کو حجرہ اسود کا بُت پیش کرتا ہے۔

محمد نے یہودی تعلیمات اور رسومات کو اختیار کیا جب تک کہ اُنھوں نے نبوت کو رد کیا ۔ یہودیوں نے اِس بُت پرستی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جو اِس حصے میں محمد کے نئے مذہب سے آرہی تھی وہ سارے کے سارے عرب مادیت پرستی اور چاند دیوتا اللہ کی پرستش سے پہلے ہی خبردار تھے جو کہ اسلام نے اختیار کی۔ محمد نے یہودیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جب اُنھوں نے اُس کے دعوے کو ماننے سے انکار کیا۔ محمد اور اُس کے اسلامی پیروکاروں نے بڑے تُصب کے ساتھ یہودیوں کی مخالفت کی۔ اِن اسلامی باتوں کے جواب میں جو کہ یہودیوں کے خلاف تھیں یہ بات منطقی طور پہ سامنے آتی ہے کہ یہودی مفکرین ، ربی جوزف تلیشکن نے بہت سارے حوالوں کے ساتھ اِس کو پیش کیا۔ یہودی ادب میں، ربی تلیشکن نے محمد کے ان پڑھ ہوتے ہوئے صحیفوں کے علم اور عورتوں کے لیے اُس کے خیالت پر لِکھا۔ ( نوٹ : ) محمد تلیشکن کا اُبھرتا ہوا مضمون تھا :

گہری محبت شدید مخالفت میں بدل گئی جب یہودیوں نے محمد کے خُدا کے نبی ہونے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مسیحیوں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی یہ مان رکھتے تھے کہ محمد کے سچے پیغام کے اندر کُچھ بھی نیا نہیں تھا ۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جو کُچھ نیا ہے وہ سچ نہیں تھا۔ مزید یہ کہ محمد کا عبرانی بائبل کا علم سطی ہے ۔ ۔ ۔ ( کہ مطابق ) سورۃ۳۸ : ۲۸ ، میں وہ فراعون کے بارے بیان کرتا ہے ۔( خروج کی کتاب سے ) ہامان سے پوچھتا ہے ( یہ آستر کی کتاب میں ہے ) کہ وہ بابل کو بُرج کھڑا کرے ایک قسط جو پیدائش سے شروع ہوتی ہے مزید یہ کہ یہودی اور یہ معاملہ مسیحیوں کے لیے بھی محمد کی ہدایت کے مطابق کہ نافرمان بیویوں کو پیٹا جائے متاثر کن نہیں تھا۔ ( سورۃ ۳۴ : ۴ ) ۔ ( ۵ )

ربی تلیشکن اس بات کے بارے میں بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اُس نے توریت کی تعلیم کو وصول کیا :

محمد نے بُہت طریقوں سے یہودیوں اور یہودیوں کے مذہب پر حملہ کیا ۔ ۔ ۔ اُس نے ابراہام کو یہودی کی بجائے مسلمان پیش کیا ؛ ‘‘ ابرہام نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جُدا مسلمان تھے اور مُشرکوں سے نہ تھے۔ بے شک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ حقدار وہ تھے جو اُن کے پیرو ہوئے ۔ اور یہ نبی اور ایمان لانے والے اور ایمان لانے والوں کا والی اللہ ہے ۔’’ سورۃ ۶۸ ۔ ۶۷ : ۳ محمد یہودیوں پر اُن کی نبوتوں کے بارے میں الزام لگاتا ہے جو کہ بائبل سے لی گئی ہیں۔ خاص طور پہ وہ الزام لگاتا ہے کہ یہودی سچے توحیدی نہیں ہیں کیونکہ اُس نے دعوی ٰ کیا تھا کہ وہ عزرا نبی کی بطور دیوتا پاجا کرتے ہیں۔ ( سورۃ ۳۰ : ۹ ) ۔ ۔ ۔ سورۃ ۶۱ : ۲ میں مثال کے طور پہ محمد نے کہا ‘‘ بے شک ایمان لانے والے تیز یہودیوں اور نصرانیوں اور ستارہ پرستوں میں سے وہ کہ سچے دل سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں اور نیک کام کریں اِن کا ثواب اُن کے رب کے پاس ہے اور نہ اُنھیں کُچھ اندیشہ ہو اور نہ کُچھ غم ۔’’ پچھلے سالوں میں اسرائیل کے ساتھ ایک امن کا محاہدہ کرنے سے پہلے شام کے صدر انور سعادات نے اِس آیت کو مسلمانوں کے برتاؤ کے تعلق سے یہودیوں پر اِس آیت کو واضح کیا جب مِصر نے اسرائیلیوں کو شکست دی۔ ( ۶ )

تلیشکن عمر کا حوالہ دیتا ہے جِس نے اسلامی حکومت کے تحت اختیار کو سمجھایا :

مغرب میں ایک بہت مشہور عقیدہ ہے یہودی مسلمان شہریوں کے برابر دینا میں زندہ رہے جب تک کہ صحیونیوں نے یہودی مخالفت احساسات کو عرب کے درمیان واضح نہ کیا ۔ حقیقت میں اُن کے سوسالہ رویے کے دوران اسلام نے یہودیوں اور مسیحیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور اُنھیں دوسرے درجے کے شہری کے طور پہ رکھا۔ ( ۷ ) مزیدبرآں تلیشکن بیان کرتا :

اُن کا معیار خود کو غیر توحیدیوں کے مقابلے میں ابھی بھی برتر ہے وہ علاقہ جات جن کو مسلمان فوجوں نے فتح کیا۔ لوگوں کو یہ پیش کش کی گئی ۔ کہ یا تو دائرہ اسلام میں آجائیں یا پھر مر جائیں۔ یہودیوں اور مسیحیوں کو جن کا ذکر ہوا ہے کہ اُن کو اُن کے مذہب کی اجازت دی گئی اُن کی زندگیاں عمر کے قانون کے مطابق بسر ہوئی جہاں تک سیاہ لوگوں کا تعلق ہے تو اُن کے لیے جنوب میں جِم کرو کا قانون لاگو کیا گیا ۔ یہودیوں اور مسیحیوں کو کہا گیا کہ جب مسلمانوں کی خواہش ہے وہ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو جائیں ۔ یہودی اور مسیحیوں کو منع کیا گیا کہ وہ کِسی اور مذہب میں داخل نہ ہوں اور اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کریں ۔ یہاں تک کہ دھہمیوں کو کہا گیا کہ جب وہ اپنے مردوں کو دفن کریں تو اپنی آواز بلند نہ کریں ۔ ایک عملی ظلم کی حدیں نظر آتی ہیں۔ اُس کو اجازت دی گئی کہ وہ صرف گدوں کو چلا سکتے ہیں اور اُن کو منع کیا گیا کہ وہ گھوڑے اور خچر نہیں چلا سکتے ۔ ( ۸ )

تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق اسلامی قوانین کو یہودیوں اور مسیحیوں کی ذلت کے لیے لاگو کیا گیا ، تلیشکن بیان کرتا ہے :

یہودی اور مسیحی عرصہ دراز سے تحقیری قانون کی زد میں رہے اُن کو اکثر اوقات وہ کُچھ پہننے کے لیے کہا جاتا جو وہ نہیں پہننا چاہتے وہ کُچھ جس کو پہن کر وہ احمق نظر آئیں ۸۰۷ ء میں ۔ ۔ ۔ عباثی خلیفہ ہارون الرشید نے قانون پاس کیا کہ یہودی ایک لمبی ٹوپی پہنے گئے اور پیلے رنگ کی بیلٹ پہنے گئے ۔ ۔ ۔ گیارھویں صدی میں بغداد میں یہودی عورتوں کو ایک پاؤں کالے رنگ کا اور دوسرا لال رنگ کا جوتا پہننا پڑتا تھا اور اُن کے گلے اور جوتے کے ساتھ ایک پیتل کی گھنٹی ہوتی تھی۔ ( ۹ )

یہ ذلت وسطی دور میں بھی جاری رہی تلیشکن لِکھتا ہے وسطی دور میں فاطمید خلیفہ حاکم نے مسیحیوں کو حکم دیا کہ وہ دو فُٹ لمبا صلیب بازوؤں کے ساتھ پہنے جبکہ یہودیوں کو پانچ پاوئنڈ وزنی گیند اپنی گردن کے گرد پہننی پڑتی تھی ۔ اس بات کی ‘‘ یادگاری ’’ کے لیے کہ اُن کے آباؤاجداد کبھی بچھڑے کے سر کی پوجا کرتے تھے ۔ ٍ ۱۹۴۸ ء میں یمن سے اُن کی روانگی تک تمام یہودی مردوزن کو یہ زور دیا جاتا تھا کہ وہ فقیروں والے کپڑے پہنے جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ نچلے درجے کے دھہمی ہیں۔ ( ۱۰ )

جہاں کہیں اسلام نے حکومت کی وہاں یہودیوں اور مایحیوں کو آزادی اور انسانی اختیارات سے نچلے حصے میں رکھا گیا۔ ماضی میں اسلامی عقیدے نے ظالم قوانین بنائے اور اُن سب کے ساتھ تشدد کیا جہنوں نے محمد کو بطور نبی ماننے سے انکار کیا۔ اِس سیاست نے اُن تمام تر قوموں کو جہالت اور ذلت دی جہنوں نے جُھوٹے نبی محمد کی مخالفت کی  اور اُس کے مادہ پرست چاند دیوتا اللہ کی۔

اسلامی قوانین کی مخالفت کی وجہ سے محمد کے بارے میں سچائی بیان کرنے کی وجہ سے اُن پر تشدد ہوا۔ یہ کتاب ذاتی طور پہ یا ارادی طور پہ مسلمانوں کی مخالفت کے لیے مصنف کی نفرت نہیں ہے بلکہ اسلامی تعلیم اور اُن کی شہنشاہی فِطرت کی عکاسی ہے ۔ یہ کتاب اِس لیے لکھی گئی کہ مسیحی اور غیر مسیحی دونوں اِس بات کو سکھیں کہ اسلام کی تاریخی جڑیں کیا ہیں اِس بات کی اُمید کی جاتی ہے کہ کوئی بھی مسلمان جو اِس کام کو پڑھے گا وہ خُون کے کفارے کی قُربانی کی جس کا ذکر توریت میں آیا ہے اور جواب ختم ہو چکا ہے اُس کی عزت کرے گا اور یسوع مسیح کو اپنے شخصی خُداوند اور نجات دہندہ کے طور پہ جانے گا ۔ یہ کتاب اِس بات کی شہادت بھی ہے کہ وہ سب جو یسوع مسیح میں حقیقی معافی کو کبھی نہیں مانتے تھے وہ توبہ کریں گئے اور زندہ خُدا یہواہ کی طرف پھر آئیں گئے۔ محمد نے بیان کیا تھا کہ موسیٰ کی پانچ کتابیں ہیں جو کہ پاک توریت کہلاتی ہیں ختم ہو چُکی ہیں۔ تاہم وہ یہ دیکھنے میں ناکام ہوا کہ خُون کی قُربانیاں آننے والے مسیحا کی تصویر پر تھیں جو کہ دُنیا کے گناہوں کو اُٹھانے کے لیے آئے گا ۔ توریت بیان کرتی ہے کہ خُون بہائے بغیر گناہ کی معافی نہیں ہے اور یہ بات ہر ایک شخص کے لیے مسلمان بدھ مت ، ہندو سیکلر لوگ، مسیحی وغیرہ کے لیے ہے کہ نجات صرف یسوع میں ہے نہ  کہ کِسی مذہب یا فلسفے کے اندر مذہب انسان کے جِسم کے کام پر بنیاد ہے جو بچا نہیں سکتا تاہم نجات یسوع میں ہے ۔ یسوع نے اپنی روح میں اپنے لوگوں کو اچھے کام کرنے کے قابل بنایا ہے جو کہ حقیقی مذہب ہے ۔

توریت معافی اور خُدا کے ساتھ ملاپ کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ پاک توریت میں ( احبار ۱۱ : ۷ ) ، یہواہ پاک خُدا خُون کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے ۔ ساری توریت میں خُون کی قُربانی مسیحا کی پہلی آمد جو گناہ کی معافی کے لیے اُس کی موت کو پیش کرتی ہے کی ایک تصویر ہے ۔ یہواہ نے ہر شخص کو آزاد مرضی دی ہے کہ وہ اِس فضل کو حاصل کرے ۔ خُداراستبازی کے اندر ۱۰۰ فیصد کاملیت کا مطالبہ کرتا ہے۔ انسان کے اعمال اور کام راستبازی کے اِس معار کو کبھی پورا نہیں کر سکتے۔ جیسے کہ توریت میں لکھا ہے۔ ‘‘ دیکھ میں نے بدی میں صورت پکڑی اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا۔’’ اس وجہ سے خُداوند یسوع مسیح ہماری قُربانی بنا تاکہ اُس کے وسیلہ سے اُن تمام کے لیے جو معافی مانگے کامل راستباز ٹھہری۔ یعنی اپنے ذہنوں کو بدلیں اور اپنی زندگی کی سمتوں کو بدلیں اپنے گناہوں کے لیے ، اور اُسے بطور اپنے خُداوند اور نجات دہندہ کے وصول کریں۔

یسوع مسیح نے ہمارے گناہوں کے لیے صلیب پر ایک متبادل قُربانی کے لیے خُود کو پیش کیا اور ہم سب کو ابدی زندگی میں اُس کے نام سے بلائے جانے کے لیے جسم سمیت قبر سے زندہ ہوا۔ تمام ایمانداروں کے اندر وہ روح القدس کی صورت میں موجود ہے جہنوں نے اُسے قبول کیا۔ نجات خالصتاً یسوع سے ہے ایک منظم مذہب ، جماعت یا دوسرے انسان کے بنائے ہوئے مذہب سے نہیں ۔ اسلام کے مطابق محمد کی تعلیمات جو حدیث میں ہے تمام ماسوائے اُن کے جو جہاد کرتے ہیں سارے جہنم میں جائیں گئے ۔ یا اسلام کے برزخ کی جگہ اِس شہادت کے پیش نظر جو اس کتاب میں بیان کی گئی ہے قرآن کی فطرت مادی ہے اور اسلام مادیت پرستی سے نِکلا ہے ۔ مجھے خُداوند میں یہ اُمید ہے کہ وہ جو اِس نئی بیصرت کو پا چکے ہیں وہ مسیحیت کو خُداوند یسوع مسیح کے فضل سے نجات کے لیے حاصل کریں گئے۔

 

 

مخفف ڈی

اسلامی حکومت وسعت کا وقت

۵۷۰۔ محمد پیدا ہوا ( تقریباً تاریخ )

۵۹۸ ۔ محمد نے ایک دولت من بیوہ خدیجہ سے شادی کی تقریباً تاریخ ) ۶۱۰ ۔ محمد نے ایک متشدد روح کے ساتھ غارِ حرا میں ملاقات کے وسیلے اپنی پہلی وحی حاصل کی۔

۶۲۲۔ پہلی ہجرت ( مدینہ کے لیے ہجرت اور اسلامی سال کا پہلا کیلنڈر ) محمد نے اپنی جنگ کی دفاع کے لیے پہلی وحی حاصل کی نتیجتاً اسلام کی ترقی کے لیے حملہ کرنے کے جہاد کی وحی بھی شامل ہوئی۔

۶۲۴ ۔ بدر کی لڑائی بنی کفار کے یہودی مدینہ سے نکالے گئے ۔

۶۲۵ ۔ اُحد کی لڑائی ۔ بنی نادر کے یہودی مدینہ سے نکالے گئے۔

۶۲۷ ۔ جنگِ خندق محمد اور اُس کے پیروکاروں نے ۶۰۰ سے ۹۰۰ کے درمیان بنی قریضہ کے یہودی آدمیوں کو قتل کر دیا اور اُن کے خاندانوں کو غلاموں کے طور پہ بیچ دیا۔

۶۲۸ ۔ صُلح حدیبیہ کا واقعہ ہوا اور جنگِ خیبر لڑی گئی ۔

۶۳۰ ۔ مکہ کی فتح

۶۳۲ ۔ محمد کا آخری حج اُس کے مرگِ بستر پر محمد نے اپنے پیروکاروں کو پوری دنیا میں یہ کہہ کر جہاد کا حکم دیا ، ‘‘ میں تمہیں آدمیوں سے لڑائی کا حکم دیتا ہوں جب تک کہ وہ یہ نہ کہیں کوئی معبود نہیں ماسوائے اللہ کے ’’

۶۳۴ ۔ جنگِ تبوک

۶۳۷ ۔ شام اور یروشلم کی فتح

۶۳۹ ۔ خلیفہ عمر نے یروشلم کو فتح کیا اور پتھر کا گُنبد تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ابتدائی یہودیوں کی ہیکل کو مسجد میں بدلنے پر بشپ سوفیرنس نے پاک جگہ کے لیے اِس منصوبے کو ‘‘ دانیل نبی کی طرف سے کہی گئی اِس بات سے تعبیر کیا کہ اِس میں مکرو چیز داخل ہوئی ۔

۶۴۲ ۔ مِصر کی فتح ارمینیا اور ایشیاء ماوئنر تک وسعت ۔

۶۴۷ ۔ شمالی افریقہ اور سائپرس کی فتح تک وُسعت

۶۷۲ ۔ روڈس کے جذیرے کی فتح

۶۷۴ ۔ ۶۷۸ اور ۷۱۷ سے ۷۱۸ مسیحی بیزن ٹائن جو کہ کونسٹنٹ ٹائمپل کا دارلحکومت تھا اُس کو دو اسلامی سلطنتوں میں بانٹ دیا گیا۔

۶۸۸ سے ۶۹۱ تخمینہ کیا ہوا وقت جب پہاڑ پر گُنبد کی تعمیر ہوئی مکمل ہو گیا ۔

۷۱۱ ۔ سپین کی فتح

۷۳۲ ۔ فرانس میں سیاحوں کی لڑائی چارلس مارٹل اور اُس کے ساتھی بادشاہوں نے ایک بڑی اسلامی فوج کو ایک لڑائی میں کُچل دیا ۔

۷۳۵ ۔ چارلس مارٹل نے دوسری دفعہ اسلامی قوت کو گیئول میں دھکیلا۔

۹۹۶ ۔ حاکم جو کہ اسلامی مہدی کی طرح ہے وہ مِصر کا خلیفہ بنا اور یروشلم میں دہشت گردی کی ۔

۹۹۷ سے ۱۰۳۰ ۔ غزنی حکومت کے تحت دو ملین لوگوں کو جدید پاکستان ، افغانستان ، ایران اور انڈیا کے علاقوں میں قتل کر دیا گیا ۔

۱۰۰۰ سے ۱۵۲۵ تاریخ دان کے ایس لال نے اندازہ لگایا کہ ۸۰ ملین شہری سپین کے وقت میں اسلام کے نام پر قتل کر دیے گئے۔

۱۰۳۲ سے ۱۰۳۳ چھ ہزار یہودی مراکو میں اور بہُت سارے گرینڈا میں ماردیئے گئے۔

۱۰۵۹ سے ۱۰۷۱ رابرٹ گئیس کارڈ نے جنوبی اٹلی میں نرمان شہنشاہت کو قائم کیا اور سسلی سے مسلمانوں کو نکالا۔

۱۰۴۰ ۔ مرکزی ایشیاء کے نوسیڈک قبائلی آدمیوں نے مشرقِ وسطیٰ میں ہجرت کی ۔

۱۰۵۵۔ سلجک وارلارڈ نے تُغرل بیگ کو بغداد میں سلطان مقرر کیا اور سُنی اسلام کو موثر بنانے کا دعویٰ کیا۔

۱۰۷۴ ۔ ترکوں نے آثیث بِن یُوک کی حکومت کو پاک سر زمینوں میں پھیلا دیا۔

۱۰۷۵ ۔ ترک دمشق کی طرف بھاگتے ہیں۔

۱۰۷۷ ۔ ترک یروشلم میں بنیاد ڈالتے ہیں ۔ ترک ترکی میں رم کی سلطنت کو پاتے ہیں۔

۱۰۸۵ ۔ سپین میں مسیحی فوجیں دوبارہ سابقہ تولیدو کی وِسیگوتک سلطنت کا اعلان کرتے ہیں۔

۱۰۹۲ ۔ ۱۰۹۸ سپین کے بُہت مشہور مسیحی حاکم روڈ ریگوڈیاز ڈیویور ( ایل سِڈ ) اسلامی پھیلتی ہوئی فوجوں کو خاطر خواں نقصان پہنچاتا ہے۔

۱۰۹۵ ۔ پوپ عربن دوم مقدس شہر کے لیے جنگ کا اعلان کرتا ہے اور بینزین ٹائن کی مسیحی سلطنت کے لیے مدد دیتا ہے ۔

۱۰۹۸ سے ۱۰۹۹ جہادی پاک سر زمین میں آتے ہیں پہلی لڑائی شروع ہوتی ہے اور سات لڑایئوں میں سے سب سے زیادہ کامیاب یروشلم دوبارہ مسلمانوں سے لے لیا جاتا ہے اور پانچ میں سے تین رہنما اِس جنگ میں بادشاہ کے بیٹے یعنی ‘‘ شہزادوں ’’ کی طرح جانے جاتے ہیں ۔

۱۱۰۷ ۔ ناروے کا بادشاہ سیگارڈ پاک سرزمین کے لیے جاتا ہے اور اُس کے ساتھ ۶۰ بحری جہاز اور ۵۰۰۰ جنگجو جاتے ہیں ۔

۱۱۱۰ ۔ بادشاہ سیگارڈ فلسطین پہنچتا ہے اور بالدون جو یروشلم کا بادشاہ تھا اُس سے ملتا ہے سیگارڈ بالدون کو مدد دیتا ہے تاکہ وہ سیڈن کو مسلمانوں سے آزاد کروائے۔

۱۱۲۸ ۔ ہیکلوں کے حکمران حکمرانوں کو کلیسیاء کی طرف سے پاک سر زمین کے تحفظ کے لیے سرکاری شناخت دی جاتی ہے ۔

۱۱۲۰ ۔ ہسپتالوں کے سربراہ زور پکڑتے ہیں اور بُہت ساری صلیبی جنگوں میں لڑتے ہیں۔

۱۱۴۶ سے ۱۱۴۸ دوسری لڑائی میں اڑیسہ کی ریاست سابقہ مسلمان فاتح جو ۱۱۴۰ میں تھا اُس سے حاصل کرنے میں ناکامی ہوتی ہے۔

۱۱۸۸ سے ۱۱۹۲ تیسری لڑائی پوپ گریگری سوم کی قیادت میں ہوتی ہے جو صلاح و الدین کے خلاف تھی اور ۱۱۸۷ میں ہیٹن میں صلاح و الدین کو فتح ہوئی جو اِس میں واضح شخصیات اُبھر کر سامنے آئیئں وہ بادشاہ رچرڈ تھا جو انگلینڈ کا شیر دل تھا فرانس کا بادشاہ فلپس شہنشاہ فریڈرک بار بوروسہ اِنھوں نے لیونٹ کے ساحل پر اُس سر زمین میں قلعہ بنایا۔

۱۲۰۱ سے ۱۲۰۴ چوتھی لڑائی کونسٹنٹ ٹائمپل کی طرف مُڑ گئی جِس کے نتیجے میں لاطینی شہنشاہت کا قیام ہوا ۔

۱۲۱۸ سے ۱۲۲۱ ۔ پانچویں چھٹی اور ساتویں لڑائی بنیادی طور پر مِصر کو مرکز بناتی تھی اور اِس میں زیادہ تر ناکامی ہوئی۔

۱۲۵۸ سے ۱۳۲۶ عثمان کی خلیج جو کہ زیادہ تر عثمانی حکومت کے لیے ترکی میں جانی جاتی ہے سامنے آئی۔

۱۳۰۱ عثمان ( بون بریکر ) نے بینزین ٹائن کی بڑی فوج کو جنوبی کونسٹنٹ ٹائمپل میں شکست دے کر بُہت شہرت حاصل کی۔

۱۳۸۹ کوسووہ کی لڑائی عثمان ترک مراد اول نے مسیحی سربوں کو شکست دی۔

۱۴۴۴ ورنا کی لڑائی ۳۰۰۰۰ کی ایک فوج نے محمود دوم سے شکست کھائی۔

۱۴۵۳ محمود دوم نے مشرقی مسیحی سلطنت کونسٹنٹ ٹائمپل کو اپنا دارلحکومت بنایا۔

۱۵۲۹ ترک ویانہ کے دروازوں تک آئے لیکن بھگا دیئے گئے ۔

۱۵۲۰ سے ۱۵۶۶ عثمانیہ حکومت کے تحت عظیم سلمان نے اسلام کے گھر کو ایک بار پھر ایک واحد وحدانی شہنشاہی خلافت میں اکٹھے کیا ۔

۱۶۸۳ ۔ ترکوں نے ویانہ کو دوبارہ لینے کی کوشش کی لیکن مقدس رومی شہنشاہت کے مغربی سپر پاور کے الحاق نے اور پالش لیتھونیا ، دولتِ مشترکہ ( پاک لیگ ) کو شکست دی ۔

۱۸۹۴ سے ۱۸۹۶ ترک مُسلمانوں نے ڈھائی لاکھ ارمینیاء کے مسیحیوں کو ذبح کیا ۔

۱۹۰۴ سے ۱۹۰۹ ایک دوسرے ۳۰۰۰۰ لوگ جو ارمینیاء میں تھے اُن کو ترکوں نے قتل کیا ۔

۱۹۱۵ مُسلمان ترکوں نے ایک زبردست منصوبہ سازی سے ایک میلین ارمینیوں کی ( جن میں زیادہ تر مسیحی تھے ) نسل کشی کی۔

۱۹۲۴ ۔ اسلامی عثمانی سلطنت میں سرکاری خلافت کا خاتمہ ہوا۔

۱۹۳۹ ۔ ہٹلر اپنے مشن کے تحت اُن تمام یہودیوں کو جن کی بنیاد اسلامی ترک کے نمونے پر تھی اُن کی خاموشی سے نسل کشی کر دی۔

 

باب بارہ

(۱) تھامس پیٹرک ہگیز ، ڈکشنری آف اسلام ( شکاگو : قاضی پبلیکیشنز انک ، ۱۹۹۴ء) ، ۲۴۳

(۲) تخفیف ۔ ، ۲۰۷

(۴) افاہیم قارش ، اسلامک امپریل ازم : ایک تاریخ (نیوہیون اینڈ لندن ۔ ہیل یونیورسٹی پریس ، ۲۰۷) ، ۵

(۵) ابن اضحاق، لائف ، ۱۳۰

(۶) تخفیف ۔ ، ۱۳۱

(۷) رابرٹ سپنسر ، دی ٹروتھ اباؤٹ محمد ۔ فاؤنڈر آف دی ورلڈ  موسٹ اِن ٹولرینٹ رلیجن واشنگٹن ڈی سی ری جینری پبلیکیشینز اِنک ۔ ، ۲۰۰۶ء) ، ۷۷

(۸) البخاری ، حدیث والیم ۔ ۱ ، نمبر ۲۵ : ۱۸

(۹) تخفیف ۔ ، ۳۹۲ : ۱۴۵

(۱۰) تخفیف ۔ ، ۲۶ : ۱۹

(۱۱) الطبری ، ہسٹری آف الطبری ، والیم ۔ ۹، ۸۲

(۱۲) تخفیف ۔ ، ۸۴

(۱۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۱ ، نمبر ۔ ۷ : ۱۰

(۱۴) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۴ ، نمبر ۳۴۵۳ ۔ ۵۴ : ۲۸۰

(۱۵) تخفیف ۔ ، ۲۸۱۳ : ۳۶

(۱۶) سپنسر ، ٹروتھ اباؤٹ محمد ، ۱۲۹

(۱۷) ابن اضحاق ، لائف ، ۴۶۴

(۱۸) کارش ، اسلامک امپیریل ازم ، ۱۵

(۱۹) ابن ورق ، میں کیوں مسلمان نہیں ( ایمرسٹ ، این وائی پرومیٹیس بُکس ، (۱۹۹۵ء) ، ۲۱۷

(۲۰) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۵ ، نمبر ۴۰۲۸ : ۱۴۰

(۲۱) سپنسر ، ٹروتھ اباؤٹ محمد ، ۱۱۱۔ ۱۲

(۲۲) تخفیف ، ۱۳۷ ۔ ۳۹

(۲۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۴ ، نمبر ۳۵۹۳ : ۳۲۳

(۲۴) سپنسر ، ٹروتھ اباؤٹ محمد ، ۱۵۹

(۲۵) تخفیف ۔ ، ۱۸۰

(۲۶) موڈی آدمز ، وہ مذہب جو امریکہ کی عزت لُوٹ رہا ہے ۔ (این ۔ پی : دی موڈی آدمز ایوینجلسٹک ایسوسی ایشن ، این ۔ ڈی ) ، ۱۰۱

(۲۷) این ۔ اے ۔ ، پردے کے پیچھے ، ۶۰ ۔ ۲

(۲۸) کارش اسلامک امپریل ازم ، ۲۵

(۲۹) تخفیف ۔ ، ۲۵ ۔ ۶

(۳۰) تخفیف ۔ ، ۴۹

(۳۱) تخفیف ۔ ، ۲۳

(۳۲) تخفیف ۔ ، ۱

(۳۳) روڈی سٹارک ، گوڈز بیٹلین : جہادوں کے معاملات (نیویارک ہارپر کولن پبلشرز ، ۲۰۰۹ء) ، ۲۹

(۳۴) تخفیف ۔ ، ۳۶ ۔ ۷

(۳۵) تخفیف ۔ ، ۳۸

(۳۶) تخفیف ۔ ، ۳۸ ۔ ۹

(۳۷) تخفیف ۔ ، ۴۰ ۔ ۴۴

(۳۸) تخفیف ۔ ، ۹۰

(۳۹) تخفیف ۔ ، ۹۱

(۴۰) تخفیف

(۴۱) تخفیف ۔ ، ۲۹

(۴۲) تخفیف ۔ ، ۴۸ ۔ ۵۱

(۴۳) تخفیف ۔ ، ۴۶

(۴۴) تھامس آس برج ، جہاد : مقدس سر زمین کے لیے جنگ کی ایک با اختیار تاریخ ( نیویارک : ہارپر کولن پبلشرز ، ۲۰۱۰ ء) ، ۲۱

(۴۵) سٹارک ، بیلٹین ، ۹۷

(۴۶) رابرٹ سپنسر ، سیاسی طور پر اسلام تک غلط راہنمائی (اور جہاد) ( واشنگٹن ڈی سی : ری جینری پبلیشنگ انک ، ۲۰۰۵ء) ، ۱۲۵

باب تیرہ

(۱) ایسبرج، کروسڈز ، ۴۰

(۲) سپنسر ، اسلام اینڈ کروسڈز ، ۱۴۷

(۳) جونتھن ریلی سمتھ ، دی آکسفورڈ ہسٹری آف دی کروسڈز (نیویارک آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اِنک ۔ ، ۲۰۰۲ ) ۵ ، ۹

(۴) سٹارک، بیٹلین ، ۲۴۶ ۔ ۴۷

(۵) اِلسن سکوفیلیڈ اینڈ دی اینڈ ٹائمز : دی رلیجنس بیٹل بی ہاہنڈ دی ہیڈلائنز ( فورٹمائرز ، فلوریڈا فِش ہاؤس پبلشنگ ، ۲۰۰۷ء) ، ۴۰

    (جنوری ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی)  [http://www.beholdthebeast.com/abomination_of_desolation.htm](۶)

(۷) تخفیف

(۸) ایس برِچ ، کروسڈز ، ۱۷

(۹) سٹارک ، بیٹلین ، ۳ ۔ ۴

(۱۰) تخفیف ۔ ، ۱۰۹

(۱۱) تخفیف ۔ ، ۱۱۲ ۔ ۱۱۳

(۱۲) ایس برِچ ، کروسڈز ، ۴۷

(۱۳) تخفیف ۔ ، ۴۲

(۱۴) سٹارک ، بیٹلین ، ۱۲۷ ۔ ۳۶

(۱۵) تخفیف ۔ ، ۱۳۷

(۱۶) تخفیف ۔ ، ۱۵۲ ۔ ۵۳

(۱۷) تخفیف ۔ ، ۱۵۵ ۔ ۵۶

(۱۸) تخفیف ۔ ، ۱۶۴ ۔

(۱۹) تخفیف ۔ ، ۱۶۵ ۔ ۶۶

(۲۰) سُنوری سٹرلسن ، ہیمز کرنگلا :: ناروے کے بادشاہوں کی تاریخ ، ٹرانس سموئیل لیئنسگ (لندن ، ۱۸۴۴) ، (این ۔ پی ۔ : فارگوئن بُکس ، ۲۰۰۸ء) ، ۵۷۲ ۔ ۷۳(۲۱) تخفیف ۔ ، ۵۷۳

(۲۲) سٹارک ، بیٹلئین ، ۱۳۹

(۲۳) تخفیف ۔ ، ۱۷۴ ۔ ۷۵

(۲۴) تخفیف ۔ ، ۱۸۰ ۔ ۸۱

(۲۵) سپنسر ، اسلام اینڈ کروسڈز ، ۱۷۲

(۲۶) تخفیف ۔ ، ۱۷۳

(۲۷) سٹارک بیٹلئین ، ۱۹۴۔

(۲۸) تخفیف ۔ ، ۲۰۰

(۲۹) تخفیف ۔ ، ۶۴

(۳۰) تخفیف ۔ ، ۶۵

(۳۱) تخفیف ۔ ، ۵۷ ۔ ۸

(۳۲) تخفیف ۔ ، ۶۰

(۳۳) تخفیف ۔ ، ۵۸ ، ۶۱

(۳۴) سپنسر ، اسلام اینڈ کروسڈز، ۱۴۷۔۴۹

(۳۵) تخفیف ، ۱۶۰

(۳۶) کارش ، اسلامک امریل ازم ، ۸۹

(۳۷) تخفیف ۔ ، ۹۱

(۳۸) تخفیف ۔ ، ۹۲

(۳۹) سپنسر ، اسلام اینڈ کروسڈز ، ۱۵۳

(۴۰) کارش ، اسلامک امپریل ازم ، ۹۲

(۴۱) سپنسر ، اسلام اینڈ کروسڈز ، ۱۵۴

(۴۲) کارش ، اسلامک امپریل ازم ، ۹۲ ۔ ۳

(۴۳) سپنسر ، اسلام اینڈ کروسڈز، ۱۵۶ ۔ ۵۷

(۴۴) کارش ، اسلامک امپریل ازم ، ۹۳۔

(۴۵) تخفیف ۔ ، ۹۴ ۔ ۵

(۴۶) ورِک ، میں کیوں مسلمان نہیں ہوں ، ۲۳۸ (۴۷) کارش اسلامک امپریل ازم ، ۱۱۶ ۔ ۱۷

(۴۸) تخفیف ۔ ، ۱۱۶

(۴۹) ولید شُعبت ، دہشت گردی پر خُدا کی لڑائی : اسلام نبوت اور بائبل ( این ۔ پی ۔ : ٹاپ ایکسزکٹیف میڈیا ، ۲۱۰) ، ۱۷۱

(۵۰) پیٹر ہامود ، سوڈان میں آگ کے تلے ایمان ( نیولینڈ ، ساؤتھ افریقہ : فرنٹ لائن فیلوشِپ ، ۱۹۹۶ء) ، ۹۱

     (جنوری ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی )[http://www.politicalislam.com/tears/pages/tears-of-jihad/] (۵۱)

باب چودہ

(۱) البخاری ، حدیث والیم ۔ ۹ ، نمبر ۶۹۲۷ : ۲۴ ۔

(۲) تخفیف ۔ ، ۶۹۲۳ : ۲۵

(۳) تخفیف ۶۹۳۰ : ۵۷

(۴) تخفیف ۔ : ۶۹۲۱ : ۲۳

(۵) ہامونڈ ، آگ کے تلے ایمان ، ۹۴ ۔ ۵

(۶) آدمز ، وہ مذہب جو امریکہ کی عزت لوٹ رہا ہے ، ۱۰۲

(۷) برنارڈلوئیس ، تاریخ میں اسلام : تصورات لوگ اور قرونِ وسطیٰ میں واقعات ( شکاگو اور لاسال ، ۲ ، : اوپن کورٹ ، ۱۹۹۳ء) ، ۳۷۳

(۸) تخفیف ۔ ، ۳۶۱

(۹) ڈانیل پائپس دی رُشدی افیرز : دی ناول ، دی آیت اللہ اینڈ دی ویسٹ ( این ۔ وائے ۔ : کیریل پبلشنگ گروپ ، ۱۹۹۰ء) ، ۱۸۱

(۱۰) تخفیف ۔

(۱۱) تخفیف ۔ ، ۱۸۲ ۔ ۸۳

(۱۲) تخفیف ۔ ، ۲۱۸

[http://www.theblaze.com/stories/author-salman-rushdie-cancels-india-trip-over-threatsof- (۱۳)

    (جنوری ۲۰۱۲ء کو شائع ہوئی) violence-assassination-by-islamic-protesters/]

باب پندرہ

(۱) البخاری ۔ حدیث ۔ والیم ۔ ۱ ، نمبر ۶۳ : ۳۵ ۔ ۶

(۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۲ ، نمبر ۔ ۱۰۰۸ : ۴۷

(۳) البخاری ، حدیث ، والیم ، ۱ ، نمبر ۔ ۳۷۱ : ۱۳۸

(۴) تخفیف ۔ ، ۳۹۰ : ۱۴۴

(۵) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۹ ، نمبر ۔ ۷۲۳۶ : ۲۷۳ : والیم ۔ ۴ ، نمبر ۔ ۲۸۳۷ : ۴۵

(۶) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ نمبر ۔ ۵۱۵۱ : ۹۹ : والیم ۔ ۳ ، نمبر ۲۴۶۸ : ۲۵۷ (۷) این ۔ اے ۔ ، پرد کے پیچھے ، ۱۵۴

(۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۱ ، نمبر ۶۹۳ : ۲۳۲ ؛ والیم ۔ ۳ ، نمبر ۲۴۸۸ : ۲۶۷ ۔

(۹) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۹ ، نمبر ۷۰۳۸ : ۱۴۱

(۱۰) آدمز ، وہ مذہب جو امریکہ کی عزت لوٹ رہا ہے ، ۵۷ ۔

(۱۱) ورک ، میں مسلمان کیوں نہیں ہوں ، ۲۰۵

باب سولہ

(۱) شُعبت ، دہشت گردی پر خُدا کی لڑائی ، ۵۴

(۲) تخفیف ۔ ، ۵۶

(۳) تخفیف ۔ ، ۵۳

(۴) تخفیف

(۵) تخفیف

(۶) ہیکیز ، ڈکشنری آف اسلام ، ۳۹

(۷) شُعبت ، خُدا کی دہشت گردی پر جنگ ، ۹۳

(۸) یوئل ناتن ، مونوتھیزم ( این ۔ پی ۔ : این ۔ پی ۔ ، ۲۰۶) ۲۹

(۹) جان جوزف اُونز ، اینا لیٹیکل کی ٹو دی اولڈ ٹیسٹامنٹ ، والیم ۔ ۴ ، ( گرینڈ ریپرڈز : بیکر بُک ہاؤس ، ۱۹۸۹ء) ، ۷۹۴

(۱۰) فرانسس براؤن ، ایس ۔ آر ۔ ڈرائیور ، اینڈ چارلس اے ۔ برگز ، دی براؤن ڈرائیور برگز ہبریو اینڈ انگلش لیکسی کون (پی بوڈی ، ایم اے ہینڈرک سن پبلشرز ۔ اِنک ۔ ۲۰۱۰ء) ۔۹۶۲

(۱۱) کیری شرٹس ، بائبل نے لفظ ‘‘ لوسیفر ’’ کو ‘‘ستارے’’ میں بدل دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ شیطان کی پوجا ہوتی ہے

[http://www.backyardprofessor.com/the_masonic_scholar/2010/03/biblechanging-

   ( جنوری ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی) the-word-lucifer-to-star-proof-that-masons-worship-the-devil.html]

(۱۲) گولیم ، محمد کی زندگی ، ۷۵۲ ۔

(۱۳) جوئیل رچرڈسن ، مخالفِ مسیح : اسلام کا انتظار کیا گیا مسیحا ( اینوم وکئیو ، ڈبلیو اے : خوشگوار کلام ۔ آڈیویشن آف وائن پریس پبلشنگ ، ۲۰۰۶ء) ، ۱۶۸

(۱۴) شُعبت ، دہشت گردی پر خُدا کی جنگ ، ۱۶۸

(۱۵) تخفیف ۔ ، ۲۲۶ ۔

(۱۶) تخفیف ۔ ، ۹۱ ۔

(۱۷) تخفیف ۔ ، ۳۰۰

(۱۸) تخفیف ۔ ، ۴۲۱

(۱۹) براؤن ، ڈرائیور ، برگز ؛ براؤن ۔ ڈرائیور ۔ برگز ہبریو ، ۹۱۰ ۔ ۱۱

(۲۰) شُعبت ، دہشت گردی پر خُدا کی جنگ ، ۲۵۵

(۲۱) گورڈن رابرٹسن ، دی سیٹ آف سیٹن : اینی انشنعٹ پرگامم،

[http://www.cbn.com/700club/features/ChurchHistory/Pergamon/EZ28_seat_of_satan_part_2

    ( جنوری ۲۰۱۲ء کو شائع ہوئی ) .aspx]

(۲۲) شُعبت ۔ دہشت گردی پر خُدا کی جنگ ، ۴۳۸

(۲۳) سِم اوزڈیمر ، کونٹرو ورسی اُوور ترکش مووی : بھیڑیوں کی وادی سے آگے

   (جنوری ۲۰۱۲ء کو شائع ہوئی) [http://Spiegel.de/international/0,1518,401565,00.html]

(۲۴) شُعبت ، دہشت گردی پر خُدا کی جنگ ، ۴۳۸ ۔ ۳۹

(۲۵) تخفیف ۴۴۱ ۔ ۴۲

(۲۶) جوئیل رچرڈسن ، ترکی کا اپنی فوج کو دوگنا کرنا۔

 [http://www.bibleprophecyblog.com/2011/07/turkey-to-double-size-of-its-army.html]

(جنوری ۲۰۱۲ء کو شائع ہوئی )

(۲۷) ہیلل فریڈکن اینڈ لوئیس لبی ، پاورپلے : ترکی کا ایران کے لیے نرسنگا ۔

[http://www.worldaffairsjournal.org/article/power-play-turkeys-bid-trump-iran]

(جنوری ۲۰۱۲ء کو شائع ہوئی)

(۲۸) تخفیف

(۲۹) پال کرول ، مکاشفہ ۱۳ اور ‘‘ حیوان کا نشان’’

       ( فروری ۲۰۱۲ء کو شائع ہوئی ) [http://www.gci.org/bible/rev13/mark]

 (۳۰) شُعبت ، دہشت گردی پر خُدا کی جنگ ، ۳۷۷ ۔

(۳۱) تخفیف

(۳۲) تخفیف ۔ ، ۳۶۵

(۳۳) تخفیف ۔ ، ۳۷۸

نتیجہ

(۱) رابرٹ مورے ، پری اسلامک ریجنز آف اسلام ، لیکچر ، ایک گھنٹہ ( نیو پورزت ، پی اے : ٹروتھ سیکرز ، ۱۹۹۶ء ) ، ویڈیو کیسٹ ،

(۲) مورے ، گریٹ ڈیبیٹ ، دو گھنٹے

(۳) تخفیف

(۴) ماؤنٹ گومری واٹ ، محمد ایٹ مدینہ ( آکسفورڈ : کلیر رینڈن پریس ، ۱۹۵۶ء) ، ۳۰۹ ۔ ۱۵

(۵) جوزف تلشکن ، جیواش لٹئری ، (نیویارک : ولیم مورو اینڈ کمپنی ، اِنک ۔ ۱۹۹۱ء) ، ۱۶۱۔

(۶) تخفیف ۔ ۱۶۱ ۔ ۶۲

(۷) تخفیف ۔ ، ۱۶۲(۸) تخفیف

(۹) تخفیف ۔ ، ۱۶۳۔

 (۱۰) تخفیف۔