حصہ سوئم ۔ محمد
باب ۶
محمد کا جادومنتر
جادو منتر پر بائبل کا اظہار
محمد اور جادو منتر کے درمیان موازنے کی چھان بین کرتے ہوئے، بائبل کا ایک نمونہ پہلے قائم کرنا ضروری ہے۔ تہذیب کے شروع میں پیچھے غور کرتے ہوئے جادو منتر کو جادو کا فن خیال کیا جاتا رہا ہے۔ مائیکل ہارنر، نیویارک اکیڈیمی آف سائنس کے علم الانسان شعیہ کا بیان کرتا ہے: ( شمن (تلفظ شماں) ایک لفظ ہے جوئنگس زبان جو سائبریا کے لوگوں کی زبان ہے، اور علم الانسان کے ماہرین بڑے وسیع طور پر اختیار کیا ہے اُن آدمیوں کا حوالہ دینے کے لیے جع غیر مغربی ثقافت کی ایک عظیم روایت ہے جو واضح طور پر ایسی اصطلاحات جیسے ‘‘جادوگرنی’’ ‘‘جادو کا ماہر’’ ‘‘جادوگر’’،‘‘افسون گر’’(سیانا) ‘‘ساحر’’ ‘‘چھومنتر کرنے والا’’، (۱)
جادو انہی طریقوں میں سے استعمال ہوتا ہے جیسے جادوگرنیاں ، افسون گر، جادو گر وغیرہ جادو آشنا روحوں پر مکمل طورپر بھروسہ کرتا ہے۔ ان وجودوں کا بیان کرتا ہے:
راہنما روح ہے ۔۔۔ اکثر علم الانسان کے ادب میں دوسرے ناموں سے کہلاتی ہے، جیسے ‘‘ماتحت روح’’ سائبریا کے جادومنتر میں کام کرتی ہے اور میکسیکو اور گوئٹے مالا میں ‘‘نیگول’’۔ آسٹریلوی احب میں ‘‘ایک مددگار ہستی’’ کے طور پر حوالہ دیا جا سکتا ہے اور پوری ادب میں ‘‘آشنا’’۔ بعض اوقات راہنما روح صرف ‘‘دوست’’ یا ‘‘ساتھی’’ کہلاتی ہے۔ یہ جو بھی کہلاتی ہو ، یہ جادو کے فعل کرنے کے لیے ایک بنیادی ققت ہے۔ (۲)
بائبل کی تعلیمات کسی جھوٹے نبی کے عمل کردہ پُراسرار (جادو) دوستیْ تعلق کی مذمت کرتی ہے۔ روائتی تعلیمات، ارواح کے وسیلے جھوٹے نشانات اور عجائب اور روحانی علم غیب سب منع ہیں۔
جب تو اس ملک میں جو خُداوند تیرا خُدا تجھ کو دیتا ہے پہنچ جائے تو وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا۔ تجھ میں ہر گز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فالگیر یا شگون نکالنے والا یا افسون گر یا جادوگر ۔ یا منتری یا جنات کا آشنا یا رومال یا ساحر ہو کیونکہ وُہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خُداوند تیرا خُدا اُنکو تیرے سامنے سے نکالنے پر ہے۔’’( استثنا ۱۲ ۔ ۹ : ۱۸ ) انسانی نسل بشمول کبالا کے عمل کے لیے یہ روک بطور ایک تنبیہہ ہے۔ افسونگری، علمِ نجوم ، ہاتھ کی لکیریں بنانا، طوطے سے پرچی نکلوانا، مردوں کی روحوں سے باتیں کرکے پیشنگوئی کرنا، ارواح پرستی وغیرہ ؛ جو ٹونے تشکیل دیتے ہیں ، چُھو منتر یا جادوگری کا عمل بناتے ہیں۔
اکثر بطور ایک کثیرالشکل ہستی، شیطان ‘‘نورانی فرشتے کا بھیس بدل لیتا ہے’’(۲۔کرنتھیوں ۱۱ : ۱۴) اپنی بد روحوں کے ساتھ گرائے گئے فرشتوں یا بدروحوں کو بھیج سکتا ہے ، وہ پاک فرشتوں کی نقل کرنے کے قابل ہیں اور انسانوں کو بیمار کر سکتے ہیں۔ رومی بادشاہت میں سفر کرنے کی اپنی صلاحیت کے ذریعے ، قدیم زمانے سے واقفیت رکھنا اور دوسری روحانی مافوقِ و الفطرت قوتیں ، وہ کسی انسانی صلاحیت سے آگے بڑھ جاتی ہیں۔ پس وہ بہتوں کو اپنی چالاک چال بازی سے دھوکہ دینے کے قابل ہیں۔ یہ بد روحیں چوروں کی مانند ہیں ‘‘چور نہیں آتا بلکہ چُرانے اور ہلاک کرنے کے لیے اور برباد کرنے کے لیے’’۔ (یوحنا ۱:۴) اِن بدروحوں سے مشورہ لینا بطور ایک فرد آسانی الوبن سکتا ہے ناجائز اثرات سے کام نکال سکتا ہے ۔ اور ایک جھوٹ پر ایمان لانے کے لیے کسی کو بد روح کے اثر میں لایا جا سکتا ہے۔ شدید حالات میں وہ کسی وجود کے قبضے میں آسکتا ہے ۔
جادوگری کی ابتداء
علامتی طور پر جوڑ جوڑ الگ ہونا اور آسمانی سفر۔
دنیا سے مثالیں
اعلیٰ درجے کے جادوگر عالموں میں ایک مر گیا الیاڈ نے اپنے لمبے چوڑے کام شمینزم آرچیک ٹیکنیکس آف اسٹکیسی میں تبصرہ کیا:
خواب، بیماری، یا رسوم پرستی کی ابتداء مرکزی عنصر ہمیشہ ایک ہی ہے : موت اور کسی نو مرید کا تشبیہاً جی اُٹھنا ، مختلف طریقوں سے جسم کے کاٹنے میں ملوث ہوتے ہوئے کام کرنا ( جوڑ جوڑ الگ کرنا ، کچکچاہٹ ، پیٹ کا کھولنا وغیرہ) (۳)
وسطی آسٹریلیا کے وارمنگو کے درمیان، اس منظر کی تحریری شہادت دیکھی گئی ہے۔ ایک جادوگر نے جادوگری کی ابتداء میں اپنے تجربے کے متعلق اس قبیلے کی گواہی دی۔ دو روحیں جو پینٹی ڈیرز کہلاتی ہیں ۔ ایک آدمی کو دو دن تک شکار کیا ۔ انہوں نے اس کے باپ اور بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسری رات کے دوران، روحوں نے اُسے مار دیا۔ الیاڈ نے بیان جاری رکھا : ‘‘جب وہ مردہ لیٹا ہوا تھا انہوں نے اُسے کاٹ دیا اور اس کا اندر باہر نکال دیا، اُسے ایک نیا سیٹ بناتے ہوئے اور آخر کار ، انہوں نے اس کے جسم میں ایک چھوٹا سانپ رکھ دیا، جس نے اُسے ایک جادوگر کی قوتوں سے اُسے دوبارہ زندگی بخشی’’۔(۴)
الیاڈ ایک دوسری رسم پرستی کے عمل کو ڈیاک آف لوزنیو کے درمیان دوبارہ بیان کیا: ایک بوڑھے جادوگر نے ایک نو مرید کو پردوں سے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ ‘‘اور جیسے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کا سر کاٹ کے کھول دیا، اس کا دماغ ننکال دیا، انہیں دھویا اور بحال کیا، اس کو صاف اور شفاف ذہن دینے کیے لیے بدروحوں کی پراسراریت اُسکے اندر داخل کرنے کے لیے اور بیماری کی پیچیدگیاں :۔۔۔۔۔۔(۵)
ایک برفانی جھونپری کے اسکیموں کی ابتداء کے متعلقہ الیاڈ نے اس مثال کا حوالہ دیا:
بوڑھا جادوگر اپنے شاگرد کی آنکھوں سے اُسکی ‘‘جان’’ نکالتا ہے، دماغ اور آنتیں نکالتا ہے، اس طرح روحیں ہو سکتا ہے جانتی ہوں کہ اُس کے لیے بہترین کیا ہے۔ اس ‘‘جان نکالنے’’ کے بعد اگلا جادو خود اس قابل ہو گیا کہ اپنے جسم سے اپنی جان نکالے اور خلا میں اور سمندر کی گہرائیوں میں پُراسرار لمبے سفر اختیار کرتا ہے۔ (۶)
الیاڈ نے تنصرہ کیا ، ‘‘آنتوں سے جان نکالنا واضح طور پر اندرونی اعضا کی تجدید ہے’’۔ (۷)دنیا کے ارد گرد سے ، یہ مثالیں محمد کی اپنی جادوئی جوڑ جوڑ الگ الگ کرنے کے تجربے کے لیے موازنہ کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیں۔
محمد کی ابتداء
تقریباً پانچ سال کی عمر میں محمد کو اپنے کئی خوفناک جادوئی تجربات میں پہلا تجربہ ہوا۔ اسلام کی تاریخ میں ، رابرٹ پائنے نے دوبارہ اس واقع کا بیان کیا:
وہ (محمد) حلیمہ کے بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ کھیت میں چہل قدمی کر رہا تھا جب وہ اچانک گِر گیا، روتے چلاتے ہوئے جب اُس نے زمین پر پاؤں پھیلا کر پیٹ کے بل رینگنا شروع کیا تو دو آدمیوں نے سفید کپڑوں میں ملبوس اس کے پیٹ کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھول دیا اور اُسے بلاتے رہے۔ اس کا ساتھی کُچھ نہ کر سکا جو واقع ہو رہا تھا اور مدد کے لیے کہنے کے لیے واپس بھیڑ خانے بھاگا۔ حلیمہ اور اس کا خاوند بھاگتے ہوئے کھیت میں آئے کہ محمد کو ڈھونڈیں کہ زمین پر ابھی تک رینگ رہا ہے یا نہیں، بلکہ کھڑا تھا، اسکے چہرے کا سارا خون خشک ہو گیا تھا۔ پوچھا گیا کہ کیا ہوا تھا، اُس نے دو فرشتوں کا بتایا جہنوں نے اس کا پیٹ کاٹ کر کھول دیا، کُچھ تلاش کرتے ہوئے ، اگرچہ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا ہے۔ چرواہا خوف زدہ ہو گیا کہ وہ کس شیطان کے قبضے میں ہے۔(۸)
ایک مسلمان مورخ طبری نے مِلتا جُلتا ایک بیان دیا:
‘‘اے اللہ کے رسول ، تم نے بالکل یقین کے ساتھ پہلے کیسے جانا کہ ایک نبی ہو’’؟ ‘‘ابودھر’’ اس (محمد) نے جواب دیا، ‘‘دو فرشتے میرے پاس آئے جب میں مکہ کی کسی وادی میں کہیں تھا۔ اُن میں سے ایک زمین پر آیا، جبکہ دوسرا آسمان اور زمین کے درمیان رہا۔ اُن میں ایک نے دوسرے سے کہا ، کیا وہ یہ ہے؟ ۔۔۔۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا، اس کا سینہ چاک کرو۔ اس نے میرا سینہ چاک کیا اور پھر کہا، اُس کا دل نکال لے، یا اس کا دل کھول۔ اس نے میرا دل کھولا، اور اس میں سے شیطان کی گندی اور خون کا جما ہوا لوتھرا نکال دیا اور اُنہیں دُور پھینک دیا پھر اُن میں سے ایک نے دوسرے سے کہو ؛ اُس کی چھاتی صاف کر دے جب تُم اُسے چُھپا دو پھر اُسے سکائنہ بلایا گیا جو سفید بلی کی طرح کا چہرہ دکھائی دیتا تھا اور یہ میرے دل میں رکھا گیا۔ پھر اُن میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ، اس کے سینے کو سی دو ۔ پس انہوں نے میرا سینہ سی دیا اور میرے کندھوں کے درمیان ایک چھاپ رکھ دی ۔۔۔۔ جبکہ یہ اس وقت پیش آیا جب میں اِسے بطور ایک تماشائی دیکھ رہا تھا ۔ ’’۔(۹)
ان بیانات کے اندر بہت سے جادوئی مقاصد موجود ہیں ۔ جس طرح پچھلے وقت وار منگو ابتداء کے ساتھ ظاہر ہوا، دو بد روحی ہستیاں محمد کے تجربہ میں ایجاد ہوئیں کہ وہ اچھی روحیں بنیں جادو منتر میں، موجود دوسرا موضوع خون کے منجمد ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ محمد کی وحیوں کے متعلقہ ، خون کا جمنا بائبلی نبوتی تعلیمات کی نسبت شیطانی تجربہ کی عکاسی کرتا ہے۔ بائبلی تحریر میں ، خون کا کردار صرف کفارے کی قُربانی کو ظاہر کرتا ہے جِس کی اسلامی عالم پر زور طریقے سے مخالفت کرتے ہیں۔ قُربانی کا یہ انکار پچھلے سبق میں زیرِ بحث آگیا ہے۔ محمد کی جادومنتر کی ابتداء میں زیادہ نمایاں موازنات میں ایک جوڑ جوڑ الگ الگ ہونے میں جسمانی اعضا کے دھونے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ الگ تھلگ تجربہ جادو منتر میں پُراسرار عملیات میں تحریری طور پر ثابت کیا گیا ہے اور حتیٰ کہ یو۔ایف۔او اغواہ کاریاں۔ قرآن میں ظاہر کرتے ہوئے لفظ شکائنہ کا چھ مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے پانچ شکائنہ اُس امنْسلامتی کی یقین دہانی جو محمد پر یا اہل ایمان پر خُدا کی طرف سے اُتاری گئی؛ دوسرے واقع میں ( ۲: ۴۸ ) یہ ایک مادی چیز ہے جو اسرائیلیوں کے عہد کے صندوق میں تھی’’۔ (۱۰) اس کے عکس، عبرانی تفسیر کی بنیاد میں شکائنہ خُدا کی روح ہے۔ بائبلی تحریر میں ، ہو سکتا ہے پاک روح مختلف شکلوں میں ظاہر ہو جیسے بادل کبوتر یا آگ سی پھٹتی زبانیں۔
جادو منتر میں ، طاقتور راہنما روحیں بلیوں ، عقابوں ، ریچھوں وغیرہ کی شکلیں لتی ہیں۔ محمد کے تجربے میں کھینچی گئی تصویر میں ایک سفید بلی، ایک آشنا (بدروح) روح تھی۔ پر اسرار عملیات کے مظاہرے کے افارطِ خون کو ذہن میں رکھتے ہوئے، بلی غلطی سے امکان سے مبرا کے طور پر کسی بدروح کے کوئی شگون نکالنے سے مشابہت رکھتا ہے۔ بعد کی زندگی میں ، محمد نے بطور ایک جوان لڑکے کے اسی طرح کا دوسرا زخمی مقابلوں کا تجربہ کیا ۔حدیث میں ، ملک بن سعسا محمد کے رات کے سفر کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے: نبی نے کہا: جب میں گھر میں جاگ اور نیند کے درمیان میں تھا، (ایک فرشتے نے مجھے پہچان لیا) جیسے ایک آدمی دو آدمیوں کے درمیان لیٹا ہوا ہو۔ ایک سونے کی ٹرے، حکمت اور ایمان سے بھری میرے پاس لائی گئی اور میرا جسم گلے سے نیچے دھر کے نچلے حصے تک کاٹ دیا گیا اور پھر میرا دھڑ زم زم کے پانی سے دھویا گیا ۔ اور میرا دل حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا ۔ ابراق، ایک سفید جانور گھوڑی سے چھوٹا اور ایک گدھے سے بڑا، میرے پاس لایا گیا اور میں جبرائیل کے ساتھ روانہ ہو گیا ۔
جب میں قریب ترین آسمان پر پہنچا تو جبرائیل نے دربان سے کہا: دروازہ کھول دو۔ ۔ ۔ (۱۱)
محمد اور جبرائیل نے گیٹ میں سفر جاری رکھا اور سات آسمانوں کے رات کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ تاہم یہ محمد ہی تھا کہ جس نے جبرائیل کی روح کو قبول کیا جیسے یہ اس سبق میں زیر بحث لایا جائیگا۔
طبری یہی واقعہ بتاتا ہے مگر دعویٰ کرتا ہے؛ ‘‘ دو فرشتے جبرائیل اور میکائیل اس کے پاس آئے’’۔ (۱۲) جیسے پہلے ذکر کیا گیا ہے برفبانی اسکیمو کے متعلقہ ، اندرونی اعضا کا دھویا جانا ابتداء میں تبدیلی لاتا ہے؛ نتیجتاً، روح کے سفر کرنے کی اجازت یا اور آسمان پر چڑھنا اور اُترنا۔ تجدیدی جادو، مائیکل ہارنر اس مظاہرہ کو بیان کرتا ہے: ایک عام آدمی اور ایک جادوگر شخص کے درمیان بڑا فرق یہ ہے کہ جادوگر سرگرمی سے اپنی راہنما روح استعمال کرتا ہے جب ضمیر کی ایک تبدیل شدہ حالت میں جادوگر اکثر اپنی راہنما روح کو دیکھتا اور مشورہ کرتا ہے، اس کے ساتھ جادوئی سفر کرتا ہے، جس نے اس کی مدد کی ۔۔۔۔(۱۳)
اکثر محمد نے کسی روح کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور باتیں کیں جس نے خود کو جبرائیل شناخت کروایا۔ بائبلی تعلیمات کے برعکس، نوشتوں کی متضاد بیانات میں تصدیق کی گئی ، جو کہتی ہے کہ کسی مقدس کی زندگی میں ایک یا دو دفعہ توریت اور نئے عہدنامے میں فرشتوں نے اس سے رابطہ کیا۔ جادو منتر کے برعکس زیادہ طاقتور روحوں کے ساتھ ملاقاتوں کی زیادہ تر تعداد بد روح گرفتہ شخص میں ہے۔ محمد نے بائبلی انبیاء اور مقدسین کی نسبت جادو منتر کے طریقے کی پیروی کی۔
پتھر کی پرستش اور جادو منتر
محمد نے قدیم عرب کے بڑے بُت پرست مراکز میں سے ایک میں پرورش پائی۔ اس بُت پرست پس منظر نے فطرتی طور پر بدروحی اثر کو قبول کرنے والا بنا دیا۔ محمد کے باپ کا نام چاند دیوتا اللہ کے نام پر تھا۔ اس نے اپنے باپ کے دیوتا کی پیروی جاری رکھی اس کے ساتھ ساتھ کالے پتھر (حجرہ اسود) کی بھی۔ محمد کے زمانے میں، عرب رسم ورواج کی پرستش میں لگے ہوئے تھے اور آسمانی مدد کے لیے متبرک پتھروں کو رگڑتے تھے۔ یہ جادوئی قسم کی مشق پوری دنیا کے کئی رہن سہن میں تحریری شہادت فراہم کی گئی ہے۔ ایک لمحہ کے لیے ، ایک امسِلک اسکیمو ابتداء بتائی گئی ہے۔‘‘ خُود کو ایک تنہا جگہ میں اکیلا کرنے کے لیے ۔۔۔ اور وہاں رگڑنے کے لیے اکھٹے دو پتھر جبکہ با معنی واقعہ کے انتظار کے لیے۔’’(۱۴) ایلاڈ نے بیان جاری رکھا:
پھر جھیل کا ریچھ یا گلیشئر کا جزیرہ باہر آئیگا، وہ تمہارا سارا گوشت ہڑپ کر جائیگا اور تمہیں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بنا دے گا اور تُم مر جاؤ گے ۔ لیکن تم اپنا گوشت پھر حاصل کر لو گے، تم بیدار ہو گے اور تمہارے کپڑے تم پر حملہ کریں گے۔’’(۱۵)
پتھروں کو ساری گرمیاں اور حتیٰ کہ متواتر کئی گرمیوں میں پتھر رگڑنے کی شروعات عام تھی، جب تک وہ وقت نہ آجاتا جب کہ اپنی مدد گار روحوں کو حاصل کر لیتا۔۔۔’’(۱۶) بالکل اسی طرح ، نوجوان محمد نے ایسا ہی ایک کرتب اپنی خاص راہنما روح کو حاصل کرنے کے لیے کیا۔ اس کی ساری زندگی میں، اس نے چاند دیوتا کے کالے پتھر کو چُھواء اور اسکی تعظیم کی۔ بار بار محمد نے جادو منتر کے خاندان کی اُن نظام العمل کے مطابق پیروی کی۔
بدروح گرفتہ غار کی روح
ایک راہنما روح کے حصول کے لیے جادومنتر میں ایک دوسرا طریقہءکار محلِ وقوع بھی شامل ہوتا ہے۔ہارنر اسے مزید کھولتا ہے:
ایک رات کو ایک تنہا پگ ڈنڈی ہو سکتی ہے۔’’ (۱۷)
اعادہ کے طور پر، غار کو آسٹریلوی جادوگر، عمل کے ابتداء میں استعمال کرتے رہے ہیں، میلیکولا جادوگر، سمتھ ساؤنڈ اسکیمو، چلی کے ایروکینین جادوگر اور شمال امریکی اور ہندوستانی بھی۔ (۱۸) دنیا میں ہر طرف کئی دوسرے قبائل قدرشناسی کو بلانے کے لیے غاروں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہارنر مزید بیان کرتا ہے؛ شمالی امریکہ میں، اُمیدوار، پہاڑوں کی غاروں پر، یا تنہا جگہوں پر چلے جاتے ہیں اور قلبی توجہ کے ذریعے تلاش کرتے ہیں رویائیں حاصل کرنے کے لیے جو ایک جادوئی طرزِزندگی میں تنہا معلوم کی جا سکتی ہیں۔’’(۱۹)
مختلف واقعات پر، بائبلی انبیاء تنہا جگہوں پر چلے جاتے تھے، لیکن غار کے واقعات، بدروحوں کی دنیا سے درخواست کرنے اور اُن سے باتیں کرنے کے لیے جادوئی مشق میں زبردستی سے قائم رہے۔ اپنی راہنما روح سے تعلق قائم کرنے کی کوشش میں ، غاروں میں کئی دن گزارنے پر، محمد نے آخر کار اپنی پہلی وحی حاصل کر لی۔ محمد کی نوجوان بیوی عائشہ نے بیان کیا، حدیث میں یہ درج ہے:
اور پھر، گوشہ نشینی کی خواہش اسے عزیز ہو گئی۔ وہ اپنے خاندان سے ملنے اور کھانے پینے کا سامان لینے سے غارِ حرا میں کئیئ دن اور رات پرستش کے لیے اکیلا رہا کرتا تھا۔ پھر وہ (اپنی بیوی) خدیجہ سے اپنی خُوراک یعنی دوبارہ عقل لینے آتا جہاں تک کہ سچائی اس پر نازل ہوتی جبکہ وہ غارِ حرا میں ہوتا تھا۔ (۲۰)
عائشہ نے محمد کی پہلی وحی کا مشہور بیان جاری رکھا:
ایک فرشتہ اس کے پاس آیا اور اس کو پڑھنے کے لیے کہا۔ نبی نے شامل کیا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ فرشتے نے مجھے (مضبوطی سے ) پکڑ لیا اور مجھے اتنی زور سے دبایا کہ میں اسے مزید برداشت نہ کر سکا۔ پھر اس نے مجھے آزاد کر دیا اور پھر مجھے پڑھنے کو کہا اور مزید میں نے جواب دیا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اسی سبب سے اس نے مجھے دوبارہ پکڑا جہاں تک کہ میں اسے مزید برداشت نہ کر سکا پھر اس نے آزاد کر دیا اور دوبارہ مجھے پڑھنے کو کہا لیکن میں پھر جواب دیا: مجھے پڑھنا نہیں آتا (یا میں کیا پڑھوں) ؟ تب اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑا اور مجھے دبایا اور مجھے پھر آزاد کر دیا اور کہا : پڑھ اپنے آقا کے نام سے، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرا آقا بہت فیاض ہے۔ (۹۶ : ۱ ، ۲ ، ۳ ) پھر اللہ کا رسول کانپتا ہوا واپس آگیا۔ وہ خدیجہ کے پاس آیا ۔۔۔ اور کہا: مجھے ڈھانپ دو ! مجھے ڈھانپ دو ! انہوں نے اُسے ڈھانپ دیا جہاں تک کہ اس کا خوف جاتا رہا۔(۲۱)
طبری، اسلامی مورخ، فرشتے کا محمد کو دبانے کے بارے عربی میں مستعمل دو مختلف اصطلاحات کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ تشریح کرتا ہے ‘‘ لفظ غُمہو (اس نے اسے تکلیف دی یا غمزدہ کردیا )’’ اور ‘‘غٹانی پچھلے بیان کا ( اس نے اُسے مضبوطی سے دبایا جہاں تک میرا تقریباً دم رک گیا )’’۔ (۲۲) طبرہ کے جدید ترجمے میں، جو لفظ انگریزی میں ترجمہ ہوا ہے’’۔ جبرائیل نے اس پر تشدد کیا’’۔ (۲۳) خُوف زدہ محمد نے فوراً اپنے آپ میں خیال کیا اُسے کسی جن (بدروح) نے گرفتار کر لیا ہے یا ممکنہ طور پر ،‘‘ کوئی شاعر یا کوئی دیوانہ ’’۔ (۲۴) محمد ایسے واقعات کے بعد بڑا خوف زدہ ہو گیا کہ اس نے اکثر کسی پہاڑ یا چٹان سے کود کر خُود کشی کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، رُوحی ہستی ہمیشہ اُسے روکنے کے لیے بیچ میں آ جاتی۔
وہ تشدد جس نے شروع میں اُسے ایذا دی ، جادوئی تجربہ میں بار بار رونما ہوا۔ جنوبی امریکہ کے جودوگروں کے درمیان ‘‘ ایک روح پُسو کا، اُمیدواروں پر ایک جنگ جُو کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ آقا (روحی ہستی ) فوراً شاگرد کو ضرب لگانا شروع کرتی ہے یعنی (جادوئی اُمیدوار کو ) یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گِر جاتا ہے۔ جب وہ دوبارہ ہوش میں آتا ہے تو وہ مکمل طور پر درد ہوتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ رُوح نے اس کو آسیب کر لیا ہے’’۔ (۲۵)
آخر کار، خواہ فوراً یا کُچھ دیر بعد، وہ روحیں جو کسی بھی عملی فن کی ہوں آخر کار خُود کو پر تشدد انداز میں ظاہر یا واضح کرتی ہیں۔ محمد کو اپنی راہنما روح کے ذریعے نمایاں طور پر اس بدعتی عقیدے کا تجربہ ہوا۔
روح کے ساتھ ایسے صدمے والے مقابلوں کے بعد فوراً محمد تسلی اور تسکین کی تلاش کرتا رہا اپنی بیوی خدیجہ سے۔ وہ اُسکی عمر میں بڑی کزن تھی اور اُسے بطور ایک سفر سیلزمین کرائے پر لیا اور مال فروخت کرنے کی صلاحتیوں سے متاثر تھی ۔ خدیجہ نے جب شادی کے لیے محمد کو مشورہ دیا تو وہ چالیس سال کی تھی اور محمد پچیس سال کی عمر کا تھا۔ جب محمد اپنے خُوف زدہ غار کے تجربے سے واپس آیا تو اُسے اُسکو کمبلوں سے ڈھانپنا پڑا، ایسے ہی جیسے کسی مریض کو جھٹکے کی علامتیں ہوتی ہیں۔ بائبل کے لحاظ سے اِسکو دیکھتے ہوئے، اگر غار کے اندر روح واقعی جبرائیل کی فطرت کو ظاہر کرتی ہے تو اُسے مخافظت کی ضمانت ہونی چاہیے تھی اور محمد کو تسلی ہونی چاہیے تھی، جیسے بائبل مقدس میں واضحِ طور پر ہے۔ (۲۶) دلچسپ بات کے طور پر، اسلامی ذرائع قبول کرتے ہیں کہ محمد نہیں جانتا تھا کہ غار میں کونسی روح تھی۔ یہ تین سال تک نہیں کہ محمد بعد میں جبرائیل فرشتے کے برابر اسکو روح سمجھتا رہا۔
دانی ایل نبی پر ظاہر ہونے والی جبرائیل کی شکل محمد کے تجربے سے اُلٹ موازنہ کرتی ہے: ‘‘اور میں نے اولائی میں سے آدمی کی آواز سُنی جس نے بلند آواز سے کہا کہ اے جبرائیل اس شخص کو اس رویا کے معنی سمجھا دے۔ چنانچہ وہ جہاں میں کھڑا تھا نزدیک آیا اور اس کے آنے سے میں ڈر گیا اور منُہ کے بل گِرا اس نے مجھ سے کہا اے آدم ذاد سمجھ لے کہ یہ رویا آخری زمانے کی بابت ہے۔ اور جب وہ مجھ سے باتیں کر رہا تھا میں گہری نیند میں منہ کے بل زمین پر پڑا تھا لیکن اس نے مجھے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا ( ۸: ۱۶۔۱۸) جبرائیل نے یسوع کی ماں مریم سے بھی ملاقات کی۔ مریم بڑی ڈر گئی اور حیران رہ گئی کہ کسی قِسم کا پیغام دینے والا یا شخصیت اُس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے جبرائیل نے واضح طور پر کہا، ‘‘ نہ ڈر تجھ پر خُدا کا فضل ہوا ہے۔ (لوقا ۱ : ۳۰ ) اسی طرح وہ زکریاہ پر جو یوحنا اصطباغی کا باپ تھا اس پر بھی ظاہر ہوا۔ ( یونانی میں بپتسمہ دینے وال نہ کہ بیپٹسٹ مشن ) ر مت، زکریاہ ، کیونکہ تیری دُعا سُن لی گئی ہے۔’’ (لوقا ۱ : ۱۳ )
بائبل کی تمام عبادات میں جبرائیل ، یہواہ کا پیغام رساں، فوراً خوف کم کرتا ہے اور پھر اطمینان دیتا ہے۔ واضح طور پر، غار میں، خیالی صورت جس نے تشدد سے محمد پر حملہ کیا اُسے بڑے خوف میں چھوڑ دیا اور حقیقی جبرائیل کی طرح انداز نہ تھا۔ محمد مکمل طور پر اس مکار ہستی کے ساتھ بہادرانہ مقابلہ کرنے سے صدمے میں تھا۔
اِس روح نے جبرائیل فرشتہ ہونے کا بہانہ کیا حالنکہ حقیقت میں وہ محمد کی ذاتی راہنما روح تھی اس شیطانی شرمناک حرکت نے بُت پرستی کی رسوم میں سرسری طور پر دِل بہلاتے ہوئے جادو کردیا جادوگری میں مرگی کے دورے:
محمد نے اکثر مرگی کی بیماریوں کا تجربہ کیا۔ جس کے سبب سے وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا اس علامات میں مندرجہ ذیل ہیں: زمین پر گِر پڑنا، شدید دردیں، کثرت سے پسینہ آنا کانپنا اور تھر تھرانا، اضطرابی، چہرے کا سُرخ ہو جانا اور بے خُودی کی طاقت میں گِر جانا۔ حدیث کے ایک بیان کے مطابق: ‘‘ اُسکو اتنا پسینہ آرہا تھا کہ پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح گِر رہے تھے حالنکہ وہ ایک ( ٹھنڈا ) سردیوں کا دن تھا ۔’’ (۲۷) بعض اوقات اُسکو وحی ایک آدمی یا کسی خواب کی صورت میں آتی۔ (۲۸) کوئی مِد مقابل ہونا ہو سکتا ہے ووگل سے ظاہر ہو۔ ‘‘ مستقبل کا جادوگر اُٹھتی جوانی کی خصوصیات ظاہر کرتا ہے؛ وہ واضح طور پر بے چین ہو جاتا اور بعض اوقات مرگی کی بیماریوں میں مغلوب ہو جاتا ہے، جن کی تشریح دیوتاؤں کے ساتھ ملاقاتیں تشریح کی جاتی ہیں ؛ (۲۹) شمالی امریکہ میں، ‘‘ ٹِلنگٹ کے دوران، اُمیدوار جادوگر کی آسیبی ایک بے خُودی سے ظاہر ہوتی ہے جو اُسکو سجدہ ریز کر دیتی ہے ۔’’(۳۰)
بائبل میں کُچھ واقعات جو انبیاء کے بے خودی میں گرنے یا گہری نیند میں گرنے کی طرف اشارہ ہیں؛ تاہم، اُنکے مزاج، کسی بدروح کی آسیبی اثر کے تحت پاگل آدمی کے نامناسب دیوانہ رویہ کو منعکس نہیں کرتے۔ محمد نے بے خود کی ایک بدعتی شکل کا تجربہ کیا ۔خیالی صورت کے ساتھ اُسکے سارے مقابلے کسی مستقبل کے جادو گر کے شروع ہونے کے انداز بالکل ملتے تھے اور اسکے آشنا روحی راہنمائی سے ملتے تھے۔
ایک جوان لڑکے سے لے کر محمد کو عرب کی بُت پرستی رسوم کی زبانی تعلیم دی گئی، مزید یہ کہ قدیم بابلی نجومی رسوم بنیاد تھی۔ محمد ایک ان پڑھ آدمی تھا ۔ اسی سبب سے وہ پاک نوشتہ خُود پڑھنے کے قابل نہ تھا جو اس کے وقت اور جگہ کے دوران دستیاب تھے ۔محمد نے پھیری لگانے والوں کے ذریعے مشہور کی گئی تشریحات اور قصے زبانی سُنائے جو مختلف بدعتوں اور مذاہب کے تھے۔ معاری روحیت کے لیے غیر معقول پتھری خیالات سے محمد کی زندگی میں ناقابلِ تردید طور پر بدعتی تعلق ظاہر ہوا۔
محمد کا جادو کا استعمال
اسلامی تاریخ میں جادو اور توہم پرستی پر ایمان اور عمل حتیٰ کہ آج تک رائج ہے۔ چند ممنوعات کی بجائے، قرآن ۲ : ۱۰۲ اور حدیث سے کُچھ بیانات کے باوجود محمد کی طرف سے جادو کی قانونی شکلیں ابھی تک اجازت ہے۔ قرآن سے بہت سے اقتباسات بطور جودو، سحر، افسون یا جادو منتر استعمال ہوئے۔ محمد نے سورہ الفاتحہ میں ایک جادو کی ابتداء پر توجہ دی ۔ (۳۱) بطور ایک ٹونہ بچھوؤں اور سانپوں کے کاٹنے سے زہریلی چیزوں کے علاج کے لیے، نبی نے اپنے حواریوں کو سورہ الفاتحہ کو استعمال کرنے کی اجازت دی۔ (۳۲) حتیٰ کہ اس نے اُن لوگوں سے پیسے لینے کی بھی اجازت دی جن کا وہ علاج کرتے۔ محمد نے اُن کو حکم دیا کہ جب وہ اُسے سابقہ غزوات کے لوٹ کے مال سے اُسے حصہ دیں۔ کوئی تحریری شہادت نہیں ملتیکہ کسی کا حقیقتاً علاج ہوا ہو۔ محمد ایک انتہائی وہمی حالت میں گرفتار ہو گیا؛ وہ غیر اقوامی عربی رسومات میں پکڑا گیا جو اس کی پوری زندگی برقرار رہا۔ اس نے بیان کیا، ‘‘ بُری نظر کا اثر ایک حقیقت ہے۔’’(۳۳) اگر کسی بُری نظر کا ڈر ہے ، تو اسے اپنے حواریوں کو چھو منتر استعمال کرنے کا حکم دینا چاہیے ۔ (۳۴) ایک دن نبی نے ایک لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر کالے دھبے تھے اور کہا، ‘‘ وہ کسی بُری نظر کے زیر اثر ہے ، پس جادو ٹونے سے اس کا علاج کرو۔’’(۳۵) مزید برآں، اس نے اعلان کیا ‘‘ ایک بڑا شگون ہو سکتا ہے تین میں ہو، کسی عورت، کسی گھوڑے یا کسی جانور میں ۔’’ (۳۶) نبی جادو سے خوف زدہ تھا۔ جادو کے حفاظت کے لیے دُعا، قرآن ۱۱۳ : ۴ ، محمد نے ھسبِ معمول استعمال کی ۔ اس آیت کے متعلقہ اس کے اپنے حاشیے میں پکتھل اس قسم کے جادو کو بیان کرتا ہے:بُرائی کو پھونکنے والی ( عورتوں ) سے جو گرہوں پر ہوتی ہے خبردار رہو، یہ عورتوں کے لیے عرب میں جادو کی ایک شکل بنی رہی کہ وہ کسی رسی میں گِرہ لگائیں اور کسی لعنت کے ساتھ اُن پر پھونکیں۔ ’’ (۳۷)
اس کی ایک خطرناک بیماری کے وقت نبی نے معاویدات کی تلاوت کی ۔ قرآن ۱۱۳ الفاتحہ اور ۱۱۴ نساء کا میل تھا۔ تلاوت کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ پھیلائے اور اپنے جِسم پر پھونکا۔ (۳۸) اگر کسی شخص کو بُرا خواب آئے اور وہ اُٹھ کھڑا ہو اپنے بائیں طرف تین دفعہ پھونکنے اور اللہ سے اُس بُرائی کی پناہ مانگے۔ (۳۹) عجیب طرح سے محمد نے انصاری خاندانوں میں سے ایک کو آدمیوں کا علاج کرنے کی اجازت دی جو قید میں تھے اور اُنکو بھی ‘‘ جادو سے کانوں کی درد میں مبتلا تھے ۔’’ (۴۰) نبی نے کہا : ‘‘ وہ جو ہر صُبح کھجور کی سات ٹکیاں کھا تاہے اُس دِن اس شخص پر زہر یا جادو اثر نہیں کریگا۔’’ (۴۱)
محمد نے ایک دفعہ یقین کیا کہ لا بدنامی ایک شخص نے اس پر جادو کر دیا؛ عائشہ اُسکی بیوی نے بیان کیا ، ‘‘ جادو نے رسول اللہ پر کام کیا اس طرح وہ سوچا کرتا تھا کہ اس نے اپنی بیویوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھے تھے جبکہ حقیقتاً نہیں تھے۔’’ (۴۲)
نبی نے کہا، ‘‘ کُچھ بڑے بول بولنے والی تقاریر جادو کی طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔’’ (۴۳ ) پھر اس نے شیخی بگھاری، ‘‘ کہ مجھے جادوئی بیان کی تقریر کی کُنجیاں دی گئیں۔’’ (۴۴) احادیث سے بہت سے ثبوت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ محمد جادو سے خوف زدہ تھا لیکن اس نے اپنی طرح سے جادو اور منتر کی ترکیب نکالی ۔ ایک دفعہ پھر، محمد نے جادو گروں کی ساحروں کی اور شگون نکالنے والوں کی پیروی کی ۔ جادو اور منتر کی مذمت کرتے ہوئے یہودی پاک توریت کے انبیاء کی بائبلی رائے ہے، جو کہ یہوا کے الہام کے تحت لکھی گئی ۔ یہواہ کے انبیاء نے اسرائیلی نسلوں کو جادوگری، ٹونے، علمِ نجوم اور شیطانی جادو کے خلاف حکم اور نصیحت کی، جو کہ آج کبلا اور زہر کی تحریرات میں ملتی ہے۔ موسیٰ نے کبھی بھی ایسے ممنوع جادو نہ کئے؛ جو کہ توریت کے الٹ ہوں اُن کاموں کی یہواہ نے سختی سے منع کیا ہے کہ جو جادوگری کے کام کرے اور اُنکی نصیحت کرتے اُسے سنگسار کیا جائے۔ جادوگری اور اُس کے جوڑْ حصے اسرائیل کے یہواہ خُدا کے لیے مکروہ تھے جس نے اسرائیلی ، برگزیدہ قوم میں سے روحانی حرامکاری کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔
محمد کا علم الاعداد اور وہم پرستی
محمد طاق اعداد اور دہنی طرف کا بڑا قائل تھا۔ زندگی کا ہر پہلوان معیاروں سے باقاعدہ کیا جاتا تھا۔ جب کوئی اپنے پوشیدہ اعضاء کو پتھروں سے دھوتے تو طاق اعداد استعمال کرے۔ (۴۵) کسی لاش کو تیار کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اِسے طاق عدد کے تحت غسل دیا جائے جبکہ عدد تین ، پانچ اور سات بولے جائیں ؛ تو یہ سب دائیں طرف سے کیا جائے۔ (۴۶) آیت کے ذریعے قرآن پر محمد کی انگلیوں کے نشانات ثبوت ہیں: ‘‘ سویرے سویرے اور دس راتوں سے اور جُفت اور طاق ’’(قرآن ۸۹ : ۱۔۳ ) احادیث کا دعویٰ ہے کہ نبی کھجوروں کی طاق تعداد کھایا کرتا تھا۔ (۴۷)
دوبارہ دہنی طرف کا وہم کا غلبہ غیر اقوام کی رسومات میں بڑی تعداد میں نمایاں ہے جبکہ کسی مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ، دائیں پاؤں سے شروع کریں۔ ‘‘ نبی نے ہر شے دائیں سے شروع کرتا تھا ۔(اچھی چیزوں کے لیے ) جب کبھی یہ ممکن ہوتا تمام معاملات میں ، مثلاً وضو، کنگھی کرنا یا جوتے پہننا ’’۔ (۴۸) محمد کے کھانوں میں سے ایک بیان اُسکی توہم پرستی کا واضح بیان ہے: ‘‘ دودھ میں پانی ملا ہوا محمد کے پاس لایا گیا جبکہ ایک بُدو آپ کے دائیں جانب تھا اور ابوبکر آپ کے بائیں طرف اُس نے اُس میں سے تھوڑا سا پیا اور پھر بُدو کو دے دیا اور کہا: دایاں ، درست (پہلے)۔’’ (۴۹) ایک دوسرے واقع میں بیان کیا گیا : ‘‘ پس اللہ کے رُسول نے مجھ سے کہا : اے لڑکے ! اللہ کا ذکر کر اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔’’ (۵۰) اسی طرح کوئی غسل خانے کا کام دائیں ہاتھ سے نہیں کیا جا سکتا۔ (۵۱) اگر کوئی مسلمان چوری میں پکڑا جائے تو اس کا دہنا ہاتھ اس کے بازو سے کاٹا جائے جیسا کہ اسلامی شریعت میں ہے ۔ دہنا ہاتھ کاٹنے سے مسلمان کی ہتک ہوتی ہے۔ سخت اسلامی قانون کا تقاضا ہے کہ کوئی کھائے اور کوئی اپنے روزمرہ کے اکثر کام کرے جیسے محمد نے بیان کیا، دائیں ہاتھ سے کرے۔ وہ فرد اسلامی کمیونٹی سے ایک معاشرتی آوارہ بن جائیگا۔ محمد کی وحیوں کے آغاز سے اسلامی شریعت روایات پر بنی جس نے نئے عہد نامے کی فضل کی تعلیم کی مخالففت کی پس نجات ان کے نیکیوں کے تصورات کی بنیاد پر ہے اور قرآن اور احادیث میں کلیہ شدہ انسان کی بنائی روایات کے غریبوں کو خیرات دینے میں ہے(قرآن ۱۲ : ۶۷ ۔ ۶۸ )میں ایک دوسری توہم پرستی ظاہر ہوتی ہے : ‘‘ ایک دروازے سے نہ جاؤ، مختلف پھاٹکوں سے جاؤ۔۔۔ پکتھل اس عبارت کا یوں تبصرہ کرتا ہے: مشرق میں ایک غالب وہم یہ ہے کہ ایک بڑے خاندان کے ارکان سارے اکٹھے ظاہر نہ ہوں، کیونکہ بد قسمتی کا خطرہ ہے جو کہ دوسرے دلوں میں حسد سے آتی ہے۔ ’’ (۵۲)
بائبل مقدس آدمی کی فضول روایات اور توہم پرستی کو واضح طور پر رد کرتی ہے۔ مسلمان خارجی معمولی معاملات پر شدید طور پر زور دیتے ہیں جن کو یسوع مسیح نے مکمل طور پر رد کیا ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایسے ذرہ سے خمیر (گناہوں) سے خبر دار رہنے کو کہا ہے جیسے آدمی کی بنبائی ہوئی روایات کی خارجی اشکال جو تالمود کی بنیادوں سے عمل میں لائی جاتی اور سکھائی جاتی جس پر فریسی پابند ہوتے اور بلاواسطہ صدوقی اثر اندازہوتے یسوع نے کہا : ‘‘ کیونکہ خُدا کے احکام کو ایک طرف رکھتے ہوئے تم انسانی روایات کو پکڑ ئے ہو ، جیسے رکابیوں اور پیالوں کو دھوتا اور کئی دوسری ایسی اشیاء جو کی جاتی ہیں (مرقس ۷ : ۸ ) محمد نے واضح طور پر کئی عربی اور یہودی روایات کو لیا جو کہ اسے غیر اقوامی ثقافت میں غالب تھی تاہم ، یسوع مسیح نے جیسے بطور ایک خُدا (خُدا کا بیٹا ) اور بطور ایک یہودی مرد ( ابنِ آدم ) نے آدمیوں کی اِن فضول روایات کا اعلان کیا جو خُدا سے غیر متعلقہ اور بے معنی ہیں۔ یسوع ہر ایک انسان کے دل پر نظر کرتا ہے۔ اس نے بیان کیا کہ کوئی باہر سے یا ظاہر طور پر پاک ظاہر ہو سکتا ہے، لیکن اندرونی طور پر ناپاک رہتا تھا ۔ اس لیے ایک پاک دِل نے صرف قابلِ قبول نذریں ہی پیدا کیں ، نہ کہ روایات کی خارجی طور طریقہ۔
شفائیہ غلطیاں
اگر محمد کو ایک بائبلی نبی فرض کر لیا جائے کہ کیوں شفائیہ نصیحت دی گئی جو قابلِ تعریف نہیں ہے؟ احادیث سے ایک بیان میں واضح ہے ۔ ‘‘ کُچھ لوگوں کے لیے مدینہ کی آبوہوا مناسب نہیں رہی، پس لوگوں نے اُن کو اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا۔۔۔۔ اس کے اُونٹ اور اُن بچوں نے دودھ پیا اور ان کا پیشاب پینے اور وہ تو ان کا دودھ ۔۔۔۔۔ ہے۔’’(۵۳)
ایک با اصول آدمی سے سوال پوچھا گیا جو اس مندرجہ بالا کو شامل کرتا ہے؛ کوئی بھی مسلمان اس بے معنی غیر سائنسی نسخہ کو مانے گا ؟
ایک دفعہ محمد نے ایک شخص کو پیش کیا اُس کا طبی علاج کرنے کے لیے تاکہ اس کا خُون لیا جائے۔ (۵۴) خُود ساختہ نبی نے کسی آدمی کو کہا کہ شہد کھا لے وہ آدمی انتڑیوں کی خرابی میں مبتلا تھا؛ اس نے غریب آدمی کی حالت بدتر بنا دی۔ محمد نے صرف اُلٹ جواب دیا، ‘‘ آپ کے بھائی کی ایبڑومن نے جھوٹ بولا تھا۔’’ (۵۵) ایک دوسرے موقع پر اس ( محمد ) نے گلے کے غدود کے ورم کے علاج کے لیے ہندی دھونی دی۔(۵۶)
نمایاں طور پر ، محمد شفا دینے والا نہ تھا؛ پھر اس نے غیر اقوام کے توہمات میں ڈوبا ہوا جھوٹا نبی ثابت ہوا۔ حتیٰ کہ شفا کے لیے قدرتی طریقے استعمال کرتے ہوئے، وہ ایک بد قسمت ناکام شخص تھا۔ اسی طرح ، طبی سائنس، مجموعی طور پر اِن عملوں کی گہرائی دریافت کرنے کے لیے ؛ اِن طریقوں کو بطور فضول رد کر دیا۔ محمد نے خود کو امراض کے علاج کے لیے فن میں ایک نیم حکیم ظاہر کیا۔
غیر سائنسی بیانات
ایک دفعہ نبی محمد نے کہا : ‘‘ یہ وجہ کہ بیٹا اپنی ماں سے مشابہت کیوں رکھتا ہے براہِراست اس حقیقت سے واقع ہوتا ہے اُس نے پسینے میں بھیگا ہوا خواب دیکھا تھا ۔( رات کو خارج ہوتا ) ۔(۵۷) اسی طرح ؛ اس نے دعویٰ کیا: ‘‘ جیسا کہ ایک بچہ ، اگر آدمی کا اخراج ِ عمل میں پہلے ہوتا ہے بہ نسبت عورت کے اخراج کے تو بچہ مرد سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے اور اگر عورت کا اخراج مرد سے پہلے ہو جاتا ہے تو پھر بچہ کی مشابہت عورت کی طرف زیادہ ہوتی ہے۔’’ (۵۸) نبی محمد نے ذکر کیا کہ اللہ چھینکیں مارنے کو محبت کرتا ہے، لیکن جمائیاں لینے سے نفرت کرتا ہے جو شیطان سے آتی ہے۔ ( ۵۹)
ایک سچا بائبلی نبی کبھی بھی ایسی بے معنی باتیں نہیں کہے جیسا کہ پچھلے پیراگراف میں ذکر ہوا ہے ۔ ایک روایت بیان کرتی ہے کہ کھانا کیسے اللہ کوعزت دیتا ہے جیسا محمد نے اسے استعمال کیا۔ (۶۰) اس طرح کی ایسی نامعقول بیانات محمد کی فطرت کی ذلت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ حدیث میں تحریر شدہ، یہ نا معقول باتیں بیان کی گئی ہیں:
جب جمعہ تھا نبی اُس منبر پر بیٹھا تھا۔ کجھور کاتنا جیسے نبی غالباً اپنے خظبات بیان کرنے کے لیے استعمال کیا کرتا تھا اتنا چیخا کہ جیسے کوئی چیز پھٹ گئی ہو ۔ نبی نیچے آیا اور اُسے گلے لگایا اور بچے کی طرف رونا شروع کر دیا چیخنے سے بعض رکھنے کے لیے اور پھر اس نے چلانا بند کر دیا۔
یہ واقعات عربی کہانیاں اور قصوں سے بہت زیادہ مشابہت رکھنے کے لیے ظاہر ہوتے ہیں جو بائبلی معجزات سے مختلف ہیں۔ بائبل تمثیل عبارات استعمال کرتی ہے ؛ مندرجہ بالا بیان جو حدیث میں ہے اسلامی روایات کے مطابق لغوی معنوں میں لیا گیا ، اسی وجہ سے مظاہر پرستی کی شکل کی عکاسی ہے۔ خواہ کوئی بائبل مقدس پر ایمان رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے یا جھوٹی کہانیوں اور اسلامی فرضی قصوں پر جو محمد نے ایجاد کیے، ایک موقع ہونا ضرور ہے جو کسی فرد نے بنایا ہو۔ محمد کے قرآن میں بے شمار ایسی جگہیں ہیں یہاں آدمی اور واقعات تناخ کے سلسلے سے باہر متقی ہے اور وسیع طور پر تاریخ کو مانا ہے ۔ اس کے برعکس، آثارِ قدیمہ نے حالیہ سالوں میں بائبل مقدس کو عزت دی ہے اور سائنسی ثبوت کا انبار لگایا ہے کہ یہودی الہام درست ہے بمقابلہ اعلیٰ تر نام نہاد تنقیدی سائنس کے۔
قرآن کے حوالے میں مسلمان بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کو عربی جاننا ضروری ہے اس متن کو سمجھنے کے لیے اور بحث طلب معاملات سے کنارہ کشی کرنے کے لیے کسی بھی ترجمے وہ تھوڑا یقین کرتے ہیں؛ نقطہ سے ٹال مٹول کرتے ہوئے نقطہ بار بار دہرایا جاتا ہے ، وہ اکیلے ہی اپنی الگ تشریح رکھتے ہیں ان کا یہ طریقہ کار آمنے سامنے سے بچاؤ کے لیے ہمیشہ سے رہا ہے۔ عربی بہانوں اور دعووں سے بھاگنے کے لیے اور یہ دعویٰ کرنا اسی کے اکیلے معنی ہیں کہ صرف اسی کے حقیقی معنی ہیں اور یہ کہ باقی تمام تراجم غلط ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر عربی لغات کو بھی ان کو غلط ثابت کرنے کے لیے استعمال کی جائے، تو وہ دعویٰ کریں گے کہ یہ لغات ادھوری ہیں ۔ ایسی ریاکاریاں کسی بھی مخالفت یا قرآن کی تنقید کے متعلقہ سچائی سے کنارہ کشی کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ گم نامی کے سائے میں چھُپتے ہوئے مسلمانوں کا طریقہ کار ، قرآن میں پائی جانے والی جھوٹی تعلیم اور غلطیوں کے متعلقہ کئی تمسخرانہ دعووں کو سہارا دیتے ہیں اور تردید کی بنیاد پر حقائق سے وہ بچتے ہیں ۔ مسلمان یہودی مسیحی بائبل مقدس پر بار بار حملے کرتے ہیں لیکن وہ کسی بھی ثبوت کی مخالفت کرتے ہیں جو قرآن کو غلط ثابت کرتا ہے اُن لوگوں کو قتل کرکے جو اس کے اختیار اور متن کی درستگی پر سوال کرنے کی جرات کرتے ہیں۔
محمد ایک ان پڑھ شخص تھا اور ایک خاص روح کے زیر اثر اُس نے زبانی طور پر ایک ایسی کتاب تفصیل سے پیش کی جو کہ منطقی اور سائنسی شواہد کے مطابق متضاد باتیں رکھتی ہے۔محمد محض ایک ان پڑھ آدمی تھا نہ ہی وہ کوئی لائق شخص تھا اور نہ ہی اُس کے اندر کوئی غیر معمولی خوبیا تھیں جو اُس کو روحانی طور پر کوئی برتری دیتی۔
بعدازاں ، اپنی شامیتی ملاقات میں اُس نے معجزانہ طور پر اپنی قیادت اور کرشمے کا مظاہرہ کیا۔محمد کِس خصوصیات کا مالک تھا؟ کِس بات نے اُسے عام بدو سے ایک بڑے لیڈر کے طور پہ آدمیوں میں بدل دیا ۔یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی روح ایک مددگار روح نہیں تھی جیسا کہ بائبل روح القدس کے بارے بتاتی ہے۔
محمد نے بہت سارے غلط بیان دیئے ہیں بائبل مقدس واضح طور پر سچے اور جھوٹے نبی کے درمیان فرق بتاتی ہے:
‘‘لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسکو حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کُچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے اور اگر تو اپنے دل میں کہے کہ جو بات خُداوند نے نہیں کہی ہے اُسے ہم کیونکہ مہچانیں؟ تو پہچان یہ ہے کہ جب وہ نبی خُداوند کے نام سے کُچھ کہے اور اُس کے کہے کے مطابق کُچھ واقع یا پورا نہ ہو تو وہ بات خُداوند کی کہی ہوئی نہیں بلکہ نبی نے وہ بات خُود گستاخ بن کر کہی ہے تو اُس سے خُوف نہ کرنا (استثنا ۱۸ : ۲۰۔ ۲۲)
صحیفوں کی تعلیمات کے مطابق محمد کو ایک جھوٹا نبی ہونا چاہیے اُس نے پاک توریت کی مخالفت کی اور اپنی شامانی عقائد کو اُبھارا۔
محمد کی تعلیمات سے پہلے اِس قِسم کی تعلیم پہلے ہی ترقی کر رہی تھی یونانی لوگوں نے پہلے ہی اُس کی نام نہاد وحی کی تحقیق سے پہلے اِس قسم کے کام کہے تھے اِس نے محض اُن اُلٹے سیدھے حقائق کو نشوونما دی اور اِن کو قرآن میں ڈال دیا۔ محمد کی ایک بچے کے بارے میں تعلیمات جو اُس کی ماں یا باپ کے حوالے سے ہے فرسودہ اور غیر سائنسی ہے۔ قرآن کی بہت ساری تعلیمات نام نہاد سائنسی مواد اور غلط یا گمراہ کرنے والی ہیں۔
مختلف قِسم کی بے ترتیب تاریخی اور سائنسی سچائیاں منطقی شک سے بہت پرے محمد کی جُھوٹی فطرت اور اسلامی ایمان کی جھوٹی فطرت کو پیش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر رابرٹ مورے نے لِکھا ہے اور دعویٰ کیا ہےکہ سائنسی اعتبار سے قرآن کا مسترد ہونا متضاد ہے ۔ قرآن کی کوئی بھی سند نئے سائنسی حقائق کے ساتھ مستعند نہیں ہے۔
کوئی بھی شخص محمد کی وحیوں کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے۔چاند دیوتا اللہ کے نام سے مخاطب ہوتے ہوئے، اُس نے جُھوٹ کو بیان کیا ہے اور تقریباً دنیا کے پانچویں حصے کی آبادی کو اپنی حیوانی مشقوں سے دھو کر دیا ہے۔منطقی عدم موجودگی کی وجہ سے اس مسلم آبادی نے اندھے ایمان کے سبب سے اور انسانی روایات کے سبب سے اِس تعلیم کی بنیاد رکھی ہے ۔ وہ جھوٹے نبی محمد کی تیار کی ہوئی تعلیمات کو جو کہ شیطان اور اُس کے گرائے ہوئے فرشتوں کے لیے تیار کی گئی ہے کی پیروی کر رہے ہیں۔
حصہ چہارم قرآن
باب ہفتم
کیا قرآن خُدا کا کلام ہے؟
بائبل کے لیے محمد کا خیال
اگرچہ محمد افسون گری سے پیسے کماتا تھا پھر بھی اُس نے مسیحیوں کے بارے شکایت کی کہ وہ بائبل کو بیچ کر پیسے کماتے ہیں۔ اُس کو بائبل کی جلد کے بارے خدشات تھے اپنے دور میں اُن مسیحیوں کے ساتھ جن کو وہ بائبل کے نام نہاد تاجر کہتا تھا اُن کے ساتھ اُس کو اختلاف تھا ۔محمد نے لوگوں میں اِس بات کا اعلان کیا کہ بائبل میں ابہام ہے۔پوری بائبل کی نقل اُس کا حدف تھا اور اُس نے اپنے وقت میں اِس کے پیراؤں میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کیں اور اِس کے لیے راہئبوں کو مینوں بلکہ سال سے زیادہ ایک جلد لینے کے لیے لگ جاتا۔محمد کی عقیدوں کے بارے میں رائے تھی کہ یہ محض رواتیں ہیں اور اِس کی تھوڑی سی عزت ہونی چاہیے خاص طور پہ توریت کے حوالے سے یہودی طوماروں کے بارے میں اُس نے اغلاط کی نشاندہی کی دریائے مردار کے طوماروں نے ان صحائف کی سچائی کو پیش کیا اور بیان کیا کہ اِن صحفیوں کی کِس قدر ماضی میں اور یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں بھی عزت کی جاتی ہے یہواہ پاک خُدا کی توریت قرآن سے ۸۰۰ سال پہلے یا ممکن طور پر اس سے بھی پہلے لِکھی گئی۔ واضھ طور پہ درائے مُردار کے طومار اِس توریت کی سند کو پیش کرتے ہیں اور موسیٰ کی توریت کی تالیف کو بھی پیش کرتے ہیں اور یہ تالیف اُن مولفین سے ہوئی جو دریائے مردار کے طوماروں کی حقیقت اور توریت کی حفاظت کو جانتے تھے جو عبرانی کی میگنا کاٹا کے بڑے سیاق و سباق پر مبنی ہے اور جِس کو موسیٰ کے پیروکاروں نے استعمال کیا اِس موسوی سیاق و سباق کو یہودی لوگوں نے قبول کیا۔ اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ صرف اختلاف رائے کو موسوی لوگوں نے بطور واول استعمال کیا اور سیاق و سباق کو بطور صوتی اثر کے اس کی نشاندہی کی۔
محمد نے دعویٰ کیا اور پاک توریت کے حقیقی تدراک کو زبانی ۔۔۔ غلط کہہ کر بُرا اثر ڈالا کیا یہواہ خُدا جِس نے داؤد بادشاہ سے اپنی الہویت کا اعلان کروایا ایک ایسے شخص کو نبی کہے گا جس نے اپنے دور میں صحیفوں کی مذاحمت کی؟ یسوع نے فرمایا کہ شریعت کا ایک بھی نکتہ یا شوشہ نہیں بدلے گا۔ واضح طور پر، محمد نے خُدا کے وعدوں پر مشتمل کلام کو ایک نسل سے لے کر آنے والی نسلوں تک رد کیا اِس کی بجائے محمد نے فیصلہ کیا کہ وہ خُداوند کو جھوٹا کہے اور خُدا کے صحیفوں کو بے ترتیب کر کے یہ بیان محمد کی حقیقی فطرت کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کو بھی کہ وہ خُدا کے کلام کی بے عزتی کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر، محمد کے مطابق ، کہ کسی بھی نسل نے پاک توریت یا کلام کو محفوظ نہیں کیا جب تک کہ اُس کو محمد نے قرآن میں محفوظ نہیں کیا۔ اُس نے یہواہ پاک خُدا کی بے عزتی کی ہے۔ محمد نے ایک جھوٹے مذہب اور ایک جھوٹی کتاب یعنی قرآن کو تخلیق کیا وہ کتاب جِس نے صحیفوں کے مطالحہ میں مخالفت پیدا کی۔ اس بات نے محمد کو جھوٹا نبی بنایا کیونکہ اس نے یہواہ کے مکاشفات پر حملہ کیا۔
قرآن کی تالیف
صدیوں کے دوران اور اکسیویں صدی کی ترقی میں، مسلمان قرآن کی اصلیت کے بارے میں عجیب دعویٰ کرتے ہیں۔ کِسی بھی دوسری قابلِ ذکر تاریخی شہادت کے باوجود، یہ عقائد تقریباً تیرہ سو سالوں کے لیے نافز کر دیئے گئے۔ جدید سیاق و سباق کے مطالعہ سے اب یہ موجیں واپس جا چُکی ہیں کہ قرآن کے ارد گرد کے سارے عقائد جو اس کی ابتداء کے بارے میں ہیں وہ ختم کیے جائیں گے۔
مسلمانوں کا نظریہ
ایک مقبول ترین مسلمان نظریہ کے مطابق، قرآن جنت میں ‘‘محفوظ کی ہوئی لوحوں’’ سے لیا گیا ہے۔(قرآن ۸۵ : ۲۲ ) جو محمد تک پہنچا اور اُن کے ذریعہ سے آج کے دور میں قرآن کے ہم عصر لوگوں تک۔ اسلامی قدامت پسند لوگ یہ کہتے ہیں کہ سبقی صورت میں قرآن محمد کے اُوپر وحیوں کی صورت میں نازل ہوا اور اُس نے اُس کو لکھ لیا ۔ نتیجہ کے طور پر ، سال میں ایک بار جبرائیل فرشتہ سال میں ایک بار اُس کی معاونت کرنے کے لیے ظاہر ہوتا تھا کہ اُس کو مواد دے سکے۔ اگر قرآن اس وقت تحریری صورت میں نہیں لکھا گیا ، اور اسے محمد کی موت تک اتنی اہمیت نہ دی گئی۔ یہ بعد میں تالیف ہوا: تمام تر سورتیں ایک ترتیب کے ساتھ اکھٹی کی گئیں۔
پھر ، پہلے خلیفہ، ابوبکر صدیق، پہلی سرکاری نظرثانی کا حکم دیا۔ حضرت عثمان کی خلافت کے دور میں ، مختلف قسم کے امن میں خلل ڈالنے والے مسائل کو متن میں دیکھکا گیا ۔
حضرت عثمان نے ایک کمیٹی تشکیل دی، ‘‘ پھر حفصہ سے ایک جلد عثمان نے اُوبھارلی ، اور اُس کی بنیادوں پر ایک معیاری قانون کی کتاب اہل قریش کو لکھ کر دی گئی۔’’۔(۱) اس کے بعد، بہت ساری جلدیں اسلامی بادشاہت کے اہم مراکز پر دی گئیں، نتیجہ کے طور پر، قرآن کے تمام جدید نسخہ جات عثمان کے دور میں دوبارہ ٹھیک طور پر تیار کرکے دیئے گئے۔بغیر کسی نقص اور اس کی اصل میں ترمیم کیے ہوئے جو کہ قدیم اسلامی ایمان کے مطابق ہے
مفکرین کا خیال
مسلمانوں کی اس حالت کی بنیاد قرآن کے متعلق اُن کی اپنی خوہش کے مطابق سوچ سے ہے۔ اس کی شہادت نہیں ملتی کہ محمد نے قرآن کو کسی خاص طریقہ سے لکھا۔ اُس کے پیغامات کا اعلان زبانی کلامی ہوا۔ نبی کے پیروکاروں نے زیادہ تر وحیوں کو زبانی یاد کر لیا۔ یہ لوگ اپنے متقدوں کے ساتھ ساتھ قاری کہلائے۔(تلاوت کرنے والے بعد میں راہنما ) (۲)
زید بن تھابت سے حدیث روایت ہے کہ انہوں نے حکم جاری کیا کہ تمام قرآن کو ایک کتاب میں اکٹھا کرو۔ اس کام کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے قاری ال یمامہ کی لڑائی میں مارے گئے تھے۔ اس زبانی ذکروں میں جو اُن قاریوں نے یاد کئے، اس بات کی ضرورت تھی کہ اس کو کھو جانے کے خطرے کے پیشِ نظر ریکارڈ میں محفوظ کر لیا جائے ایک حدیث بیان کرتی ہے۔
زید بن تھابت سے بیان ہے: ۔۔۔۔۔ عمر میرے پاس آیا اور کہا۔ بہت سارے قرآن ِ پاک کے قاری ال یمامہ کی لڑائی میں مارے گئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ ایک دوسری لڑائی میں قرآن کے اور قاریوں کی اور اموات واقع نہ ہو جائیں اس سے قرآن کا ایک بڑا حصہ کھو جانے کا ڈر ہے۔ اس لیے ، میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے (ابوبکر ) کو قرآن اکٹھا کر لینا چاہیے۔(۳)
اس تاریخی گواہی سے ، کسی بھی شخص کو یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ ابتداء میں قرآن کا کوئی بھی مکمل نسخہ نہیں تھا، یہاں تک کہ محمد کے اپنے دور میں بھی نہیں اگر کوئی مکمل مواد پہلے موجود بھی تھا تو اس کو اکٹحا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اور اس کو ایک کتاب میں اکٹھا نہیں کیا گیا۔ ایک اور ذکر جو حدیث شریف سے ملتا ہے:
زید بن تھابت کہتے ہیں کہ ابوبکر نے اُسے قرآن کے مواد کو اکٹھا کرنے کے لیے تحقیق کی ذمہ داری دی تاکہ اس کو کتاب میں جمع کیا جائے۔ پس میں نے قرآن کے لیے کجھور کے پتوں ، سفید پتھروں ، اور اُن لوگوں سے جہنوں نے اس کو دل میں رکھا تھا اُن سے اکٹھا کرنا شروع کیا جب تک کہ میں نے آخری آیت تلاش نہ کر لی۔ پھر قرآن کا مکمل نسخہ ابو بکر کی موت تک اس کے پاس ، پھر عمر فاروق کے پاس اور پھر عمر کی بیٹی حفصہ کے پاس پڑا رہا۔(۴)
یہ بات بھی ماجود ہے کہ قرآن کی آیات کے نوٹس، پتھروں ، کندھوں کی ہڈیوں، پسلی کی ہڈیوں، چمڑے کے ٹکڑوں ، لکڑی کے تختوں میں ملتے ہیں۔ اس شہادت سے یہ بات بہت وضح ہے کہ محمد نے نہ ہی قرآن کو تالیف کیا نہ ہی اُس کے پاس اس کی ابتدائی مکمل شکل تھی۔(۵) اگر محمد کے پاس قرآن کی پہلی مکمل شکل موجود تھی تو اِن تمام تر حصوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
دوسری قرآنی اشاعتیں
بہت سارے مسلمان یہ تصور کرتے ہیں کہ قرآن کے ترجمہ کی موجودہ شکل ٹھیک ابتدائی قرآن سے لی گئی ہے تو سوال اُٹھتا ہے تو کونسی نام نہاد اصل یا ابتدائی شکل ہی درست قرآن ہے۔
سارے عرب میں اس کی اشاعت کی نجی اور عوامی اشاعتیں موجود ہیں ۔
محمد کی وفات کے بعد، جن مسلمانوں کیکے پاس مکمل قرآن تھا وہ انصاری مسلمان تھے۔ اُن میں سے ایک بھی قریش کے قبیلے سے نہیں تھا۔ محمد نے اعلان کیا تھا، کہ قرآن چار لوگوں سے سیکھا جائے، ‘‘ اُن کے نام عام طور پر یہ ہیں: ابن مسعود اُبے بن کعب، سلیم اور مُعودبن جعبل’’(۶) اُن میں سے دو بہت مقبول تھے یہ دو ابن مسعد اور اُبے بن کعب ہیں یہ دونوں قرآن کی اشاعتیں عثمان نے بھی پاس کیں۔ آرتھر جیفری نے اپنی کتاب ‘‘قرآن کی تاریخ کے مود ’’ میں قرآن کے مختلف ہونے پر بیان دیا ہے:
ہومز اور دمشق کے لوگ مِقداد بن ال اسود کے قرآن کی پیروی کرتے تھے۔ کوفہ کے رہنے والے جو ابن مسعود کے لوگ تھے، بسران کے رہنے والے ابو موسیٰ العشری کے لوگ تھے ، شام کے رہنے والے اُبیعی بن کعب (ابن الظہر، کمال ۱۱۱ ، ۸۶ )کے قرآن کو مانتے تھے یہاں ہمیں میٹروپولیٹنکی جلدوں کا آغاز بھی ملتا ہے، ہر بڑے سنٹر میں اُس کی بے شمار جلدیں تھیں یا شاید ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان جلدوں کو مقامی شہرت بھی حاصل تھی۔(۷)
مدینہ، مکہ، بسرا، کوفہ اور دمشق کے اہم علاقوں میں بہت اختلاف پایا جاتا تھا۔ جب یہ تالیف ہوا تو زید ٹیکسٹ کو بعد میں چُھپا دیا گیا۔
جب عمر فوت ہوا ، تو یہ حفصہ کو ذاتی حفاظت کے لیے دے دیا گیا۔
اس کو عوامی یا سرکاری اجازت کے لیے نہ دیا گیا جام القرآن میں، گل کِرسٹ نے مزید زید ٹیکسٹ کے لیے شک کو ظاہر کیا۔
اس کی تحریر کے وقت میں زید جانتا تھا کہ اُس کے متن کو مکمل طور پر ہوئے متصور کئے گئے۔ اگر زید اور ابو بکر اُس بات کے لیے قائل تھے کہ اُن کا لکھا ہوا متن بغیر کسی سوال کے آخری لفظ تک مُستند ہے تو اِس کو عوامی پزیرآئی یقیناً دی جانی چاہیے۔(۸)
عثمان کی خلافت کے دور میں ، قرآن کی دیگر اشاعتیں مختلف علاقوں میں عام تھیں۔ زید کا تالیف کیا ہوا، عثمان کا نظرثانی کیا ہوا قرآن غیر معروضیت میں چُھپا دیا گیا جبکہ دوسرے مسنوں کو بھی مساوی سمجھا گیا۔ عثمان کی خلافت کے دوران، اِن مستنوں کے درمیان تضاد اُبھرا؛ ‘‘ مسلمان جرنل حُدیفہ ابن الیمن کی قیادت میں ایک وفد نے شمالی شام میں میں اپنی فوجوں کو شام عراق میں سے نکالا۔ (۹)نتیجہ کے طور پر ، مسلمانوں میں بحث ہو گی کہ کس قرآن کو استعمال کیا جائے گا۔ کوفہ عراق کے مسلمانوں کے لیے ابن مسعو کا متن معیاری رہا۔ حادثاتی طور پر، حدیفہ خوف سے بوکھلا گیا اور اس نے خلیفہ عثمان کو اطلاع دی۔(۱۰) اس ذکر میں ایک حدیث ہے۔
حدیفہ (عراق کے شمار کے لوگوں سے) قرآن کی مختلف تلاوتوں سے گھبرا گیا، اس لیے اس نے عثمان سے کہا اے مومنوں کے سردار ! اس قوم کو کتاب (قرآن) کے اختلاف سے بچا جیسا کہ پہلے یہودیوں اور مسیحیوں نے کہا ۔ پس عثمان نے حفصہ کو یہ کہتے ہوئے پیغام بھیجا۔ ہمیں قرآن کا نُسخہ بھیج تاکہ قرآن کے مواد کو مکمل جلدوں میں مکمل کریں اور اُسے تم کو واپس بھیجیں۔ اُنہوں نے ایسا کیا اور جب انہوں نے بہت ساری جلدیں تحریرکیں عثمان نے ہر مسلمان صُوبے کو ایک جلد بھیجی جس کو اُنہوں نے نقل کیا اور انہوں نے حکم دیا تمام دوسرا قرآنی مواد ، چاہیے یہ تحریری شکل میں ہی ہو اُس کی تمام جلدیں جلا دیں۔ (۱۱) اس طرح سے عثمان نے قرآن کی وہ تمام جلدیں جو مُحمد کے قریب ترین ساتھیوں یعنی قاریوں نے پیش کی تھیں جلا دی گئیں۔ اسلامی بادشاہت کے لیے اور اس کے استحکام کے لیے عثمان نے یہ سب کرنے میں بہت جلدیں کی۔ ممکن ہے کہ اس جلد بازی میں حقیقی قرآن کا ایک بڑا حصہ ختم ہو گیا ہو سیاسی اور جغرافیائی مقبولیت کے پیش نظر، مدینہ کے لوگوں نے اس کی حمایت کی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوفہ کے لوگوں کو قرآنی مطالعہ کے مرکز کے طور پر زیادہ اہمیت حاصل ہے۔(۱۲) مندرجہ بالا حدیث جس کا ذکر کیا گیا بیان کرتی ہے کہ یہودی اور مسیحی لوگوں کے درمیان بھی متن میں مسئلہ تھا۔ شاید یہ واقعہ اتنا خاص نہیں، اس دور میں خاص طور پر عرب میں اس طرز کی بدعتیں تھیں۔
آج، اسلام کے پیروکار مفکرین دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف قرآن کے تلفظ کی ادائیگی میں اختلاف ہے اس وقت کو اعراب استعمال نہیں کیے گئے تھے۔ یہ مکاری مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ ابتدائی متنوں میں ایسا نہیں تھا۔
اس لئے ، تحریری متنوں میں، تلاوت کے تلفظ کے اختلاف کے حوالے سے کوئی شہادت نہیں ملتی۔ اسی طرح ، یہ سوال بہت واضھ ہے ، کیوں عثمان نے یہ تمام قرآنی نسخے تباہ کروائے؟ جواب یہ ہے کہ اُس کے متنوں میں واضح اختلاف موجود تھا۔ نتیجہ کے طور پر، تمام زمانوں اور نسلوں کے درمیان قرآن میں اختلاف اور شک رہنا تھا۔
ساری اسلامی کمیونٹی نے نتیجہ کے طور پر عثمان کے لیے رد عمل ظاہر کیا۔ ‘‘ عبادتیوں نے عثمان جو کہ خُدا کی تلوار کہلاتا تھا اس کے خلاف ردِ عمل دکھایا۔(۱۳)
گِل کرائسٹ ایک مثال پیش کرتا ہے:
عبداللہ ابن مسعود نے عثمان کے حکم کے خلاف ردِ عمل دکھایا اور ہمیں بھی اطلاع دی گئی ۔ عثمان نے مسلمانوں کے اندر اپنے لیے غم ق غصہ کو دیکھا اور وہ اس کی مخالفت میں بڑھ رہا تھا۔ اُس کی شکایات میں سے ایک شکایت یہ تھی کہ اس نے قرآن کے دوسرے نسخوں کو تباہ کیا ہے ۔‘‘اللہ کی کتاب نے نشان باقی نہ چھوڑے۔’’(ابن ابی داؤد، کتاب المساہف صحفہ ۳۶) انہوں نے واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ یہ صحائف(نسخے) ہیں انہوں نے اس کے لیے لفظ قرآنی نسخے استعمال کیا جو عثمان کی حکومت سے پہلے تالیف کئے گئے تھے ، بللکہ یہ اللہ کی کتاب یعنی کتاب اللہ، اُن کا یہ زور اُس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن کے نسخے اُن کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔(۱۴)
یقیناً حضرت عثمان کے فرمان کی تنقید میں برخلاف بولنے والا ابنِ مسعود تھا۔ وہ محمد کے ابتدائی ترین شاگردوں میں سے تھا جس نے براہِ راست محمد سے سیکھا اور محمد اُس شخص کی بطور قرآن کے ایک مفکر کے عزت کرتا تھا۔
زید کا ذکر نہیں آیا ، مگر ابنِ مسعود، ‘‘ابے ابنِ کعب اور دوسرے مفکرین کی نبی نے بہت زیادہ تعریف کی۔ ابنِ مسعود نے اپنی جِلد دینے سے انکار کر دیا، جب ‘‘ زید کی قرآنی جِلد’’اعلانِ تشہبہ کے لیے کوفہ میں آئی کہ یہ ایک معیاری قرآنی جِلد ہو گی، مسلمانوں کی ایک اکثریت نے ابھی بھی ابنِ مسعود کی قرآنی جِلد کی پیروی کی۔’’(۱۵) یہ ایک ایسا متضاد خیال پر مبنی دعویٰ نظر آیا ہے کہ اشارۃً دخل اندازی اور اِس جِلد کے اندر چھوت کو لایا ہے جو ابتدائی اسلامی معاشرے کے درمیان تضاد کو لایا۔
حفصہ، محمد کی بیویوں میں سے ایک تھی ، اُس کے پاس عثمان سے پہلے کے قرآن کی ایک جِلد تھی جو مدینہ کا گورنر تھا، اُس نے حفصہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس نسخہ کو اُس کے حوالے کرے۔ جیفری نے بیان کیا کہ مارون نے اِس جِلد کو مندرجہ ذیل بیان کے ساتھ خارج کر دیا:
جب وہ انتقال کر گئی تو مارون اس کے جنازے پر معاون تھا اور اس کے نتیجتاً عبداللہ بن عمر سے جو حفصہ کا بھائی تھا اُس سے اس کتاب کے مطالبہ پر اصرار کیا۔ اور آخر کار اس نے اس قرآنی نسخہ کو اسے دے دیا اور اُس نے اُسے خوف کے ساتھ ضائع کر دیا، اس نے کہا ، کہ اگر یہ باہر گیا تو پھر مختلف قسم کے پڑھے جانے والے قرآن ہوں گے اور عثمان کی خواہش پر جبراً اُس کو رد کر دیا گیا تاکہ دوبارہ اس کا آغاز نہ ہو۔ (۱۶)
پھر جیفری نے بیان دیا:
یہ اس کہانی سے مختلف کہانی ہے جو ایجاد ہوئی اور یہ بہت واضح ہے کہ اس کتاب کے تعلق سے ہمارے پاس عثمان سے پہلے کے نسخے بھی ہیں جو شاہد عثمان کے قرآن سے مکٹلف ہیں۔(۱۷)
دوبارہ یہ بات بہت واضح ہے کہ عثمان کا قرآن حفصہ کا قرآن نہیں تھا جس کو مسلمان دعویٰ کرتے تھے کہ یہ سرکاری قرآن ہے تمام قسم کے سیاق و سباق اختلافات بے ہودہ شہادتیں ہیں۔ کیسے کوئی مسلمان یقین سے کہہ سکتا ہے کہ عثمان کا قرآن ہی اللہ کا نازل ہونے والا کلام ہے؟ واضح طور پر ، اس قرآنی نسخہ کے اندر کثرت کے ساتھ دخل اندازی کی گئی۔
یہ تمام مختلف قسم کے قرآنی نسخہ جات جو عرب میں تھے جِلا دیئے یا چُھپا دیئے گئے۔کُچھ آج بھی باقی ہیں لیکن اُن کو اسلامی مفکرین کی بدعات کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آرتھر جیفری بیان کرتا ہے کہ ان نسخہ جات کو جبراً روک دیا گیا۔
ایک دلچسپ موجودہ مثال جو مرحوم پروفیسر برجیسٹریسر نے کایرو کے آکری دورے میں واقع ہوئی۔ پروفیسر صاحب مِصر کی لائبریری میں ابتدائی تاریخ اور کتابوں کی تصاویر لینے میں دلچسپی رکھتے تھے جب میں نے اظہر لائبریری میں اُن کی توجہ دلائی جو کہ اس قسم کی چیزوں سے بھری ہوئی تھی تو اُن کو اُس کی فوٹو لینے کی اجازت نہیں ملی، اُن کو انکار کر دیا گیا۔ اُن کو کہا گیا کہ وہ مغربی مفکرین کو اس قسم کی کتابوں کے علم کو جاننے کی اجازت نہیں دیتے۔ (۱۸)
جبراً روک دینے کے عمل میں توسیع اس رویے کو پیش کرتی ہے کہ قرآن کے بارے میں کُچھ بتانے یا تحقیق کرنے میں وہ بے اعتقاد ہیں۔ کوئی بھی مسلمان یہ بات نہیں جانتا کہ اصلی قرآن میں اصل مواد کیا ہے۔ عثمان نے اپنے قرآن میں بھی توسیع کے لیے حکم جاری کیا اور تاہم اس کے قابل بھروسہ ہونے میں بھی شکوک و شہبات موجود ہیں۔ اس نے اس کو ادبی پیرائے میں لانے والے چار لوگوں کو لیا کہ وہ اس کی تجدید کریں، ترمیم کریں، اور قریش کی مقامی زبان کے مطابق اس کو دوبارہ لکھیں۔ ایک بار پھر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں تبدیلی کے مواقع زیادہ ہیں کیونکہ اس اصل نسخہ میں کہیں بھی اعراب تو پہلے ہی موجود نہیں ہیں۔ (۱۹) اس حقیقت کے پیشِ نظر عثمان کے دِنوں میں کوئی بھی قرآنی نسخہ باقی نہ بچا، اس لیے کوئی بھی مسلمان یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آج جو قرآن موجود ہے وہ اس تالیف کی من وعن نقل ہے یا محض ایک سادہ سی تجدید ہے۔
بار بار مسلمان یہ بات کہیں گے کہ محمد نے ایک مکمل ترتیب شدہ قرآن دیا ہے۔ لیکن کو بھی اس شہادت میں تضاد دیکھ سکتا ہے۔ کہ قرآن محض ایک بے ربط ٹکڑے ہیں اس کی تاریخی حالت مکمل طور پر واقعات اور شخصی کہانیوں میں اُلجھی ہوئی ہے جن میں کُچھ بائبل میں سے بھی لیا گیا ہے۔
واضھ طور پر، یہ اس عمارت کی بھی مدد کرے گا کہ سیاق و سباق کے لعلق میں قرآن کے اندر تاریخی ترتیب سے متعلق مسائل موجود ہیں جو واقعات اور کرداروں کا ذکر کرتے ہیں۔ اور یہ اس سے مختلف ہیں جن کا ذکر دریائے مُردار کے طوماروں اور صحیفوں میں موجود ہے۔
زید نے قرآنی آیات کے ٹکڑوں کو اکٹھا کیا، بعدازاں، عثمان کے زیر سایہ، ادبی پیرائے میں لانے والوں نے ان آیتوں کو ایک تجدید قرآن کی شکل میں بدل دیا۔ شاید عثمان کے بعد بھی اس کے سیاق و سباق میں بہت مداخلت ہوئی۔ اگرچہ اس بات کو ثابت کرنے کے کوئی ہاتھ سے لکھے تحریری ثبوت نہیں ملتے لیکن مسلمانوں نے اس مسئلے کا سامنا کیا واضح طور پر، محمد کی وحیاں غلط تھیں، یا اُن لوگوں نے جہنوں نے اُس کو تالیف کیا اس میں بھی غلطیاں تھیں ۔
یہ تمام حقائق اشارہ کرتے ہیں کہ متن کے اندر مداخلت کی گئی ہے۔ قرآن کو جلانے اور دوسرے متنوں کو زبردستی روک دینے سے یہ بات سامنے آتی ہے۔ کہ اِس کے متن کے مُستند میں آسانی سے شک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک قرآن کے دُرست ہونے کی بات تو یہ ایک اندھے ایمان کا قانونی حقائق کے درمیان مقابلر ہے۔
قرآنی کی ابتدائی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریریں
اگر مسلمان مفکرین دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کی ابتدائی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریریں ہیں جو کہ عثمان کے ابتدائی سیاق و سباق سے ہیں۔ مغربی مفکرین نے اس مفروضے کو چیلنج کیا ہے۔ اس لکھی ہوئی تحریر کے تعلق سے ایک تجزیہ ضرور کیا جانا چاہیے۔ اسلام کے وجود میں آنے سے قبل، صرف ایک تحریر ہی تھی جس کو جازم تحریر کیا جاتا تھا۔ اس عرصہ سے قبل قرآن کا کوئے نسخہ موجود نہیں تھا۔
اختصار کے ساتھ یہ کہ کوئی بڑا حصہ یا مکمل کتاب موجود نہیں تھی ۔ آٹھویں صدی کے آخر میں (محمد کی موت کے ایک سو سال بعد) (۲۰) سب سے پہلے تحریر کو فی رسم الخط میں ملتا ہے۔ رسم الخط کا آغاز ‘‘ عراق میں کوفہ سے ہوا۔ اس جگہ ابنِ مسعود کا قرآنی نسخہ اس وقت مشہور ۔ جب عثمان نے اس کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔’’ (۲۱)
مزید یہ کہ نویں صدی سے پہلے اس بات کا ہر کسی کو علم ہو کہ کوفہ کے قرآن کا کسی کو بھی مکہ یا مدینہ میں پتہ بھی نہ تھا۔
مکمل طور پر کوئی بھی اس حصہ سے نہ آیایہاں تک کہ اس کی گواہی کا کوئی سرا موجود ہیں۔
مسلسل ، مسلمان دوخاص ہاتھ کی لکھی ہوئیتحریروں کا دعویٰ کرتے ہیں جو کہ عثمان کے ابتدائی قرآن سے لیے گئے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ عثمان کا متن بنیادی طور پر حفصہ کی کتاب تھا، پھر بھی مارون نے اس متن کو تباہ کر دیا تمام تاریخٰ تفصیلات اُن کے عقیدے کے اندھے پن کی سچائی کو رد کرتی ہے مسلمان ابھی بھی اِس ایمان کے ساتھ جڑے ہوئے کہ اصلی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر یں ابھی بھی موجود ہے۔
مزید برآں ، ٹام کاپی اور سمر قند کی کتابوں کے بیانات بھی ارد گرد موجود ہیں۔ ماضی سے حال تک ، بہت سے لوگوں نے ان تحریروں کو لکھا یہ درحقیقت عثمان ہی کی لکھی ہوئی تحریریں ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے قتل کے وقت وہ قرآن پڑھ رہا تھا اور اِن کے اُوپر اس کا لہو لگ گیا۔
سمرقند کی کتابیں محفوظ ہیں۔۔۔ یہ جنوبی روس میں ازبکستان تاشقند کی سوویت حکومت کی لائبریری میں ہیں ۔ (۲۲) گِل کرائسٹ اس کتاب کے بارے بیان کرتے ہیں ۔ یہ واضح طور پر کوفی رسم الخط میں لکھی ہوئی ہے اور جِسے ہم نے دیکھا ہے ، یہ ایک مغربی مفکر کے بارےبات کرتا ہے کہ وہ یقین کرے کہ قرآن مدینہ میں لکھی ہوئی تحریر ہے اور اسی طرح یہ بھی یقین کرے کہ یہ تحریر خلیفہ عثمان کے زمانے میں لِکھی گئی۔ مدینہ میں لکھے جانے والا قرآن کوفی رسمِ الخط سے پہلے لکھا جانے والا قرآن ہے جو الھالی اور مشق رسمِ الخط میں بہت عشرے قبل لکھا گیا اور یہ ابتدائی مسلمان دنیا کے لیے سب سے پہلے کے تمام متنوں سے زیادہ نسب نما بن گیا اور کِسی بھی موقع پر، کوفہ کے علاوہ باقی عراقی صوبے میں نسلوں تک عثمان کی موت کے بعد یہی قرآن استعمال ہوا ۔(۲۳)
ایک دوسرا ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن استنبول ترکی میں ٹاپ کاپی عجائب گھر میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح سمر قند، ٹاپ کاپی کتاب کے لیے دعویٰ کیا گیا کہ یہ عثمان کا اصلی قرآن ہے دوبارہ، رسمِ الخط کا مسئلہ پیدا ہے جو کہ کوفی طرز میں ہے وہ تضاد بن گیا۔ اشاعت میں ، اس کتاب میں ‘‘سورتوں کے درمیان آرائش کے لیے بڑے تمغوں سے مزین ہے ۔’’ جو کہ ایک زیادہ پرانی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔(۲۴)
اسی کے مساوی، یہ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریرں ، یعنی سمر قنداور ٹاپ کاپی کے اُوپر خُون کے دھبوں کا کہا جاتا ہے جو کہ روایتی تعلیمات کی وجہ سے جو ایک کتاب میں لکھی ہے بالکل یقینی بات ہے۔ تاہم، زیادہ تر نمایاں مسئلہ رسم الخط کے طرزِ تحریر میں ہے۔ عثمان کے متن میں بعد کا طرزِ تحریر استعمال نہیں کیا گیا۔ وہ غیر اخلاقی ایمان جن کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ کیسے مسلمان معاشرے کو ثابت کرنے دیں گے کہ قرآن دُرست ہے ۔ یہ جھوٹ محض معصوم لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ تار یخی مفکرین کے ساتھ نہیں۔ اس شہادت سے ، قرآن کی بقا کی محمد کی وفات کی تاریخ سے ایک سو سال بعد کی ہیں۔ محمد اور پہلے قرآن کے درمیان وقت کا ایک بہت بڑا خلا نظر آتا ہے۔ اِن حقائق کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ، مسلمانوں کا اس دعویٰ پر قائم رہنا کہ قرآن کی کامل ترسیل ہوئی یہ اُن کے اندھے ایمان کا معاملہ ہے اور اس کی بنیاد تاریخی دستاویز پر نہیں ہے۔
تنسیخ کا عقیدہ
محمد کا چاند دیوتا، اللہ ، مکاشفات کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ قرآن ۲: ۱۰۶ بیان کرتا ہے۔
ہماری وہ وحیاں جو ہم نے منسوخ کیں یا بھلا دی گئیں ہم ان سے بہتر لائے ہیں۔ تم جانو کہ اللہ سب کُچھ کرنے کا لائق نہیں ہے،
یہ سورت مکمل طور پر قرآن کی ۸۵ : ۲۲ کے متضاد ہے جو کہ بیان کرتی ہے کہ یہ آسمان کے تختوں پر محفوظ ہے۔
مسلمان ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ سب کُچھ جاننے والا ہے، انسانوں کے تمام تر واقعات کو جانتا ہے ۔ تاہم ، اللہ پیشن گوئی نہیں کر سکتا تھا کہ قرآن کے اصلی دعٰووں کا مستقبل کیا ہو گا۔ کیوں سب کُچھ جاننے والے دیوتا کو اپنے اصلی پیغامات میں تبدیلی کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ اس لیے اللہ بائبل کے نبیوں کے اِلہ ہونے کے لیے ہم آہنگی نہیں رکھ سکتا۔ یہواہ خُدا مستقبل کو جاننے کے ساتھ ساتھ نبوتیں پوری کرتا ہے جب یہواہ انسان بن کر یسوع کی صورت میں آیا تو اُس نے اپنے کلام کے بارے کہا:‘‘ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹیلگا جب تک سب کُچھ پارا نہ ہو جائے۔’’(متی ۵ : ۱۷ ۔ ۱۸ ) محمد کے معاملے میں یہ کہ وہ خُدا کے کلام کے بالکل متضاد ہے۔
یہ بات بہت واضح رہی ہے کہ مُحمد نے وحیوں کو لکھوایا ہے اللہ نے نہیں البیت، جو اس کا قریب ترین ساتھی تھا اور وہ جو اس کے رابطے میں تھے ۔ اُن کو اس کے پیغامات پر شک تھا۔ قرآن میں وہ آیات تھیں جو اس کی نبوت کے پیغام کو آسودہ کرتی تھیں ۔ قرآن بیان کرتا ہے ۔ ۲۵: ۴ ۔ ۵ وہ جو ایمان نہیں لاتے کہتے ہیں۔
یہ کُچھ بھی نہیں ماسوائے جھوٹ کے جو اُس نے ایجاد کیا اور وہ کہتے ہیں پرانے آدمیوں کی کمزوریوں کو اس نے دن رات لکھوایا۔
یہ پیرایہ محمد کو آزمائش میں ڈالتا ہے ۔ یہ سوال تاریخ کی سچائی میں سے ہمیشہ چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ کیا محمد ایک سچا نبی تھا؟ اگر ایسا ہے ، تو کیوں مسلمسل اپنے پیغامات کو بدلتا رہا؟ جیسے کہ چوتھے باب میں ذکر کیا گیا ہے ۔محمد جو مسلسل دباؤ کے نیچے تھا اور وہ تین دیویوں کی پوجا کرتا رہا وہ اپنے مکاشفاتی پیغام کو تبدیل کرتا ہے۔ اس بات سے وہ اپنی زیادہ خُداؤں کی پرستش کرنے کی مشق کو غیر قانونی اور کسی بھی جواب دہی سے بچنے کا دعویٰ کرتا ؟ اب دوبارہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کیسے اس کے ذہن کو بدل دیتا تھا۔ دوبارہ ، محمد کی انگلیوں کے نشانات تمام قرآن میں گواہ ہیں جب ہم اسلامی متنوں کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں تو بہت ساری منسوخ کی ہوئی آیات بھی ہمیں ملیں گئی رمضان کے روزے کے بارے بیان کرتے ہوئے ، محمد نے ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اِسے منسوخ کیا کہ رمضان کے خاص وقت میں عورتوں کے پاس نہ جاؤ۔ یہ آیت محمد کے لیے مسئلہ بن گئی جب اس کے پیروکاروں نے اس کی نافرمانی کی ۔ محمد اُن کو سزا تو نہیں دے سکتا تھا پس اس نے اس آیت میں اس طرح سے ترمیم کرکے کہا۔ اور یہ ایک نئی آیت تھی ۔
یہ تمہارے لیے شرعی ہے کہ تم روزے کی رات کو اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔۔اللہ جانتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دھو کر دے رہے ہو ۔ پس اُن کے ساتھ مباشرت کرو اور دیکھو اللہ نے یہ تمہارے لیے مخصوص کیا ہے۔(قرآن ۲ : ۱۸۷)
آسانی کے ساتھ ، محمد اپنے خاص موقع کی ضروریات کے لیے قرآن کو بدلتا رہا ۔ اکثر ، جب اس کو اپنے معاملات کے ساتھ نپٹنا ہوتا تو وہ تنسیخ کے معاملے کو استعمال کرتا ۔ ایک دفعہ جب محمد کی بیوی حفصہ چلی گئی، تو یہ ذکر کیا گیا کہ وہ مار یہ کو لائے جو کہ قبطی تھی جو کہ افریقہ کی قبطی مسیحی جگہ سے تھی ۔ تاکہ اس کے گھر میں بیوی ہو ۔ حفصہ آگ بگولا ہوئی، محمد نے اس کو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کی۔ ‘‘میرے راز کو چُھپا لو ، میں ماریہ قبطی کو اپنے لیے حرام قرار دے دوں گا۔’’(۲۵)
حفصہ نے عائشہ کو بتایا ، جو کہ محمد کی بچی بیوی تھی ، اس نے اتنی زیادہ ناراضگی دکھائی کہ محمد نے حفصہ کو طلاق دے دی ۔ بعد میں محمد نے اپنا ذہن بدل دیا اور اللہ نے آسانی سے فرمایا۔
اے محمد ! کیوں تو نے اُن کو حرام قرار دیا جس کو اللہ نے تمہارے لیے حلال قرار دیا ہے ۔ اپنی بیویوں کو خُوش کر؟ اور اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے اور اللہ نے اسے تمہارے لیے حلال قرار دیا ہے اور اللہ تمہارا محافظ ہے ، وہ جاننے والا اور عقلمند ہے۔(قرآن ۶۶: ۱ ۔ ۲)
جب محمد کا غصہ ختم ہوا تو اس نے سابقہ آیات کو منسوخ کیا۔ اس ماریہ کے ساتھ بھی جنسی تعلقات جاری رکھے اور یہاں تک کہ حفصہ سے بھی دوبارہ شادی کر لی۔(۲۶)
یہ محض چند مثال کے لیے پیرائے ہیں جن میں یہ پیش کیا گیا کہ کس طرح سے محمد نے تنسیخ کی مشق کو اپنے فائدے کے لیے جاری رکھا ۔ اس کی انگلیوں کی شہادتیں تمام تر قرآن میں ہیں ، جو اس ایمان کے لیے ہیں کہ سابقہ بات ہٹا کر اُس کی جگہ اس کے متضاد بات کی وحی آگئی۔
اس طرح کے بہت سارے پیرائے ملیں گے کہ آیا یہ وحیاں اللہ کی طرف سے ہیں یا محمد کی طرف سے ۔ مثال کے طور پر ، کیوں اللہ نبی کے روزمرہ کے فسادی اور فرسودہ معاملات میں دلچسپی لیتا ہے؟ قرآن ۳۳ باب ۵۳ آیت بیان کرتا ہے ۔
نبی کے گھر میں کھانے کے لیے داخل نہ ہو بلکہ خاص وقت کا انتظار کرو ، جب تک کہ تمہیں اجازت نہ ملے۔ لیکن اگر تم کو دعوت دی گئی ہو ، تو گھر میں داخل ہو جاؤ۔ اور جب تمہارا کھانا ختم ہو جائے ، تو چلے جاؤ۔ بات کرنے میں طوالت نہ کرو۔
یہ نبی کو غصہ دلانے کا سبب بنے گا اور وہ تم سے کہے گا کہ جاؤ۔
کوئی بھی شخص شک کر سکتا ہے کہ یہ آیات اللہ نے کہیں ہیں۔ ، یوں لگتا ہے کہ یہ محمد نے خُود کہیں ہیں۔
ان سوالات کے لیے مزید گواہی سورہ ایک میں قرآن کے الہیٰ مصنف ہونے کے لیے دیکھتے ہیں۔
اللہ کی تعریف ہو، دنیاؤں کے آقا کی ، محسن اور رحیم کی ۔ آخرت کے دن کے مالک کی ، صرف اُسی کی عبادت ہو ، اُسی سے مدد کے لیے کہو، ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔(قرآن ۱:۱ )
ایک دلچسپ بات جو عثمان کی اشاعت کو مشکوک بناتی ہے کہ ابن مسعود نے اِس پیرایہ کو اپنے قرآن میں نہیں ڈالا۔ اگر یہ اللہ نے کہا ہوتا، تو کیوں اس کا اندازہ اللہ کے سامنے دُعا کا ہوتا۔ دوبارہ (قرآن ۲۷ : ۹۱۔ ۹۲ ) اللہ اس طرح نہیں بول سکتا تھا: ‘‘ میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اُس زمین کے آقا کی خدمت کرو جس نے اس کو پاک کیا ہے اور جس سے تمام چیزیں تعلق رکھتی ہیں اور میں اُن کو حکم دیتا ہوں جو خُود کو پیش کرتے ہیں ۔’’
اگر اللہ بات کر رہا ہے تو اللہ اپنی پرستش کر رہا یا دوسرے دیوتا کی پرستش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی طرح ، سورۃ ۱۱۲ اور ۱۱۳ اللہ کے لیے واضھ دُعائیں ہیں
عموماً، مسلمان مترجمین نے ‘‘ کہا ’’ کا لفظ اس سِرائے کے سامنے لکھ دیا لیکن یہ بھی اصل عربی میں ایک تنسیخ نظر آتی ہے نتیجے کے طور پہ مسلمان اپنی مقدس کتاب میں ترمیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تاکہ اِس کے اصلی مطلب کو ڈھانپ سکیں۔ اِن مثالوں کی بنیاد پر قرآن کبھی بھی اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا۔
اِس جھوٹے مواد کے کلیے میں اِس قرآن کو لِکھا گیا اور اِس کی بقا کے مزید سہارے کے لیے محمد کے واحدنیت کے نظریے کو اُس کی شیطانی روح کی راہنمائی میں ساتھ ملا دیا گیا ۔ بائبل کے ایک نبی کے طور پر محمد کو رد کیا گیا اور اکثر یہودی محمد کو دباتے تھے نتیجے کے طور پہ محمد نے اپنے مذہبی طور طریقوں اور عقیدے کو بدل دیا ۔ ابتداء میں وہ یہودیوں کے یوم کیپر رازے کے طریقے کو مانتا تھا لیکن بعد م یں اِس کو تبدیل کرکے مادہ پرستوں کے طریقے کو اُوپر نیچے کرکے رمضان کے طریقے میں بدل دیا اِسی طرح اُس نے یروشلم کی طرف منہ کرکے دُعا کرنے کے طریقے کو مکہ کی طرف میں بدل دیا۔ بائبل کے اور پاک صحیفوں کے انبیاء کبھی بھی دوسروں کے متضاد دبوؤ سے مغلوب نہیں ہوئے اِس کے لیے اُنھیں خواہ کوئی بھی قربانی کیوں نہ دینی پڑی ہو یا شہیدوں کے طور پہ اُنھیں جان ہی کیوں نہ دینی پڑی ہو ۔ جبکہ دوسری طرف محمد نے روز پروز اپنے مذہب کو گھڑ لیا اور بدلتا گیا اور جب بہت زیادہ دباؤ ہوا تو اُس نے بار بار اپنے مذہب یا اشاعت کے لیے تنسیخ کا اُصول قائم کیا ۔
محمد کا قرآن اپنی خاصیت کے اعتبار سے بہت سے مذاہب کا مجموعہ ہے۔ مکہ میں بطور ایک بچے کے اُس نے کعبہ کے مادیت پرستی کے مذاہب کو سیکھا جن میں تقریباً سال میں ایک دن کے لحاظ سے ۳۶۰ سے زیادہ دیوتا تھے جن کی بنیاد علمِ و نجوم کی ابتدائی باتوں پر تھی بلاشبہ سب سے بڑا دیوتا چاند دیوتا اللہ تھا۔ اِن بدعتوں کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں سے دوسرے مذاہب کی جِھلک بھی نظر آتی ہے جب وہ عرب کے اِرد گِرد کارواں کے ساتھ جاتا تھا۔ (۱) عرب کے بڑے مذاہب (۲) طالمود کے یہودی عقائد (۳) مِدراش اور ایپوکپرافیکل کام (۴) سیبرئین روایات (۵) زرتشت (۶) ہندوازم (۷) مسیحی قدیمی فرقے۔
اِن مسیحی قدیمی فرقوں میں سے ایک ایپو نیزم تھا اور ممکنا طور پر محمد کی زندگی کی روحانی ترقی میں اِس نے سب سے بڑا کردار ادا کیا اُس کی بیوی خدیجہ کا چحچا زاد بھائی جِس کا نام ورقا ابن نوفل تھا۔ ‘‘جو کہ مکہ کے ایبو نائٹ فرقے کا مسیحی بشپ تھا۔’’(۲۷) ایبونائٹ فرقے نے یسوع کی الہویت کا انکار کیا تھا جیسا کہ محمد نے بعد میں سیکھایا ایک جوان لڑکے سے محمد نے بہت سارے وسائل سے غلط عقائد کی تعلیمات سیکھی اُس کے ابتدائی عقائدی تجربات اُس کی خاص روح سے جُڑے ہوئے ہیں جِس میں اُس نے غارِ حِرا میں جبرائیل کا بہروپ بھی بھرا اور اِن تاریکی کی قوتوں کے ساتھ اُس نے رفتہ رفتہ میل کیا۔جبکہ ورقا نے جو کہ ایبو نائٹ بشپ تھا اُس کے جوان ذہن کو مزید خِطا کرنے والے عقیدے سے بھر دیا ۔حدیث اِس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ورقا صحائف کے لیے بہت زیادہ مشہور تھا:
ورقا بن نوفل اپنے اسلام سے پہلے کے دور میں مسیحی ہو گیا اور عبرانی خطوط لکھتا تھا۔ اُس نے میں انجیل لکھی جیسے کہ اللہ اُس سے چاہتا تھا کہ وہ لکِھے (۲۸)
ورقا نے محمد کو بائبل مقدس کا ایک بے ترتیب مطالعہ بھی کرایا جو کہ اِس بات کی واضح شہادت ہے کہ اصل بائبل اور تاریخی بیانات کے مقاصد میں قرآن کے اندر کہانیاں بے جوڑ ہیں اور تاریخ کے ساتھ بیہودگی کو جوڑا گیا ہے بائبل کے بے شمار تجزیے توڑے مروڑے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
اگر محمد کا قرآن حقیقی فرشتے جبرائیل نے دیا ہو تا تو بائبل کی کہانیاں اور کردار اُلٹے سیدھے نہ ہوتے اور تاریخی ترتیب غلط نہ ہوتی بار بار تنسیخ نہ ہوتی اور یہ تاریخی کمیوں سے بھری نہ ہوتی۔
نواں باب
اسلام میں ‘‘ قسمت ’’ اور برزخ یا مقامِ کفارہ ’’ کا تصور
اسلام میں قسمت کے ذریعہ نجات کے بہت سے راستے ہیں ۔ مسیحی الہیات دانوں کی تعلمات کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ اگسٹین، مارٹن لوتھر، اور جان کیلون اسلام کے پیرو قبل ِ اسلام عربی بدعتوں سے ہی عقیدہ تقدیر پر صاف صاف مانتے ہیں ۔ عقیدہ تقدیر بہت بڑا الہیاتی مضمون ہے۔
مسیحیت میں عقیدہ تقدیر کا تصور
جب محمد اسلامی ایمان کا بانی بن گیا اُس نے بہت سی غلط تعلیمات اِرد گِرد کی مسیحی کلیسیاؤں میں پھیلائیں ۔ مسیحی لوگوں نے غیر اقوام کے تصورات کو اپنے مذہبی اور روایتی عوامل میں شامل کر لیا۔
تاہم آج بھی یہودیوں کی روایتی کتابوں یعنی مکہتہ ، سفرو، سفری ، مِراش، بریتھا، توسیفتہ، تالمود باولی ، یروشلیمی تالمود، قبالہ ، ظہر ، طریم ، شُل کا ہان اروچ وغیرہ کی غلط تفاسیر آج بھی میل جول رکھتی ہیں اور بہت سی جدید مسیحی فرضی توہم پرستی، جھوٹی کہانیوں اور علمِ جنوم سے مطابقت رکھنے والی غلط تعلیمات سے گمراہ ہو رہے ہیں۔
مگر کُچھ مسیحی ایسی غلط تعلیمات اور توہم پرستیوں کی مبینہ طور پر مخالفت کرتے ہیں ۔ کیونکہ توہم پرستیاں اُن میں تقسیم کرتی ہیں کیونکہ کلیسیاء ایک بدن ہے۔ بائبل کی کسوٹی پر بھی اِن تعلیمات کو پرکھا جائے تو اِن الہیاتی چھوٹی چھوٹی باتوں پر سوال اُٹھتے ہیں۔ مگر جب کِسی خاص مضمون یعنی ‘‘ نجات کا عقیدہ ’’ پر بات چیت ہوتی ہے تو یہ عقیدہ مکمل طور پر ایسی باتوں اور تعلیمات کو رد کرتا ہے۔ جیسے کیلون کی تعلیم ‘‘ عقیدہ تقدیر ’’ کو خادموں نے مکمل طور پر رد کیا ہے ۔ اور اسکو حرام قرار دیا ہے۔ تاہم قسمت کے بارے میں صاف صاف بیان کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
اس کتاب کا مقصد ایسی غلط اور جھوٹی تعلیمات بشمول عقیدہ تقدیر جو کلیسیاء پر اثر انداز ہوتی ہیں انکی عکاسی کرتا ہے ۔ بلی گراہم اپنی بشارتی عبادتوں میں ہمیشہ بیان کرتا تھا کہ ‘‘ خُدا رحیم اور پیار سے بھرا ہے۔’’ ایسا خُدا جو تقدیر کا لکھا ٹال نہیں سکتا وہ رحیم کیسے ہو سکتا ہے بشمول اللہ کے آکر نبی انسان قسمت ہی کی مرہونِ منت ہے ۔تو رحم کیسا ؟ مسیحی روایتی اصلاح کاری کے بہت سے علما، نے قسمت، مقدر اور ‘‘ عقیدہ تقدیر ’’ کی پذیرائی بہت کم کی بہ نسبت مسلمان، فارسی، اور علمِ نجوم کے ماہریں کے ۔ اگر آپ آج بھی قسمت یا عقیدہ تقدیر ’’ پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ اِسلام سے قطعی مماثلت رکھتے ہیں۔ جو عقیدہ تقدیر کی پیروی کرتے ہیں اُن کا چھوٹا خُدا اور وہ خیال کرتے ہیں ہر ایک چیز کی تخلیق سے پہلے ہر چیز کا علِم ہے کیونکہ جو بچائے جا چکے ہیں انہیں اُن کے اعمال یا کاموں سے کُچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نسلِ انسانی صِرف ایک ڈھونگ ہے دھوکا ہے ان کو پہلے سے لکھے ہوئے ‘‘ عقیدہ تقدیر ’’ پر عمل کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان محض ایک ‘‘ پتلی ’’ ہے جسکی ڈور کِسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ عقلی طور پر اِس مضمون میں کوئی درمیان طرح موجود نہیں جسکا تعلق شخصی قسمت کے ساتھ ہو۔ سچا یہواہ خُدا ، پہلے سے طے شدہ ، ترتیب دیے ہوئے یقینی موقعوں پر کام کرتا ہوا تاریخ میں نضر آتا ہے۔ مگر اُس نے کبھی بھی کِسی انسان کے سر پر نہیں ٹھونسا کہ تو ابھی نجات پا۔ یہ خیال کہ کوئی نجات پاتا ہے تو یقیناً وہ علمِ سابق کے مطابق ہی پاتا ہے مگر اِس کا ہر گز مطلب نہیں اُس وقت خُدا نے ہی سارا دخل دیا تو اُس شخص نے نجات پائی ۔ علمِ سابق کے مطابق خُدا زمانوں میں مواقعوں کو پہلے ہی دیکھ چُکا ہے۔ عالملِ کل ہونے کی حیثیت سے خُدا ہر تخلیق سے پہلے جانتا ہے کہ کون اُسکے نجات کے منصوبہ کو قبول کرے اور کون رد کرے گا ۔ یسوع مسیح علِم سابق میں ظاہر ہو چکا تھا مگر مقررہ وقت پر وہ نسل انسانی پر دنیا کے نجات دہندہ کے طور پر لامحدود یہواہ خُدا کی حیثیت سے پیدا ہوا۔ یاد رہے کہ وقت مقررہ پر اصل میں بیٹا پیدا ہوا۔
یعنی مولودِ مقدس پیدا ہوا مگر ابدیت میں وہ بیٹا نہیں تھا جیسا نظر آتا ہے عِلم سابق کے مطابق اِس کو مقدسہ مریم کے بطن (رحم) میں ڈالا گیا بیٹے کے حق سے پہلے خُدا نے اپنے آپکو ‘‘ یہواہ ’’ کی حیثیت سے ظاہر کیا تھا ۔
مگر بعد میں یہواہ وقت پورا ہونے پر یسوع کی حیثیت سے پیدا ہوا ۔ جسکا مطلب ‘‘ یہواہ نجات دینے والا ’’ یا نجات دہندہ ہے ۔ ’’ کیونکہ کلام مقدس فرماتا ہے کہ ‘‘ کلمہ انسان کا بیٹا بن گیا جیسا کہ وہ خُدا کا بیٹا بھی ہے ۔’’ یہواہ خُدا نے کلمہ کو ظاہر کیا اُس نے اُسے بیٹا ہونے کا درجہ اُسکو دیا تاکہ وہ انسان پر حکومت کرے ۔ یہواہ ہمیشہ سے قائم ہے اور قائم رہے گا بالکل اِسی طرح ‘‘ ایک لامحدود اندیکھا کلمہ جو روح ہے ۔’’ جس نے اپنے آپکو ظاہر کیا تین شخصیات ضم ہو کر ظاہر کیا یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس یہ شخصی ظہور کو ضرب میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔ یہواہ ‘‘ ایک ’’ ہے جو اپنی مجموعی حالت میں اِس طرح سے ہے( ایک ضرب ایک ضرب ایک برابر ایک)جیسا عقیدہ تثلیث میں پڑھا جا چکا ہے وہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ موجود ہے اور اپنی مخلوق اور تخلیقات سے منعکس ہوتا ہے۔ یہ وحدانیت کو ظاہر نہیں کرتا مگر تین شخصیات کی وحدانیت ہے جیسا عقیدہ تثلیث میں سکھایا گیا (ایک جمع ایک جمع ایک برابر ایک ) وہ آج بھی ‘‘ ایک ان دیکھی روحانی شخصیت کی طرح وجود رکھتا ہے۔ جس نے اپنے آپکو خُدا کے ثالوث کی شکل میں ظاہر کیا۔ اپنی ذات میں کرمات کے ساتھ ساتھ وہ بہت سی جگہوں میں ایک وقت میں خُدائے ثالوث کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے ۔ اِس کے برعکس ‘‘ تثلیث ’’ کی تعریف کہ انگریزی زبان میں اِس طرح سے ہے۔ ‘‘ تثلیث ’’ تینوں میں یغانگت ’’ جو تین ان دیکھی شخصیات کی عکاسی کرتی ہے۔ ابدیت میں عمل دخل رکھتی ہوئی، مگر وہ تینوں الگ الگ رکھتے ہیں اپنی اپنی شخصیات میں ، وہ ایک شخصیت نہیں لیکن ایک شخصیت کی طرح دیکھتے اور رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ‘‘ ٹریئون’’کا مطلب ‘‘ ایک میں تین ’’ ہے ایک ان دیکھی صورت یا شخصیت جو تین شخصیات میں ظاہر ہوئی ۔ مگر ایک میں سکونت کرتی ہیں ۔ ‘‘ پینتھیِسٹیک عقیدہ ’’ کے متضاد یہواہ وقتِ تخلیق سے ہی کثرت میں ہے۔ فرشتے اور انسان تخلیق کئے گئے اور روحیں تخلیق کی گئیں یہ لامحدودیت کی ابتداء نہیں تھی۔ وہ کثرت میں نہیں تھے اور نہ ہی یہواہ کثرت میں تھا۔ ایک اہم نقطہ جو علمِ سابق کے ساتھ اور عقیدہ تقدیر کے ساتھ نسبت رکھتا ہے جیسا پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ علمِ سابق کبھی بھی مواقعوں میں دخل اندازی نہیں کرتا یہ تینوں اصلاحات ‘‘ علم سابق ’’ ‘‘ پہلے سے طے شدہ ’’ اور ‘‘ قسمت ’’ ساری یا ایک نہیں بلکہ الگ الگ ہیں ۔ تینوں اصلاحات اپنی اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں اور ناقابل تحویل ہیں ۔ ان اصلاحات کی تفسیروتشریح علم التفسیر میں الگ الگ کی جاتی ہے۔ جب سے بائبل مقدس میں توبہ کے بارے میں تعلیم تب سے اُن اصلاحات کو بھی وہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قسمت کا عمل دخل ہے یا صرف چند چُنے ہوئے لوگ ہی آسمان کی بادشاہی کے وارث ہوں گے توکیوں ہر ایک بشر کو توبہ کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک یہودی ادارے میں ایک ربی نے بیان کیا کہ عقیدہ تقدیر عبرانی توبہ کے بالکل برعکس ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اصلاح شدہ پروٹسنٹ کا قسمت کا تصور بھی یہودی تعلیمات کے جوہر کے خلاف ہے جب سے یہودیت شروع ہوئی ہے۔
اُس کے ساتھ ساتھ عبرانی لفظ ‘‘ عہد ’’ یا ‘‘ گواہی ’’ دو فریقین کے درمیان میں معاہدہ ہے نہ کہ ایک ہی فریق ہے۔ یہواہ سرپرست اعلیٰ اور کریم ہے انسان اُسکے فضل کو وصول کرنے والا ہے۔ بالکل بالکل ‘‘ آزاد مرضی ’’ ہی صرف ایک ایسا وسیلہ ہے جِس سے انسان کی زندگی میں خُدا اپنے فضل کو کام کرنے دیتا ہے۔
جب یہودیت میں پھوٹ پڑی تو بہت سے فرقے ہونے کی وجہ سے اُن کی اکثریت نے ‘‘ قسمت ’’ جیسے عقائد کو اپنا لیا مثال کے طور پر یہودیوں کا ‘‘ اسینی ’’ فرقہ جو ایک بدعت ہے۔ انہوں نے اس ‘‘ عقیدہ تقدیر ’’ کو اپنایا۔ اور ایک عقیدہ وقوع میں آیا ۔ ‘‘ باپ آسمان اور ماں زمین ’’ یعنی آسمان باپ ’’ اور ‘‘ زمین ماں ’’ کی حیثیت سے جاننے لگے جس میں غناسائی تعلیم نظر آتی ہے جو مقدس توریت کی تعلیم کے بالکل برعکس ہے۔
‘‘ قسمت کا تصور ’’ عبرانی تعلیمات کا جوہر نہیں ہو سکتا۔ اگر توبہ صرف ایک دیا ہوا کردار جو انسان ‘‘ پتلی تماشا ’’ کے لیے انجام دیا گیا تو فرض کیا جا سکتا ہے کہ قادرِمطلق خُدا ایک دھوکہ رچا رہا ہے تو ‘‘ آزاد مرضی ’’ دینا ایک جھوٹا دعویٰ ہے اور یہ تو بالکل یہواہ خُدا کو ‘‘ چاند دیوتا ’’ کے مساوی بنا دیتا ۔ خُدا ڈرامہ نویس نہیں ہے اور نہ ہی وہ اداکار اور نہ ہی جنسی کج روی کرنے والا ہے کہ گمراہ کرنے والا ٹھہرے ۔
اگر سچا ‘‘ ادونا کی یہواہ ’’ عدالت کرنے والا، انصاف کرنے والا، مسیحا اور عادل اور محبت سے بھرا ہے تو کیا وہ بنی نوع انسان کی اکثریت کو توبہ کا حیقیقی موقعہ دیے بغیر ابدی موت میں داخل کر سکتا ہے۔ عقیدہ قسمت یا تقدیر حقیقی یہودیت اور مسیحیت میں کہیں بھی اِسکی جگہ نہیں ملتی۔ عقیدہ تقدیر ایک پرسرار بدعت ہے اور یہ غیر اقوام کا شیوہ ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی میں قسمت کا عقیدہ ‘‘ پیلا گین ’’ کی بدعتی تعلیم کے خلاف بنایا گیا تھا۔ ‘‘ پیلا گیس ’’جو ایک الہیات دان تھا ایمان رکھتا تھا کہ تمام انسان پیدائشی غرض سے ‘‘ بے گناہ ’’ پیدا ہوتے ہیں اور وہ اِس قابل ہوتے ہیں کہ وہ بھلے یا برے کا چناؤ کریں ۔ اور اس امر میں خُدا کے کسی قسم کے فضل کی ضرورت نہیں۔ دونوں عقائد یعنی ‘‘ قسمت اور بے گناہ پیدائش ’’ مکمل طور پر غلط اور بدعت ہیں۔
مشہور مسیحی الہیات دان اگسٹین بڑے مضبوط طریقہ سے ‘‘ پیلا گین ’’ کے عقیدہ کی نفی کرتا ہے اور اِسکی جگہ قسمت کا ایک زبردست عقیدہ اسکے عقیدہ کے عوض دیتا ہے ۔ ۴۳۱ میں اغسٹین کی موت کے ایک سال بعد افسس کی کونسل نے با اختیار طور پر ‘‘ پیلا گین ’’ کے عقیدہ کو رد کر دیا۔ (۱) کلیسیاء نے حتمی دلائل کے ساتھ پیلا گین عقیدہ کی تردید کی۔ تاہم کلیسیاء نے تھوڑی مخالفت کے باوجود اگسٹین کے عقیدہ تقدیر کو صدیوں تک ‘‘ کلیسیائی مذہبی حکومت ’’ میں قائم رکھا۔ اگسٹین ایک قبول کرنے والا الہیات دان تھا۔ مگر وہ انسان ہوتے ہوئے حساس بھی تھا۔ کُچھ تبدیلیاں بھی اس کے عقیدہ میں بعد کے سالوں میں مسیحی الہیات دانوں نے کیں۔ دو اصلاحات ‘‘ سائنرگِزم ’’ (نجات میں انسان کی آزاد مرضی ) اور ‘‘ مونرگِزم ’’ کے عقائد عقیدہ تقدیر کی نسبت سے مسیحی الہیات میں کثرت سے رائج رہے۔ اس میں ‘‘ راسخ العتقادی ’’اور بدعت دونوں طرح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ سائنرگزم بشمول پیلاگین ازم میں دو واضح بدعتی تعلیمات ہیں ‘‘ موروثی گناہ کو رد کرتے ہیں ’’اور انسان کی رسائی کو اونچا اور بلندوبالا کرتے ہیں ’’ نیم پیلاگین ازم جو ایمان رکھتے ہیں کہ ( موروثی طور پر گناہ گار انسان تبدیل ہو گیا اور خُدا سے مفت نجات پا سکتا ہے۔) یہ دونوں بدعتی تعلیمات ہیں۔ (۲) سائنر گزم کی راسخ العتقادو شکل جیمس آرمینیس ( ۱۶۰۹ ۔ ۱۵۶۰ ) نے مرتب کی۔ اور اس اِس کو آرمینینازم کا نام دیا۔ آرمینین کی الہیات ‘‘ قصے اور حقائق ’’ راجر اِی آلس لکھتا ہے کہ
جیکب آرمینیس کو کلیسیائی تاریخ میں ایک ڈچ پادری اور الہیات دان کی حیثیت سے یاد رکھا جاتا ہے جس نے بہت سا کام لکھا۔ اس نے سائنر گِزم یعنی ( نجات میں انسان اور خُدا کا آپس میں ساتھ چلنے پر ایمان ) کو مونر گزم یعنی ( نجات میں مکمل طور پر خُدا ہی دخل اندوزی کرتا ہے ۔ ) کے دفاع میں تین بڑے والیم لِکھے جبکہ مونر گِزم مکمل طور پر انسان کی شمولیت کو نجات میں سے رد کرتے ہیں
آرمینیس کلیسیائی تاریخ میں پہلا حتمی سائنرگذٹ نہیں تھا،۔ تمام یونانی کلیسیائی بزرگ اور کیتھولک الہیات دان بھی کسی نہ کسی طرح کے سائنرگِزٹس تھے۔ (۳)
ابتدائی مسیحی کلیسیاء کی قیادت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مسیح کے رسولوں کے عقائد کی کڑی کو مِلانے والے تھے۔ آلس ابتدائی سائنرگذٹ کی سرگرمیوں کو جاری رکھتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں ۔ فلپ میلان کتھن (۱۴۹۷۔۱۵۶۰)
مارٹن لوتھر جو ‘‘جرمن’’ میں اصلاح کار تھا ۔
میلان کتھن کے اثر لوتھریت پر تھا۔ بہت سے لوتھریت کے پیروکار پورے یورپ میں سائنر گذسٹ کے نجات کے تصور کی تائید کرتے ہیں ۔ غیر مشروط ‘‘عقیدہ قسمت’’ اور فضل کی قوت کی مزاحمت کرتے ہیں۔ آرمینین کی الہیات کے بھی اس بات کا پہلی دفعہ دعویٰ ‘‘متحدہ ریاست ’’(جو آجکل نیدر لینڈ کے نام سے جانا جاتا ) میں کیا تھا مگر بعد میں انہوں نے اِس کو انگلینڈ اور امریکہ کی گلیوں میں پھیلایا اور میتھوڈسٹ پر جان ویزلی کا بہت زیادہ اثر پڑا اور بہت سے ابتدائی میتھوڈسٹ ‘‘ جن کو جنرل میتھوڈسٹ کے نام سے بھی جانا ہے۔’’ آرمینائی تھے ۔ جیسا آج بھی ہیں۔ (۴)
مزید یہ کہ بہت سے پینتیکاسٹل، اصلاح کار چرچز آف کرائسٹ، میتھوڈسٹ کی شاخیں بشمول ‘‘ پاکیزہ موومنٹ ’’ اور بہت سے بیپٹسٹ آرمینائی عقیدہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ (۵)
مگر اس کے برعکس مونرگزم کا عقیدہ ہے کہ صرف خُدا ہی نجات کے معاملہ میں دخل اندازی کرتا اور انسان اور خُدا کے درمیان نجات پانے کے عمل میں باہمی تعلق نہیں ہے۔
اگسٹین، کیلون، لوتھر اور کیتھولک کے مفکر مونر گزم کی ہی تائید کرتے ہیں ۔ (۶)
اصلاح کاری کے عرصہ میں مارٹن لوتھر‘‘ عقیدہ تقدیر ’’کے بارے کُشتی کی۔ اُس نے ‘‘آکھم ’’کے عہدہ کو قبول کیا جنکا ایمان ہے کہ ‘‘ایک شخص کی قسمت خُدا کے عِلم سابق سے تعلق رکھتی ہے کہ کیا کُچھ مستقبل میں اُسکی زندگی میں ہونے والا ہے۔’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارٹن لوتھر کو کلیسیاء میں کُشتی الہیات میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت تھی۔ وہ حرفِ آخر نہیں تھا۔ مگر بعد میں لوتھر نے بھی ‘‘ آکھم ’’ کی آزاد مرضی کو تبدیل کر لیا اور اگسٹین کی الہیات کو اپنا لیا ۔ لوتھر اگسٹین کار ہب رہنے کے دوران ‘‘ پہلے سے طے شدہ ’’ اور ‘‘ عقیدہ تقدیر ’’ کی الہیات سے زیادہ متاثر تھا۔
نیوکلئیس جو اصلاح کار ہے اسکی الہیات کی جڑیں بھی اگصٹین کی الہیات سے ملتی تھیں۔ جسکی جڑیں مِینی چین کی فلاسفی اور فارسی عِلم فلکیات عقیدہ قسمت کی بدعتی تعلیم میں تھیں۔ اگسٹین نے ابتدائی ‘‘ میِنی چین ’’ فلاسفی کے ساتھ اپنی بائبلی الہیات کو شامل کر لیا اور ایک دوغلی الہیات وقوع میں آئی۔ ایک دوسرے مشہور اصلاح کار جان کیلون نے تاکیدی طور پر اگسٹین کے ‘‘ عقیدہ تقدیر ’’ دوہرے ایمان کو اپنایا۔ کیلون کی حیثیت کو فریڈ کلو سٹر نے اپنی کتاب ‘‘ کیلون کا عقیدہ تقدیر ’’میں ذکر کیا ہے۔ ہم قسمت کو خُدا کا حتمی فرمان کہتے ہیں کیونکہ اُس نے وہ سب کُچھ جو وہ ہر انسان کے ساتھ کرنا چاہتا ہے کیا۔
کیونکہ سب کو ایک جیسی حالت میں پیدا نہیں کیا گیا۔ علاوہ ازیں ابدی زندگی کُچھ لوگوں کے لیے پہلے سے طے شدہ ہے۔ اور ابدی دوزخ کی آگ دوسروں کے لیے ہے چنانچہ جیسے ایک شخص ایک یا دوسری آخرت کے لیے تخلیق کیا گیا ہم اُسے قسمت کی لکھی ہوئی موت یا زندگی کہتے ہیں۔ (۷)
یہ اگسٹین ہی تھا جِس نے قسمت اور تقدیر کے عقیدہ کو مسیحیت میں فروغ دیا اور اس وقت سے دوسری کلیسیائی قیادت نے بھی اُسی کی پیروی کی ۔ اگسٹین اپنے قسمت کے عقیدہی کے بارے اتنا سرگرم تھا کہ دعویٰ کرتا تھا کہ جتنے بچے ‘‘بپتسمہ’’ بچپن میں نہیں لیتے، جہنم کے لیے طے کر دیے گئے ہیں ۔جان کیلون نے اِسی بات کی تائید کی اور دلائل دیے کہ اگر کوئی معصوم بچہ بپتسمہ نہیں لیتا خُدا اُس بچے کو ‘‘قسمت’’یعنی ‘‘طےشدہ’’ طریقے سے نہیں بچاتا ہے۔ اُس کے برعکس داؤد بادشاہ کے لڑکے کے مرنے کے بعد وہ پورے ایمان سے اُسکو دوبارہ مِلنے کی اُمید کرتا ہے کہ اِس زندگی کے بعد وہ آگے بھی موجود ہو گا۔
تاریخی ثبوت اور شہادتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جان کیلون کو جینوا کا پوپ مانا جاتا تھا کیونکہ اسکا قِسمت کے بارے تصور بنیادی طور پر رومن کیتھولک کے سکالر اگسٹین اور اسکے جھوٹے عقیدہ کے نظام کے ساتھ مماثلت رکھتا تھا اگسٹین نے ( مینی چین ) کے قسمت کے تصور کو لیا جسکی جڑیں بابلی عِلم فللکیات میں پیوست تھیں۔ اگرچہ اگسٹین نے ستاروں کے عِلم کو رد کیا اور عِلم نجوم کی مکمل تردید کی مگر وہ قسمت کے عقیدہ پر ثابت قدم رہا۔
اسلام اور اگسٹین کی الہیات میں ‘‘انسان’’ابدیت کی شطرنج میں ایک مہرہ ہے ۔اس طرح خُدا جو انسان سے توبہ کی توقع کرتا اور کہتا ہے ہے خُود ہی دھوکے باز منصوبہ ساتھ نظر آتا ہے ۔ عقلی آراء بھی یہی کہتی ہیں کہ ہر ایک چیز لکھی ہوئی پہلے سے طے شدہ ہے اور اس ڈراما کو لکھنے والا خُود یہواہ ہے۔
انسان کُچھ بھی نہیں ہے صرف ایک کہانی کے کردار ہیں اور طے کردہ پُتلیاں ہیں جنکی ہر ایک حرکت پہلے سے طے شدہ ہے۔ توبہ کرنا صرف تعمیر کرنا ہے اور اپنے آپکو فریب دیتا ہے۔
اور اِس سمجھ کے مطابق تو توبہ بالکل بے سود ہے۔ توبہ کے بعد بھی انسان بے بس ہے اُس کا کوئی نہیں ہے کیونکہ وہ ایک پتلی ہے وہ رضاکارانہ کردار نبھا رہا ہے اصل میں اُسکی اپنی کوئی مرضی نہیں ہے روحانیت کے مطابق زندگی کی قسمت کا دارمدار ستاروں میں ہے اور ہر چیز کا انحصار قِسمت پر ہی ہے کیونکہ انسان جو ایک پتلی تماشہ اور اُسکے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہر چیز سیکھی جاتی ہے ۔ اس سبب سے ہر انسان قسِمت کے پھندہ میں پھنسا ہوا ہے۔ اِس طرح ہر شخص شخصی طور پر پہلے سے طے شدہ قسمت پر کردار ادا کرتا ہے۔ جیسے‘‘ نئی عمر کے روحانی ’’ لوگ کرتے ہیں ۔ وہ اپنے آپکو خُدا کی قسم دے کر کہتے کہ ہم کائنات میں ستاروں کی حرکات و سکنات کے مطابق کام کرتے ہیں ۔
اس کا یہ مطلب ہوا کہ خُدا ہی تمام گناہوں کے سرزد ہونے کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ یہ عقیدہ ‘‘پینتھی ازم ’’یعنی ( کائنات کو خُدا ماننے والے ) کے ساتھ پوری مماثلت رکھتا ہے ۔
اس قسمت والی کائنات میں ہر شخص ایک ڈرامہ کرنے والا ہے جو ہر قِسم کی آزاد مرضی کی تردید کرتا ہے۔ اس حقیقت کے تصور کو قبول کرتے ہوئے ہر شخص گناہ کرکے معزرت کر سکتا اور کہہ سکتا ہے اوہ یہ تو پہلے سے لکھا ہوا تھا اِس لیے ہونا ہی تھا یہ میری مرضی سے نہیں ہوا تھا۔ جیسے آدم نے حوا پر الزام لگایا اور حوا نے شیطان پر بالکل اِسی طرح شیطان بھی خُدا پر سارا کیا کرایا ٹھونس سکتا تھا اور اس زمین پر ظلم برپا ہونے کا ذمہ دار خُدا کو ٹھہراتا ۔
یہ ساری بات اس طرح بنتی کہ خُدا تمام بدیوں اور بد کرداریوں کا گروہ ہے ۔
تاہم مسلمان ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو حقیقی آزاد مرضی نہیں دی مگر دوسری طرف آرمینیس اِس کا حاصل یہ نکالتا ہے کہ ہر عقیدہ جو کہتا ہے کہ انسان کی گراوٹ پہلے سے طے شدہ تھی، کلامِ مقدسین اِس کی تردید کرتا ہے کیونکہ اس طرح خُدا ہی گناہ کا لکھاری اور مصنف ٹھہرتا ہے۔ (۸)
پھر اِس تمام پروٹسٹنٹ اصلاح کاری جو کیلون کی تعلیم پر قائم ہے کیا کیا جائے اُسکی سیدھی سیدھی کڑی اسلام کے ساتھ ملتی ہے۔ یہ بھی رومن کیتھولک کے اگسٹین کی پڑھائی ہوئی قسمت کی بالکل وہی کڑی ہے جسکی تائید مارٹن لوٹھر نے کی اور پھر جان کیلون نے جس نے پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں میں اِسی عقیدہ قسمت کو مزید پروان چڑھایا۔
یہ عقیدہ بائبل کے خُدا کے ساتھ کِسی قسم کا کوئی باہمی تعلق ظاہر نہیں کرتا۔
یسوع مسیح نے اپنے فضل کو جاری کرکے ہر شخص کو شخصی زندگی بخشی تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کفارہ پر ایمان لا کر گناہوں کی معافی حاصل کرکے ابدی زندگی کا وارث بنے ۔ اگر ہر شخص کی حیثیت پہلے سے طے شدہ تھی تو یسوع مسیح کیوں انسان کے لیے صلیب پر مرا اور کیوں وہ سب کا نجات دہندہ بنا ۔
اگر یہ صرف ڈرامہ ہی ہے تو خُدا تو بالکل دیوانہ ہے جو صرف اپنی مرضی ہی چلاتا اور انسان کی مرضی کو قبول نہیں کرتا۔ اس طرح خُدا تو قیصِر روم ہی کی طرح لگتا ہے۔ جو اپنی ہی من مرضی کرتا تھا۔ یہواہ خُدا اِس طرح کی باتیں جو خلافِ عقل اور محض دھوکہ دہی ہے نہیں کرتا۔ اُس نے انسان کو حقیقی آزاد مرضی بخشی ہے۔ خُدا کے فضل کے تحت جو کوئی اُسکی حقیقی قربانی کو قبول کرتا ہے ابدی زندگی کا وارث ٹھہتا ہے۔
اگسٹین کا عقیدہ تقدیر، کیلون، اور دوسرے کلیسیائی قائدین مکمل طور پر ‘‘خُدا کی محبت ’’ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایک آزاد مرضی جو خُدا کے فضل سے حاصل ہوئی خُدا کا نسلِ انسانی کے لیے بہت بڑا تحفہ گردانی جاتی ہے۔ عقیدہ تقدیر اِس کو مکمل طور پر منسوخ کرتا ہے۔ مزید یہ کہ بشارت کی ضرورت کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کی جگہ جنت یا دوزخ کا تعلق تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے مسیحی لیڈر کلام مقدس کی تابعداری کی بجائے اپنے مال، عزت اور دولت کی حفاظت زیادہ کرتے ہیں۔ مگر جب اُنکا سامنا جھوٹی تعلیمات کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ سادہ دِلی سے جواب دیتے ہیں کہ ہماری قیادت اِس بات کی تائید کرتی ہے ۔ اس طرح وہ خُدا کی بجائے آدمیوں کی سُنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور وہ نازیبا طور پر روایات کی پیروی کرتے ہیں۔ جیسا مسلمان فلکیات کے جھوٹے دیوتا اللہ کی پیروی اندھا دھند کر رہے ہیں۔
مشہور کلیسیاء راہبر جان ویزلی اور جان سمتھ نے ایک بائبلی تصور پیش کیا۔ ویزلی کی الہیات کی بنیاد ‘‘فضل کی مزاحمت’’ کے اصول پر تھی۔ جِسکا مطلب یہ تھا کہ ‘‘نجات حاصل کرنے کے لیے توبہ کے لیے پہلے سے قائلیت ہونے کی ضرورت’’ ویزلی نے ہمیشہ شِدت پسند الہیات عقیدہ تقدیر کو کلام ِ مقدسین کی روشنی میں غلط ثابت کیا۔
اسکے تقاضہ اُس کے مشہور وعظ ‘‘۱۲۸ ۔ مفت فضل’’ظاہر ہوتا ہے جو اُس جو اُس نے برسٹول (۱۷۴۰) میں تبلیغ کیا۔ ویزلی قائلیت کے ساتھ تبلیغ کرتا ہے کہ اِن حوالہ جات کی تفسیر صاف صاف اِس طرح بھی ہے جس طرح تمام نیا عہدنامہ کا طریقہ ہے یعنی چند حوالہ جات اِس طور سے ہیں۔ ‘‘جِس کے واسطے مسیح موا اسکو تو اپنے کھانے سے ہلاک نہ کر۔’’(رومیوں ۱۴: ۱۵ )یہاں واضح ثبوت ملتا ہے کہ مسیح موا ہے نہ صرف اُن کے لیے جو بچائے گئے بلکہ اُن کے لیے بھی جو ہلاک ہونے والے ہں۔ وہ دنیا کا ‘‘نجات دہندہ’’ ہے (یوحنا ۱۴ : ۴۲ ) وہ ‘‘ دنیا کے گناہوں کی خاطر خُدا کا برہ ہے۔’’(یوحنا ۱ : ۲۹ )
‘‘ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اورنہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی۔’’ ( ۱۔ یوحنا ۲ : ۲ ) ‘‘ کیونکہ ہم محنت اور جانفشانی کرتے ہیں کہ ہماری اُمید اُس زندہ خُدا پر لگی ہوئی ہے جو سب آدمیوں کا خاص کر ایمانداروں کا منجی ہے ۔ ’’ ( ۱۔تیمتھیس ۴ : ۱۰ )
‘‘ جس نے اپنے آپکو سب کے فدیہ میں دے دیا۔۔۔۔’’( ۱۔ تیمتھیس ۲: ۶ ) ‘‘ اُس نے ہر ایک آدمی کے لیے موت کا مزہ چکھے۔’’ ( عبرانیوں ۲ : ۹ ) (۹)
ویزلی ایمان رکھتا تھا کہ ہر شخص اپنے طور پر خُدا کے جاری کردہ فضل کے نیچے آسکتا ہے اور اپنی آزاد مرضی کو استعمال کرکے قبول کرنے کی صورت میں نجات اور رد کرنے کی صورت میں ابدی موت حاصل کر سکتا ہے۔
آرمینائی لوگوں کے خلاف ایک بات مشہور ہے وہ کہتے ہیں کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے تمام نسلِ انسانی گناہ کے نیچے نہیں آسکتی ہے۔ آرمینیس اپنے آپکو اپنے کاموں (اعمال) سے ہی بالکل صاف بنا سکتا ہے۔
لوگوں کا مناظرہ:۔
اس بیان میں انسان کی آزاد مرضی سے بھلا کام (نیکی) نہ صرف زخمی کرتا، بگاڑتا اور کمزور اور ناتواں کرتا ہے بلکہ یہ انسان کو قید کرکے برباد اور داغ لگاتا ہے۔ اور اُسکی قوت بے سود ہونے کے علاوہ خُدا کے فضل کو بھی جھٹلاتی ہے۔ لیکن اِسکی قوت نہیں ہے خُدا کے فضل کی الہیی قوت ہی سب کُچھ ہے۔ (۱۰)
آرمینیس و ثوق سے کہتا ہے کہ انسان گناہ کے بندھن میں جھکڑا ہوا ہے وہ اپنے آپکو کِسی صورت میں نہیں بچا سکتا اگر خُدا کا فضل اسکی طرف سے جاری نہ ہو۔
ویزلی اِس بات کو اس طرح سے دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے کاموں سے حتیٰ الوسع نجات کی سیڑھیاں چڑھتا ہے ۔ ویزلی اور آرمینیس راسخ العتقادی کی مکمل پابندی کرتے ہیں اُن کا ایمان ہے کہ بنی نوع انسان مکمل طور پر گناہ کے بندھن میں بندھا ہوا اور صرف خُدا کے فضل سے ہی نجات پا سکتا ہے۔ اِن کا کہنا ہے کہ نجات کا انعام کوئی شخص کما نہیں سکتا بلکہ صرف حاصلِ (وصول) کر سکتا ہے۔
آلس کہتا ہے کہ رُوح القدس دِلوں اور ذہنوں پر کام کرتا اور لوگوں کو خُدا کے بارے کُچھ جان کاری دیتا یعنی خُدا کی برکات اور رحمتوں کے بارے بتاتا اور انہیں توبہ کے لیے بلاتا ہے۔ آرمینیس کی سخت تعلیم خُدا کے فضل کی مزاحمت کرتی ہےجو کیلون کے پیروکار بھی مانتے ہیں۔ مگر آرمینیس اِسکی وضاحت فرق طریقہ سے کرتا ہے توبہ سے پہلے فضل سادہ طریقے سے قائل کرتا، بلاتا، چمکاتا اور خُدا کے فضل کے قابل بناتا ہے جو زندگی تبدیل ہونے سے پہلے توبہ اور ایمان کو ممکن کرتا ہے۔ کیلون کے پیروکار اِسکی وضاحت اِس طرح سے کرتے ہیں کہ یہ اٹل اور کارگر اُس شخص کے لیے ہوتا ہے جو توبہ کرے اور نجات پر ایمان رکھے۔ آرمینیس اِس طرح کہتا ہے کہ لوگ ہمیشہ خُدا کے فضل کی مزاحمت کرتے ہیں۔ جیسا کلامِ مقدس تنبیہ کرتا ہے۔ ( اعمال ۷ : ۵۱ ) لیکن ‘‘توبہ سے پہلے فضل ’’کے بغیر وہ فطری عمل کے مطابق سخت اور سنگدل ہونے اور خُدا کی مرضی کو تکفیر گناہ کے غلام ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں۔ (۱۱)
کیلون کے مطابق خُدا انکو جنکو بغیر کِسی طرفداری کے نجات کے لیے چنتا ہے شخصی طور پر انکی مرضی کو تبدیل کرتا ہے۔ یہ کِس طرح کا تعلق ہے؟ بائبل مقدس کا خُدا کیا اپنی مخلوق کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے وہ جو خواہش کرتا ہے کہ اُسکا اپنی مخلوق کے ساتھ حقیقی تعلق ہو ۔ نہ کہ ایسا تعلق جیسے کِسی غلام یا پتلہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ آرمینیس اپنے خالق کے نجات کے کاموں کو اُسکی محبت کے عجائبات، رحم عدالت ، انصاف اور شخصی تعلقات سے محسوس کرتا ہے۔
پہلے سے مقرر کردہ قسمت کا احاطہ کرتے ہوئے اِسکا نظارہ عقلی طور پر خُدا کی مداخلت کے لیے دعا کے لیے ارادہ کرنا اور معجزات اور نجات کے لیے دُعا کرنا بے جا اور فضول ہو گا۔ کون خُدا کے متعین کئے ہوئے کو ناکام کر سکتا ہے؟ کیوں منادی کی جاتی ہے؟ حقیقت میں انسانیت کا مقصد کیا ہے اگر ہر چیز پہلے سے متعین ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اصلاح کار مسیحی شاخوں کو اسلام سے ملاتے ہیں۔ آٍعمینائی الیات میں دلائلی جھوٹ پائے جاتے ہیں۔
کُچھ الہیات دان یہ بحث کرتے ہیں کہ خُدا چند چُنے ہوئے اور پہلے سے متعین لوگوں پر ہی نجات ٹپکا سکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ دلیل دُرست بھی ہے تاہم وہ جو آرمینائی الہیات کی پیروی کرنے والے کہتے ہیں کہ صرف خُدا ہی نجات دے سکتا اور یہ یک طرفہ ہے اور یہ پہلے سے طے شدہ فضل کی بدولت ملتی ہے۔ مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ فضل دعاؤں کے وسیلہ سے آتا ہے یہ دُعا مقدسین کر سکتے ہیں یا پھر وہ لوگ جو نجات پانے سے پہلے خُدا کے سامنے نالش کرتے اور اُنکی رُوحانی آنکھیں کُھلی ہیں وہ کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ یہ خُدا کے بنائے ہوئے وہ ہتھیار ہیں جو شخصی طور پر قائلیت رکھتے اور روح القدس کی قائلیت اُنکے اندر ہو اور وہ خُدا کے کلام کے وسیلہ فیصلہ کن حالت پر پہنچے ہوں۔ یہ لوگ زبردستی خُدا کی طرف راغب نہیں ہوئے۔ مگر خُدا کی بے پناہ محبت جو تمام نسلِ انسانی کے لیے ہے، انکو مسیح کے پاس لے آئی۔ (یوحنا ۳ : ۱۶ ) ہر انسان کی اپنی آزاد مرضی ہے وہ اپنی مرضی سے انکو قبول یا رد کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم اگر خُدا نے ہر چیز کو پہلے سے مقرر کر دیا ہے اور صرف خُدا چند خاص لوگوں کا ہی چناؤ کرتا ہے تو انسان کا ارادہ تو بے کار ہو گا۔ اور اِس طرح غیر ایمانداروں کے لیے دُعا کرنا بے سود اور بے فائدہ ہو گا۔ یہواہ خُدا کی یہ پاک مرضی ہے کہ ایماندار تمام غیر ایماندروں کے لیے شفاعت کریں۔ خُدا کی تحریک سے پولس رُسول لکھتا ہے۔
‘‘ یہ ہمارے منجی خُدا کے نزدیک عمدہ اور پسندیدہ ہے وہ جانتا ہے کہ سب آدمینجات پائیں اور خُدا کی پہچان تک پہنچیں ۔’’ ( ۱۔ تیمتھیس ۲ : ۳ ۔ ۴ )
پطرس اس بارے کہتا ہے کہ خُداوند اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اس لیے کہ کِسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔( ۲۔ پطرس ۳ : ۹ ) یہ بالکل صاف ہے کہ خُدا ‘‘چاہتا’’ ہے کہ ‘‘تمام’’ لوگ نجات پائیں۔ شاگردوں نے ایک دفعہ یسوع مسیح سے کہا ہم کیسے دُعا کریں ؟
یسوع مسیح نے فرمایا جب تم دُعا کرو تو کہو ‘‘ اے ہمارے باپ تو جو آسمان پر ہے ، تیرا نام پاک مانا جائے تیری بادشاہی آئے تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی زمین پر بھی ہو’’ (لوقا ۱۱: ۲ ) عقلی طور پر آکر دیکھا جائے تو ایک ایماندار خُدا کی مرضی پوری ہونے کے لیے دُعا کر رہا ہے۔ اور اُسکی مرضی یہ ہے کہ تمام نسلِ انسانی ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ صرف اُس کے کلام پر ایمان لانے کے وسیلہ سے ۔ خُدا جھوٹا اور دھوکے باز نہیں ہے۔
اُسکی مرضی بائبل مقدس کی تعلیم سے واضح نظر آتی ہے کہ اُسکی خواہش ہے کہ تمام بنی نوع انسان نجات پائے۔ جان سمتھ وہ اینگلیکن پادری تھا جس نے بپٹسٹ کلیسیائی بنیاد رکھی۔ اور اُس تعلیم کو ‘‘ عام کفارہ ’’کہا۔ ویزلی اور سمتھ کی تعلیمات کی جڑیں اتنی مضبوط بائبلی بنیادوں پر تھیں کہ محبت بھرے خُدا کے لیے ایک گھر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جبکہ دوسری بدعتی تعلیمات کہتی ہیں کہ خُدا قہر اور عذاب سے بھرا ہوا ہے اور اُس نے نسلِ انسانی کی بہت بڑی تعداد دوزخ کی ابدی آگ کے لیے پیدا کی اور وہ کِسی قسم کی تبدیلی اپنی مرضی سے اس میں نہیں لا سکتے ۔ انسان کا چناؤ خُدا کی دی گئی آزاد مرضی سے فضل کے ذریعے ہوتا ہے اور اُسکا اپنا ایمان اُسکی منزل کا تعین کرتا ہے۔ اس طرح خُداوند یہواہ خُدا کی عدالت بھی اُسی چناؤ پر منحصر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اِس رسائی کو رد کرتے ہیں ۔ اور خُود ہی چند لوگوں کا تعین کرتے ہیں کہ وہ نجات پائیں اور خُود اِس بڑی نجات سے غافل اور عاری ہو جاتے ہیں ۔ بائبل مقدس تصدیق کرتی ہے کہ یہ خُدا کی مرضی نہیں ہے کہ کِسی فردِ بشر کی ہلاکت ہو بلکہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔ عقیدہ قسمت کو بائبل مقدس میں واضح طور پر رد کیا گیا ہے مگر یہ آج بھی مسیحی کلیسیاؤں میں رائج ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ویزلی اور سمتھ کی تعلیمات غیر قسمتی خُدا کی تصویر کو پیش کرتی تھیں یقینی طور پر وہ نہ صرف مسیحی الہیات دان ہی تھے جو انسان کی آزاد مرضی کے حق میں تھے بلکہ ان کی تعلیم کی جڑیں یہودی پختہ ایمان میں تھیں جو آج تک بھی مروج ہے کہ تو بہ کے بغیر نجات نا ممکن ہے۔ پہلی صدی کے ابتداء کی ایماندار یہودی نو مرید مسیحی کِسی قسم کی قسمت کی تعلیم کو نا قابلِ قبول سمجھتے تھے۔
‘‘ عقیدہ قسمت ’’ کے لحاظ سے ویزلی اور سمتھ دوسرے تمام اصلاح کاروں سے معزز نظر آتے ہیں جہنوں نے تحقیر آمیز مستند عقیدہ قسمت کو آگسٹین کے تصورات سے حاصل کیا۔ یہ کِسی مصنف کا اپنا ارادہ نہیں کہ کلیسیائی روایت اس طرح سے ہو کیونکہ اُن کی بہت سی تعلیماتی تصحیح جو بہت ہی ضروری تھی انہوں نے بڑے دلیرانہ انداز میں کلیسیائی تاریخ میں نبھایا۔
تاہم جب کِسی عقیدہ یا مسئلہ کا تعلق نجات کے ساتھ ہو تو کوئی بھی سادگی سے غلطی نہیں کر سکتا۔ مسیحیت کو نجات کے اندرونی تصور کے بارے متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کی جھوٹی مستند تعلیم کا سامنا کر سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن الہیات دانوں میں سے بہت سے الہیات دانوں کے تصورات اسلام کے تصورات سے ملتے جلتے ہیں جبکہ یہ بات طے ہے کہ اسلام مخالفِ مسیح نطام ہے دنیا کے لیے کوڑا ہے۔
لوتھر، کیلون، وائٹ فیلڈ اور ویزلی تمام اِس بات کو مانتے ہیں کہ اسلام کی جابرانہ حکومت کلیسیاء کے لیے حقیقی خطرہ تھا۔
اسلام اور مسیحیت میں ‘‘ عقیدہ قسمت ’’ کا تقابلی جائزہ
مسلمانوں کے عقیدہ قسمت کی جڑیں عربوں کی بدعتی تعلیمات میں ہیں ۔ ‘‘ کعبہ ’’ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بتایا گیا ہے ہر سال بعد ایک بُت کی حیثیت سے پوجا جاتا ہے۔ کیونکہ ستاروں کا تعلق مقدر (قسمت) کے ساتھ ہے یہ قابلِ ذکر ہے کہ اللہ کی تین بیٹیوں میں سے ایک ‘‘مانت’’ کو قسمت کی دیوی کہا جاتا ہے۔ یہ ستاروں کی بدعت بابل میں پروان چڑھی اور ان کو بائبل مقدس کے صحائف نے مکمل طور پر رد کیا ہے اسلام کی تعلیم کے مطابق، ہر شخص کی پیدائش پر ایک فرشتہ اسکی منزل کا تعین کرتا ہے۔ حدیث بیان کرتی ہے کہ اللہ نے ایک فرشتہ کو حکم دیا کہ چار چیزیں لکھ ! نئے پیدا ہونیوالے انسان کے بارے یعنی اس کے ‘‘ کام ’’ ‘‘ اس کا روز گار ’’ ‘‘ اُسکی موت کا دن ’’اور اس کے علاوہ یہ بھی لکھ کہ وہ بابرکت ہو گا یا ‘‘ بے چارہ’’ ہو گا۔ پھر اس کے جسم میں روح پھونک۔ اس طرح جو شخص اچھے کام کرتا ہے اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک پردہ ہے اور تب جو کُچھ اس کے بارے لکھا گیا ہے کہ وہ کیا فیصلے کریگا اور اُسکا رویہ کیسا ہو گا اور اُسکے ستارے بدی کریں گے یا بدی کے کام کریں گے اور اس طرح وہ جہنم کا وارث ہو گا ۔ اور تب یہ بھی لکھا گیا کہ اس کے فیصلے اور رویے اور اس کے ستارے اچھے کام کریں گے اور اس طرح وہ جنت کا وارث ہو گا۔ (۱۲)
یہ پیراگراف ‘‘پہلے سے طے شدہ ’’ ‘‘قسمت’’ کے بارے واضح تعلیم دیتا ہے۔ اور ایک اور دوسری حدیث سے محمد کا پیغام واضح نظر آتا ہے۔ نبی نے کہا: اے آدم تو نے اپنی اولاد کو جنت میں سے باہر نکالا۔ آدم نے کہا تم موسیٰ ہو جس کو اللہ نے اپنے پیغام اور اپنے ساتھ براہِراست بات کرنے کے لیے چُنا۔ تم مجھ پر الزام اُس بات کے لیے لگاتے ہو جو میرے لیے پہلے ہی طے تھی اور میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی طے ہو چکی تھی؟ اِس طرح موسیٰ پر غالب آیا۔(۱۳)
حیران کن بات یہ ہے کہ اللہ نے دنیا کے پہلے انسان آدم کو بغیر چناؤ اور اُسکی مرضی کے گناہ گار ٹھہرا دیا۔ بغیر راستبازی اور فرماں برداری کے اُسکو گناہ گار ٹھہرایا۔ پہلے سے مقررکرنا، انسان کو گناہ گار ٹھہرانے میں اللہ کا حکم شامل ہے۔ اِس طرح اللہ ایک (شیطان) اور نا اہل اور بدکار دیوتا کی ضرورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ دنیا میں گناہ لانے کا سبب اُنکو جہنم میں پہنچانے کا فیصلہ انسان کی مرضی کے بغیر اللہ ہی نے کہا۔محمد کے ایک پیروکار نے اِس عقیدہ کے تعلق سے سوال کیا ۔ایک حدیث میں ہے کہ ‘‘ اے اللہ کے رسول ! لوگ کیوں اچھے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ نبی نے کہا ! ہر شخص اس طرح کے کام کرکے اُسکی منزل کا تعین کرتے ہیں ۔ جیسا وہ خُود بناتا ہے۔(۱۴)
اِس طرح محمد کی تعلیم سے واضح ہوتا ہے کہ اچھے کام کرکے انسان جنت حاصل کر سکتا ہے اُسکے اپنے عقیدہ (قسمت) کی نفی ہو جاتی ہے۔ اِس طرح کی نامناسب اور نا مطابقت کو مسلمان خُود بھی قبول نہیں کریں گے۔ اسلام کے مذہب میں جنت میں داخل ہونے کا راستہ صرف اُسکی نیکیاں ہیں۔ تاہم اسلامی عقیدہ قسمت میں ہر شخص کے موجود ہونے سے پہلے اسکو جنت یا دوزخ سونپ دی گئی ہے۔ عقیدہ قسمت انسان کے ہر طرح کے اچے نیک کاموں کی تردید کرتا ہے اسلام اور اگسٹین کی بدعتی تعلیم (عقیدہ قسمت) دونوں بائبل مقدس کی حقیقی تعلیمات ( یعنی خُدا کی خوبصورت فطرت اور کردار) کے خلاف ہیں۔ اگر خُدا نے انسان کو آزاد مرضی نہیں بخشی تو وہ دھوکےباز اور نظر انداز کرنے والا خُدا ، اللہ کے مساوی جانا اور سمجھا جائیگا۔
یہواہ نے حکم دیا ! میرے فضل سے توبہ کرو۔ ہر شخص اپنی حقیقی مرضی کو استعمال کرکے خُدا کے فضل کا حق دار ہو سکتا ہے اور اِسی سے اُسکی آخری منزل کا تعین کیا جائیگا۔
ہر شخص روحانی اعتبار سے عمل پیرا ہو کر نجات کی خوشبری پا سکتا ہے۔ کوئی مرد یا عورت فیاضی کے ساتھ اپنی نجات کو اپنے اچے کاموں سے حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی اپنی مرضی سے اپنے آپکو بچا سکتا۔ یسوع مسیح کا کفارہ ، رُوحانی فرماں برداری کا تقاضہ کرتا ہے نہ کہ شریعت اور جسم کے کام کی ۔
توہم قرآن اور حدیث میں بے شمار حوالہ جات عقیدہ قسمت کے تعلق سے شامل ہیں۔ جیسا لکھا ہے کہ ‘‘ جسکو اللہ نے گناہ دے دیا وہ اپنی مرضی سے یا کوشش سے اللہ کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے دِلوں کو صاف نہیں کر سکتے۔ اور ان کے لئے آخرت میں دہشت ناک فرمان ہے۔ (قرآن ۵ : ۴۱ )
اسلامی تحاریر میں عقیدہ قسمت کے تصور میں ابدی منزل کی بنیاد کافرانہ بدعت کی کوشش ہے۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تاروں جیسی بدعت یعنی کعبہ ، محمد کی فلکیات کے کافرانہ مذہب کی ترقی میں پیش ہے۔
اسلام میں جہنم کے برزخ کا تصور
اسلام میں برزخ کا تصور بالکل ابتدائی رومن کیتھولک جیسا ہے۔ اسلام نے برزخ کا نظام رائج کیا ۔ کہ کِس طرح برزخی نظام سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔
پروٹسٹنٹ بائبل اور ابتدائی کلیسیائی قیادت کِسی قسم کی برزخ کے ذریعہ نجات کی تائید نہیں کرتے۔ رومن کیتھولک کلیسیاء ، اپنے بڑے گرجا گھروں کی تعمیر کے لیے اور کلرجی کے لیے بے حد آمدنی کو ترتیب سے اکٹھا کرتے ہیں ۔ اس جھوٹ تعلیم کو پھیلا کر کہ برزخ میں اِسکا اجر غلہ گودام اور بہت بڑی دولت کی صورت میں ہوگا۔ مارٹن لوتھر پروٹسٹنٹ قائدانہ تھا۔ ا‘س نے اس خلافں فطرت روایت کے خلاف آواز بلند کی اور یویوں کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کی روایت کو نا منظور کیا۔ ہر کوئی شخص اپنی دِل جوئی سے پوپ کی اجازت سے اپنے لیے برزخ یا ‘‘دوزخ ’’خریدسکتا ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ اگر کسی نے خُون بھی کیا ہے تو وہ (معافی نامہ ) بخشش کو خرید سکتا ہے مگر اُسکی قیمت ٹھیک دینی پڑے گی۔ پوپ گریگری اول نے پانچ سال اِن الہیات کا تجزیہ کرنے کے بعد برزخ کے عقیدہ کا باقاعدہ اعلان کیا۔ نائن کی کونسل سے پہلے ابتداء کی کلیسیاء کی قیادت نے بائبل کے متن سے متعلق عقیدوں کو مذہبی حکومت نے نظر انداز کیا اور اِس غلط عقیدوں کو رائج کیا۔ اسکا مقصد صرف یہی تھا کہ لوگوں کو روحانی طور پر ورملہ کرانکی محنت سے کی گئی کمائی کو یادگار بڑے بڑے گرجاؤں کی تعمیر اور فضول آرائشوں والی زندگی گزارنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
پہلی صدی میں اور بھی بہت سی غلط (بدعتی) تعلیمات رائج کی گئیں۔ مگر وقت کے عظیم مسیحی الہیات دانوں نے اِن کو شکست دی۔ تاہم بہت سی بدعات چرچ (کلیسیاء) میں شامل ہو گئیں اور بہت سہ محمد کے وقت سے یعنی قریباً چار سو سالوں سے بھی شامل کی گئیں۔
مگر محمد نے بدعات اپنے نئے مذہب میں شامل کر لی۔ یسوع مسیح کے عظیم کفارہ کی تکمیل کے ضد میں کلیسیائی بدعات نے ‘‘بخشش’’ یا ‘‘معافی ناموں’’ کو ایک غیر بائبلی عقیدہ کے طور پر قبول کر لیا اور اسکا مقصد یہ ہوتا کہ اگر کوئی بھی اِس ‘‘معافی’’ یا ‘‘بخشش’’ قیمتاً خریدے تو برزخ میں اُس کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ‘‘یسوع مسیح کو دنیا کے گناہوں کی معافی کے لیے اپنی قربانی اور خُون بہانے اور جی اُٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ یسوع مسیح کی بے عزتی کرنے کے مترادف ہے کہ اُسکی سخت دُکھ کی حالت میں قربانین اور صلیب پر موت بے فائدہ ہے۔ کیونکہ اگر کوئی بہت اچھے کام کرے یا ادا کرنے کے لیے کِسی کے پاس کافی دولت ہو اور وہ بیعانہ کے طور پر کیتھولک کو پیسہ جمع کروائے تاکہ آئندہ زندگی میں کام آئے ۔ پوپ صاحب کے جاری کردہ معافی نامے ہی اگر نجات دے سکتے ہیں تو یسوع کی صلیب اور مردوں میں سے جی اُٹھنے کی تو کوئی ضرورت نہیں۔
بائبل مقدس صاف اور واضع تعلیم دیتی ہے کہ جب ایک مسیحی ایماندار مرتا ہے تو وہ فوراً مسیح کے ساتھ ہوتا ہے۔ (۲۔ کرنتھیوں ۵: ۶ ۔ ۸ ) جب سے یسوع مسیح نے ایک ہی دفعہ تمام بنی نوع انسان کے لیے اُسکے گناہوں کی قیمت ادا کر دی گئی ہے وہ جاری ہے اور جاری رہے گی۔ شخصی گناہوں کی معافی کے لیے اور برزخ میں رہائشیں کے لیے کِسی قسم کی ضرورت نہیں ہے کہ فردوس میں جانے کے لیے کوئی بیعانہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بات واضع طور پر مسیح کو رشوت دینے اور اُسکو زخمی کرنے میں بھر پور کردار ادا کرتی ہے۔
اسلام میں سکھایا جاتا ہے کہ ہر گناہ کی سزا ملے گی۔ جب سے اسلام میں خُون کی قربانی کو بے اثر قرار دیا گیا ہے عام لوگ دوزخ میں وقت گزار رہے ہیں تاکہ اُنکا کفارہ ہو سکے۔ اگر وہ خُوش قسمت ہیں تو شاید وہ بچ سکتے اور جنت میں جا سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ متقی پریزگار مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور اُس نے اپنی ساری زندگی میں صرف ایک ہی گناہ نہ کیا گیا ہو اُسکی قیمت دوزخ میں ضرور گزراننی پڑے گی تاکہ اللہ کا قانون پورا ہو سکے۔ اگر اُس نے اللہ کی اعلانیہ نافرمانی کی تو بھی اُسے ضرور ہمیشہ کی آگ میں سزا پڑے گی۔
حدیث اِس طرح قانین میں سے ایک کو یوں بیان کرتی ہے۔ نبی نے کہا : یہ دو اشخاص سزاوار ہوں گے ایک جس نے مٹی کو پیشاب کے ساتھ گیلا کیا اور دوسرا وہ جس نے ‘‘غیبت’’ یا بدگوئی کی اِن میں سے ایک بھی نہیں بچے گا۔(۱۵) ہر شخص اپنے گناہ کی سزا پانے کے بعد معافی حاصل کرے گا۔ محمد نے ‘‘بُدھا’’ مذہب کے بانی زوروآسٹریان کے تصور (دوزخ کا پُل یاد کرنا) کے تصور کو چرایا ہے اور اُس میں اپنی تعلیم یعنی برزخ کے عقیدہ کو شامل کیا ہے کہ ہر شخص پہلے جہنم میں جائے گا پھر برزخ میں جائے گا۔
ایک حدیث اس طرح بیان کرتی ہے کہ :۔ جہنم کے اندر (یعنی پُل کے اوپر) ایک خاردار پودا ‘‘ال ساڈان ’’نام کا ہو گا جو لوگوں کو انکے کاموں اور اعمالوں کے مطابق پٹک لے گا ۔ کُچھ لوگ جہنم میں اپنے (بدی) کے کاموں کے سبب ٹھہرے رہیں گے اور برباد کیے جائیں گے اور کُچھ ان کانٹوں کی وجہ سے کاٹ دیے اور جہنم میں گرائے جائیں گے اور کُچھ سزاوار ہوں گے مگر سزا کے بعد حفاظت سے بچ جائیں گے۔ جب اللہ لوگوں کے درمیان اپنی عدالت ختم کر چکے گا پھر وہ ہر کِسی کو دوزخ میں سے اپنے رحم سے باہر نکالے گا۔ تب وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ اُن لوگوں کو دوزخ کی آگ سے باہر نکالو جہنوں نے اللہ کے علاوہ کِسی کی پرستش نہیں کی اور اللہ اُنکے ساتھ رحمدل ہو گا جو دنیا میں آزمائے گئے مگر اللہ کے سوا کِسی کی پرستش نہیں کی۔(۱۶)قرآن اور حدیث مسلمان کے علاوہ نجات کو ر د کرتی ہے۔ (۱۷) اگر کوئی شخص مسلمان ہو تو وہ اپنا ختنہ لازمی کروائے اور اللہ ایک ہے اور لاشریک ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں ہونے کا اعلان کرے۔ اور اِس طرح عورت صرف اعلان کرے کہ اللہ ایک ہے اور واحد معبود ہے اور محمد اللہ کے آخری نبی اور آخری رُسول ہونے کا اقرار کرے مرد اور وعرت دونوں کے لیے ہی اُصول ہے اور اُن کے اعمال بھی نجات میں کردار ادا کریں گے۔ اسلام وہ جدید مذہب ہے جو توبہ کے بعد کاموں (اچھے اعمال) پر محط نجات پر یقین رکھتا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی تحاریر بیان کرتی ہیں کہ اُن کو ایک لمحہ یا فوراً نجات نہیں مل سکتی۔ عورتوں کی قِسمت اس معاملہ میں زیادہ ہی خراب ہے کیونکہ اللہ نے عورتوں کو کثرت سے جہنم کے لیے پہلے سے چُنا ہے ۔ تاہم کوئی مسلمان براہِ راست جنت میں نہیں جا سکتا جب تک جنگ کی حالت (جہاد) میں نہ مرے یا کِسی بے دین شخص کو نہ قتل کرے۔
حدیث بیان کرتی ہے کہ دوزخ کی حتمی سزا کیسی ہو گی؟
‘‘ میں نے نبی کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ رُوزِ حشر کے دن ایک آدمی کو جہنم میں اِس طرح سزا دی جائے گی اُس آدمی کے پاؤں کے محراب میں دو کوئلے سلگائے جائں گے اور اِس سے اُسکا دماغ اُبل جائے گا بالکل تانبے کے برتن کی طرح یا جس طرح صُراحی جس میں پانی گرم کیا جاتا اُس طرح گرم ہو گا۔ (۱۸)
ہر مسلمان سختی سے جہنم میں سزا پائیگا۔ سزا پانے والے مرد اور عورت کے دماغ جو اُبالے گئے وہ پھٹ جائیں گے جب تک وہ سلُگتے کوئلوں پر کھڑا رہے گا یا کھڑی رہے گی ۔ پارسا اور پریزگار لوگوں کے لیے اِن شدید باتوں کے امتحان میں سے گزرے گا جو ان کا انتظار کر رہا ہے ۔ اگر کوئی اِس سزا سے بچنا چاہتا ہے وہ صرف ژخصی طور پر جہاد کرے۔
میدانِجنگ میں دھاوا (حملہ) بولنے سے پہلے اور مالِ غنیمت اکٹھا کرنے اور قانون پر حملہ سے پہلے محمد نے کج روی سے ایک کہانی گھڑی اور اُسکی تشہیر جنگلی چال کو سوچی سمجھی بنا پر کی۔ اُس نے اپنے جنگی ساتھیوں کے ساتھ فوراً جنت میں داخلہ کو وعدہ کیا کہ جو کوئی بھی جنگ کے دوران مرے گا جنت میں جائیگا۔
نہ صرف وہ مختصراً جنت میں بغیر جہنم میں جائے پہنچ جائیں گے بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ اُنکو کُچھ مختلف حواسی خواہشات کی تکمیل بھی فراہم کی جائیگی۔ مثلاً اُن کو جنگل ، سمندر اور اجرامِ فلکی کی حیسنائیں (پریا) اُنکے ساتھ مباشرت کے لیے فراہم کی جائیں گئیں۔ شراب پینے کا موقع فراہم کیا جائیگا اور بہت سی بخششیں عطا کی جائیں گیں ۔
یہ بات آج کل کی اسلامی حالت، بہت سے خُود کش بم پھاڑنے والے خواہشمند مسلمانوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک مکمل احمق اور پاگل آدمی کی قیادت میں بہت سے مسلمان اس بادشاہی کو صرف جہاد کرکے داخل ہو سکتے ہیں۔ اُنکی فرماں برداری، حکومت یا اُنکی شہریت کی تابعداری میں نہیں بلکہ اُنکی تابعداری ہر قیمت پر اسلام کی آواز پر جنگ کو فتح کرنے پر ہے۔
جو قرآن کو سنجیدگی سے پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک اللہ کی اندرونی پراسرار بادشاہی کی تابعداری ہے۔ اگرچہ ایک پیار کرنے والے مسلمان کے ساتھ کُچھ بھی ہو اُسے جہاد کے عقیدہ پر ایمان رکھنا ضروری ہونا چاہیے۔
مگر حقیقت میں جو اعتدال پسند لوگ ہیں اگرچہ وہ قرآن سے ناواقف بھی ہوں اس طرح کے احکامات کو نہیں مانتے۔ اس طرح ان کے بہت بہتر یہی ہے وہ اللہ کی اِس تعلیم سے دست بردار ہوں اور زندہ خُدا یسوع مسیح کی پیروی کریں اس طرح وہ جہاد کے بغیر ہی دوزخ سے بچ سکتے ہیں۔بد قسمتی سے ان کی ہی تحاریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے تمام گناہوں کا حساب دوزخ میں ادا کریں گے۔ جہنم میں سب سے چھوٹی سزا، انکو پتھر کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر کھڑا ہونا پڑے گا جب تک اُنکے سروں سے خُون جاری نہیں ہو جاتا اور وہ پھٹ نہیں جائیں گے۔ صرف جہاد کرنے والے ہی جہنم کی سزا سے بچ سکیں گے ۔ اکثریت نہ جتائے ہوئے تشدد کو لا محدود اسلامی جہنم میں برداشت کریں گے۔ ایک دفعہ مسلمان اکثریت کا تسلط قائم ہو جائے۔ مقامی طور پر شریعت لاگو کر دیتے ہیں۔ اور کئی دفعہ یہ قانون ملک کا قانون بن جاتا ہے۔ تاہم یہ کتاب مسلمانوں کی تکفیر کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ کلیسیاء کو زبردست چنوتی دیتی ہے۔ اور مختلف قسم کے معاشروں اور حکومتوں جو دنیا کہیں بھی ہیں انکو مسلمانوں کے ارادوں سے، جو اللہ کی خاطر مختلف ملکوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ آگاہی دیتی ہے۔ اِس لمحہ مسلمان دنیا میں ہزاروں لوگوں کا قتل کر رہے ہیں۔ ہندو، بُدھا اور یہودی بھی اسی طرح کی بد قسمتی کا شکار ہیں اور تمام دنیا کو بھی اسی چنوتی کا سامنا ہے۔
اڈولف ہٹلر کی طرح مسلمان بھی مکمل جہاد کرکے جھوٹے چاند دیوتا اللہ کے لیے دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایک لفظ ‘‘خلافت’’ کو ہی لے لیجئے اسکا مطلب ایک خُود سرا نہ اور جابرانہ دنیاوی حکومت جو ہر قسم کی آزادی کا گلہ گھونٹتی ہے۔
چھٹا حصہ‘‘ اسلام میں عورتوں کا تصور’’
باب دہم
مرد عورت سے زیادہ قابل تعظیم
بیوی کو مارنے کا اللہ کی طرف سے اختیار
انسانی حقوق کے پیشِ نظر عورت کی نسبت سے بائبلی نقطہ نظر اسلام کے عقیدوں سے اختلاف رکھتا ہے۔ نیا عہد نامہ میں اِس طرح بیان ہے کہ :۔
‘‘اے شوہرو اپنی بیویو سے محبت رکھو۔ جیسے مسیح نے بھی کلیسیاء سے محبت کرککککے اپنے آپکو اسکے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔’’ ‘‘اسی طرح شوہروں کو لازم ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آ سے محبت رکھتا ہے۔’’ ‘‘بہرحال تم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیوی سے اپنی مانند محبت رکھے اور بیوی اِس بات کا خیال رکھے کہ اپنے شوہر سے ڈرتی رہے۔’’(افسیوں ۶ : ۲۵، ۲۸ ، ۳۳ )بائبل مقدس شوہرو کو تنبیہ کرتی ہے کہ اپنی بیویوں سے ‘‘کرختی’ یا ‘‘کڑواہٹ’’ نہ دکھائیں (کلسیوں ۳ : ۱۹)
قرآن بائبل کے اِس فرمان کے متضاد بیان دیتا ہے کہ ‘‘ مرد عورتوں پر دسترس رکھیں کیونکہ اللہ نے مرد کو عورت پر سبقت دی ہے۔ اگر بیوی بغاوت کرے تو انکی نحمت کے لیے اُنکے بستر الگ کردو اور انہیں تازیانہ کوڑے سے مارو۔(قرآن ۴ : ۳۴ ) اور کوڑے کے ہتھیار کے لیے کھونٹی یا چھڑی بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ محمد کے رشتہ داروں میں ایک شخص بنام الزبیر ابن العوام کی چار بیویاں تھیں اُن کو وہ چھڑی سے حسبِ معمول مارتا تھا کہ چھڑی ٹوٹ جاتی تھیں۔ اس شخص کو محمد نے بہت زیادہ عزت بخشی اور کہا تم جنت کے دس عظیم لوگوں میں سے ایک ہو۔ عُمر نے اُسکو خلیفہ بنا دیا۔ (۱)
جب سے محمد نے بیویوں کو مارنے کی گنجائش دی اور قرآن میں مسلمانوں کو اس بات کی پیروی کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔
کُچھ مسلمان مرد تو تازیانہ کوڑا اور مارنے کی ضرورت کو اتنا محسوس نہیں کرتے مگر کُچھ اور راستے اختیار کرتے ہیں۔ قرآن ایوب کی کہانی جو بائبل مقدس میں، بیوی کو مارنے کی نسبت سے مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ قرآن ۳۸ : ۴۴ بیان کرتا ہے کہ ‘‘اور’’ (یہ اسکو کہا گیا تھا )اپنے ہاتھ میں چھڑی لے کر اس کے ساتھ سخت ضرب لگاؤ اور اپنی قسم کو نہ توڑو ‘‘ جیسا قرآن میں کہا گیا ہے ۔ یہ ایوب کی مصیبت کے وقت سے ہے اُس نے اپنی بیوی کو چھڑی سے مار کر قابو میں کیا تھا جب اُس نے اُس پر تہمت لگائی تھی۔’’
اودھم مچانے والے محمد نے ذاتی تفسیروں کو قرآن میں توریت کے ساتھ مِلا دیا مسلمان سمجھتے تھے کہ محمد کے پاس خاص مکاشفہ اور الہی اختیار ہے کہ وہ مقدس صحائف کو تبدیل کر سکتا ہے اور اُسکے اصل مفہوم اور معنی کو تبدیل کر دیا اور الزام یہودیوں پر لگاتے ہیں کہ انہوں نے توریت کو تبدیل کر دیا۔
حقیقت میں محمد وہ شخص تھا جس نے دست اندازی کرکے اصل الہی کلام کو تبدیل کر دیا۔ عجیبوغریب عالم ومفکر بائبل مقدس کے نسخہ جات کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں کہ اُسکی تحقیر کر سکیں۔ جِس طرح مسلمان کرتے ہیں۔
‘‘ بحیرہ مُردار کے طوماروں کے ملنے بعد ظاہر ہو’’ کیا کہیہودیوں نے آج تک بائبل کی فہرست کو بھی تبدیل نہیں کیا اور اُسکی حفاظت کی ہے۔
کُھلی اور صاف سچائی یہ ہے کہ محمد کوئی علِم الہی کا ماہر نہیں تھا بلکہ ایک ان پڑھ شخص تھا۔ وہ جھوٹے نبیوں کو پسند کرتا تھا تاکہ اپنی پسند کی تعلیم کو بیچ میں ڈال کر اپنے اندھے پیروکاروں کو ورغلا سکے۔ اور جھوٹ کی خُوب بڑائی ہو۔
‘‘عورتوں کی مزید گراوٹ اور پستی’’
جیسا قرآن میں مرقوم ہے کہ اللہ عورت کو صرف زمین خیال کرتا ہے: ‘‘تمہاری عورتیں ہیں وہ ہل چلانے کی جگہ ہے اور تم جس طرح تمہاری مرضی ہے اپنی زمین میں ہل چلاؤ۔’’(قرآن ۲: ۲۲۳) حدیث میں محمد کے بے شمار بیانات عورتوں کے بارے ہیں۔ ایک حدیث اسطرح کہتی ہے کہ ‘‘اللہ کے رسول نے کہا کہ بدی کی فال یا شگون تین چیزوں میں ہو سکتی ہے۔ عورت میں ، گھوڑے میں یا ایک جانور میں ’’۔(۲)
محمد کی پسندیدہ بیویوں میں سے ایک ‘‘عائشہ’’ نے اُس کو اُسکی حقیر رائے عورتوں کو بارے لاجواب کر دیا۔ عائشہ بیان کرتی ہے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جو نماز کو منسوخ کر دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نماز کتے سے، گدھے سے اور ایک عورت کے نمازی کے سامنے سے گزر جانے سے ٹوٹ جائے گی۔’’ میں نے کہا تم نے ہمیں ‘‘کتے’’ بنا دیا ۔(۳)
آگے چل کر ہم محمد کی حقیر رائے عورتوں کے بارے احادیث میں جانیں گے بے شمار موقعوں پر نبی نے عورت کو جانوروں کے برابر قرار دیا۔مثلاً کتا ، گائے، گدھا وغیرہ۔ مزید یہ کہ محمد کے چاند دیوتا اللہ نے پہلے ہی ظاہر کیا ہوا ہے کہ وہ بھروسہ کے لائق نہیں بلکہ اُسکی بساط مرد سے آدھی تصور کی جائے گی۔ سورہ ۲: ۲۸۲ بیان کرتی ہے کہ :‘‘گواہی کے لیے تم دو آدمیوں کو بلاؤ اگر دو آدمی موقعہ پر نہ مِل سکیں تب ایک آدمی گواہی دے انس دو عورتیں گواہی دیں ۔۔۔۔۔’’ابو سعید الخدری بیان کرتا ہے کہ محمد کے خیالات مندرجہ بالا سورہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
محمد نے کہا کہ کیا عورت کی گواہی مرد کی نسبت آدھی مانی جائے؟ عورت نے کہا ! ہاں محمد نے کہا یہ عورت کی قلت کی وجہ سے ہے۔(۴)
ایک اور حدیث اس بیان کو اور واضح طور پر بیان کرتی ہے۔‘‘ اور تم اپنے درمیان سے اپنے دو آمیوں کو بلاؤاگر دو آدمی دستیاب نہ ہوں تب ایک آدمی اور دو عورتیں گواہی کے لیے بلانا۔ اس طرح ان دو عورتوں میں سے ایک غلطی کرے تو دوسری عورت اُس کو دُرست کرے۔(۵) جب محمد نے یہ خبر سُنی کہ فارص کے لوگوں نے خسرو کی بیٹی کو اپنی ملکہ بنا لیا ہے اُس نے کہا وہ قوم جسکی ملکہ عورت ہو وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی۔(۶)
یہ کُند ذہنی اور گھٹیا خیالات عورت کی قیادت کے بارے میں بائبل مقدس کی پرانی تاریخ سے مخالفت رکھتے ہیں، نہ تو دنیا نے اور نہ ہی بائبل نے کبھی بھی عورت کی قیادت کو ممنوع نہیں کیا۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اسرائیل کی ابتدائی تارخ میں دبورہ نام عورت ایک قاضی اور نبیہ کی حیثیت سے مقرر کی گئی۔ اس کے بعد وہ اسرائیل کی چیف کمانڈر بن گئی اور وہ کنعانیوں پر غالب آئی۔ (قضاۃ ۴ : ۱ ۔ ۷) بہت سی عورتوں نے طاقور کامیابی کا مظاہرہ کیا اور اپنے آپکو پوری تاریخ میں منوایا ہے۔
‘‘ ہیٹ شٹ سپ’’تھٹموس اول کی بیٹی اور ٹھٹموس دوم کی بیوی نے اکیس سال تک مِصر کی سلطنت پر حکومت کی۔‘‘ عہد عتیق کی دنیا کےلوگ’’نامی کتاب کے ایڈیٹروں نے اُسکے بیان سے باہر حکومت کا بیان کیا ہے۔
مِصر نے دو عشروں کو اِس بیوہ ملکہ کی حکومت کے دوران خوشحالی اور امن کے ساتھ مزے سے زندگی بسر کی۔ اُس نے ‘‘کارنک’’ میں ‘‘تھیبن’’ کے علاقہ میں ہیکل سمیت دو مینار جنکی اُونچائی ۹۷ فٹ ہے سخت پتھر کے ایک ہی ٹکٹہ سے بنائے۔(۷)
اگر محمد سچا نبی ہوتا تو کیوں اِس طرح کی جھوٹی افواہ اُڑاتا کہ عورت کی قیادت ناقص ہے؟۔
برطانیہ کی قدیم تاریخ سے ایک اور زبردست عورت کی قیادت کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ایک نامور مللکہ بہت مشہور ہو گئی کہ اُسکی تصویر برطانیہ کے سِکوں پر کندہ کی گئی جو آج تک بھی ہے۔ ملکہ بودکیہ کو برطانوی زبان میں وکٹوریہ کہا جانے لگا۔ جو پراسٹگس بادشاہ کی بیوی تھی۔ اپنے خاوند کی وفات کے بعد ظالم رومی حاکم دسیانس برطانیہ کو اچانک ہتھیا لیا۔اُس نے برطانیہ جگہوں کو تباہ وبرباد کیا، عمارتوں کو تہس نہس کیا اور اُنکے شہروں کو لوٹا اور ملکہ بودیکیہ کی بیٹیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسکو کوڑے لگوائے۔ طیش میں آئی ملکہ نے ۱،۲۰،۰۰۰ گُمراہوں کو رومیوں کے خلاف سِلسلہ وار جلوس اکٹھے کئے اور فتح پر فتح پائی۔ اسکے بعد اُس نے بہت طاقتور چارگروہوں کو جو جنگ جُو تھے اکٹھا کیا جو برطانیہ میں سے اڑھائی لاکھ سے زائد تھے ۔ملکہ کی قیادت میں ابتدائی جنگوں میں برطانوی لوگوں نے ۸۰،۰۰۰ ہزار رومیوں کو قتل کیا اور بعداز ۴۰،۰۰۰ کو لندن میں مارا۔(۸) محمد کا عورت کے بارے اظہار کرنا بہت تنگ نظر اور ہنسی آمیز ہے۔‘‘دبورہ’’ ہٹ شپ سٹ’’ اور ‘‘بودیکیہ’’صرف چند مثالیں ہیں جو محمد کے خیالات کو تاریخ کی روشنی میں غلط ثابت کرتی ہیں۔
‘‘دوزخ میں زیادہ تعداد میں عورتیں ’’
محمد کی عورتوں کے بارے گھٹیا رائے انکی عدالت اور منزل کے بارے بھی اتنی ہی گھٹیا ہے۔ حدیث بیان کرتی ہے۔
نبی نے کہا: ‘‘میں نے جنت کو دیکھا اور میں نے اپنا ہاتھ پھل توڑنے کے لیے ہاتھ پھلائے اور اسکو لیا تم اُسکو تک کھا سکتے ہو جب تک دنیا قائم ہے اور میں نے جہنم کو بھی دیکھا اور میں نے آج تک ایسا خطرناک اور خوفناک نظارہ نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ جہنم میں زیادہ تر عورتیں تھیں ۔ لوگوں نے پوچھا! اے اللہ کے رسول ! یہ کیونکر ہو گا۔ نبی نے کہا وہ اپنے خاوندوں اور ساتھیوں کے ساتھ غیر تابعدار تھیں اور انہوں نے اچے اعمال نہیں کیے۔ اگر تم کِسی (عورت) کے ساتھ خیرخواہ ہو اور پوری زندگی رہو اور وہ تم میں کوئی چیزیں دیکھتی تب وہ کہتی ہے کہ میں نے تم میں کوئی اچھی چیزنہیں دیکھی۔(۹)
محمد کی ذاتی زندگی عورتوں سے رنگی ہوئی تھی مگر پھر بھی وہ عورتوں کے خلاف تھا۔ اور اس نے انکی ابدیت کے بارے بھی نبوت کی ایک دوسری حدیث میں مزید کہا گیا ہے کہ ۔ایک دفعہ اللہ کے رسول نماز کی جگہ پر گیا اور اُس نے عیدالضحیٰ یا عید الفطر کی نماز ادا کی ۔ تب وہ ایک عورت کے پاس سے گزرا اور کہا ۔ اے عورت سخاوت کر !کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ دوزخ میں زیادہ تر سکونت کرنے والی عورتیں ہی ہوں گی۔ انہوں نے پاچھا ایسا کیونکر ہو گا۔ اے اللہ کے رسول؟ اس نے کہا کہ تم اکثر اوقات اپنے خاوندوں کی تابعداری نہیں کرتی۔
میں تم سے گھٹیا اور قلیل کو مذہب میں کہیں نہیں دیکھا۔ خبردار رہنا کیونکہ ایک سمجھدار آدمی بھی تمہاری غلامی میں آسکتا ہے۔ عورت نے کہا !
اے اللہ کے رسول ! کیا ہمارے مذہب میں ہم بہت گھٹیا اور کم تر ہیں اس نے کہا کہ یہ کمزوری یا گھٹیا پن تمہاری ضرورت ہے۔
یہ درست نہیں کہ عورت اپنے حیض کے دنوں میں نماز پڑھ سکتی اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورت نے تصدیقی طور پر جواب دیا کہ یہ گھٹیا پن تمہارے ہی مذہب میں ہے۔ (۱۰)
محمد کا اعتقاد عورت کے جسم کے قدرتی عمل پر ہے جسکا اقرار اُسکے ایمان پر ہوتا ہے۔ اسکا اپنا ذاتی رویہ اُسکی اپنی بیویو اور عورتوں کے لیے سخت ہے، عام طور پر مسلمان رد کی گئی عورتوں کا معیار جانوروں کے برابر ہے۔(جس مٹی پر ہل چلایا گیا) محمد اپنے الفاظوں میں کہتا ہے، اُس نے نبوت کی کہ دوزخ کے عذاب میں خاص طور پر عورتوں کا بڑا حصہ ہے، اور اُس سے مائیں بھی نہیں بچ سکتیں۔
کیا کوئی بھی عقل مند عورت ایسے نبی کی پیروکار ہو گی جس نے عورتوں کے بارے میں اِس طرح کے خیالات دیے۔ اگر آپ کے لیے دوزخ مقرر ہے تو ایسے مذہب کا کیا فائدہ ہو گا۔ کوئی بھی عورت اپنے آپ کو ذہنی اور جسمانی طور پر دلیل ہونے کے لیے اور اپنے نصیب کی تحقیر کے لیے کیسے دے سکتی ہے۔ ایک دفعہ جو بھی اسلامی کارکن نظام میں پھنس جاتی ہے تو وہ عورت ایک نشانی کے طور پر ظاہر کرتی ہے۔ جس طرح ماہرِ نفسیات سٹاک بالم سینڑ روم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک روایت بیان کی جاتی ہے کیسے یرغمالی اُنکے قید کرنے والوں کی جانب ہمدردی کی توقع کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کا دفاع کرنا۔اُن میں سے بہت سارے جو سُلجھانے کے لیے دام میں گرفتار کئے ہیں اور وہ زبان مذہب کے طور پر خلافِ عقل کے احساس سے مِلا کر پیش کرتے ہیں۔اُن میں ایسے نبی اور گرو کہلاتے ہیں۔
جنت کی حوریں
جس طرح محمد مقدس جنگ میں یا مالِ غنیمت کی لوٹ مار میں مصروف تھا اُسے جننیات کا خیال رکھتے ہوئے وعدے کے ساتھ نفسیاتی جنت کی اُن لوگوں کے لیے فریاد کی جو جنگ میں مر گئے تھے یا اُن کے لیے جو مستحکم طور پر اُنکے نبی کی عقیدت میں کھڑے تھے۔ اُس جنت میں حوروں کی عجمی (فارسی) داستان شامل ہے۔قرآن مجید چار دفعہ بیان کیا گیا ہے۔(القرآن ۵۲: ۲۰ ، ۵۶ : ۲۲، ۵۵، ۷۲، ۴۴ : ۵۴ ) لغوی مطلب یہ ہے کہ آنکھوں کے ساتھ کالے اور گورے فرق دیکھنا ہے۔ ( الحریان )۔ (۱۱)وہ دوسری قرآنی سورتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ ہو گا اور ہم اُن میں کِسی ایک خوبصورت حور (صنفِ نازک ) کے ساتھ محبت بھری نظروں کُھلے طور پر نکاح کریں گے ۔اور وہ پاکدامن ہونگی اور اُنھیں کِسی بھی مرد نے پہلے کبھی چھوا نہیں ہو گا یہ حوریں نگہبانی کے طور پر پیولن (بڑے خیمہ ) میں رہیں گئیں اور اُس میں سبز کُوشن (گدے) اور خوبصورت قالین بچھے ہونگے۔ (قرآن ۴۴ : ۵۴، ۵۵ : ۵۶۔۷۶)
منطقی طور پر، زیادہ تر عورتیں دوزخ کے لیے مقرر ہیں، محمد نے عورتوں کی جنت کے لیے ایک رستہ نکالا اُن کے مردوں کو رفع کرکے، اگرچہ اُس نے آسمانی حوروں کی عجمی روایات (داستان) کا اُدھار لیا۔ (ممکن طور پر اس لفظ کا تعلق علم صرف کے متعلق ہے انگریزی میں اسکا مطلب کسبی، لونڈی، یا فاحشہ ہے) اس کے بعد یہ حوریں خاص طور پر مسلمان مردوں کے لیے ہمیشہ کی جنسی تسکین کے لیے پیدا کی گئی ہیں ۔حدیث پیولن (بڑے خیمے) کے بارے میں وہاں پر حوروں کی موجودگی کا بیان کرتی ہے،
اللہ کے رسول نے فرمایا: جنت میں واحد موتی کے سوراخ کے لیے یہ بڑا خیمہ بنایا گیا ہے، یہ ساٹھ میل چوڑا ہے، اس کے ہر کونے میں جہاں پر بیویاں موجود ہیں وہ دوسرے کونوں کو نہیں دیکھیں گئیں۔ اور مومن اُن میں سیر کریں گے اور اُن سے لطف اندوز ہونگے۔(۱۲)
جبکہ کُچھ احادیث میں کوئی معیاد مقرر نہیں ہے، اور دوسری جگہوں میں بیویوں (حوروں) کی تعداد دو ہیں۔(۱۳)
احادیث میں حوروں کے متعلق وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ہر ایک بہت خوبصورت ہو گی، خالص اور صاف و شفاف اُن کی ہڈیوں کا گودا اُنکی ٹانگوں سے گوشت میں صاف نظر آئے گا وہ کبھی بھی بیمار نہیں ہونگی۔ اُن کی ناک سے کبھی بھی ناک، اور اُن کے منہ سے کبھی بھی بھوک نہیں نہیں بہے گا اور اُنکے پیسنے سے کستوری کی خوشبو آئے گی۔ (۱۴)
دوسری روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ اُنہیں کبھی بھی نیند اور نہ کبھی وہ حاملہ ہونگی۔ مسلمان مولوی ، مفکر اور جہاد لڑنے والے زندگی کے آخر میں اس قسم کی جنسی تسکین کو پورا کرنے کی سوچوں کے وہم میں مبتلا ہیں۔ اُن میں سے مِصر کا ایک مشہور مولوی عبدالحمید کِشک ، اپنی تھیالوجی نوجوانوں کے متعلق بڑی تفصیل سے بیان کرتا ہے قرآن مجید میں بیان ہے ، کہ مسلمان وہ جو جنت میں جائیں گے وہ ابدی عمارت سے لظف اندوز ہونگے اور نوجوان لڑکے کانوں میں بالیاں اور گلے میں ہار اور خوبصورت کپڑوں میں ملبوس ہونگے۔(۱۵)ایک بہت ہی مشہور عزت مآب مذہبی سکول، اِل اظہر یونیورسٹی خفیف سی اختلاف ِ رائے دیتی ہے ۔ وہ برقرار ہیں کہ جنت میں لوگ عمارتوں میں ہونگے، لیکن صرف اِس لیے کہ وہ طویل ہیں لیکن وہ دائمی نہیں ہیں۔ دوسرے ماہرین جنت میں اس بنیادی ستون سے ممکن طور پر جھگڑا کرتے ہیں۔ (۱۶)
مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ الکوحل کی عمارت، حرامکاری زناکاری، اور ہم جنسی، اس زمین پر حرام ہیں۔ لیکن جب وہ ایک دفعہ جنت میں جائینگے۔ تب اُن کو اس قسم کی عادات، اور ہستی کی اجازت ہو گی۔محمد کی تعلیمات اور اُسکے چاند دیوتا، اللہ یہودیوں کی توریت سے مکمل طور پر مخالفت کرتے ہیں۔ اور نئے عہدنامے میں مسیحیوں کی پاکیزگی کے قوانین کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر محمد کی وحی کی ابتداء خُداوند یہواہ کی بجائے کِسی دوسرے ذرائع سے ہے۔ بائبل میں جنت کا تصور مسلمانوں کی جنت کے تصور سے مختلف بیان کیا جاتا ہے، اسلامی تقلید پسن، توریت، زبور، انجیل کو آسمانی کتابوں کے طور پر قبول کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔مناسب طور پر جبکہ قرآن مختلف ہے، یہ کہ بائبل اس پر سبقت لے گئی ۔
یسوع نے مذہبی راہنما کے طور پر فرمایا کیونکہ قیامت میں بیاہ شادی نہ ہو گی بلکہ لوگ آسمان پر فرشتوں کی مانند ہونگے (متی ۲۲ : ۳۰ ) یہ آیت بہت واضح دلائل دیتی ہے کہ جی اُٹھنے کے بعد اُنکے جلالی بدن ہونگے اُن میں کوئی بھی جنسی جزبات نہیں ہونگے اور یہ ظاہری کرنی ہے کہ وہاں پر کوئی حوروں کے ساتھ جنسی تعلقات کی وجہ نہیں ہو گی یا نہ ہی نوجوان جسم سے فرحت پائیں گے۔ ایک دفعہ پھر محمد یسوع کی تعلیمات کی تردید کرتا ہے اور اپنے ذاتی تصورات کو مقدس توریت اور نئےعہد نامہ کے خیمہ کے خلاف متبادل قرار دیتا ہے۔ وہ فطرتی اور جسمانی ذہن رکھنے والا آدمی ہے، محمد کا راستہ اپنی تعلیمات کی صداقت کی اپیل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور باقی وہ بہت زشیادہ مشکوک اور بے ترتیب نظر آتا ہے۔ محمد کی اپنی ذاتی عبادت کے مطابق کہ زمین پر عورتیں جسم میں مائیں بھی اور بہنیں بھی شامل ہیں اُن کے پاس جہنم سے بچنے کے لیے حقیقی طور پر کوئی بھی موقع نہیں ہے۔محمد کے ہٹ دھرم تصور کے شمار میں عورتوں کا بیان اور جونوروں اور دُھول کے برابر ہے؛ وہ اعلان کرتا ہے کہ اُس کے پاس ملاح کی کمی ہے اور عورتوں کی ذاتی طور پر عزت، اور نسوانی طبعیت عام ہے۔
ذاتی طور پر عزت ، اور نسوانی طبعیت عام ہے۔
مسلمان عورت کے لیے یہ انتخاب کرنے کا موقع ہے کہ وہ یسوع کی پیروی کرے یا اللہ کے محمد کی یہ ظاہری تقرری بالکل واضح دکھائی دیتی ہے، کیا یہ ایک عاقل عورت کے لیے اُن کے مقدر میں دوزخ کے عذاب کا انتخاب یقینی ہو گا؟ مسلمان عورت اپنی نجات کے لیے یسوع مسیح کی طرف رُجوع کر سکتی ہے۔ بائبل مقدس اعلان کرتی ہے کہ ‘‘کیونکہ جو کوئی خُداوند کا نام لے گا وہ نجات پائے گا۔’’ (رومیوں ۱۳ : ۱۰)تاہم ایک عورت کے لیے اس اسلامی مسئلے کو تبدیل کرنا ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔ اور اُن دھمکیوں کی وجہ سے جو اُس کو جلد ہی ملنے والی ہیں ، اُسے تشدد، عبادت کو مسخ کرنا اپنے خاندان سے جلاوطنی کو برداشت کرنا پڑے گا اور اکثر یہی واقعات ہوتے ہیں۔ یہ مسیحی معاشرے کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ ایسی عورتوں کے لیے ذرائع مہیا کرے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق یسوع مسیح کی پیرووی کریں اور اپنی زندگیوں کو بغیر کِسی خوف کے گزاریں۔
محمد عصمت فروشی کو جائز قرار دیتا ہے
محمد نے اپنے مرد مومنین کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی پسند کی عورتوں سے عارضی طور پر جنسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
پردے کے پیچھے ایک گمنام مصنف اسلام میں ایسے جنسی تعلقات کے اقرار نامے کے طریقے کو بے نقاب کرتا ہے:
محمد کے فرمان کے مطابق اس کے لیے کُچھ پیسے دیے جاتے ہیں یا کپڑے جس طرح محمد نے اپنے مومنین سے کہا، تب وہ اُس عورت کو ناپاک کر سکتا ہے ، اور بغیر کوئی حق ادا کیے ہوئے اُسے چھوڑ سکتا ہے۔ تو حرامکاری اور بد کاری کے درمیان کیا فرق ہے؟
کیا محمد اس عارضی شادی کو لطف اندوز ہونے کا نام دے کر اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔؟ (۱۷)
یقیناً اسی وقت کے دوران، محمد نے اپنے پیروکاروں کے لیے عصمت فوشی کو قانونی قرار دیا۔ ایک اور حدیث میں لکھا ہے: عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ جنگ میں اللہ کی رُسول کی قیادت میں شامل تھے۔ ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں تھیں ۔ اس لیے ہم نے کہا کہ : کیا ہمیں نامرد بننا ہو گا؟ انہوں نے ہمیں ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔ تب انہوں نے ہمیں اس بات کی اجازت دے دی تاکہ ہم عورتوں کے ساتھ عارضی نکاح کریں اور اُن سے زبانی کلامی اقرار کریں: تم جو ایمان رکھتے ہو ! ان اچھی چیزوں کو ناجائز مت بناؤ۔ جو اللہ نے آپ کے لیے جائز ٹھہرائیں ہیں لیکن حد سے مت گزرو۔ ( ۵ : ۸۷ )۔ (۱۸)
بہت ساری دوسری روایات بھی ہیں۔ جس میں محمد نے عصمت فروشی کو جائز قرار دیا ۔ عام طور پر چاند دیوتا ، یعنی اللہ فرضی طور پر محمد کے اس فیصلے پر اُسکے ساتھ ہے۔ عام طور پر یہ اس طرح کے نکاح (اقرار نامے ) تین دن ختم ہونے کے بعد با مختصر طور پر اُن کے بعد یہ عارضی شادیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں (ٹوٹ جاتی ہیں) کسی بھی رسمی طلاق کے قاعدے کے بغیر ۔(۱۹)
باب گیارہ
اسلام میں شادی
محمد کی بیویاں ، رشتہ دار عورتیں ، اورلونڈیاں ،غلام
اُسکی دورانِ زندگی میں محمد نے کئی بیویوں سے شادیاں کیں ۔مختلف مفکرین نے اُسکی بیویوں کے شمار کا اندازہ لگایا ۔ غالباً چودوہ یا سولہ دفعہ اُس نے شادی کی اور مزید اُسکے کہ اُس کی بہت ساری رشتہدار عورتیں ، لونڈیاں، غلام لڑکیا بھی شامل تھیں ۔
یہ اہم نکتہ ہے کہ محمد اللہ کی ساری شریعت میں سرفراز ہوا۔ قرآن مجید میں بیویوں کی تعداد مقرر ہے زیادہ سے زیادہ ایک آدمی چار بیویاں کر سکتا ہے؛
عورتوں کی شادیاں ، جو آپ کو اچھی لگتی ہیں ۔ وہ دو یا تین یا چار ہوں، اور اگر خوفزدہ ہیں اور آپ لوگ ان سب کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش نہیں آسکتے تو تب صرف ایک کریں ، یا پھر (لونڈی) تو آپ صحیح طور پر حقدار ہیں۔ (قرآن ۴ : ۳)
محمد کی موت کے وقت ، اُسکی نو بیویاں تھیں اور دو لونڈیاں تھیں۔(۱) مسلمان اس بات سے معذرت خواہ ہیں کہ اُس نئ یہ کہہ کر قانون کو (شریعت) کو توڑا ہے اور وہ بڑی سادگی سے عرب کے قبیلوں میں اپنے آپ کو شامل کرنے کی رہا تھا، انہوں نے اس کو اجازت دی کہ وہ اللہ کی شریعت کو بڑھائے۔ محمد کی شہوت پرستی اُس پر غالب آگئی اور قرآن مجید کے لیے نا معقول طور پر یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ نبی ہو۔
اُس وقت محمد کی بہت ساری بیویوں کی بجائے ایک ہی ہوتی۔ اُس نے باطل کی معیاد کو توڑ دیا تھا۔ بائبل اس بات کا اعلان کرتی ہے ‘‘لیکن حرامکاری کے اندیشہ سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے۔’’ (کرنتھیوں ۷ : ۲ )
بائبل اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ ایک آدمی صرف ایک بیوی رکھے جس طرح وہ پیدائش کی آرزو کرتا ہے۔
مقدس توریت میں کہ خُداوند یہواہ نے لوگوں کو اجازت دی ، کہ اُنکے باغی پن اور گناہ آلودہ فطرت کی وجہ سے اُنکے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ ایک بیوی رکھیں۔ اس اِس سے اسکی مراد یہ نہیں تھی کہ کائنات کا مرد یا عورت بہت ساری بیویاں یا شوہر رکھیں۔ یہ ایک مرد کے لیے معمولی بات ہے کہ وہ بہت ساری بیویوں کی بجائے ایک ہی بیوی رکھے۔ اگرچہ بہت زیادہ امیر ہونے کی بدولت وہ عورتیں جو بہت زیادہ شادیوں کی بجائے جن کا شوہر زندہ ہو ایک ہی وقت میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہیں یہ آدم کے شہنشاہ دومننیس کے دورِ حکومت کے دوران یہ رواج تھا ۔ نیا عہد نامہ شادی کے اِس منصوبے کو واضح اور صحیح طور پر بناتا ہے۔ دنیا کی پیدائش کے وقت ، آدم اور حوا ایک جسم تھے۔ نئے عہد نامے میں مرد اور عورتوں کو شادیاں کرنے سے منع کیا گیا ہے، نہ ہی مرد اور نہ ہی عورت کو یہ اجازت ہے کہ اُنکی زندہ بیوی یا شوہر ہو تو وہ دوسری شادی کرے۔ یسوع نے بار بار ایک ہی بیوی رکھنے کا بارے میں کہا ہے۔ اگرچہ اسکی خواہش آدم اور حوا کی پیدائش ہی کے وقت سے تھی۔
کیا آپ نے نہیں پڑھا؟ کہ وہ جو ابتداء سے مرد اورعورت پیدا کیے گئے تھے ۔ اس وجہ سے یہ کیا گیا کہ مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ رہےئ گا ۔ اور وہ ایک بدن ہونگے۔ پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں ۔ اِس لیے جِسے خُدا نے جوڑا اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔(متی ۱۹ : ۴ ۔ ۶ )
یہواہ نے ابتداء سے ایک وقت میں ہر مرد کے لیے ایک بیوی بنائی ہے ۔یہواہ نے آدم اور حوا کو پہلا شادی کا ادارہ بنایا اور اُسکی معاشرے کی بناوٹ یہ نہیں تھی کہ مرد اور عورت بہت ساری شادیاں کرکے ایک خاندان میں اکٹھے رہیں۔ پرانے عہد نامہ مردوں کی بہت ساری مثالیں دیتا ہے جہنوں نے شادی کے واضح منصوبے کو بگاڑا ہے جیسے ابراہام ، داؤد ، سلیمان بیویوں کے درمیان حسد کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جو اکثر ان مرد اور عورتوں کی بہت زیادہ شادیاں اُن خاندانوں میں ناراضگی کا سبب بنی ہیں۔ ایک مرد اور ایک عورت ایک ہی بار شادی کرتے ہیں اور وہ یہواہ کی شریعت سے جوڑے ہوئے ہیں ۔ نئے عہد نامے کے عقائد کے مطابق اُسکے علاوہ ہر چیز گناہ ہے۔
ہر آدمی جس میں ابراہام بھی شامل ہے جو اس مسئلے سے تجاوز کر چکا ہے کہ یہ ایک ہدایات ہے کہ کائنات کے لیے ضروری ہے کہ پاک خُدا کی مرضی کے لحاظ سے سب نکاح کریں ۔(شادی)
یہواہ پاک کا یہ حکم نامہ ہے اس لحاظ سے اُسکی مرضی بھی ہے اِس لیے بنی نوع انسان نے ہمیشہ سے اُسکی پیروی نہیں کی ۔ ‘‘اسکی جائز مرضی ہے کہ بنی نوع انسان کوخود رائے کی اجازت دی جائے ۔ اور نافرمانی کی وجہ سے ہر ایک دِل کے لیے کائنات کی پیدائش سے ہی قانون لکھے گئے ہیں اور اُسے دوسرے حکم جو اُسے زبانی موسیٰ کے ذریعے دیے اکثر اُنہیں توڑ دیا گیا ۔ اسکے ساتھ تورح کی ۶۱۴ عبارتوں کو بگاڑ دیا گیا جو موسیٰ نے اسرائیل کو دی تھیں۔ یہواہ نے انسان کو آزاد مرضی کی قابلیت دی ہے کہ وہ تابعداری یا غیر تابعداری اپنی مرضی سے کرے ۔ کِسی بھی صدارت میں بلکہ حکم نامہ یا خُود رائے کا اجازت نامہ یہواہ نے اپنے ذاتی اقدار سے بنی نوع انسان کو اُن کی آزاد مرضی سے کام کرنے کی اجازت دی ہے اُسکے ساتھ نافرمانی کی سزا بھی رکھی ہے، اگرچہ بنی نوع انسان کی فطرت گناہ آلودہ اور صحبت اور شادی ناپاک ہے۔
ایک دوسری مثال ہو سکتا ہے کہ یہ سلیمان کی زندگی سے کُچھ اکٹھا کرے وہ اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ اُسکی یہ بہت ساری شادیاں اُسکا ایک خالص چھچھوراپن تھا؛ دوسرے لفظوں میں یہ گناہ تھا کیونکہ یہ خالص خاندانی منصوبے کے معاملے میں ایک شادی کے ادارے مخالفت تھی، اسی طرح محمد نے بھی لگاتار اس ادارے کو خراب کیا کیونکہ اُسکی بہت ساری شادیاں تھیں اور دوسری عوروتں کے ساتھ تعلقات تھے، اکثر اوقات اُسکی بیویاں اُسکے خلاف سازش کرتی تھیں۔
اُسکی لگاتار ناراضگی کی وجہ یہی تھی ، قلعے کی دیوار پر چڑھنے کے برابر نتیجہ نکلا کہ اُس کی بیویوں کے درمیان سخت جھگڑا ہوا۔ تاہم ابتدائی طور پر یہ اِسکے رشتوں میں کمزوری کا نتیجہ تھا اور جو اُن کو اُسکی اپنی گناہ آلودہ رغبت کی وجہ غصہ دلاتا تھا۔ شیطانیت کا قبضہ اور اپنا حُخم چلانا، قرآنِ مجید اور احادیث میں خلاصہ پیدا کرتا ہے۔
اسلام میں عورتوں سے بد سلوکی
جب ایک عورت کِسی مسلمان سے شادی کرتی ہے ہو سکتا ہے اسلامی مُلک اپنے مقام کے بارے میں پوچھتی ہو ۔ اسلامی دستور کے حوالے سے دوبارہ شادی کرنا، ایک عورت کو اپنے سارے جسم کو مونڈنا پڑتا ہے سوائے اس کے بولوں کے ، ہو سکتا ہے کہ اُسے اپنے سِلائیٹروس کو منڈھوانے کے لیے پوچھنا پڑے یہ اسلامی ثقافت کے دستور کے مطابق جوا تھا لڑکیوں کو اس سنت کو پورا کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اس کی رپورٹ ریڈرز ڈجسٹ پیش کی گئی ہے کہ وہ افریقہ میں ایک نوجوان ماڈل تھی اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے سِلائیٹروس کو کاٹے اسلامی شریعت کے مطابق ایک نوجوان لڑکے ہونے کے ناطے اسے پرانے زنگ آلودے اُسترے کے ساتھ یہ کرنا پڑا۔ اس افسردہ رواج کے پیچھے کیا وجہ ہے ، سادہ طور پر یہ کہ مردوں کو اپنی اسلامی بیویوں کے اوپر پورا کنٹرول ہے۔(اُنکی جائیداد ) اِس لیے وہ کِسی دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی ہوشیاری نہیں کرتی۔ مرد کا کنٹرول یہ ایک وطن پرستانہ موضوع ہے۔ حالنکہ مذہب میں ایسا کُچھ نہیں ہے، لیکن مزید برآں یہ کہ اُن پر حکومت کرتا ہے۔
اگر ایک عورت جو دوسری ثقافت کی ہے مسلمان سے شادی کرے اور وہ اسلامی مُلک میں اپنے مقام کو قائم رکھنے سے رضا مند ہوئی ہہے اُس کے لیے اُس مرد کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے جس وقت مرد اُسے رد کرتا ہے یا طلاق دیتا ہے۔ وہ اُس کے ساتھ اُس کی خُوشی میں اُس مرد کی جاگیر بن جاتی ہے۔ اگر بچے ہو جاتے ہیں تو بیویوں کو حکومت کی طرف سے قانون کی طور پر شہریت مِل جاتی ہے۔ بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی عورت یا اُس کے شوہر کے بچے، شوہر اُس پر حکم چلاتا ہے اور وہ واجب الوجود شکستہی دِل کے تحت سارے خاندان کو کنٹرول کرتا ہے، ثقافت کے مطابق ایک مرد کا اپنی بیوی سے رویہ ڈرامائی طور پر شادی کے بعد بہت ساری صورتوں میں تبدیلیاں لاتا ہے اسلام کے حقیقی اصول کے مطابق وہ شادی سے پہلے کی باتوں کو ترک کر دیتا ہے،اور بُری طرح سے عورت کو حیراساں کرتا ہے ۔ اسلام میں عورتوں سے اس طرح کی بدسلوکی کی مزید خبر گیری تاریخ میں ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان اُن عورتوں کو قید میں کریں گے یا مار دیں گے وہ جو دوبارہ شادی کرکے جنسی تعلقات بناتی ہیں۔ اگر کِسی عورت کی عزت لوٹ لی جاتی ہے تو مسلمان عام طور پر مرد کو مجرم ٹھہرانے کی بجائے عورت پر الزام لگاتے ہیں۔ بہت سارے ملکوں میں جو اسلامی شریعت کے تحت ہیں ۔ ایک عورت جس کی عزت لوٹ لی جاتی ہے اُسکو اکثر قید کر دیا جاتا ہے۔ ۱۹۹۹ء کی سی این این رپورٹ کے مطابق تین یا چار عورتوں کو قید کر دیا گیا۔ اِس لیے کہ وہ عصمت دری کا شکار تھیں۔ اِس لیے وہ اسلامی قانون کے تحت وہ دو گنا تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں اس لحاظ سے عورتیں دوسرے درجے کی انسان ہیں وہ جانوروں کے پاؤں کی دُھول کے ، اور حتیٰ کے اپنی جاگیر کے برابر ہیں ۔ عورتوں کے انسانی حقوق، دبائے اور نظر انداز کیے جا سکتے ہیں؛ اس قسم کے عمل اور ایک بڑی لعنت ہے اور مرد جو اپنے آپ کو بڑا وطن پرستار سمجھتا ہے بڑی نا انصافی کرتا ہے ۔
اگر عورت کی اسلامی مُلک میں عزت لوٹ لی جائے اور یہ کِسی ایک پر اتفاقاً ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی خاندان کا مرد نمائندہ اُس جوان لڑکی کو تلاش کرے گا جسکی عزت لاٹی گئی ہو اور اُسے قتل کرنے کا حکم دے گا۔ وہ اُس حکم کو اپنے خاندان کی عزت کی بحالی سمجھتا ہے اور اسلامی معاشرے کے اندر اُن کے نام کی عزت ہو۔ لوگ اکثر مرد کے اس قتل کو پیرو کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
متحدہ ریاستوں میں بہت سارے عزت پر قتل کے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ اُس وقت جب اس کتاب کی پہلی اشاعت ہوئی اس وجہ سے مسلمان آبادی میں اضافہ ہوا۔ زبردستی سے مسلمانوں نے اُن ملکوں میں اضافہ کیا ۔ شادی سے پہلے عورتیں کِسی بھی جنسی فعل میں پکڑی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ وہ اگر زبردستی کا بھی شکار ہوئی ہوں قید کر دی جاتی ہیں۔ عورتیں نزدیکی طور پر ہمیشہ ہی مرتکب ہوئی ہیں۔ جبکہ مرد نہیں۔ اسلامی معاشرے میں مرد کو عزت دی جاتی ہے۔
اُس وقت تک عورتیں اپنی کم عزت پر ندامت محسوس کرتی رہے گی جب تک اُنکی تعلیمات قرآن اور محمد کی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ عورتوں کے لیے اُس طرح کے بے رحمی کے قانون یہ دنیا کے معاشرے میں کُھلم کُھلا الزام ہے اور یہ اس بات کو وحشیانہ رویے کے طور پر ظاہر کرنا ہے۔
طنزیہ طور پر یہ ایک گمراہ کر دینے والی عقل ہے، مسلمان عزت کے طور پر قتل کرنا اور قید میں ڈالنے کو اپنے آپ کو انصاف کا دعویدار بناتے ہیں، تعجبسے ، عورتوں پر آرٹیکل لکھے گے۔ وہ جو اسلام پر ایمان رکھتیں ہیں ۔ وہ جو اس قسم کے عمل کی تعریف کتیں ہیں۔ تاہم بہت ساری عورتیں جو نفسیاتی طور پر لطف اندوز ہوتیں ہیں ، یا برداشت کرتی ہیں۔ لعنت اور قہقے میں ہونے کے باوجود بھی اُنکی اپنے گھر میں ہی تعلیم و ترتیب کی جاتی ہے ۔ زندگی گزارنے کے اس طریقے کی صورت میں اُن کے ذہنوں کو صاف کر دیا جاتا ہے۔
جس طرح تُرکی کی حکومت اور اُن کے ثقافت اسلامی قبضے میں ہے، عورتیں دوبارہ ظلم کی رغبت بنی ہونی ہیں ایک آرٹیکل میں ‘‘ ترکی میں عورتوں کے قتل کی تعداد ’’ سکائی رائٹس ، اور ڈائیورین جانز کی رپورٹ،
حال ہی ترکیمیں ایک خبروں کی رپورٹ نے استنبول کی گلیوں میں عورتوں کے قتل پر مرکزی نگاہ کی ہے، چار بچوں کی ماں دن دہاڑے کشادہ گلی میں بندوق سے مارا گیا ۔ اگرچہ اُسکا شوہر گرفتار ہو گیا تھا۔
خبروں کی رپورٹ کی شہہ سُرخی یہ تھی کہ ‘‘ایک عورت کا ایک اور فعل ’’ کیونکہ ایسے ماجرے سرِ عام روانہ ہو رہے تھے، تُرکی کی انصاف کرنے والی منسٹری کے تحت کہ ان سات سالوں میں عورتوں کے قتل کا شمار چھلانگ لگا کر ۱۴۰۰ فیصد ہو چکا ہے۔ ۲۰۰۲ ء میں ۶۶ عورتوں کا قتل ہوا ۔
۲۰۰۹ ء کے پہلے سات مہنوں میں ۹۵۳ ء پر ان کی تعدادقائم رہی۔
اخبار کا پہلا صححفے کو اِس سُری نے چونکا دیا۔ یک دوسرے خبار نے حکومتِ ترکی کے طور پر بیان کیا ہے، استنبول کی گلیوں میں دِل کو ہلا دینے والے دستبرداری کے واقعات ہوئے ہیں ۔(۲)
چونکا دینے والی زبردستی کی نئی شماریات حال ہی میں ناروے سے چلائی گئی اور دوسرے بد نام کرنے والے ملکوں سے بھی یہی خبر آئی۔
پولیس رپورٹ کی شماریات کے مطابق ۲۰۰۲ سے ۲۰۱۰ سالوں کے درمیان ‘‘سارے’’ ۸۳ اوسلو میں زبردستی جنسی حملوں کے تشدد کیس حل ہوئے ہیں ناروے نے غیر ممغربی مسلمان مہاجروں کو مرتکب کیا گیا تھا۔
۲۰۱۰ اور ۲۰۱۱ کے درمیان اوسلو میں زبردستی حملوں کی تعداد دوگنی ہو گی ہے ۔ ہوٹلوں میں ایسے واقعات اُنکے مہمانوں کو خبردار کروا دیتے ہیں اور ایذا رسانی کی چین کی طرح خبردیتے ہیں۔(۳) ناروے کے سرکاری ٹیلی وثن نے ایک زبردستی جنسی تشدد کی شکار کا انٹر ویو کیا ۔ جس نے بتایا کہ زبردستی جنسی تشدد کرنے والے نے اُس عورت کو کہا کہ اُسکا مذہب اُسے اجازت دیتا ہے کہ وہ اُس عورت سے زبردستی جنسی تشدد کرے۔ اسلام کے مطابق ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی نظروں میں بے قصور ہو۔ جبکہ عورتیں ورغلانے والی تسلیم کی جاتی ہیں۔ اور مرد اُسکو شرمندگی خیال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے نفس پر قابو نہ پانے کی کمی سے جبراً تاوان نہیں دیتے۔ اگر شریعی ثقافت میں ایک عورت زبردستی ہوتی تھی ۔ تو اُس پر الزام بدکار یا زناکار ہونے کا لگایا جاتا ہو گا اور اُس کو مارنے کے لیے یا قتل کرنے کے لیے قید میں ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ کام مشرقی قوموں میں داخل ہو چکا ہے۔
۲۰۱۰ میں عزت کے نام پر یو کے میں ہونے والے ۴۷ ۔۔۔ حصہ سے اوپر ہیں۔ پچھلے سال میں زیادہ تر ۳ ہزار کا شمار کیا گیا ۔ یہ یورپ کے مسلمانوں میں یہ کام بہت بڑھ چُکا ہے ۔
سنجیدہ تصادم لا بدی طور پر وقوع پذیر ہونگے۔ مسیحی اور مسلمان ثقافت کے درمیان یہ تصادم ایک دفعہ پھر گرم ہوتے ہیں۔
طلاق کی شریعت
قرآن نے یہ مسلمان مردوں کے لیے آسانی رکھی ہے وہ اپنی بیویوں کو کِسی بھی وجہ کا انتخاب کرکے طلاق دے سکتے ہیں ۔ قرآن کی ایک سورۃ میں لکھا ہے۔ ‘‘ اور اگر تم ایک بیوی کو دوسرے کے لیے تبدیل کرنا چاہتے ہو اور اگر اُن میں ایک بدلےپیسے دینا چاہتے ہو۔ (تاہم یہ اچھا ہے) تو اُسکے بدلےمیں کُچھ نہ لو۔’’ (قرآن ۴ :۲۰) یہ صرف طلاق کی شرط ہے تو دوسرا ایک کوئی قیمتی تحفہ یا پیسے واپس نہیں لے سکتا ۔ اسلامی شریعت میں ایک عورت کو اپنے شوہر کو طلاق دینا یہ منع ہے۔ حقیقت میں ہو سکتا ہے اُسے طلاق دینے کی اجازت ہو، لیکن سراسر اُسے اس صورت کو تسلیم کرنے کی قوت نہیں ہے۔ البتہ ایک مرد اپنے خاندان کو اکٹھا رکھنے کے لیے آخری دفعہ کہہ دے اور اُسکے پاس تمام موضوع کو اور تمام مسائل کو کنٹرول کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے اسی طرح اگر وہ فٰصلہ کرتا ہے کہ اُسے دوسسری بیوی چاہیے ، ہو سکتا ہے کہ اُس نے معاملہ اپنی بیوی یا بیویوں کے ساتھ بیان کیا ہو ، لیکن جو کُچھ بھی ہو وہ نہیں کہتا ۔ اُس وقت ایک مرد کے پاس بلا شرکت طلاق کے طریقہ عمل کے تمام مسائل کا حق ہوتا ہے ۔مسلمان مرد اکثر اپنی بوڑھی بیویوں کو جوان بیویاں بدلنے کے لیے طلاق کا انتخاب رتے ہیں۔ اس چال کے ذریعے سے وہ اپنی بیویوں کی تعداد کو قائم رکھنے کے لیے جسکی معیاد قرآنِ مجید میں چار ٹھہرائی ہے قابل ہو جاتے ہیں۔ مسلمان مرد کو صرف ‘‘ میں تجھے طلاق دیتا ہوں ’’تین دفعہ کہنے کی ضرورت ہے اور طلاق ہو جاتی ہے مسلمان عورتوں کے پاس اسلامی قانون کے تحت کوئی بھی جابراًسیکورٹی نہیں ہوتی۔ ایک دم سے ہو سکتا ہے ۔ پہلی بیوی اپنے خاندان کی زندگی کو خوبصورتی بنائے ۔ اُسکا شوہر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی فرصت میں یہ فیصلہ کرے اُسکی جگہ ایک جوان بیوی کو تبدیل کرنے کا جو بہت خوبصورت عورت ہو۔ عورتوں کے ساتھ بہت گھٹیا سلوک کیا جاتا ہے۔ جیسے حیوان، وُصول، یا جاگیر اس کے فرق میں کلامِ مقدس مسیحی عورت کی بہت طرفدار ی کرتا ہے۔ یسوع مسیح نے طلاق کو روکنکے کے لیے بہت سخت الفاظ بولے۔ یسوع نے کہا ‘‘انہوں نے اُس سے کہا پھر موسیٰ نے کیوں حکم دیا کہ طلاق نامہ دے کر چھوڑ دی جائے؟ اُس نے اُن سے کہا کہ موسیٰ نے تمہاری سخت دلی کے سبب سے تم کو اپنی بیویوں کو چھوڑ دینے کی اجازتے دی مگر ابتداء سے نہ تھا اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سیوا اور سبب سے چھوڑ دے اوردوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے اور جو کوئی چھوڑی ہوئی بیاہ کرے وہ بھی زنا کرتا ہے ۔ (متی ۱۹ : ۶ ۔ ۹)
محمد کی تعلیمات یسوع کے کلام کو مکمل طور پر رد کرتی ہے۔ شریعت کے تحت ، صرف زندہ رہنے یہودی ایمان میں طلاق کے بارے میں واقعات وقوع ہوتے ہیں اپنے شادی شدہ ساتھی کے زنا کرنے کے لیے سونپا یہ عام ہے ، عبرانیوں مین زنا کاری کی وسعت عام ہے اور عام طور پر جسمانی جنسی تعلقات حد سے گزر چُکے ہیں۔ پرانے معاہدے کی طرح نیا عہد مرد یا عورت کو طلاق اشتعال دیتا ہے۔
اگر میاں اور بیوی موجودہ طور پر زندگی گزارنے میں مشکل ہو تو وہ ایک دوسرے کو طلاق دے سکتے ہیں۔ بعض اوقات اسلام ایسے سے طلاق کے لیے اختلاف کرتا ہے جو اپنی بیوی کو تبدیل کرنے کی خواہش کرتا ہے؛ اکثر یہ کہ وہ اپنی بوڑھی بیوی کی جگہ نوجوان بیوی کو لے آتا ہے۔ اسلامی شریعت کے تحت ، ‘‘لعنت اور بدکاری ہمیشہ طلاق کے لیے اشتعال انگیز رہی ہے۔ مسلمان عورت کے پاس اُسے اپنے دِل اور ذہن کی کوئی سیکورٹی نہیں ۔’’ایک مرد کے لیے لوگوں اس بات کو دہرانا بہت سادہ اور آسان ہے۔‘‘ میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔’’ ‘‘میں تجھے طلاق دیتا ہوں ۔’’ ‘‘میں تجھے طلاق دیتا ہوں ’’۔ ایک دفعہ ان بیانات کو دہرا دیا جائے تو طلاق واجب ہو جاتی ہے ۔ اس فیصلے میں عورت کُچھ نہیں کہہ سکتی۔محمد نے خود اس بات کا بیان کیا ہے کہ ‘‘ ایک عورت ایک مرد کی غلام یا قیدی ہے۔’’(۴)
مزید برآں؛ چاند دیوتا اُسے صُلحٰ کی اس تحریک کے لیے مخالفت کرتا ہے قرآن مجید کے ان فرض کیے گئے الفاظوں کے ذرائع سے قرآن ۲: ۲۳۰ ‘‘ اور اگر اُس نے اُس کو طلاق دے دی ہے۔
(تین دفعہ) تو وہ شریعی طور پر اُسکی بیوی نہیں ہے اُسکے بعد وہ کِسی دوسرے سے شادی کر سکتی ہئ ۔’’ محمد دوسری احادیث میں تفصیل سے بیان کرتا ہے۔اُس نے سیکھا کہ طلاق یافتہ عورت اس بات کا دوسری شادی سے پہلے کا یقین کر لے کہ وہ مرد کے پاس صُلح کے بعد دوبارہ جا سکتی ہے یہ نامکلم تعلیم توریت کی تعلیم سے بہت مختلف ہے۔ کہ ایک دفعہ دوبارہ شادی کے بعد مرد یا عورت اپنے پہلے شوہر یا بیوی کے پاس دوبارہ واپس نہیں جا سکتے ۔محمد اپنی کم علمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک دفعہ پھر وہ اپنے صحیفے کے علم سے اُسکی مطابقت کرتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد کیسے یہودی اور مسیحی صحیفوں کو غلطیوں سے بھرا ہوا کہتا ہے۔ جبکہ وہ اپنے صحیفے کی خُود تصدیق نہیں کر سکتا؟ محمد ایک ان پڑھ شخص تھا وہ دوسروں کے خیالات کو سُن کر اُن پر تکیہ تھا۔ کوئی بھی پڑھا لکھا شخص ایسے آدمی پر کیوں تکیہ کرے گا جو وہ لگاتار توریت کی تردید کر رہا ہے !
یہ بالکل واضح ہے محمد خود کا دعویدار نبی تھا۔ وہ ایک پاگل اور نفسیاتی شخص تھا جو صرف شریعت کے متعلق تھوڑا سا جانتا تھا اور وہ جو اُسکی پیروی کرتے تھے احمق تھے۔ اور یہ ایسی دستکاری کے لیے آسان نشانہ تھا۔
محمد کی جنسی شہوت
محمد اپنی بہو سے شادی کرتا ہے
اسلامی تاریخ کے مطابق ، زید زینب کی کہانی بہت زیادہ مشہور تھی۔ زید محمد کا منہ بولا بیٹا تھا۔محمد کے بیٹوں میں سے اسلام میں پہلا منہ بولا بیٹا تھا۔ جب وہ شادی کے قابل ہو گیا تو محمد نے اُسکی کزن زینب سے اُسکی شادی کر دی ۔ زینب اعلیٰ درجے کی عورت تھی اور زید رہا کردہ غلام تھا۔ زینب نے نوجوان زید کے ساتھ شادی کرنے کی محمد کی اُس تجویز کو رد کر دیا تھا ۔معقول طور پر محمد پر اِس مسئلے کے لیے ایک نئی وحی نازل ہوئی اور یہ کہ زینب ایماندار خاتون بن گئی تھی جب اللہ اور اُسے پیغمبر نے اس تعلقات کا فیصلہ کیا۔(اُن کے لیے) کہ اُنہیں دعویٰ کرنا چاہیے ۔ کوئی بھی اُنکے تعلقات کے بارے میں کُچھ کہے تو وہ اللہ سے اور اُس کے پیغمبر سے باغی ہے دراصل وہ اس غلطی کو عیاں کرتا ہے (قرآن ۳۳ : ۳۶) اس نئی وحی کی وجہ سے زینب کو زید کے ساتھ زبردستی کرنی پڑی ۔ اِس کے بعد محمد اپنے منہ بولے بیٹے زید کے گھر گیا تو اُس نے اُس واقعہ کو دیکھا کہ زینب اپنے رات کے پہننے والے کپڑوں میں ملبوس اپنے جسم کے جنسی حواس کو صاف کر رہی ہے۔ اور اُس کی خوبصورتی نے اُسکو فریفتہ کر دیا۔ ڈاکٹر ماکھیل اسکو لگا تار شمار کرتا ہے کہ زینب نے اُسے اندر آنے کے لیے کہا تو محمد نے منع کیا اور وہ اُونچی آواز سے یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ ‘‘کہ اللہ کی تعریف ہو جو دِلوں کو تبدیل کرتا ہے۔ جب زید گھر آیا تو زینب نے اُسے محمد کی آمد کا بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اُسے کیا کہا تھا؟ زید محمد کے گھر گیا اور اُس سے پوچھا ‘‘ کیا مجھے زینب کو طلاق دینی ہو گی۔’’؟ ‘‘ کہ وہ آپکی بیوی کے طور پر مقرر ہو۔’’ محمد نے جواب دیا اُسکے بعد زینب نے محمد سے شوہر کے طور پر برتاؤ کیا۔ زید غصے ہوا اور اُس نے اُسکی عزت نہ کی اور اُسے اپنی بیوی کے طور پر اور زیادہ نہ رکھ سکا، اِس لیے اُس نے اُسے طلاق دے دی۔(۵) محمد دونوں طرف سے مشکل میں پڑ گیا تھا۔ اُس کی شہوت پرستی نے زینب کو حرص کا نشانہ بنایا۔ تاہم اُسکی اُس کے ساتھ منگنی ناجائز تھی ۔ اچانک محمد کو اپنے خاندان کی روح ملی وہ جبرائیل اس پیغام کی پیروی کرتا ہے :
اور جب تو اُس سے کہنا وہ جو جسکی اللہ طرفداری کرتا ہے اور تو کِسی جلدی سے کہتا اور اُس عطا کرنے والے کی طرفداری کو بیان کرتا کہ وہ اور اُسکی بیوی اللہ سے ڈرتے رہیں اور تو کہنا کہ جن کا ذہن بند ہے اور جِسکو اللہ روشن کرتا ہے ۔ اور تو کہنا ساری مخلوق اللہ سے ڈرتی ہے اور اللہ ہی سب سے بہتر ہے۔ اور تو کہنا کہ اُسے ڈرنا چاہیے۔ اِس لیے جب زید زینب کو طلاق دینے کے لیے کُچھ ضروری کام سر انجام دے رہا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم نے اِسے آپ سے شادی کے لیے دے دیا ہے۔ اِس سے پہلے یہ کہ ایمانداروں کے لیے اُن کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کی عزت کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔ لیکن بعد میں انہوں نے طلاق دینے کے لیے کُچھ ضروری کام سرانجام دیا اللہ کے حکموں کو پورا کرنا ضروری ہے۔(قرآن ۳۳ : ۳۷)
کِس طرح ممکن ہو سکتا ہے یہ کہ محمد پر بروقت زینب سے نسبت رکھنے اور اُسکے ساتھ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے وحی کا نزول ہو۔ جب اُسکی بیوی عائشہ نے اِس نئی شادی کے متعلق سُنا۔ اُس نے فرمایا ‘‘کہ میں آپ اللہ کو دیکھتی ہوں جو جلدی سے آپکی خواہش کو پورا کرتا ہے۔’’(۶) حتیٰ کہ عائشہ محمد کی نیت پر مشکوک رویے کا اظہار کرتی تھی ۔
محمد نے موسیٰ کی شریعت کے دس حکموں کو توڑ دیا تھا ‘‘ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا’’(خروج ۲۰: ۱۷)
یہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ محمد کی یہ وحی صرف اپنی طرف سے تھی، یا یہ شیطانی روحوں سے راہنمائی لیتا تھا۔
داؤد بادشاہ کا بھی بالکل شہوت پرستی کا ایسا ہی تجربہ تھا جب اُس نے دوسرے آدمی کی بیوی سے شہوت کی ایک دِن جب داؤد اپنے بالاخانہ کھڑا تھا ۔ واقعہ دیکھنے کو یہ مِلا کہ ایک عورت جس کا نام بتسبع تھا ۔ وہ اپنے گھر کی چھت پر نہا رہی تھی؛ اُس نے اپنے ہوائے نفسیس سے اور پر جوش طریقے سے اُسکی آرزو کی اُس نے ممکن طور پر جس طرح باز کو چمڑے کی چڑیا دکھا بُلاتے ہیں جب وہ دور ہوتا ہے اُس نے بھی بتسبع کو اپنے گھر میں اُسی طرح بُلایا اور اُسکے ساتھ بدکاری کی وہ حتی اوریاہ کی بیوی تھی۔ جو اُسکے شاہی سپاسالاروں میں سے ایک تھا داؤد کے شمار کردہ گناہ پر ناتن نبی نے روح القدس کی راہنمائی سے براہ راست اُسکا سامنا کیا اور داؤد نے اپنی غلطی کو مانا اور بڑے دُکھ کے ساتھ اُسکی پیشمانی ظاہر کی۔ (سموئیل ۱۲:۱۳ )
محمد کے رویے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اگر اُسکے گناہوں کے لیے اس پر ملامت کی گئی تھی، یا اگر کِسی کو بھی اُس کی حکمرانی پر شک تھا ۔ محمد نے اُن کو قتل کر دیا ہو گا اور وپ ذرا بھی پیشمان نہ ہوا ہو گا ! محمد وہ آدمی تھا جس نے ہو سکتا ہے کبھی بھی اپنی تحمل مزاجی پر دُرستی نہ ہوئی ہو ۔ جیسے کبھی بھی یہودیوں ، مسیحیوں ، یا مسلمانوں نے تنبیہنہیں کی ۔ اُس نے کسی کو مارنے کے ذریعے سے اپنی بحث کو اپنایا ، جس کِسی نے بھی محمد کو حاکم ہونے کے طور پر اُسکی حکمرانی پر سوال اُٹھایا یہ اُس کی بیوی عائشہ کے لیے بڑی حیران کن بات تھی، اُسکی محمد کے ساتھ بحث پر اُسکو نہیں مارا گیا تھا۔
اگر یہ یہاں پر داؤد کی زندگی کے درمیان بڑا فرق دیکھائی دیتا ہے وہ بعد میں بھی اپنے گناہوں پر کبھی پیشمان نہیں ہوا بلکہ مادہ طور پر وہ اس بات کا دعویٰ کر دیتا تھا ۔ کہ اُس پر اللہ کی طرف سے نئی وحی نازل ہوئی ہے اُس کے اِس وحشیانہ رویے کو معاف کر دیا ہےایک تو یہ حیرانکن بات ہے کہ کیا محمد کی گناہ آلودہ زندگی پر روح حکم چلاتی ہے ۔ یہ اپنے خُود کے ایجاد کردہ الہیٰ مکاشفے کا دعویدار تھا، کیا محمد اپنی فطرت کو اپنی روح کے ذرائع سے ذلیل کر سکتا تھا، وہ جبرائیل کی راہنمائی کا جھوٹا دعویٰ کرتا تھا۔ بائبل کے الہام یہواہ اِسکو واضح کرنا ہے کہ وہ ضرور سزا پائے گا وہ ایسے ظالمانہ رویے کی سرزنش کرتا ہے۔ حتیٰ کہ داؤد اگرچہ اسرائیل کا مسٰح کردہ بادشاہ بھی تھا۔ لیکن پھر بھی خُدا نے اُسکی سرزنش کی ۔ تو محمد نے اپنی درستگی کیوں نہیں کی تھی۔ یا کیوں نہیں اپنی روح کو اس طرح کی راہنمائی کرنے سے ملامت کی تھی ؟ ظاہر ہے کہ محمد کی انگلیوں کے نشان اور اُس کے خاندان کی شیطانی روح، قرآن کے صحیفوں پر اس کی لازوال مہر ہے کیا محمد ایک پیڈو فیلی تھا ۔
سب سے بڑا محمد کی بدکاری کا ثبوت اسکی چھے سال لڑکی کے ساتھ شادی کو ثابت کرتا ہے اُسکا نام عائشہ تھا۔ محمد کی عمر ۵۳ سال کے قریب تھی۔ جب اُسے دُلہن بچی کے ساتھ اپنی منگنی کی بعد میں ۹ سال کی عمت میں عائشہ کو پورے طور پر محمد کی شادی میں دے دیا گیا۔ اس کے شمار میں حدیث بیان کرتی ہے:
عائشہ سے روایت ہے۔۔۔۔ میری ماں اُم رومان میرے پاس اُس وقت آئی جب میں اپنی سہلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی جُھوم رہی تھی اُس نے مجھے پکڑا اور میں اُس کے پاس گئی یہ جانے بغیر کہ وہ مجھ سے کیا چاہتی ہے کہ میں کروں۔ اُس نے ہاتھ سے پکڑا اور مجھے گھر کے دروازے میں کھڑا کر دیا۔ اُس وقت میرا سانس پُھولا ہوا تھا ۔ اور جب میرا سانس بحال ہوا اُس نے تھوڑا سا پانی لیا اور میرے چہرے کو صاف کیا اور میرے سر کو بھی ملا۔ تب وہ مجھے گھر میں لے گئی، غیر متوقع طور پر اللہ کے رُسول دوپہر سے پہلے میرے پاس آئے اور میری ماں نے مجھے اُس کے حوالے کر دیا اور اُس وقت میں ۹ سال کی ایک لڑکی تھی۔(۷)
بلوغت کی عمر سے پہلے ہی، ایک چھوٹے بچے کے ساتھ پیغمبرِ محمد ہم بستری کرتا ہے۔ یہ اُسکی چھوٹی عمر کی زندہ دِل تصویر ہے۔ جو ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے:
میں محمد کی موجودگی میں گڑیا سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہلیاں بھی میرے ساتھ کھیلا کرتیں تھیں۔ جب اللہ کے رُسول میری قیام کی جگہ میں داخل ہوتے یا استعمال کرتے، وہ اپنے آپ کو چھپا لیتی تھیں۔لیکن نبی اُن کو بلاتے تھے کہ وہ میرے ساتھ کھیلیں وہ گڑیا کے ساتھ یا ایسی ہی تصویروں کے ساتھ کھیلنے سے منع کرتا تھا ۔ لیکن عائشہ کو اس سے کھلینے کی اجازت تھی، اُس وقت وہ چھوٹی لڑکی تھی۔ ابھی تک وہ بلوغت کی عمت میں نہیں پہنچی تھی ۔(۸)
آپ تصور کریں کہ پیغمبرِ محمد ۵۳ سال میں ایک معصوم بچی کے ساتھ جنسی ملاپ کر رہا تھا جو ابھی اپنی گڑیا سے کھلیتی تھی محمد نے دوسرے م ذہبی عبادت کے راہنماؤں کو بھی اس صف بندی میں شامل کیا جو اس طرح کے جنسی میلاپ سے جُڑے ہوئے۔جن کی مشقیں بائبل مقدس میں نہیں کی جاتی۔ یہ حیران کُن بات ہے دنیا کے تمام مرد مسلمان محمد کی صدیوں سے عزت اور اطاعت کرتے ہیں، بہت سارے مُلکوں میں بوڑھے مسلمان مرد اکثر قانونی طور پر ابھی بلوغت میں پہنچنے سے پہلے جوان لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں۔ اسلامی شریعت جوان لڑکیوں کو اس طرح سے شادی کرنے کی اجازت دیتی ہیں ۔(۹)جِسکی بنیاد اُن کا اپنا گناہ آلودہ کردار کا نمونہ ہے۔ جسکو یہ مرد نو عمر بچیوں کے ساتھ دُکھ دینے کو چُنتے ہیں اور اُن کو ذہنی طور پر اُنکی زندگی میں خوفزدہ کرتے ہیں۔
انگلینڈ میں مسلمانوں کی آبادی بہت بڑا اس بات سے بے نقاب ہو رہے ہیں۔ کہ طلاق کا قانون اُن لوگوں کے لیے ہے۔ جو اسلامی ایمان کے پیروکار ہیں۔باقی سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا دوسرے قانون آگے چل کر اسلامی انصاف کی اس تعلیم کی صورت کو بدل دیں گے اور اس قسم کے جنسی ملاپ سے احتراز کریں گے؟ کیا پیڈوفلیا بھی مسلمانوں کو اجازت دے گا۔کیا وہ اپنے شریعی قانونصوبوں میں رائج کریں گے کہ مسلمان آبادی کے لیے یہی مطلب ہے؟ کیا سیاست مسلمانوں کے اس وہم کے عوامل کو بند یا دُرست کرے گی، کہ وہ اپنی عام شریعی وراثت کے ماتحت ہوں گے؟ محمد کی بچی سے شادی کو اسلامی طور پر قبول کرنا، اسکی اپنی مرضی سے متفق ہونے کی بنیاد عرب کے قبیلے بدوؤں میں پائے جاتی ہے۔ اس طرح کے دائرے کی شکل دونوں طرف سے مشکل پیدا کرتی ہے۔ اس وقت عرب کے بہت سے قبیلوں کے راہنماؤں کی جوان بیٹیاں اور بہنیں تھیں ، تو محمد نے اُن میں ایک کے ساتھ شادی کیوں نہیں کی تھی؟ جو بالکل واضح ثبوت دیتا ہے۔
محمد کی اُن سے آزاد زبردستی جنسی خواہش اُسے شریک کرتی ہے پیڈوفیلیا میں زیادہ تر نفس پروری بدل جائے۔
حقیقی طور پر کِسی بھی موجودہ عدالت کا قانون، محمد کی غلطی کو پیڈوفیلی کے طور پر بیان کرے گا، محمد کا عورتوں کی مذمت کے متعلق محمد کا بیان رد نہیں کیا جا سکتا ۔
جبکہ بائبل مقدس نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے ہیں۔ لیکن قرآن اس بات کو رد کرتا ہے، اُن کے رُتبے کو جانوروں، یا زمین کی وصول کے برابر درجہ دیتا ہے۔ محمد کا سماج کے مخالف رویہ عورتوں کے حق کے متعلق انصاف سے محرومی کا ایک نمونہ ہے اور خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے متعلق۔ اُسکا بیان عورتوں کو مارنے کی معافی کا ثبوت ہے، اُسکو نفسی ایذارسائی کی درجہ بندی کرنی چاہیے۔ یہ صرف عورتوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بلکہ اُن کے لیے بھی جو اُسکی غلط تعلیمات میں پھنسے ہوئے ہیں۔
محمد ایک بدکار اور ظالم آدمی تھا۔ اُس نے تلوار کے ذریعے سے تھوڑے سے انسانی حقوق کی خاطر جبراً مذہب کو پھیلایا تھا ۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے۔
مخفف سی
قرآن کے لیے ازروئےمتن مواد
محمد کی موت ( ۶۳۲ ء )
کوئی بھی مکمل قرآن محمد کی موت کے ۱۵۰ سال تک نہ تھا ۔ ( دیکھیئے نیچے ٹاپ کاپی
اُبوبکر ( پہلا خلیفہ )
اُس نے زیدبنطابت کو قرآن کی سورتیں کھجور کے پتوں کے حصوں ، سفید پتھروں ، چمڑے ٹکڑوں ، چھوٹے بورڈوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر جو کُچھ لِکھا ہوا ہے اُن کے ذریعے، جو کُچھ کندھے کی ہڈیوں پر لکھا ہے اُن کے ذریعے ، پسلیوں کی ہڈیوں کے ذریعے اور مختلف دوسرے وسائل سے اکٹھا کرنے کے لیے کہا۔
عثمان ( ۶۵۰ ء )
اُس نے چار دوبارہ سے آراستہ کرنے والے لوگوں کو حکم دیا کہ اِس کی تجدید کریں ، ترمیم کریں اور قرآن کے متن کو اصلی قریش کے متن الخط میں لکھیں پھر اُس نے اِس متن کو پورے عرب میں تقسیم کر دیا اور جتنے بھی پہلے متن موجود تھے اُن کو برباد کر دیا۔
ٹاپ کاپی اور سمر قند کے نسخہ جات
مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ نسخہ جات عثمان کے ابتدائی نسخے ہیں۔ یہ بات نا ممکن نظر آتی ہے ۔ کیونکہ اِن کا متن کوفی رسم الخط میں لِکھا گیا ہے جو کہ عثمان کی موت کے ۱۰۰ سال بعد تک استعمال نہیں ہوتا تھا۔ کوئی بھی مکمل قرآن کا متن محمد کی موت کے ۱۵۰ سو سال بعد تک موجود نہیں تھا ۔ تمام تر نسخہ جات شہادتوں کے ساتھ اور قرآن کے ترجمے کی تاریخ کے ساتھ کوئی بھی مُسلمان یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کونسی سورۃ کو محمد نے خود بیان کیا ہے۔
مختلف متن عثمان نے بین کر دیئے( برباد کر دئیے یا چھپا دیئے۔
ابتدائی تعلیمات
۔ ۔ ابن مسعود ( جس کی محمد بُہت زیادہ تعریف کرتا تھا کہ یہ سب سے زیادہ اچھا قرآن پڑھتا ہے )
۔ ۔ ابن کعب ( اِس کی بھی نبی بُہت زیادہ تعریف کرتا تھا کہ یہ بھی بُہت اچھا پڑھتا ہے )
۔ ۔ حفصہ ( نبی کی بیوی : اِس کے متن کو مروان نے اُس کی موت کے بعد برباد کر دیا)
۔ ۔ عائشہ ( نبی کی ایک دوسری بیوی )
۔ ۔ علی
۔ ۔ ابن عباس
۔ ۔ ابو موسیٰ
۔ ۔ انس بی ملک
۔ ۔ عمر
۔ ۔ زید بی طابت
۔ ۔ ابن از ۔ زبیر
۔ ۔ابن امر
۔ ۔ سالم
۔ ۔ اُمہ سلمیٰ
۔ ۔ عبید عمر
ثانوی تعلیمات
۔ ۔ الہ اسود
۔ ۔ انکمہ
۔ ۔ حیتن
۔ ۔ سید بی خیبر
۔ ۔ طلحہ
۔ ۔ مجاہد
۔ ۔ عطا بی ابی رابعہ
۔ ۔الر بی بی خطائم
المیش
۔ ۔ جعفر از سعاد
۔ ۔ الحارث بی سعود
۔ ۔ بُہت ساری بے نام تعلیمات
باب ششم
(۱) مائیکل ورنر دی وے آف دی شامین ( این ۔ وائے ۔ ، ہارپر اینڈ روپبلشرز ، ۱۹۸۰ء ) ، ۲۵ ۔
(۲) تخفیف ۔ ، ۵۴ ۔
(۳) مریسیا الائیڈ ، شامانیزم: آرکیک ٹیکنیکسآف آکیسٹیسی ، ٹرانس ۔ بیلاڈآر۔ٹراسک (این ۔ پی۔ ، پرنسٹن یونیورسٹی پریس ، ۱۹۶۴ء ) ۔ ۵۶ ۔
(۴) ایف جے گیلن اینڈ بالا دی وِن سپنسر ، نیٹیف ٹرائبس آف سنٹرل آسٹریلیاء ، لندن ، این ۔ پی ۔ ، ۱۸۹۹ء ) ۔۴۸۴ ؛ کورٹِڈاِن مریشیاء الائیڈ شامانیزم ، ۵۷۔
(۵) اِیچ۔لنگ روتھ ، دی نیٹیف آف ساراوِک اینڈ برٹش نارتھ بورنیو بیسڈ چیفلی آن دی ماس ۔ آف دی لیٹ ہیوج بروک لاء ، والیم ۔ ۱ (لندن : این ۔ پی ۔ : این ۔ ڈی۔) کورڈیڈاِن الائیڈ ، شامانیزم ، ۵۷۔
(۶)نُڈرسُموسن، انٹیلیکچول کلچر آف دی اِیگلولِک ایسکیموس، ٹرانس ولیم وارسڈ (کوپن ہیگن : این ۔ پی ۔ ، ۱۹۳۰ء) ۱۱۲ ۔ ۱۳ : کورڈیڈاِن الائیڈ ، شامانیزم ،۵۷۔
(۷) الائیڈ ، شامانیزم ، ۶۰ ۔ (۸) رابرٹ پین ، ہسٹری آف اسلام ( این ۔ وائے ۔ : ڈور سیٹ پریس ، ۱۹۹۰ء) ، ۱۰۔۱۱ ۔
(۹) الطبری ، ہسٹری ، والیم ۶ : ۷۵ ۔
(۱۰) تخفیف
(۱۱) البخاری ، حدیث والیم۔۴، نمبر۔ ۳۲۰۷ : ۱۸۵؛ والیم ۔ ۹ ، نمبر ۲۳۷ ۔ ۷۵۱۷ ، والیم ۔ ۲ ، نمبر ۶۳ ۔ ۲۶۲ : ۱۶۳۶ ؛ والیم ۱ ، نمبر ۔ ۳۴۹ : ۱۳۰
(۱۲) الطبری ، تاریخ ، والیم ۔ ۶ : ۷۸
(۱۳) ہارنر ، وے آف دی شامان ، ۵۵
(۱۴) الائیڈ ، شامانیزم ، ۵۸ ۔ ۵۹
(۱۵) ولیم تُھل بِٹزر ‘‘ لی میجی شین اسوسمیکس ، لرز کونسیپشن دیو مونڈی ، دی ، لامے، ایت
دی لاوئیے، ‘‘ جے ایس اے ، ۲۲ (۱۹۳۰) : ۷۸ : دی ہدُن پریٹس آف گرین لینڈ ( اینگاکُٹ ) ’’۔ ورہنڈلیجن دئیس ۳۶ انٹرنیشنل امریکنیصٹنکونگیس ، پی ٹی ۲ (۱۹۰۸ء) : ۴۵۴؛ کوٹڑ اِن الائیڈ ، شامانیزم ، ۵۸ ۔ ۹ (۱۶) تھل بٹزر ، ‘‘ دی ہتھن پریسٹیس ، ۴۵۴ ؛ کوٹڈ اِن الائیڈ، شامانیزم ، ۵۹
(۱۷) ہارنر ، وے آف دی شامان ، ۵۱
(۱۸) الائیڈ ، شامانیزم ، ۵۱
(۱۹) تخفیف۔، ۱۰۱
(۲۰) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۱ نمبر ۳ : ۵
(۲۱) تخفیف
(۲۲) الطبری ، ہسٹری ، والیم ۔ ۶ : ۶۹
(۲۳) تخفیف
(۲۴) تخفیف ۔ ، ۷۲
(۲۵) میتھیو سٹرلنگ ، ‘‘ جیو اور شامانیزم، ’’ پروسیڈنگز آف دی امریکن فِلور سوفیکل سوسائٹی ، ۵۷ (۱۹۳۳ء) : ۱۳۷ ۔ ۴۵ ؛ کوٹڈ اِن الائیڈ ، شامانیزم ، ۸۴
(۲۶) ڈاکٹر لابل مِکھیل ، اسلام محمد اور قرآن : دستاویزی تجزیات (این ۔ بی : این ۔ پی ، ۱۹۹۶ء) ، ۱۴ (۲۷) البخاری ، حدیث ، والیم ۳ ، نمبر ۔ ۲۶۶۱ : ۳۳۶۔
(۲۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۱ ، نمبر ۲ ، ۳ : ۴ ۔ ۵
(۲۹) کے ایف کرجالائنین، ڈائی رلیجن ڈر جوگرہ ولکر ، والیم ۔ ۳ ، (این ۔ پی ، این ، پی ۔ ، ۱۹۲۱ ۔ ۲۷ ) ، ۲۴۸؛ کوٹڈ اِن الائیڈ ، شامانیزم ، ۱۵
(۳۰) جان آر ۔ سوانٹن ، سوشل کنڈیشن ، بی لیف ، اینڈ لِنگوسِٹک ریلشن شِپ آف دی لِنجٹ
انڈین ، ‘‘ آر بی ای ڈبلیو، ۲۶ ( ۱۹۰۸ء) : ۴۶۶ ؛ کوٹڈ اِن الائیڈ، شامانیزم ، ۵۵
(۳۱) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ، ۵۷۴ : ۲۳۲
(۳۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ ، نمبر ۵۷۴۱ ۔ ۲۳۱، ۵۷۳۷ : ۲۲۹ ۔۳۰ والیم ۳ ، نمبر ۲۲۷۶ : ۱۷۵ ، والیم ۶ ، نمبر ۵۰۰۷ : ۲۸۶
(۳۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۵۷۴۰ : ۲۳۰ ، ۵۹۴۴ : ۲۸۶
(۳۴) تخفیف ۔ ، ۵۷۳۸ : ۲۳۰
(۳۵) تخفیف ۔ ، ۵۷۳۹ : ۲۳۰
(۳۶) تخفیف ۔ ، ۵۷۵۳ : ۲۳۴ ، ۵۷۷۲ : ۲۴۰ ،
(۳۷) ٹرانس محمد ماماڈیوک پکتھل ، شاندار قرآن کے معانی ، (این وائی اور ٹرانٹو : نیو امریکن لائبریری ، این ڈی۔ ) ۴۵۵
(۳۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۔ ۵۷۳۵ : ۲۲۸ ۔ ۲۹ ، ۵۷۴۸ : ۲۳۲ ، ۵۷۵۱ : ۲۳۳ ؛ والیم ۶ ، نمبر ۵۰۱۶ ۔ ۰۷ : ۲۸۹ والیم ۔ ۵ ، نمبر ۴۴۳۹ : ۳۰۰ ۔
(۳۹) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۵۷۴۷ : ۲۳۲ ، والیم ۔ ۴ ، ۳۲۹۲ : ۲۱۰ ، والیم ۔ ۹ ، نمبر ۶۹۹۵ : ۵۵ ، ۷۰۰۵ : ۵۸ ۔ ۵۹ ، ۷۰۴۴ : ۷۱
(۴۰) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۵۷۲۱ : ۲۲۵
(۴۱) تخفیف ۔ ، ۵۴۴۵ : ۱۴۰ ۔ ۴ ، ۵۷۶۹ : ۲۴۰ ، ۵۷۷۹ : ۲۴۲
(۴۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۵۷۶۳ : ۲۳۷ ، ۳۹ ۔ ۲۳۸ ۔ ۵۷۶۵ ؛ والیم ۔ ۸ ، نمبر ۔ ۶۰۶۳ : ۲۹ ، ۶۳۹۱ : ۱۳۷؛ والیم ۴ ، نمبر ۳۲۶۸ : ۲۰۴
(۴۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۵۷۶۷ : ۲۳۹
(۴۴) البخاری ، حدیث ، والیم ۲ ، نمبر ۱۲۴۵ ۔ ۶۳ : ۱۲۷ ۔ ۳۰
(۴۵) البخاری حدیث ، والیم ۔ ۱ ، نمبر ۱۶۲ : ۷۲
(۴۶) البخاری ، حدیث ، وال؛والیم ۔ ۲ ، نمبر ۱۲۴۵ ۔ ۶۳ : ۱۲۷ ۔ ۳۰
(۴۷) تخفیف ۔ ، ۹۵۳ : ۲۹
(۴۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۱ ، نمبر ۴۲۶ : ۱۵۵ ، ۱۶۸ : ۷۴ ؛ والیم ۷ نمبر ۔ ۵۸۵۴ : ۲۶۵ ، ۵۸۶۶ : ۲۶۶
(۴۹) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ ، نمبر ۵۸۹ : ۱۹۴ ؛ والیم ۳ ، نمبر ۲۳۵۲ : ۲۱۱
(۵۰) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ ، نمبر ۔ ۵۳۷۶ : ۱۲۰
(۵۱) تخفیف ، ۵۶۳۰ : ۱۹۷ ۔
(۵۲) پکتھل ، قرآن ، ۱۷۹
(۵۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ ، نمبر ۔ ۵۶۸۶ : ۲۱۶ ، ۵۷۲۷ : ۲۲۶ ؛ والیم ۔ ۴ ، نمبر ۳۰۱۸
(۵۴) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۳ ، نمبر ۔ ۲۱۰۳ : ۱۱۸ ، والیم ۔ ۱ ، نمبر ۲۸۳ : ۱۰۶
(۵۵) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۵۷۱۶ : ۲۲۳ ۔ ۲۴
(۵۶) تخفیف ، ۵۷۱۸ : ۲۲۴
(۵۷) البخاری ، حدیث ، والیم ، ۱ ، نمبر ۱۳۰ : ۶۲
(۵۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۵ ، نمبر ۳۹۳۸ : ۱۱۰ (۵۹) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۸ ، نمبر ۶۲۲۳ : ۸۱ ، ۶۲۲۶ : ۸۲ ؛ والیم ۔ ۴ ، نمبر ۔ ۳۲۸۹ : ۲۰۹
(۶۰) البخاری ، حدیث ، والیم ۴ ، نمبر ۳۵۷۹ : ۳۱۹
(۶۱) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۳ ، نمبر ۲۰۹۵ : ۱۱۵ ؛ والیم ۔ ۴ ، نمبر ۳۵۸۳ ۔ ۸۵ ، ۳۲۱ ۔ ۲۲
باب ہفتم
(۱) آرتھر جیفری ، قرآن کے متن کی تاریخ کے لیے مواد : پرانی شریعت (لیڈن : ای ۔ جے ۔ بُرل ، ۱۹۳۷) ، ۵
(۲) تخفیف ۔ ، ۶
(۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۹ ، نمبر ۷۱۹۱ : ۱۱۹ ۔ ۲۰
(۴) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۶ ، نمبر ۔ ۴۹۸۶ : ۲۷۹ ۔ ۸۰
(۵) نیومین ، مسجد ، اسلام اور قرآن ( ہٹ فیلڈ ، پی اے انٹرڈسپلزی بائبلی ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، ۱۹۹۶ء) ، ۶ ۔
(۶) تخفیف ۔ ، ۳۱۲
(۷) جیفری ، میٹریل ، ۷ ۔ ۸
(۸) جیفری گِلر کرائسٹ ، جامعتہ القرآن : کوڈی فیکشین آف دی قرآن ٹیکسٹ ،
(فروری ۲۰۱۲ کو شائع ہوئی۔) [http://www.answering-islam.org/Gilchrist/Jam/index.html]
(۹) تخفیف
(۱۰) تخفیف
(۱۱) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۶ ، نمبر ۴۹۸۷ : ۲۸۰
(۱۲) جیفری ، میٹریلز ، ۸
(۱۳) تخفیف
(۱۴) گلکرائسٹ ، جامع القرآن ، باب ۲ : ۲
(۱۵) تخفیف ، باب ۳ : ۲
(۱۶) جیفری ، میٹریلز ، ۲۱۳
(۱۷) تخفیف
(۱۸) تخفیف ، ۱۰
(۱۹) گِلکرائسٹ ، جامع القرآن ، باب ۲ : ۷
(۲۰) تخفیف ، باب ۷ :
(۲۱) تخفیف
(۲۲) تخفیف ۔ ، باب ۷ : ۵
(۲۳) تخفیف ۔ ، باب ۷ : ۵
(۲۴) تخفیف
(۲۵) عبداللہ عبدالفادی ، کیا قرآن بے خطا ہے ؟ (ویلاج ، آسٹریا : لائٹ آف لائف ، این ڈی ) ۳۲۳ ۔ ۳۳
(۲۶) تخفیف ۔ ، ۳۳۳
(۲۷) میکھیل ، اسلام محمد اور قرآن ، ۸
(۲۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۱ ، نمبر ۳ : ۵ ۔۶
باب ہشتم
(۱) البخاری ، حدیث والیم ۳ ، نمبر ۲۰۰۴ : ۸۱ ؛ والیم ۵ ، نمبر ۳۹۴۳ : ۱۱۲ ؛ والیم ۔ ۴ ، نمبر ۳۳۹۷ : ۲۵۶ ۔
(۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۳ ، نمبر ۔ ۲۰۰۵ : ۸۱
(۳) ریورنڈ ۔ ڈبلیو ۔ سینٹ کلیرٹِس ڈال ، دی اورجنل سورسز آف دی قرآن ( لنڈن : سوسائٹی فار پروموٹنگ کرسچن نالج ، ۱۹۱۱ ء) ، ۶۰
(۴)البخاری ، حدیث ، والیم ۳ نمبر ۱۸۹۳ : ۴۶ ، ۲۰۰۰ ۔ ۳ : ۸۱ ؛ والیم ۔ ۵ ، نمبر ۔ ۳۸۳۱ : ۶۵
(۵) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۲ ، نمر ۹۷۱ : ۳۵
(۶) تخفیف ۔ ، ۹۵۵ ۔ ۳۰ ، ۹۶۵ : ۳۲ ، ۹۶۸ : ۳۳ ، ۹۷۶ : ۳۶ ، ۹۸۳ ۔۵ : ۳۹
(۷) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۸ ، نمبر ۶۷۰۸ : ۲۳۵
(۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۵ ، نمبر ۴۱۵۷ ۔ ۸ : ۱۹۷ ؛ والیم : ۵ نمبر ۔ ۴۲۵۵۲ : ۲۲۶ ۔
باب نہم
(۱) مِلرڈ جے ، ارِ کسن، کرسچن تھیالوجی ( گرینڈ ریپڈز : بیکر بُک ہاوس کو ۔ ۔ ، ۱۹۸۸ ء) ، ۹۱۱
(۲) راجر ای اولسن ، ارمینیا کی الہیات : روایات اور حقائق (ڈاونرز گرو ، آئی ایل : انٹر ورسٹی پریس ، ۲۰۰۶ ) ، ۱۷ ۔ ۱۸
(۳) تخفیف ۔ ، ۱۳
(۴) تخفیف ۔ ، ۱۴
(۵) تخفیف
(۶) تخفیف ، ۱۹
(۷) فریڈ ایچ کلوسٹر ، کیلونز ڈاکرین آف پری ڈیسٹینیشن (گرینڈ ریپڈز : بیکر بُک ہاوس کو ۔ ، ۱۹۷۷ ء) ، ۲۵
(۸) جیکب آرمینیس ، ‘‘ ایگزیمینشن آف ڈاکٹر پرکنزپمفلٹ اون پری ڈیسٹینیشن ورکس ، ۳ : ۲۸۱
(۹) جان وسیلے ، سرمن ون ۔ ہنڈرڈ ٹونٹی ایٹ : فری گریس ، وسیلے سنٹر اون لائن ، ۱۸۷۲ ایڈ : ،
.; [http://Wesley.nnu.edu/John-Wesley/the-sermons-of-john-wesley-1872-
( اکتوبر ۲۰۱۱ ء کو شائع ہوئی ) edition/sermons-128-free-grace/]
(۱۰) جیکب آرمینیس ، پبلک ڈِسپوٹیشن ، ’’ ورکس ، ۲ : ۱۹۲
(۱۱) اولُسن ، آرمینین تھیالوجی ، ۳۵
(۱۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۴ ، نمبر ۔ ۳۲۰۸ : ۱۸۷ ۔
(۱۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۹ ، نمبر ۷۵۱۵ : ۲۳۶
(۱۴) تخفیف ۔ ، ۷۵۵۱ : ۲۵۳
(۱۵) البخاری ، حدیث ، والیم ۱ ، نمبر ۲۱۶ : ۸۷ (۱۶) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۹ ، نمبر ۷۴۳۷ : ۲۰۴ ۔ ۶
(۱۷) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۸ ، نمبر ۔ ۶۵۲۸ ۔ ۳۰ ؛ والیم ۔ ۹ نمبر ۷۴۳۹ : ۲۰۷ ۔ ۹
(۱۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۸ ۔ نمبر ۔ ۶۵۶۱ ۔ ۴ : ۱۸۸
باب دھم
(۱) این ۔ اے ۔ ، پردے کے پیچھے ، ( این ۔ پی ۔ : این ۔ پی ۔ ، این ۔ ذی ) ، ۷۹
(۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ ، نمبر ۔ ۵۷۵۳ : ۲۳۴
(۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۱ ، نمبر ۔ ۵۱۱ : ۱۷۹ ۔
(۴) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۳ ، نمبر ۔ ۲۶۵۸ : ۳۳۱ ۔
(۵) تخفیف ۔ ۔ ۲۶۶۷ : ۳۴۰ ۔
(۶) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۹ ، نمبر ۷۰۹۹ : ۸۹ ؛ والیم ۔ ۵ ، نمبر ۔ ۴۴۲۵ : ۲۹۶
(۷) ایلفریڈ جے ہارتھ ، جیرالڈ ایل میٹنیگلی ، اینڈ ایڈون ایم ہماچی ، ایڈز ۔ ، پیپلز آف دی اولڈ ٹیسٹامنٹ ورلڈ ( گرانڈ ریپرڈ : بیکر بُک ہاؤس کو ؛ ۱۹۹۴ء) ، ۲۷۳
(۸) جارج ایف جو وِٹ ، دی ڈرامہ آف دی لاس ڈیسائپلز ( لندن : کواننٹ پبلشنگ کو ۔ ، ۱۹۷۰ء) ، ۱۵۱ ۔ ۱۵۴
(۹) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۲ ، نمبر ۔ ۱۰۵۲ : ۶۴ ؛ والیم ۔ ۷ ، نمبر ۵۱۹۷ ۔ ۹۸ : ۵۱۔۲ ۔
(۱۰) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۱ ، نمبر ۳۰۴ : ۱۱۱ ۔ ۱۲ ؛ والیم ۲ ، نمبر ۔ ۱۴۶۲ : ۲۰۲ ۔
(۱۱) جین آئڈل مین سِمتھ اینڈ وُونے یزبیک ہداد ، اسلامی موت اور جی اُٹھنے کا تصور ( البانی : سٹیٹ یونیورسٹی آف دی نیویارک پریس ، ۱۹۸۱ء) ، ۱۶۴ ۔ ۱۲
(۱۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۶ ، نمبر ۴۸۷۹ : ۲۱۸ ؛ والیم ۴ ، نمبر ۔ ۳۲۴۳ : ۱۹۷
(۱۳) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۴ ، نمبر ۳۲۴۵ ۔ ۴۶ : ۱۹۷ ۔ ۱۹۸ ۔
(۱۴) تخفیف ۔ ، ۳۲۴۶ : ۱۹۸
(۱۵) جودت مِلر ، خُدا کے ۹۹ نام : قرونِ وسطیٰ کے ایک فوجی کی طرف سے رپورٹ ( این ۔ وائے ۔ : سائمن اینڈ شُوسٹر اِنک ۔ ، ۱۹۹۶ء) ، ۲۶۔
(۱۶) تخفیف ۔
(۱۷) این ۔ اے ۔ ، پردے کے پیچھے ، ۸۴ ۔ ۵ (۱۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ ، نمبر ۔ ۵۰۷۵ : ۴ ۔ ۵
(۱۹) تخفیف ۔ ، ۵۱۱۹ : ۱۹
باب گیارہ
(۱) الفائدی کیا قرآن بے خطا ہے ؟ ، ۳۴۲
(۲) ڈورین جونز ، ترکی میں خواتین کے قتل کی بڑھتی ہوئی شرح
[http://www.voanews.com/english/news/europe/Turkeys-Murder-Rate-of-Women-
(جنوری ۲۰۱۲ء کو شائع ہوئی ) Skyrockets-117093538.html]
(۳)
[http://conservativepapers.com/news/2011/11/10/oslo-rape-wave-so-bad-hotels-pass-outkeychain-
(جنوری ۲۰۱۲ کو شائع ہوئی۔ ) alarms/]
(۴) این ۔ اے ۔ ، پردے کے پیچھے ، ۱۱۸ ۔
(۵) میکھیل ، اسلام محمد اور قرآن ، ۲۷
(۶) تخفیف ۔ ، ۲۹
(۷) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۵ ، نمبر ۳۸۹۴ : ۸۸۔۹
(۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۸ ، نمبر ۔ ۶۱۳۰ : ۴۹
(۹) این اے ۔ ، پردے کے پیچھے ، ۸۱ ۔ ۳