مکہ محمد اور خُدائے مہتاب ایک حقیقی اسلامی نسب سے ایک حقیقی تحقیق – باب ایک سے پانچ تک

 

عنوانات کی فہرست

دیباچہ

لسانی حاشیہ جات

تعارف

اسلام کی بڑھتی ہوئی لہر

حج

مکالمے کا تجزیہ

حصہ اول۔ حجرہ اسود

باب اول  ۔حجرہ اسود کی تاریخ

حجرہ اسود کا بیان

حجرہ اسود کی روایات

محمد کی الوداعی زیارت

حجرہ اسود کی زیارتیں

باب دوم ۔مقدس پتھروں کے بارے اسلام سے پہلے کی بدعتیں

قدیم دنیا کے پتھر

کبعہ اور ابتدائی عرب کے مزار

پتھر، بُت اور تصویریں

ابتدائی عرب کی بتوں اور پتھروں کی پوجا

باب سوم ۔ محمد کی مادہ پرستی

محمد کا مادہ پرستی کے لیے روکنا

الہ کی بیٹیاں : مِناہ ، اُلیعات اور الہ اُعضا

ابتدائی مُلایت

محمد کا الہ اُعضا کو قُربانیاں چڑھانے کے لیے جھڑکنا

محمد کی گناہ آلودہ فطرت

شیطانی آیات

باب چہارم۔ حجرہ اسود کے تجزیات

حجرہ اسود بطور ایک مقدس قربان گاہ

کونے کے سرے کے پتھر کی قیاس آرائی

الیعات بطور حجرہ اسود

الہ اُعضا بطور حجرہ اسود

اللہ بطور حجرہ اسود

حصہ دوم۔خُدائے مہتاب اللہ

باب پنجم۔ اللہ ‘‘ خُدائے مہتاب ’’ اور الرحمٰن

لفظ ‘‘ اللہ ’’ کا جائزہ

اللہ بطور عرب والا خُدائے مہتاب

الرحمٰن

حصہ سوئم۔ محمد

باب ششم ۔ محمد بطور عامل

عاملیت کے لیے بائبل کا نقطہ نظر

عاملیت کا آغاز

محمد کا جادو کو استعمال کرنا

محمد کا علم واعداد اور توہمات کو استعمال کرنا

شفاء دینے کی غلطیاں

غیر سائنسی بیانات

حصہ چہارم۔ قرآن

باب ہفتم ۔ کیا قرآن خُدا کا کلام ہے

محمد کا بائبل کے لیے بیان

قرآن کی تکمیل

قرآن کے دوسرے ورژنز

قرآن کے ابدائی دستی نسخہ جات

تنسیخ کا عقیدہ

قرآن کا ذریعہ

حصہ پنجم۔ اسلام کا نجات کا تصًور

باب ہشتم۔ کفارے کے لیے قُربانی کا لہو

ابتدائی قُربانیاں

ابراہام کی قُربانی

یومِکفارہ ( یومِ کیپر )

موسیٰ اور گائے کی قُربانی

اللہ ، بال اور یہواہ میں موازنہ

باب نہم ۔اسلامی منزل سے پہلے اور برزخ میں اُترے کا تصًور

منزل پر پہنچنے سے پہلے کا مسیحی تصًور

منزل پر پہنچنے کے اسلامی تسًور کا مسیحی تصًور کے ساتھ مقابلہ

اسلام میں دوزخ کا تصور

حصہ ششم ۔ خواتین کا اسلامی تصور

باب دہم۔ آدمیوں کو عورتوں پر برتری

بیوی کی پیٹائی اللہ کی طرف سے اختیار دیا گیا

خواتین کی مزید ذلت

دوزخ میں جانے والے لوگوں میں زیادہ خواتین ہیں

جنت کی آسمانی حوریں

محمد کی طرف سے جسم فروشی قانونی ہے

باب گیارھواں  ۔ اسلام میں شادی

محمد کی بیویاں، حرمیں اور لونڈیاں

خواتین کی اسلامی تزلیل

طلاق کے قوانین

محمد کی جنسی حِرص

حصہ ہفتم ۔ جہاد

باب بارھواں  ۔ابتدائی اسلامی شہنشاہیت

مقدس جنگ کی تعریف

یہودیوں اور مسیحیوں کے خلاف جہاد

تاریخ میں اسلامی فتوعات

باب تیرھواں۔جہادوں کا نتیجہ

جہاد۔ عقیدوں کے مقابلے میں اس کی تعریف

سلطنتی جہاد ۔ وُسعت اور وقتی ڈھانچہ

موجودہ تاریخی دہرایا جانے والا طریقہ کار جہاد اور بائبل کا ‘‘حیوان’’

چودھواں باب۔ مرتدوں کے خلاف جہاد

مرتدی کی تعریف

سُلمان رُشدی کا معاملہ

رُشدی اور اُس کا ناول ، ‘‘ شیطانی آیات ’’

باب پندرھواں ۔ غُربت کا جہاد

محمد ( ایک نسلی غلام تاجر )

تاریخ میں اسلامی غلامی

مسیحت غلام ہونے کی ممانعت کرتی ہے

باب سولہ ۔ مخالفِ مسیح کا جہاد ( مہدی )

اسلامی مہدی کی تعریف

مہدی اور مخالفِ مسیح ساتھ ساتھ

مخالفِ مسیح کی دُنیاوی سلطنت

نتیجہ

کتابیات

الف۔ خُدائے مہتاب کی ہیکل میں سے عربی تاریخ کی فہرست

ب۔ اس حقیقت کی مدد کے لیے شواہد کہ اللہ خُدائے مہتاب ہے

ج۔ قرآن کے لیے اقتباسی مواد ، مختلف اقتباسات کہ عثمان نے مختلف قرآنوں پر پابندی لگادی

د۔ اسلامی شہنشاہیت کی وُسعت کی حد بندی

نوٹ

دیباچہ

                  یہ موجودہ ۲۰۱۲ کی الیکٹرونک کتاب میرے ابتدائی کام پر مبنی ہے ۔ ایک یہودی مسیحی اسلامی ایمان کی دستاویز۔ یہ اشاعت نئے مواد اور ۲۰۰۰ اور ۲۰۰۲ کے اشاعتی ورژنز میں سے اپ ڈیٹ کی گئی ہے ۔ دنیا میں اسلام کے مسلسل واقعات اور مسیحی مشن کے مسلسل ربط کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ اس دستی تحریر کو الیکٹرونک کتاب کی شکل میں شائع کروں تاکہ یہ پھیلتی ہوئی دنیا کے سامعن تک پہنچ سکے۔ اصلی مواد اس کی ابتدائی تاریخ میں موجود ہے اور اس میں کُچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے اپنی پہلی اشاعت میں اس کی کاپی رائٹ کی ترجیح میں ستمبر ۱۱، ۲۰۰۱ کے واقعات شامل تھے۔ اس میں میں نے پوری دنیا میں اسلام کے بڑھتے ہوئے جہاد کو خاص طور پہ واضح کیا تھا اس موجودہ تجدید میں نیا مواد اسلام کے جہاد کی شہنشاہیت جنگ اور مخالفِ مسیح اور اسلامی مہدی کے درمیان موازنوں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

                  اس کتاب کا بنیادی کام محمد کے ان دعووں کو مرکز بنانا ہے کہ وہ خُدا کا الہیٰ پیغمبر ہے یہ مکمل تفتیش بنیادی طور پہ محمد اور اُس کی زندگی کے گواہوں پر مبنی ہے اس مکالے میں میں نے ابتدائی کلیسیاء کے شاگردوں کے اُصول کو اپناتے ہوئے اس بات کو پرکھا ہے کہ کیا آیا محمد بائبل کی تعلیم کے مطابق سچا یا جھوٹا نبی تھا ۔

                  یوحنا رُسول نے اِس بات کو جاننے کے لیے ابتدائی چرچ کو یہ بات بتائی ‘‘ اے عزیزو! ہر ایک روح کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں کو آزماؤکہ وہ خُدا کی طرف سے ہیں یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں ’’۔ (۱۔یوحنا۱:۴)بائبل کے اس حوالے سے اور اس طرح کے اور بہت سے دوسرے حوالوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ روحوں کو پرکھنا ضروری ہے آیا کسی شخص کے اندر ایک نبی ، اُستاد یا ایک مبلغ کی روح موجود ہے یا وہ مخالفِ مسیح کی روح رکھتا ہے ۔ ابتدائی مسیحیوں کے زمانے سے ، روحوں کو پرکھنے کا ایک سخت معیار تھا جس کو قائم رکھا گیا اور عظیم بشپ پولی کارپ نے یوحنا رُسول کے ان اُصولوں کو اپنایا ۔ پولی کارپ نے عظیم مذاہب کا علم رکھنے والے مفکر بشپ آرنیئس کو پڑھایا ۔

                  یہ مشہور مقدس آرنیئس تھے جہنوں نے روحانی اقتباسات کی جلدوں کے ذریعے سے پرکھا کہ اُس کے دور کے کونسے روحانی جھوٹے نبی ہیں اُس کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے میں نے موازنے کے اُنہی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی عقیدے کے خیموں کو پرکھا ہے میں نے بڑے احتیاط کے ساتھ قرآن کے اور اسلامی حسیث کے مطالعہ کو مرکز بنایا ہے بہت سارے اس بات سے باخبر نہیں ہیں کہ حدیث کو ‘‘ ایک نو جلدوں پر مشتمل نبی پاک اور اُس کے خاندان ، دوستوں اور دوسرے عینی شایدوں کے الفاظ اور اعمال کا مجموعہ ) ایک با اختیار اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے جیسے کہ قرآن اس کے ساتھ ساتھ میں نے ابتدائی مسلمانوں کی تاریخوں اور آب بیتیوں کو سیکلر تاریخوں کو جغرافیائی دریافتوں کو اور بے شمار مسیحی وسائل کی بھی تحقیق کی ہے۔

                   بہت سارے حقائق جو پیش کیے گئے ہیں وہ سخت بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کی بیناد ہیں اسلام کے عقیدے کے لیے اُن کی اپنی بنیادیں ہیں پھر بھی میں تمام مسلمانوں کے لیے پورے خُلوص کے ساتھ دلچسپی رکھتا ہوں جو ابھی تک مسیحی ایمان کے اور نجات کی گارنٹی کی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے۔ پوری دنیا میں مسمانوں کی ایک بڑھی ہوئی تعداد کو اُن کے لیے ایک سچے خُدا کو سمجھنے کے لیے ایک چیلنج اور ایک موقعے کے طور پر اس کتاب کو لینا ہے ۔ یہ کتاب کوشش کرتی ہے کہ وہ مناسب مسیحی الہیات کے علات کے ذریعے ایماندار کو ایک بہتر اور سچے ایماندار کے طور پہ اسلام کے دل میں اُتارے۔

                   تعریفی کلمات میں میں اپنے او آر یو کے ہونہار پروفیسر کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جہنوں نے مجھے کلیسیائی تاریخ ، تفسیر اور بے شمار ابتدائی مشرقی زبانوں جن کے نام یہ ہیں : کوپٹِک ، یوگریٹک اور ابتدائی عبرانی کے بارے میں سکھایا ۔ دوسرے مشہور مفکرین نے بھی مفید بصیرت کے ساتھ اس میں حصہ ڈالا ۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر رابرٹ مورے نے اپنے تعمیری الفاظ سے اس کتاب کو اور اس کے تحقیقی مواد کو جو اسلامی ایمان سے متعلقہ دستاویزی مواد پر مشتمل ہے سراہا زبردست مواد جو کہ مخالفِ مسیح اور مہدی کے متعلق تھا وہ گہری بصیرت رکھنے والے مفکرین جوئیل رچرڈسن اور سابقہ مسلمان ولید شُبد نے مہیا کیا ایک خاص شُکر گزاری ڈاکٹر جوزف بتراگوں کے لیے جہنوں نے لسانی اور جغرافیائی معلومات میں حصہ ڈالا اُن کی مفکرانہ عقیدت کے سبب سے اس کتاب کے پہلے اشاعتی مرحلے کی تکمیل کا کام پورا ہوا مزید براں اُن کے تاریخی تجزیات جو یسوع مسیح کے بارے میں تھے اور اُن کے شجرہ نسب کے بارے وہ گراں قدر ہے آخر میں میں جینی ہیچ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اُن کی شاندار نصیت اور اشاعتی کام کے لیے جو اس تیسری اشاعت کی تکمیل اور اس کی اپ ڈیٹ کے حوالے سے ہوا ۔

لسانی حاشیہ جات

                  اسلام اور یہودی مسیحی الہیات کے درمیان منطقی مسلے کے لیے بنیادی اختلافات کا تعلق ابتدائی زبانوں کے ساتھ بھی تھا اس طرح سے خاص اختلافات کا تعلق ابتدائی زبانوں کے ساتھ بھی تھا اس طرح سے خاص اختلاف جو خُدا کے نام کے تعلق سے تھا اور اُس اختلاف کے بارے بھی جو بائبل کے خُدا اور تمام دوسرے دیوتاؤں کے درمیان ہے ۔یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سچے خُدا کے نام کے بارے میں جانے پرانے عہدنامے میں مقدس نام بطور یہواہ دیا گیا ہے ورنہ اِس سے پہلے خُدا کا نام جہاد حرفی نام ہی جانا جاتا تھا دس احکام میں اس کا اعلان کیا : ‘‘ خُداوند تیرا خُدا جو تجھے ملکِ مِصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں ’’۔ ( خروج ۲: ۲۰ ) تیسرے حکم میں یہ کہا گیا کہ اُس کا نام بے فائدہ نہیں لینا مزید براں نئے عہد نامے میں فرمایا  جاتا ہے ‘‘ اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں ’’۔ ( اعمال ۱۲ : ۴ ) اس واضح بیان کے ساتھ کہ اُسی خُدا کے پاک نام کو عزت دینی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو ضرور اُس کے نام کو جاننے کے لیے کوشش کرنی ہے میں نے ابتدائی ٹھیک عبرانی حروف ا بجد کے نام جو یہودی خُدا کے لیے تھے جیسے کہ یا ہو استعمال کیے جس کو ابتدائی  صحیح عبرانی جغرافیائی مواد کے مطابق یہواہ کہا جاتا تھا جرمنی میں ڈبلیو کی آواز وی کی طرح ادا کی جاتی ہے یہواہ یاہو کے لیے انگریزی زبان میں ڈبلیو کی ایک غلط آواز ہے جغرافیائی طور پر یہودی لوگ دونوں ہجوں کو قبول کرتے ہیں ۔

                   یسوع کا صحیح نام صحیح آواز کی شکل میں پیش کیا گیا حقیقی عبرانی یا یونانی یہودی مسیحا کے نام کے حروف دُرست ہیں۔ عبرانی میں کونسونٹس کے اندر واوُل استعمال کیے گئے ہیں اور اس سے عبرانی میں یشوع کو نجات یا نجات دہندہ کے معنی میں پیش کیا گیا ہے تاہم بہت سارے پرانے ربی مفکرین اس خاص تبدیلی کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے ۔مثال کے طور پہ خُداوند کے ژخصی نام کے ساتھ اکثر ترجمے میں یشوع، یسوع، یوشوع اور دیگر مختلف طرح سے بھی پیش کیا جاتا ہے۔

                  لیکن ان سب اختلافات کے باوجود اس کے معنی میں فرق نہیں آتا کُچھ مفکرین ہو سکتا ہے اپنی عقائدی پرکھ کی وجہ سے اس کے تلفظ میں بضد ہو لیکن نجات کے معنوں میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔ مثال کے طور پہ پطرس کا نام اور انگریزی میں اس کو مختصراً پیٹی، یونانی پطروس، سپینش میں پیدرو وغیرہ کہا جاتا ہے اور یہ سب کُچھ مختلف زبانوں اور ثقافت کی وجہ سے ہے۔ ایک مشہور یہودی مفکر ڈیوڈ فلسر نے اپنی ایک وسیع تحقیق میں یہودیت کی پہلی صدی میں بیان کرتے ہوئے اس بات کی دلیل دی کہ یسوع کے گلیلی شاگرد لفظ کے آخر میں این کی بجائے ( آ) استعمال کرتے تھے اس لیے جب وہ یسوع کا نام لیتے تھے تو وہ یشوع استعمال کرتے تھے نتیجے کے طور پہ یہ تلفظ یُشوع یا یشوع ہو گیا دوسرے مفکرین بیان کرتے ہیں کہ نئے عہد نامے کے لکھاریوں نے یونانی سگما ( ایس ) عبرانی شِن کے ترجمے کے لیے استعمال کیا اس لیے یونانی اور عبرانی میں اس کا تلفظ ایک دوسرے کے مساوی نہ ہوا۔ تاہم میں اس بات پہ ایمان رکھتا ہوں کہ تلفظ کی آوازیں یشوع کے بالکل قریب ہے اور اس کتاب میں یہی نام استعمال ہوا ہے۔

                  مختلف زبانوں کے اختلافات کی وجہ سے جہاں پہ آواز میں فرق آیا لیکن معنی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ رہا یا کا اصلی معنی ‘‘ میں ہوں’’ ہے جو عبرانی میں استعمال ہوا ہے یہ پاک نام موسیٰ کو اسرائیلیوں تک پہنچانے کے لیے دیا گیا اسی وجہ سے میں نے یا کو استعمال کے لیے منتخب کیا ہے تاکہ یشوع اور یہواہ کے الفاظ قائم رہیں۔ عبرانی میں یہواہ کے اندر ایچ خاموش ہے جیسے یشوع کے اندر یہ بھی عبرانی سے لیا گیا ہے اور یونانی میں ترجمہ ہوا ہے۔

                  عبرانی میں یُوڈ لفظ کی وائے سے آواز نکلتی ہے میں اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ یونانی آواز یُوٹا جب عبرانی لفظ میں منتقل ہوتی ہے تو یُوٹا کے یونانی لفظ کے لیے عبرانی لفظ یُوڈ استعمال ہوتا ہے اور فلسطین کی یہی عبرانی زبان تھی۔ یہودی ذہنیت کے مطابق شاگردوں کے لیے لفظ یُشوع عبرانی بائبل سے لفظ یسوع جو کہ یونانی میں ہے استعمال ہوا۔ پہلی صدی عیسوی میں وہ خُداوند کو عبرانی کے اسی لفظ یسوع کے مطابق پُکارتے تھے جب کہ اسرائیلی آبادی یہودی ذہنیت کے مطابق اس کو استعمال کرتے تھے ۔

                  نتیجتاً یونانی لفظ کی ابتداء میں عبرانی آواز استعمال کی گئی اور یُوٹا آواز کو واضح وائے کے ساتھ استعمال کیا بہتر سمجھ کی بنیادوں پر یعنی بائبل کی سُوچ کی بنیادوں پر اس کو یہودی ذہن کے ڈھانچے پر ادا کیا گیا جب وہ یونانی زبان میں بولتے تو ضروری تھا کہ اس کی آواز میں خاص کُونسنٹ آواز شامل ہوتی چھٹی صدی میں پیٹرس رمس نے ‘‘ جے ’’ کو انگریزی زبان میں استعمال کیا یہاں تک کہ لاطینی اور جرمن زبان میں بھی ‘‘ جے ’’ کے لیے وائے کی آواز استعمال ہوتی تھی بجائے جی کے۔نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوتی اعتبار سے یشوع یا یسوع صحیح تلفظ ہے جیسزز کی بجائے۔

   مزیدبرآں خُدا کا نام شخصی طور پر نہیں لیا گیا یہ محض ایک صفاتی طرح ہے یہاں تک کہ یہ ایک جرمنی لفظ ‘‘گوٹ ’’ سے اخذ کیا گیا ہے جو کہ ایک شیطانی الوہیت یا ابتدائی جرمنی میں الہیات سے اخذ ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ کتاب اس محاورے کو سمجھنے کے لیے ہماری مدد کرے گی کہ یہ یہودی لفظ کو شخصی طور پر ٹھیک طور پر استعمال کرنے میں ہمیں بصیرت دے، جو کہ اس بات کو جانتا ہے کہ یشوع کا لفظ بحیثیت یہواہ بچانے والے کے طور پہ استعمال کیا گیا ہے کلیسیاء کی یہ ایک لازمی ضرورت ہے کہ وہ اس بات کو ابتدائی یہودی مسیحی پس منظر کے طور پر یاد کرے۔

  جب میں یہودی مسیحیت کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میں اُن شرعی مسیحیوں کی بات نہیں کرتا جن کی بنیاد طالمود، ظہر، قبالہ، یا رسپونسہ پر نہیں یہ یہودی کتابیں زیادہ تر قرآن کی طرح ہیں اور حدیث بھی اُس پرانے عہدنامے یا نئے عہد نامہ کی طرح نہیں ہیں۔ حقیقی یہودی مسیحیت کو پرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے کی بنیاد پر تعمیر ہونا چاہیے کوئی بھی دوسری کتاب ماسوائے بائبل کے الہام سے متاثر نہیں ہے کیونکہ یہی واحد کتاب ہے جو یہواہ کے وعدوں پر مشتمل ہے اسی یہواہ نے خود کو بحیثیت یسوع مسیح کے ظاہر کیا۔

اُس کے قُربانی کے کفارے جو کہ بحیثیت تمام دُنیا کے گناہوں کی معافی کے لیے پیش کیا گیا ۔ اُس نے خود اُن کے خُدا یہواہ کے طور پہ جو کہ یسوع نجات دہندہ مسیح ہے پیش کیا۔

نتیجتاً بہت سے ابتدائی بائبل کے ترجمے جو مشنریوں نے استعمال کیے اُس میں صوتی نام یسوع استعمال کیا گیا۔ جب اس کو جاپانی اور کورین زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اسی طرح جون اور چالز ویزے نے بھی ابتدائی تلفظ میں نجات دہندہ کے نام کے لیے لفظ یسوع کو اپنے بہت سارے گیتوں میں استعمال کیا اور ہو بہو یہی آواز پرانی ربانی تحریروں سے ملتی جُلتی ہے۔ بشپی بائبل ، عظیم بائبل اور ابتدائی اے بی بائبل نے ۱۶۱۱ میں لفظ یسوع کے لیے جو ترجمہ استعمال ہوا اُس میں لفظ جے انگریزی زبان میں استعمال نہیں کیا گیا۔

  یہ ترجمہ زبان دانی اور صوتی اعتبار سے سمجھنے کے لیے قابلِ اصلاح ہے اس اشاعت میں میں نے روائتی نام یسوع کو اس بات کے لیے استعمال کیا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر جانا جاتا ہے۔ یہواہ کی اصلاح بھی استعمال کی گئی ہے۔ جب اسلامی لفظ اللہ کے ساتھ یہودی مسیحی اُلوہیت کو متقابلاً استعمال کیا گیا ہے یہ ضروری ہے کہ وضاحت اور ترجمے کی اصلاح کے لیے ابتدائی صوتی لفظ استعمال کیا جائے بہت ساری کلیسیاؤں نے اپنی کم علمی کی وجہ سے اللہ کے لفظ کو یہواہ کے طور پر ایمان میں سمجھوتے کے طور پر استعمال کر لیا ہے۔ اس کتاب میں کنگ جمیز کے ورثن کو باقی ثانوی باتوں کے حوالے کے طور پہ استعمال کیا گیا ہے۔

تعارف

اسلام کی بڑھتی ہوئی لہر

     بہت سے اعدادوشمار کے وسیلے اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب تصور کیا جاتا ہے (۱) تاہم، مسیحت میں نئے تبدیل ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے اسلام کے تیزی سے بڑھنے کی بنیادی وجہ زیادہ شرح پیدائش ہے تقریباً ۸۔۱ہر سال جبکہ باقی دنیا کا شرح پیدائش ۱۲۔۱ بلین مسلامن بڑھتے ہیں، تاہم، دنیا میں ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔ ۲۰۱۱ میں ، بہت سے اعدادوشمار کے مطابق اگلے عشرے میں مسلمان دنیا کا ایک تہائی ہوں گے۔ مسلمان آج تیزی سے دنیا کے بہت سارے حصوں میں بشارت کا کام کر رہے ہیں، وہ مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی قوم بن رہے ہیں کیونکہ انہوں نے پوری دنیا میں حکومت کرنے کے منصوبوں کو جاری کیا ہے۔ یورپ میں ، مسمان برطانیہ کو یورپ کے لیے اہم سمجھتے ہیں برطانیہ کو جیتنے کے لیے لندن سب سے زیادہ اہم ہے۔ ۱۹۸۸ میں ایک اسلامی کانفرس میں ایک خُطاب کرنے والے سے کہا جب تک ہم اسلام کے لیے لندن کو جیتنے میں ناکام ہوں گے ہم ساری مغربی دنیا کو جیتنے میں ناکام ہوں گے (۳) اعدادوشمار کے مطابق، اُن کا مشن کامیاب ہو چکا ہے اپنی کتاب اُسلامک ان ویژن میں، ڈاکٹر رابرٹ مورے ۱۹۹۱۔ ۱۹۹۲ کے حقائق بتاتے ہیں۔

     انگلینڈ میں صورتِ حال حیران کن ہے۔ اب انگلینڈ میں مسحی مبشروں سے زیادہ عرب کے مسمان ہیں۔ ان کو عرب کی تیل کی دولت کے وسائل سے فنڈز دیئے جا رہے ہیں ۔ مسمان بند انگلینڈ چرچز خرید رہے ہیں اور ان کو مسجدوں میں تبدیل کر رہے ہیں یہاں تللک کہ کُچھ مسمان دعویٰ کرتے ہیں کہ انگلینڈ پہلا مسمان یورپی مُلک ہو گا ( ۴ )

     ڈاکٹر مورے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ کیسے انگلش پارلیمنٹ نے دباؤ ڈالا ہے کہ مسمانوں کو اُن کے اسلامی قانون کی پیروی کرنے دی جائے، بجائے اس کے کہ طلاق کے معاملہ میں وہ عام انگلش قانون کی پیروی کریں۔ اسی طرح ، فرانس اور جرمنی میں لاکھوں مسمان اس وقت رہتے ہیں (۵) مغربی دنیا پر قبضہ کرنے میں اپنے منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے، مسلمانوں کی دُنیا کو فتح کرنے کی حد بندی کا شیڈول عمل میں ہے۔

اسلام کی صداقت کی تحقیق میں، کسی کو بھی بنیادی روایئتوں جن میں پیغمبر، جس کا نام محمد ہے اس کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ اس تحقیق میں ، ایک جامع منطقی خلاصہ، جغرافیائی صورتِ حال، تاریخی پہلووں اور اُلہیاتی موازنوں کو بھی استعمال کرنا ہو گا اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کہ آیا محمد ایک سچ نبی ہے یا جھوٹا اختصار کے ساتھ ، یہ اسلامی جڑیں ان کی صبح کی رسم میں سامنے آتی ہیں۔

حج

تماممسمانوں کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک دفعہ پاک شہر مکہ کی زیارت کرنی ہوتی ہے یہ سفر حج کہلاتا ہے۔ (بہت بڑی زیارت ) جو کہ اسلام کے ‘‘پانچ ستونوں ’’ میں سے ایک ہے۔ اس کی ادائگی کے لیے بہت سارے دن درکار ہیں۔ حج اُن روایات کی ترتیب پر مشتمل اظہار ہے جو مکہ کی بڑی مسجد اور شہر کے گردونواح ادا کی جاتی ہیں اسلامی کیلنڈر کے مطابق، حج صرف رمضان کے مقدس مہنے میں ادا کیا جاتا ہے جو ہر سال دس دن پہلے آتا ہے۔

جامع اسلام کے انسائیکلوپیڈیا میں (۱۹۸۹)، حج کے دوران زیارت کرنے والوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو میلین پوجا کرنے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ (۶) ۲۰۱۰ میں یہ تعداد ۲۵ میلین  تک بڑھ گئی۔   اس بڑی تعداد کے سب سے ، زائیرین کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بہت سارے زائیرین ایک ہی وقت میں ان اسلامی رسومات کو ادا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر، خانہ کعبہ کا طوائف اکثر بہت زیادہ زائیرین کو عظیم مسجد سے باہر نکال دیتا؛

مکہ میں پہنچنے پر، زائیرین کا خیال آمد کا طوائف  کرنا ہوتا، اس میں اُن کو کعبہ کے گرد سات چکر لگانا تھا۔ اس کو پاک گھر کہا گیا اور اندائی گھر بھی یہ بڑے اُبھرے ہوئے پتھر کی شکل کا ہے جس کو نقش و نگار کا کام کیے ہوئے سیاہ رنگ کے کپڑے سے ڈھانکا ہوتا ہے ۔ یہ مکہ کی بہت بڑی مسجد کے مرکز میں واقع ہے۔ کبعہ کے گھروں کے جنوب مشرقی کونے میں حجرہ اسود ہے (۸) روائیت کے مطابق، ہر زائر نے کوشش کرنی ہے اور اُس کالے پتھر کا بوسہ لینا ہے۔ تاہم، بہت بڑے ہجوم کے سب، بہت سارے زائرین چلتے چلتے اُس پتھر کی طرف محض اشارہ کر دیتے ہیں (۹) کعبہ کا طوائف حج کے اس سارے محل میں سب سے زیادہ مقدس رسم تصور کی جاتی ہے۔

مقالے کا جائزہ

یہ کتاب سات بڑے حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔ اسلامی جڑوں کو ٹھوس بنیادی تعمیر دینے کے لیے پہلے دو حصوں میں ایک لمبے تکنیکی تجزیہ کی ضرورت تھی۔ یہ تحقیقات نتائج کے لیے بطور معاونت استعمال ہوئی ہیں تاکہ محمد اور اس کے مذہب کو سمجھیں ۔

حجرہ اسود

یقیناً جو اس بات کے مشتاق ہیں، وہ ضرور دریافت کریں گے کہ حجرہ اسود کیا ہے یا یہ کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے؟ مسمانوں، مسیحوں اور آثارِقدیمہ کے ماہرین سب کی اس مقدس پتھر کے بارے میں مختلف تفاسیر ہوں گی۔ اس مقالے کا کام ان نقطوں کو تلاش کرنا اور کُچھ بظاہر معقول مفروضات بیان کرنا ہے۔

   یہ مواد خاص طور پر چمکیلے حجرہ اسود سے متعلق ہے اور یہ پہلے حصہ سے بھرا ہوا ہے۔ اور پھر چار ابواب میں تقسیم ہوا ہے۔ پہلا باب محمد سے لے کر حجرہ اسود ابتدائی مسلمانوں کی روایات محمد کی اپنی زیارت اور اس زیارت کے بعد مختلف زیارتوں کے بارے بیان کرتا ہے دوسرا باب عرب کے ابتدائی مختلف پتھروں کے بارے میں بیان کرتا ہے جن کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ یہ مجسم دیوتے اور دیوائی ہیں اِس پتھر کی ابتدائ کا ایک وسیع تجزیہ اس بات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ہے جس کے بارے میں اسلامی حجرہ اسود پر ایمان اور بدعت سے جُڑا ہوا ہے۔ تیسرے باب میں محمد کی مادہ پرستی سے روک تھام کے بارے میں دو مثالیں شامل ہیں؛ پہلی مثال دیوی الا اُعضا کے لیے اُس کی قُربانیاں اور نامنہاد شیطانی آیات محمد کو دو دفعہ اُس کے ساتھیوں نے نئے مذہب میں ابتدائی مادہ پرستی کے کاموں کو شامل کرنے کا کہا کیا جبکہ اِن میں سے بہت سارے اختلافات جو کہ محمد کے دوسرے ہم عصروں نے جو اسلام سے پہلے ایمان رکھتے تھے اُٹھائے ۔

چوتھے باب میں حجرہ اسود سے متعلق بہت سارے مقاصد کو شامل کیا گیا ہےاس بات کو ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ کیا ہے اور اصل میں کِس چیز کو پیش کرتا ہے اس حقیقت سے متعلق کہ ابتدائی عرب والے بتوں کی پوجا کرتے تھے اور دیوتاؤں پر ایمان رکھتے تھے اور اسی ماحول میں رہتے تھے ۔ اسلام کے بارے میں ایک وسیع نقطہ نظر کا جاری حج کے اندر لیا گیا ہے۔ جن کو مزید چھوٹے حصوں میں دیکھا گیا : ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ( الف)پتھر کے مسلمانوں کی تشریح جو بائبل کے پتھر کی ہوئی ( کونے کے سرے کا پتھر جس کو معماروں نے رد کیا ۔ ۱۔پطرس ۲: ۶۔۷ ) (ب) دمشق کے یوحنا کی گواہی، جو کہ سفید پتھر پر ایمان رکھتا تھا ۔ قرامتی فرقے کے لوگ جو کہ ایک روحانی مسلمان فرقہ تھا جو کہ اُپروڈائٹ مجسم کا سردار تھا اور دیوی الات کے برابر تھا وہ بھی ممکنہ طور پر محمد کو اسی پتھروں کی طرح عزت دیتا تھا: (ج) ایک لمبا تجزیہ کہ دیوی الات ایک ممکنہ الوہیت کی اُمیدار تھی۔ (د) اسی طرح ، دیوی الااُمنہ بھی دیوی الات کی طرح اللہ کی بیٹی سمجھی جاتی تھی۔ اسی طرح دیوتا اللہ کو بھی حجرہ اسود کا مجسمہ تصور کیا جاتا ہے۔

خُدائے مہتاب اللہ اور الرحمٰن کی بدعت

دوسرے حصے میں دیوتا اللہ کی ابتداء کے بارے میں مختلف تحقیق کو تفصیل میں دیکھا گیا ہے پہلا قدم اس بات کی تلاش کرتا ہے کہ دیوتا ایل کی لسانی جڑوں کا تعلق لفظ اللہ کے ساتھ ہے۔ کیونکہ وہ دونوں ایک جیسی لسانی بنیادوں پر تعلق رکھتے ہیں دوسرا اس بحث میں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آیا اللہ ایک شخصی نام ہے یا محض دیوتا کی جیسی اصلاح ہے۔ اگر اللہ ایک شخصی نام ہے، تو پھر یہ بائبل کے خُدا کے نام سے مختلف کیوں ہے یعنی یہواہ سے؟ آخر میں ایک مطالعہ جو مختلف چاند کے خُداؤں کے بارے میں ہے جو پورے عرب میں تھے، جن کی بنیاد ماہرین آثارِ قدیمہ کے شواہد پر ہے۔ جہنوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ اللہ ہی ہے۔

       ایک اور وسیع مطالعہ جو اس حصہ میں موجود ہے وہ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ محمد نے اسلام سے پہلے کی ایک بدعت الرحمٰن کو نئی اسلامی سوچ میں شامل کر دیا مزیدبرآں تاریخی شواہد اس الوہیت کے بھید کو بھی عیاں کرتی ہے۔

جس کو الرحمٰن سے جوڑا گیا ہے ( جس کا ترجمہ ترس سے بھرا یا رحم سے بھرا کے ساتھ کیا گیا ہے ) اور اس کو نئے مذہب کے ساتھ جوڑا گیا۔ محمد نے بڑی خُوبی کے ساتھ خود کو اس مُسلمان کے ساتھ جوڑا ہے جو اُس دور کے رحمانہ نبیوں کے ہم عصروں میں سے ایک تھا۔

محمد

تیسرے حصہ میں محمد کے کردار کو ایک روحانی رہنما کے طور پر بیان کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کے روحانی طرز کے ابتدائی تجربات کو جو عاملیت میں سے ہیں ۔ محمد کے غار کے اندر روحوں کے ساتھ خوف ناک اور اشتعال آمنے سامنے، بعدازاں بے شمار بدروحوں سے ملاقاتیں، مرتی کے دور، جادوگری اور علم الاعداد کی مشقیں، یہ سب اس بات کی صداقت میں اضافہ کرتی ہیں کہ محمد عاملیت یا شمانیت کی مشق کرتا تھا دوسرے موضوعات اُس کی توہم پرستی اور بے ڈھنگی باتوں کو پیش کرتے ہیں ۔

قرآن

   چوتھا حصہ بزاتِ خود اس بات کے دعویٰ سے متعلق ہے جو مسلمان اس بات کے لیے کرتے ہیں کہ جدید قرآن مُستند ہے۔ تاریخی وضاحتوں کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ آیا موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو ابتدائی اسلام نے پیش کیا ‘‘ تنسیخ کے عقیدے ’’کی پرکھ سے شکوک و شبہات اُٹھتے ہیں۔ پرکھ کی یہ تکنیک اُس بات کے تضاد پیش کرتی ہے کہ موجودہ قرآن کی آیات تبدیل کی گئی ہیں۔

اسلام میں نجات کا تصور

  پانچواں حصہ میں فیصلہ کیا اسلامی عقیدے میں نجات کا تصور ہے ۔ اہم موضوعات جیسے خون کی قُربانی کا کفارہ، جری طور پر پہلے سے طے کردہ نجات، اسلام کا ارواح کی روحانی تطہر کا نظریہ ۔

اسلام میں عورتوں کا تصور

چھٹا دفع ہمیں عورتوں کی تزلیل کے متضاد نظریات اور عملی کاموں کو دیکھا گیا ہے ۔

اسلام کی اپنی مقدس تحریروں میں سے مثالیں دی گئی ہیں۔ یہ ضرب المثال مغربی قاریوں کے لیے اکثر بہت ہی دھچکا دینے والی ہیں۔

جہاد

ساتواں حصہ مکمل طور پر جہاد کے تصور کے سروے کو پیش کرتا ہے۔ اس حصہ میں ایمان نہ لانے والوں کمزوروں ، تاریخی شہنشاہی جہادوں، جہادوں ، اسلامی غلامی کی تجارتوں کو زیر بحث لایا گیا ہے  ۔ مزیدبرآں، موجودہ اسلامی جہاد کی تحریکوں اور بائبل کی نبوت سے متعلقا تجزیاتی تعلقات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

 

حصہ اول : حجرہ اسود

باب ۱

حجرہ اسود کی تاریخ

حجرہ اسود کے بیانات

         حجرہ اسود کے متعلق جو کہ مکہ میں واقع ہے کے بارے میں ایک مخصوص فضا موجود ہے اور کعبہ کے نواحی علاقوں میں یہ ایک بھید کی طرح چھپی ہوئی ہے اس کی ابتداء کا بھید پھیل چُکا ہے اور اس کے متعلق بہت ساری کہانیاں اور توہمات موجود ہیں برزخ کی روایات اور مادہ پرستی کی روایات کی طرح حجرہ اسود بھی سائنس اور منطق کے دور میں ایک عقیدہ بن چُکا ہے اس کا اثر پیچھے کالے جادو اور غیر مذہب کفر کے ساتھ ملتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا بہتا ہوا خون جو ایک متلاطم دریا کی طرح ہے وہ دُنیا کے لیے اللہ کے غضب اور قہر میں جلتا ہوا ایک نشان ہے آج کے اس باترتیب روشن خیال دور میں ابھی تک فوجی جہاد کی گفتگو کی چیخوں کی آوازیں آرہی ہیں جو اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ ‘‘ اللہ کے سوا کوئی خُدا نہیں اور محمد اُس کے رُسول ہیں ’’ اس بات سے کہیں پرے ہے کہ مارے جانے والوں پر رحم ہو، ایک خفیہ تلوار اپنی پوری جادوئی طاقت اور بربادی کی قوت کے ساتھ ایک گرد باد کی طرح لٹکتی ہوئی نظر آتی ہے ۔

   چُپ چاپ ساری دُنیا اس آنے والی موت کو دیکھتی ہے ؛ ااسلامی چکر کے بگاڑ میں حجرہ اسود تمام مہذب معاشرے کےاندر جو کُچھ اس کے راستے میں آرہا ہے اس کو نگلتا جا رہا ہے اور جہاد کی چیخ وپُکار میں یہ پوری دنیا کے اُن لوگوں کا خون بہا رہا ہے۔ جہنوں نے خُدائے مہتاب اللہ اور نبی محمد کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا ہے۔

       حجرہ اسود کے بیان کا پُرانا ترین تفصیلی تصور مسلمان تاریخ دان ازاقی کی طرف سے آیا۔ الزبیر کی عملداری کے دوران ؛ اس نے ۶۸۳ سے ۶۸۴ عیسوی میں مکہ کے محاصرہ کے وقت ایک بیان دیا۔ بنو اُمیہ کے دور میں ، یزید کی فوج نے پاک شہر مکہ پر جلتے ہوئے تیروں سے شدید حملہ کیا۔ اُن تیروں میں سے ایک نے کعبہ کو جلا دیا اور یہ مکمل طور پر برباد ہوا۔ بعدازاں ، حجرہ اسود تین بڑے حصوں میں ٹوٹ گیا۔ (۱)بعد میں ایک ٹکڑے کو کاٹا گیا اور بہت سالوں کے لیے اسے بنو شائبہ نے رکھا۔ ایف ۔ ای پیٹرز اپنی کتاب حج میں، تاریخ دان ازاقی کی باتوں کو لکھتا ہے۔

ابن الزبیر نے اس کو آہنی ہاتھوں میں لیا، اس کو اُس نے اُوپر سے ختم کر دیا، جس کی حالت اب اُوپر سے صاف ہے اس پتھر (رکن) کی لمبائی ۲ ہاتھ ہے اور یہ کعبہ کی مضبوط دیوار کے ساتھ ہے۔‘‘ میں نے کسی سے سُنا کہ اس کا اندر کی طرف سے دیوار کی طرف والا حصہ، کُچھ کہتے ہیں کہ گلابی رنگ کا ہے، کُچھ کہتے ہیں سفید رنگ کا ’’۔ (۲)

           ابن الزبیر کے وقت کی ایک اور رویت میں کہا گیا کہ اس پتھر کی لمبائی تین ہاتھ تھی، دوسرے گواہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کا رنگ سفید تھا ماسوائے بیرونی طرف سے باقی سب سفید ہے (۳) مسیحی لکھاری جان و مشقی، جو ابتدائی آٹھویں صدی کے دوران ایک مسلمان حکومت کے زیر تسلط علاقے میں رہتا تھا۔ اس نے ‘‘ سفید پتھر ’’ کے تاریخی بیان میں کہا ۔ جان بڑی روانی سے عربی بولنے والا شخص اور قرآن اور حدیث کے لیے بہت مشہور تھا۔ وہ اس بات پر ایمان رکھنا تھا کہ سفید پتھر افرات بت کا سربراہ تھا ، جس کو عرب والے پوجتے تھے اور اس کو خجیر (عظیم ) کہتے تھے۔

جان نے کہا، ‘‘ یہاں تک کہ آج بھی اس پر اُبھرے ہوئے حصے موجود ہیں جن کو بڑے احتیاط سے مشاہدہ کیا جاتا ہے ’’۔ (۴)

۹۳۰ صدی عیسوی کے دوران قرامتیوں نے مکہ پر چڑھ آئے پتھر کو اُٹھایا اور واپس العصا یا بحرین میں واپس لائے، وہاں اُنھوں نے اُس کو نصب کیا اس کے لیے ایک بڑے تاوان کی پیشکش بھی ہوئے لیکن اس کونظر انداز کر دیا گیا پھر ۲۱ سالوں کے بعد ، ایک تاریخ دان جیو وائی کے مطابق حجرہ اسود کو کوفے کی جامع مسجد میں اس پیغام کے ساتھ رکھا گیا : ‘‘ حکم سے ہم اس کو لائے اور حکم ہی سے ہم نے اس کو واپس رکھا ’’۔ (۵) سفید پتھر چرا لیا گیا جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا لیکن جب اس کو واپس کیا گیا تو یہ سات مختلف حصوں میں تھا۔

اسلام کے انسائیکلوپیڈیا میں ایک دلچسپ سوال کیا گیا : کیا قرامتیوں نے جان بوجھ کر اس سفید پتھر کو اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے سات عدد میں تقسیم کیا کہ دورِحاضر میں سات امام ہو گئے؟ (۶)یہ دلیل ظاہر کرتی ہے کہ ایک عرصہ سے وہ اسلامی بھیس میں ایک روحانی فرقہ ہے جو اپنے آپ کو خود ہی لوٹتا ہے مزید برآں وہ سات اماموں کے عقیدے پر بھی یقین رکھتے تھے اور سات اراکین پر بھی ۔ (۷) ایک اور عقیدے کے مطابق قرامتیوں نے اس کو ایمان سے ہندسہ ایمانی بناتے ہوئے سات آسمانوں کا اسلامی آخرت کا عقیدہ بنا دیا۔ (۸)گردنِ باعئم کے مطابق ، محمدی تہواروں میں ۱۹۳۲ میں ایک افذضانی زائر نے اس کا ایک اور حصہ توڑ دیا اور بادشاہ ابنِ صعود کے دور میں فوراً اس حصے کو دوبارہ جوڑا گیا (۹)

        ستمبر ۱۸۵۳ عیسوی میں مشہور دریافت کا ، کیپٹن رچرڈ برٹن نے اپنا بھیس بدل کر دس منٹ تک حجرہ اسود کے پاس رہا۔ اُس کی اپنی کتاب ، ‘‘المدینہ اور المکہ کا زاتی مقامی دورہ ’’ وہ لکھتے ہیں اور مندرجہ ذیل گہرے مشاہدے کو بیان کرتے ہیں۔

     میں نے گہرائی میں اس کا مشاہدہ کیا ہے اور ذاتی طور پہ اس بات کے لیے قائل ہوں کہ یہ ایک چٹانی شہاب ثاقب کا حصہ تھا اور تقریباً تمام تر مسافر اس ایک نقطے پر متفق ہیں کہ یہ ایک آتش فشانی پتھر ہے علیبے اس کو معدنیاتی طور پر ایک آتش فشانی پہاڑ کا حصہ کہتے ہیں کجو کہ شفاف طور پر چمکتا ہے اور اس کے سیاہ پس منظر کے سبب سے اس کی ٹائلیں سُرخی مائل لگتی ہیں ۔ ایک ویلویٹ کی طرح ماسوائے اس کے ایک حصہ کے جو کہ سُرخ ہے برکھادت اس کے بارے میں سوچتے تھے کہ یہ ایک سفیدی مائل اور پیلے مواد سے بنا ہوا پتھر ہے (۱۰) برتن اس کے بارے میں ایک اور خلاصے کو بیان کرتے ہوئے جاری رکھتے ہیں :

کہ میرے نزدیک یہ عام شہاب ثاقب کا ایک پتھر ہے جس پر ایک موٹی چادر ہے یہ چمکیلی اور پالش کی ہوئی نظر آتی ہے ممبی کے ڈاکٹر ولس نے مجھے اس کی ملکیت کے بارے میں ایک خاص بات بتائی جس سے مجھے پتہ چلا کہ یہ سیاہ ہے اور اندر سے چمکیلا اور چمکتا ہوا سرمئی سفید اور یہ نِکل کے لوہے میں ملانے کے نتیجے میں نظر آتا ہے ۔ (۱۱)

بہت سارے جدید بیانات کا اضافہ اس حجرہ اسود میں شامل کیا گیا۔ گردانِ باوئم ۱۹۵۱ سے اس کے لیے ایک روایتی تجزیہ پیش کرتے ہیں :

حجرہ اسود مختلف طرح سے ایک لاوے اور شہاب ثاقب کے ٹکڑے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اصل میں یہ ایک گہرے سُرخی مائل بھورا رنگ ہے اور مشرقی کونے میں تعمیر ہوا اور تقریباً زمین سے ۵ فٹ اُوپر ہے اب یہ تین بڑے اور سات چھوٹے حصوں کو اکٹھا کرکے سلور بینڈ سے باندھا گیا ہے اس کا ڈایا میٹر تقریباً ۱۲ انچ ہے ۔ (۱۲)

   اسلام کا انسائیکلو پیڈیا اس کے بارے میں مزید بیان کرتا ہے:

   یہ پتھر کعبہ کے جنوب مشرقی حصے میں ہے جو کہ تقریباً ۵۰ ۔۱ گز یا میٹر زمین سے اُوپر ہے یہ سیاہ رنگ کا ہے اور سُرخی مائل ہے اور اس کے حصے زرد ہیں جو کہ تقریباً ۱۱ انچ ۲۸ سینٹی میٹر چوڑے اور ۱۵ انچ اور ۳۸ سینٹی میٹر اُونچے ہیں اور ایک سلور میں باندھے گئے ہیں (۱۳)

   یہ خاص گواہی دمشقی جون کی تائید کرتی ہے کیونکہ اُس نے اس کی شکل اور روایتی سائز کی مشاہبت مادہ پرست دیوی استعارات کے مجسمے کی طرح بتائی تھی ۔ میرثیا الائیڈ نے مذہبی انسائیکلو پیڈیا میں بیان کیا ہے :

کعبہ کی ایک اہم ترین چیز اس کی بیرونی طرف واقع مقام ہے یہ حجرہ اسود ہے جو کہ اس کے مشرقی کونے میں واقع ہے ۔ حقیقت میں گہرے سُرخ بھورے رنگ کا یہ پتھر، اب ایک کیثف چاندی رنگ کے بُکس میں ہے، اس سیاہ رنگ کے پتھر کی ابتداء کے بارے معلوم نہیں ممکن ہے یہ شہاب ثاقب سے ہوا (۱۴)

    یہ تمام تینوں جدید بیانات جو بیان کیے گئے ایک طرح کے ہیں۔ اس کے باوجود ، اس پتھر کی حقیقی سائنسی ابتداء کے بارے میں شک باقی ہے۔ کیا یہ ابتدائی سیلکون گلاس کے پھسلے ہوئے نکل اور لوہے لوہے سے بنا ہوا ہے جو ایک شہاب  ثاقب سے ٹوٹے ہوئے ستارے سے نکلا؟ ہو سکتا کہ ماہر جغرافیائی ٹیم ایک مکمل تفتیش کے ذریعے اس بھید کو حل کر سکے ۔ کیا اس بات کی کوئی سائنسی وضاحت ہے کہ کیوں یہ پتھر سفید سے سیاہ ہوا؟ یا ہو سکتا ہے کہ وہ اصلی سفید پتھر جس کی محمد تعظیم کرتا تھا وہ قرامتیوں نے چُرا لیا اور اُس کی جگہ موجود حجرہ اسود رکھ دیا ہو ۔مسللمان آج بھی بحث کرتے ہیں کہ پتھر سیاہ کیوں ہوا پتھر کے محصور کیے جانے میں کیا راز ہے؟ کیوں پتھر کا ایک چھوٹا حصہ ہی عوام پر ظاہر کیا جاتا ہے؟ کیا سیاہ پتھر میں سوراخ ماضی کی کسی جنسی زرخیزی کے ایمانی کام کو ظاہر کرتا ہے؟ یہ بھید توہم پرستی اور رازداری کے سبب چُھپے رہے۔

حجرہ اسود ہی صرف وہ پتھر نہیں تھا جس کو کعبہ میں قابلِ تعظیم سمجھا جاتا تھا۔ ٹھیک اُس کے عین سامنے کے کونے میں اور نیچے والی جگہ پر ، ایک اور سُرخی مائل پتھر جس کو ‘‘سہولت کا پتھر’’ (حجرہ سعادہ ) کہا جاتا تھا رکھا ہوا ہے ۔(۱۵) ایک اور پتھر بھی تھا جس کو

‘‘ اسٹیشن’’ یا ابرہام کے ‘‘کھڑے ہونے کی جگہ’’ کہا جاتا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر معجزاتی طور پر اس کے پاؤں کے نشانات محفوظ ہیں۔ آخر میں ، کعبہ کے اندر تعظیم کا دوغلا کردار ہے جس طرح کہ ایلیڈ نے کہا:

حجر اسود اور دروازے کی بیرونی دیوار مُلتزان کے درمیان دوغلا کردار ہے جہاں پوجا کرنے والے اپنے بدن جُھکاتے تھے۔: براقا (برکت، قوت ) وصول کرنے کے لیے ۔ یہ پاک مکان کے ساتھ منسلک ہے۔(۱۶)

حجرہ اسود اور دوسری اسی طرح کی چیزوں کی تعظیم خُداؤں کی طرح کی جاتی تھی یہ تمام اسلام سے پہلے کے پتھر پاک پتھر کہلاتے تھے: لیکن حجرہ اسود کو کعبہ میں سب سے زیادہ تعظیم دی جاتی تھی۔

حجرہ اسود کی روایات

آدم سے لیکر طوفانِ نوح تک

   حجرہ اسود کی کہانی آدم کے جنت سے زمین تک اخراج سے شروع ہوئی۔ اس نے اپنے آپ کو بُدھا کی پہاڑی پر جو انڈیا میں واقع ہے پایا۔ روایات کے مطابق آدم نوے فٹ لمبا تھا ۔(۱۷) اس کے سر پر ستاروں کا ایک گلدستہ رکھا گیا تھا، جو کہ تقریباً آسمانوں تک ہی پہنچتا تھا جہاں سے وہ آیا تھا ۔(۱۸) وہ پہاڑ پر اس کوشش کے لیے کھڑا تھا کہ فرشتوں کو گاتے ہوئے سُنے۔ شام کے دوران ، فرشتے دیومیکر آدم سے ڈر جاتے تھے اور خُدا سے دُعا کرتے تھے کہ اُسے وہاں سے ہٹا دے۔ خُداوند نے اُن کی دُعاؤں کا جواب اس طرح دیا کہ آدم کا سائز زمین پر دوسرے رہنے والے جانوروں کی طرح کر دیا۔

    اس کے سائز کے کم ہونے کے نتیجے میں ، آدم مزید فرشتوں کے گیتوں کو نہیں سُنتا تھا اور اُس نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس بات سے وہ کس طرح قدر غمزدہ تھا۔ خُدا نے اس کو جواب دیا: ‘‘ اے آدم  ’’، تو ہمیشہ جفاکشی کرے گا، ‘‘ لیکن تو مجھ سے ملے گا ’’ (قرآن۸۴ : ۶ ) تب خُدا نے آدم کو ترغیب دی کہ اس کے ‘‘ الہی تخت’’ (حجرہ اسود ) کی زمیین پر تلاش کریں اس روایت سے یوں معلوم ہوا کہ اللہ کے مقام یا تجسیم کا نچوڑ حجرہ اسود میں ہے، خُدا صرف اسی میں بستا ہے یا اُس کا تخت اس پر لگا ہوا ہے۔ پھر آدم نے خُدا کے اس سُپرد کیے گئے اختیار کی پیروی کی اور جنوب مغرب میں جودی کے پہاڑ، جو کہ مسمانوں کے نزدیک اراراط کے پہاڑ کے مساوی ہے سفر کیا۔ جنوب میں سفر کرتے ہوئے، لُبنان کا پہاڑ اور اُولیوز کے پہاڑ سے سینا کے پہاڑ اور سُرخ ساحل سمندر تک سفر کیا ، پھر وہ حجاز کی خُشک وادی میں داخل ہوا ، ایک ایسی جگہ جو پہاڑوں سے بھرا ہوا تھا اور یہ پہاڑ چمکدار کالی چٹانوں سے بھرے تھے۔ فوراً اس نے محسوس کیا یہ جگہ ‘‘ زمین کی ناف ’’ ہے ‘‘ خُدا کے تخت کا مرکز ’’ ۔(۱۹)

   اس ریگستانی وادی میں ایک ہلکی بلندی پر، ایک تنبو یا چھتر کھڑا ہے جو کہ چار چھتریوں کے ستونوں کی طرح ہے اور اس پر ایک اوبی کی طرح کی ایک چھت ہے ۔الزبتھ الیک اور ہال الیک اپنی کتاب ، ‘‘ مکہ دی بلسڈ مدینہ دی ریڈینیٹ ’’ میں ، اس بیان کو جاری رکھتے ہیں :

        چھتر کے نیچے ، یہ اس قدر چمک دمک کے ساتھ ہے کہ یہ پوری وادی کو روشن کر رہی ہے۔ ایک سفید پتھر بعل کی طرح نیچے ہے جو کہ آدم کی روح کی علامت ہے۔ آدم اپنی ہی روح کی علامت پر چلتا رہا، اور پھر اُن پتھروں کے ساتھ جو جیرا کے پہاڑ سے لائے گئے، اُس نے کوشش کی زمین کو ہمیشہ کے لیے اپنی مضبوط کاریگری سے اس کی دیواروں میں باز رکھ لے۔(۲۰)

   یہ خاص رویت واضح طور پر بیان ہے کہ آدم نے زمین پر حجرہ اسود ڈھونڈ لیا ۔مسلمان تاریخ دان طبری کی روایت سے ۔(۸۳۹ سے ۹۲۳ صدی عیسوی ) وہ دعویٰ کرتا تھا کہ آدم جو حجرہ اسود لایا تھا وہ اپنی اصلی حالت میں وہ برف سے زیادہ سفید تھا ’’ (۲۱) مزید برآں ، وہ اپنے ساتھ موسیٰ کی چیزیں مُر اور لوبان بھی اُٹھائے ہوئے ہے ۔ تمام روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ صرف ایک پتھر پر زور نہیں دیتا بلکہ جنت کے ایک ‘‘ ہیرے یاقوت (روبی)’’ پر بھی زور دیتا ہے۔ (۲۲) آدم نے اُس ہیرے کو اپنے آنسو پونچھنے کے لیے استعمال کیا کیونکہ جنت کو چھوڑنے کے بعد اُس کے آنسو وہ ہزار سال تک نہ رُکے جب وہ جنت میں واپس نہیں گیا، جہاں ابلیس یعنی شیطان اُسے مزید پریشان نہ کر سکا ۔(۲۳) یہ بھی کہا گیا کہ آدم نے سفید پتھر کو مکہ کے نزدیک کیوبے کے پہاڑ پر بھی رکھا؛ اندھیری راتوں میں ، اُس نے آسمانوں کو روشن کر دیا جیسے چاند روتوں کو روشن کرتا ہے (۲۴) ایک لمبی زندگی کے بعد ، آدم مکہ میں فوت ہو گیا۔ اس کے بیٹے سیت نے اُسے ابو کیوبے کی غار کے نیچے دفن کیا۔ پھر شاندار پتھر اس چھتر سے لیا گیا اور آدم کی قبر پر رکھا گیا۔

طوفان کے دوران

نوح کے  دوران، پتھر ڈوب گیا اور آدم کی لاش پانی کی سطح پر تیرتی رہی جبکہ کشتی اپنے ارادے پر چلتی رہی تھی اور اس نے ڈوبے ہوئے پتھر پر سات چکر لگائے (۲۵) اس موقع پر، یہ شمال کی طرف سفر کیا اور آخر کار جودی کے پہاڑ پر رُکا۔ ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ کیسے کشتی نے مکہ اور مدینہ کے مقدس شہر کے گرد ایک ہفتے کے لیے چکر لگایا ۔ اس وقت کے دوران، وہ گھر جو آدم نے بنایا تھا جو پتھر کے ساتھ تھا کیوبے کے پہاڑ پر اُٹھایا گیا اس لیے وہ نہیں ڈوبا یہاں تک کہ اس پس منظر میں بھی، پتھر کسی حد تک ڈوبا، جبکہ اس حقیقت کی وجہ سے اس طرح کی کہانی کہ پانی کو کہا گیا کہ بلند ہو یہ ۱۵ ہاتھ زمین کی سطح سے بلند ترین پہاڑ پر بلند ہوا (۲۶)

ابرہام کے وقت میں

ایلک اور ایلک روایتی ایمان کے خلاصے کو شاندار طریقے سے پیش کرتے ہیں کہ کیسے ابرہام نے ابتدائی کعبہ کی جگہ کو دریافت کیا ۔

   جب اسماعیل واپس آیا، ابرہام نے بڑی سمجھ کے لیے اپنے بیٹے کی مدد لی : خُدا کے گھر کو بنانے کے لیے ۔ایک مشتعل ہوا ایک ٹیلے کے گرد چلی اور ایک بادل جس کی شکل ۲ سِروں والے اژدہے کی طرح تھی۔ ابرہام اور اسماعیل نے زمین کو کھودا اور ریت کے نیچے اُنہوں نے آدم کی قبر کے ابتدائی آثار پائے۔ ایک پتھر جس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے : ‘‘ میں باکا (مکہ کی وادی) کا خُدا ہوں ۔ اور میں نے ترس اور محبت کو اپنے دو ناموں کے طور پر خلق کیا ہے’’۔ (۲۷)

   اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ الوہیت جس کا اُوپر ذکر ہوا ہے وہ محض ایک علاقے کے ‘‘ اعلیٰ دیوتا ’’ کی ہے اور اس کا تعلق عبرانیوں کے قادرِ مطلق خُدا سے نہیں ، جس کا ذکر آگے مزید چوتھے باب میں کیا جائے گا۔

   اس رُکی ہوئی تعمیر میں اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ مشرقی کونے کے لیے اُنھیں ایک منفرد پتھر کی ضرورت ہے جس کے سبب سے پوجا کرنے والا جانے کہ اُس جگہ کا طواف یہاں سے شروع کیا جائے۔ اس طرح سے اس درخواست پر ایسا پتھر لانے کے لیے اسماعیل نے معجزاتی طور پر ابو کیوبے کی پہاڑی سے یہ مقدس قیمتی پتھر لایا جو کہ آدم کی موت کے وقت سے وہاں دفن تھا۔ ‘‘ اس آسمانی پتھر کی روشنی سے ایک بار پھر مکہ کا سارا علاقہ روشن ہو گیا۔ ’’(۲۸)

        یہاں اس آسمانی پتھر کے بارے میں کہ وہ کس طرح سے ابرہام کے پاس لایا گیا دو روایتں ہیں ایک جو اس نظریے کو پیش کرتی ہے کہ کیسے جبرائیل فرشتہ آسمان سے اس پتھر کو لایا ، ایک دوسری کہانی اس بات کو بتاتی ہے کہ کیسے یہ پتھر ابو کیوبے سے لایا گیا یہ دونوں عقائد اسلامی زبانی کہانیوں میں ملتے جُلتے ہیں ۔

        ابتدائی ایک قریب مشرقی مفکر ایف ۔ ای پیٹرز نے اپنی کتاب یہودیت ، مسیحیت اور اسلام میں : شاندار پیرائے اور اُنکی تشریح بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ سپینی صوفی ماسٹر یون العربی سے مشابہ ہے ( ۱۲۴۰ سی۔ ای ) :

  یہ کہا جاتا ہے کہ ابو کیوبے کا پہاڑ زور دار طریقے سے ہلا اور اس سے حجرہ اسود ٹوٹا اور اُس وقت یہ سفید نیلم تھا اور جبرائیل اس کو ایک باغ میں سے لایا اور اس میں چھپا دیا اور یہ طوفان کے وقت سے ابرہام کے دور تک ابو کیوبے کی پہاڑی میں چھپا دیا گیا (۲۹)

کیوں یہ پتھر سیاہ ہو گیا؟

پتھر کے رنگ میں تبدیلی کی بہت ساری وجوہات وضاحت کے لیے بیان کی جاتی ہے۔ بہت عام تاثر یہ ہے کہ یہ ‘‘حیض میں مبتلا عورت کے چُھو جانے کی وجہ سے ہوا’(۳۰)پیٹرز نے اس کی تصدیق کی کہ یہ صوفی ابن العربی نے بیان کیا ہے۔

    حجرہ اسود اس رُوح کے بارے بیان کرتا ہے یہ ایک حیض میں مبتلا عورت کے چھُونے سے سیاہ ہو گیا  (۳۱) ایک دوسری مختلف روایات بیان کرتی ہے، یہ ایک حیض میں مبتلا عورت کے چھونے اور گندے لوگوں کے اس کے اُوپر چڑھنے اور اس کو رگڈنے کے سبب سے سیاہ ہو گیا (۳۲)

           ایک تیسری تشریح کی اُس بات پر ہے کہ یہ تبدیلی انسان کی اس کائنات میں ذات کے سبب ہے ۔نتیجتاً، اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ یہ پتھر انسانوں کے گناہوں کے سبب سے سیاہ ہوا(۳۳) ایک اور مختلف خیال ہمیں سکھاتا ہے کہ اس پتھر کے سیاہ ہونے کا مطلب ہے کہ اس کے اُوپر روشنی نہیں ہے اور یہ ایک مکمل علامت ہے ‘‘ خُدا کے لیے روحانی طور پر غربت کی (فقر) ۔۔۔ اور خُدا کا خالی ہوجانا ’’۔ (۳۴) یا ضروری ہے کہ اپنی ذات کو مارنا ۔ یہ روایت صوفی ازم یا بُت مت کے ذرائع سے آئی ہے

مادہ پرستی کی روایات

یہ روایات بعد میں اسلام کے ابتدائی سالوں میں عقائد اور کہانیوں کی بنیاد پر ڈھانپ دی گئی قرآن اور حدیث ان کہانیوں کے بارے میں بہت کم بتاتا ہے اگرچہ ان روایتوں نے نسل در نسل اسلامی ایمان کی زبانی تعلیمات کے بارے میں اہم کردار ادا کیا شاہد یہ بہت زیادہ واضع تفسیروں سے جیسا کہ اس پتھر کی پوجا کے بارے میں مادہ پرستوں کی ہے اُس سے بچنے کے لیے ایجاد کیا گیا ۔

    ابنِ صاد یہ ایمان رکھتے ہیں کہ سفید پتھر ابو کیوبے کی پہاڑی سے محمد کی پہلی وحی سے چار سال پہلے نیچے لایا گیا ۔ ایک اور گواہی جو الفقہی سے آئی اس کے مطابق یہ قریش کے قبیلے کی مکہ کی پہلی دوبارہ تعمیر کے وقت آیا، ‘‘ ممکنہ طور پر کیوبے کے وقت ’’(۳۵)

     یہ بات بالکل واضح لگتی ہے کہ حجرہ اسود کعبہ کی دوبارہ تعمیر میں مادہ پرستوں نے شامل کیا پیٹرز نے بیان دیا:

    مکہ کے متبرک مقامی بتوں کا اکھٹے کیا جانا قریش کے پہلے حاکم امر ابن لوہے کے دور میں ہوا اور جہاں تک ابوکیوبے کے مذہبی دیوتاؤں کا حصہ تھا (۳۶)

       ان مادہ پرست ابتدائی لوگوں کی ابتداء بھی جغرافیہ دانوں اور تاریخ دانوں نے رقم کی اور آنے والے ابواب میں اس کے بارے میں بھی بات ہو گی۔ اس کے مقابلے میں عقائدی بیانات میں قرآن حدیث یا سیکلر ذرائع کے بیانات نہیں ہیں یہ محض پرانی روایات ہیں ۔

محمد کی الوداعی زیارت

مکہ سے ایک لمبی غیر حاضری کے بعد محمد مقدس شہر میں اپنے آخری حج کے لیے آیا ابن عباس میں حدیث کے مطابق بیان ہے، ‘‘مشرکوں کےایک گروپ نےاس خبر کو پھیلا دیا کہ لوگوں کا ایک گروہ اُن کی طرف آرہا ہے اور وہ یثرب کے بخار سے کمزور پڑ گئے ’’(۳۷)  ان حالات میں ، نبی نے اپنے ساتھیوں کو حکم کیا کہ ایسا ہی کریں جیسا اُس نے کیا اُس نے سب سے پہلے کعبہ کے کونے کا بوسہ لیا جہاں پہ حجرہ اسود نصب تھا اور پھر اُس حصے کے پہلے تین چکر لگائے اس بات کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہ وہ سفر سے کمزور یا بیمار نہیں ہیں پھر اُنھوں نے اپنے چکروں کا عمل چار طوافوں سے جاری رکھا (۳۸)

       شہادتاً عبداللہ بن امر کی حدیث کے مطابق محمد نے ہمیشہ اسی طریقے سے حج اور عمرہ دونوں کے لیے چکر لگانے کی مشق کی محمد نے صفا اور ماروا کی پہاڑیوں کے درمیان بھی طواف کیا (۳۹) یہ دونوں روایات مکہ کے اندر اسلام سے پہلے بھی کی جاتی تھیں اور یہ شدت پسند مادہ پرست کرتے تھے بعض دفعہ محمد اُونٹ کی سواری کی روایت کے مطابق بھی اسے ادا کرتے تھے ہر دفعہ ہی وہ حجرہ اسود کے کونے کو عبور کرتے وہ اس کی طرف جُھکے ہوئے سر سے اشارہ کرتے اور فرماتے تھے : ‘‘اللہ اکبر ’’ (۴۰) اُن کی چھڑی کے استعمال کا اشارہ یہ بھی بیان کرتا کہ اُس نے کعبہ میں ۳۶۰ بتوں کو برباد کر دیا ہے ۔ محمد کھڑا ہوا اور اُن کی طرف اسی چھڑی سے اشارہ کیا اور کہا ‘‘ سچ آ چکا ہے اور جھوٹ جا چُکا ہے ’’ (قرآن ۸۸ : ۱۷ )

  پھر اُنھوں نے اُن کو ایک ایک کرکے برباد کر دیا (۴۱) یہ پتھر کے بُت واضح طور پر اس بدعت کو پیش کرتے تھے کہ سال کے ہر دن کے لیے ایک دیوتا کو شامل کیا جائے۔

      محمد کے ایک قریب ترین ساتھی عمر بن الخطاب نے بوسہ لے کر اور چُھو کر حجرہ اسود کا بغور جائزہ لیا اور چونک گیا  ابیث بن رابعہ اپنی حدیث میں عمر بن خطاب کی اس بات کو زناکاری کی ایک شکل کے طور پر بیان کرتے ہیں : بے شک میں جانتا ہوں کہ تم ایک پتھر ہو نہ ہی کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی کوئی نقصان ۔ کیا میں نے اللہ کے رُسول کو چومتے ہوئے نہیں دیککھا میں تمہیں نہیں چوموں گا۔ (۴۲)

        محمد کے کُچھ قریب ترین ساتھیوں نے اُس کی بہت ساری رسُومات کے متبادل رسومات ظاہر کی اس حقیقت کے باوجود اُنھوں نے محض فرمانبرداری کی اور اختیار کو اپنے پیارے نبی کے لیے ملتوی کر دیا۔ محمد محض مادہ پرستی کی تمام تر باتوں سے بچ نکلا محض ایک نیا عقیدہ ایجاد کرکے مثال کے طور پہ اُس نے اعلان کیا کہ خُدا نے مسلمانوں کو حج اور جہاد دیا ہے تاکہ وہ کافروں سے لڑیں۔(۴۳)

حجرہ اسود کی زیارتیں

آرتھوڈیکس عمل

  پرانی مشق حجرہ اسود کے لیے روایتی مشق کے معاملے میں یہ بہت سارے حصے کی روایت تھی جو کہ محمد کے وقت سے لا تبدیل ہو گی جب بھی اس کے قریب سے گزر جاتا تو پتھر کو بوسہ دیا جاتا لیکن اگر اجتماع کے باعث نا ممکن ہوتا تو اسے ہاتھ سے چُھو لیا جاتا تھا یہ چُھونا چہرے کے لیے بدل گیا ’’۔ (۴۴) جیسے کہ پہلے بھی بیان کیا گیا کہ اس کے مدِ مقابِل ایک دوسرا پتھر ‘‘ یمنی کونے ’’ پر رکھا گیا جس کو ‘‘ بڑی خوشی کا پتھر ’’ کہا جاتا تھا پھر بھی یہ پتھر محض چُھونے کے لیے تھا اور اُس کا بوسہ نہیں لیا جاتا تھا اور یہ بات اس چیز ی علامت تھی کہ حجرہ اسود زیادہ برتری رکھتا ہے ۔

بدووں کے خلاف ِمعمول کام

  مادہ پرستوں کے کھلے حج کو مکمل طور پر نابود کر دیا گیا بہت سارے بدووں پجاری اسلام سے پہلے کی رسومات کو حج کے ذریعے ادا کرتے رہے مندرجہ ذیل بیان ان عجیب روایات کو تفصیل سے بیان کرتا ہے ۔

  ابنِ جبار نامی ایک مسافر نے گیارہ سو بیاسی سی ۔ ای کی ایک تحریری تاریخی حج رپورٹ کو مہیا کیا اس اُمید پر کہ وہ اپنی روحانی ضروریات کو پورا کریں گئے ہزاروں یمنی مکہ میں حج کی رسم ادا کرنے کے لیے آئے یہ بدو پختہ یقین رکھتے تھے کہ اُن کے ملک کی زرخیزی کا انحصار براکا ( برکت کی قوت پر ہے جو کعبہ اور حجرہ اسود سے لے جائیں گئے۔ نتیجتاًوہ اللہ کے لیےایک منافع بخش تاجر بنے (۴۵) ابن جبار نے بیان کیا:

     جب اُنھوں نے مقدس کعبہ کا طواف کیا اُنھوں نے اپنے آپ کو بچوں کی طرح ایک اچھی ماں کے سامنے گرا دیا وہ اُس کی قُربت میں پناہ ڈھونڈتے تھے۔ اُنھوں نے اس کے پردوں سے خُود کو جُوڑا اور اپنے ہوتھوں کو اس سے پیوست کیا اور اُنھوں نے اُس کو حاضر و ناظر جان کر آنسووں کے ساتھ نمازیں ادا کیں لیکن جتنی جیسے ہی وہ قصبے میں پہنچے تو اُن کے درمیان کوئی بھی اس قابل نہ تھا کہ حجرہ اسود کا طواف کر سکتا یا اُسے چھو سکتا۔ اُن میں سے ۳۰ یا ۴۰ اتنی سختی کے ساتھ جکڑے گئے جیسے زنجیروں کے ساتھ اور جب وہ کعبہ کے دروازے پر پہنچے تو یہ زنجیر ایک ٹھوکر کھانے کے ساتھ ٹُوٹ گئی۔ (۴۶)

      تقریباً ۷۰۰ سالوں کے بعد ۱۹۰۹ میں ایک اور مُشاہد جس کا نام بیتِنونی تھا وہ بدووں کی اس رسم کے بارے میں مزید بیان کرتا ہے:

     بدووں کی عورتیں آدمیوں کی پشتوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتی اور جب وہ حجرہ اسود تک پہنچتے تو وہ سب اس کو چھوتے اور اُس کا بوسہ لیتے تھے ۔ خاوند بیوی کا پتھر کے پیچھے سر ہلاتا تھا اور اس طرح سے ظاہری طور پر اُس کا حج ہو جاتا تھا اور اسی وقت میں وہ اُس کے لیے روتا بھی تھا : ‘‘ کیا تم نے حج کر لیا ہے اوہ حجا ؟ ’’ وہ جواب دیتی تھی : ‘‘ ہاں میں نے کر لیا ہا میں نے کر لیا ’’۔ پھر وہ حجرہ اسود تک واپس آتی اور یہ کہتی ‘‘ میں نے حج ادا کر لیا ہے وہ اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھاتی اور یہ کہنا جاری رکھتی کہ تم مجھے قبول کرو یہ نہ کرو میں نے حج ادا کر لیا ہے وہ اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھاتی اور یہ کہنا جاری رکھتی کہ تم مجھے قبول کرو یا نہ کرو میں نے حج کر لیا اگر تم نے مجھے قبول نہیں کیا تو تم مجھے قبول کو مجھے قبول کرنا ہو گا (۴۷)

 جہاں تک حجرہ اسود کا تعلق ہے جو کہ اکثر شادمانی کا پتھر یعنی (الحجر الصاد ) کا تعلق ہے یہ دونوں پرانی مشق اور بدووں کی رسومات سے اپنی جڑوں کو ملاتے ہیں جو کہ عرب میں اسلام سے پہلے تھیں،

اگلا باب ابتدائی پتھر کی بدعتوں کی تفتیش تعلق رکھتا ہے جو کہ سارے ابتدائی عرب میں واقع تھے یہ مطالعہ اسلامی حج کی جڑوں کو سمجھنے کے لیے زبردست ہے۔

باب ۲

اسلام سے پہلے کی متبرک پتھروں کی بدعتیں

ابتدائی دنیا کے پتھر

صرف اسلام سے پہلے عرب والے وہ لوگ نہیں تھے جہنوں نے پتھروں کی پوجا کی ۔ اس بات کی وافر شہادت پُر اثر تشبہیات کے ساتھ ملتی ہے کہ ابتدائی دنیا اور عرب کی رسومات کے درمیان پتھروں کی پوجا کی بدعتیں موجود تھیں ۔ یہاں تک اسلام کے اندر بُتوں کی پرستش یا تعظیم کرنے کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں تھوڑا سا ذہن ہر روز دے کر کوئی بھی اس مذہب سے بے شمار مثالیں دے سکتا اور اس طرح کی باتوں کا تقابلی جائزہ لے سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل حصہ پتھروں کی پرستش کی بدعتوں کا بین الاقوامی تصور پیش کرے گا۔

مقدس پتھروں کی تعریفیں

مقدس پتھروں کی تعلیم تمام دنیا میں انسان کی پیدائش ہی سے کی جاتی رہی ہے ۔ وہ قربانیوں، جادوئی تصورات اور الہیات کا کاروبار کرتا رہا خاص قسم کے پتھر تھے ۔

  جو انسان نے اپنی خاص رسومات کے لیے بنائے یا کھڑے کیے یہ یادگاروں کے طور پر ستونوں یا قطاروں کے طور پر کھڑے کئے گئے، اور کائناتی آغاز سے ہی ان کو مختلف نام دیئے گئے۔ ایلیڈ نے اس قسم کے پتھروں کے بار میں بیان کیا۔

استادہ، ماقبل تاریخ کے دور کا پتھر (یہ لمبے، سیدھے کھڑے رہنے والے یادگار پتھر تھے ) ماقبل تاریخ کا سیدھے نصب کیئے۔ پتھروں کا دائرہ (کھڑے پتھروں کا دائرہ): کلاں سنگی دور کی قبر جس میں دو عمومی پتھروں پر ایک لیٹواں پتھر ٹکا ہوا ہوتا ہے ( یہ میز کی طرح یا لمبا پتھر، جو سیدھا لیٹا ہوا فقی پتھروں کا سلسلہ تھا ) اور پتھروں کے ٹیلے ( پتھروں کے ڈھیر ) (۱)

مزیدبرآں، خاص شکل یا خصوصیات کے ساتھ، قدرتی چٹانوں کو مقدس اہمیت کے نام دئیے گئے۔ جو چھوٹے طرح کے پتھر ہوتے اُنہیں گھر میں بدعت کے نشانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور ان کو جادوئی حفاظت کے طور پر جسم پر اُٹھایا یا باندھا جاتا تھا۔ وہ پتھر جو اتنے چھوٹے ہوتے کہ اُن کو کوئی بھی شخص ہر روز اُٹھا سکتا وہ تعویذوں کے طور پر استعمال کئے جاتے (۲)

   اور مزید خاص طور پر؛ اُن کو ستاروں سے ، شہابِ ثاقب سے گرے ہوئے پتھر جان کر اکثر یہ ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ بھلائی یا بُرائی کے لیے آسمانوں سے آئے ہیں۔( ۳ ) یہ مکاشفاتی پتھر تھے جو گرج کے ساتھ زمین پر گرائے گئے تھے۔ اس بات پر ایمان رکھا جاتا تھا کہ نرسنگے کی آواز سے پانی پر تیر سکتے تھے یا جیسے ہی بُرے اعمال کا نام پُکارا جاتا تو یہ زمین کے نیچے ڈوب جاتے تھے۔ مزید برآں، کُچھ لوگ یہ بھی تصور کرتے تھے کہ یہ پتھر خاص الوہیت کے سبب سے وجود میں آئے ہیں، اس لیے ان کو مزاروں کے طور پر ہیکلوں میں یا عزت و احترام کی جگہوں میں جس جگہ یہ دریافت ہوئے رکھا جانا چاہیے (۴)

شمالی اور جنوبی امریکی انڈین کے پتھر

مقدس پتھروں اور چٹانوں کی امریکی انڈیا کے لوگوں نے اپنی رُوحِ جان کے ساتھ بہت زیادہ عزت کی۔ جنوبی امریکی انڈیا کی ابتدائی سے ایکوڈور کے فرعوں نے جوالا مُکھی کے لیے انسانی قربانیاں چڑھائیں اور انڈس کے پتھر کے ہندوستانیوں نے اس پتھر کی عام پوجا کی ( ۵ ) آئرلینڈ کی جھیل ٹی ٹی کا جو یولیونیا۔ پیرو میں ہے دیا پتھر کے دیوتا دریافت ہوئے۔ اس جگہ پر ہندوستانی لوگوں نے سورج کے مندر میں سیاہ پتھر کی پوجا کی ۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اور یگانو جو انسانوں کی دیوی ماں ہے، وہ آئی اور سیارے وینس سے اپنے ساتھ پتھر لائی (۶) مزید برآں، واریو جو اورنیوکو کی بڑی طاقت تھا 🙁 ۷ )اس کی بطور ایک پتھر پرستش کی جاتی تھی۔

   اسی طرح، شمالی امریکی ہندوستانیوں نے پتھروں کی پوجا کی مشق کی اور ایلیڈ بیان کرتا ہے:

   ڈکوٹا نے پُرانے پتھروں کو سجایا اور رنگ کیا اور اُن کے لیے دُعا کی اور اُن کے لیے کُتوں کی قُربانیاں چڑھائیں۔ شمالی امریکا کے بڑے انڈین قبائل نے کینڈا کی مِسانی جھیل کے پانیوں کو عبور کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ وہ تصور کرتے تھے کہ اس میں حقیقتاً روحیں آباد ہیں۔ جنوب کی جانب بھی، امریکہ میں یہ یقین رکھا جاتا ہے کہ دیوتا وہاں شخصی طور پر سکونت کرتے ہیں جو پتھروں کی شکل میں ہیں ‘‘ ٹیکساس کیوا میں چھوٹے پتھر کے دیوتا تھے جن کی عبادت وہ سورج کے ناچ کے دوران کرتے تھے۔ نیو میکسکو ٹاؤ میں ایک مقدس پہاڑ جس کا نام ‘‘ پتھر آدم ’’ تھا اس کے قدموں میں تعظیم کی جاتی تھی جو دو جنگ کے دیوتاؤں کو پیش کرتا تھا۔ امریکن انڈیا بستی پبلو میں لوگ ایمان رکھتے تھے کہ شکاریوں کی خوش بختی کا انحصار اُن پتھروں کی ملکیت کے سبب سے بنے جو متجسس شکل کے ہیں ( ۸ ) امریکی انڈین پتھروں کی بدعتیں جو اس پہرایہ میں بیان کی گئیں ہیں ٹھیک اسلام سے پہلے کے پتھروں کی پوجا کی روایات کی مثال پیش کرتی تھیں۔

ابتدائی یونان اور ایشیا مائز کے پتھر

مزید برآں انڈین پتھروں کی بدعتیں ، یونانیوں اور وہ مزید بدعتیں جو مشرک میں تھیں اُن کی بھی روایات موجود ہیں۔ ان پتھر کی بدعتوں کی چند مثالیں مندرجہ ذیل عبارت میں تصدیق کے لیے پیش ہیں۔

رومیوں کا اِنسیلیا

      یہ مادہ شہابِ ثاقب کے لوہے کا مواد تھا جو تقریباً ۷۰۰ بی۔ سی ۔ ای نُوما پمفلیہ کے دورِ حکومت میں تھا۔ سِبلین کی کتابیں نبوت کرتی ہیں کہ اس پتھر کا کھو جانا روم کے گِرنے کا متعارف کرانا تھا ( ۹ )

اُپلو کا پتھر

یہ پتھر ابتدائی یونانیوں کا بہت مقبول مقدس پتھر تھا ۔ یہ سیاہ رنگ کا، مخروطی شکل کا ، بھاری بھر کم پتھر تھا اور یہ ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ شہابِ ثاقب کا ہے اس کو ڈیلفی کی ناف تصور کیا جاتا تھا۔ شاعر یائنڈر ( ۵۲۲۔ ۴۳۸ بی ۔سی ۔ ای ) ایمان رکھتا تھا کہ ‘‘ ڈیلفی کی یہ ناف ٹھیک زمین کے درمیان میں موجود ہے ’’ ( ۱۰ ) یہ تعلق بالکل ٹھیک طور پر اسلامی تصور سے ہے کہ کعبہ زمین پر مرکزی پرستش کا مقام ہے رابراٹ شِیروکس، نے اپنی کتاب ماسٹرز آف دی ورلڈ میں ایولو کے اس پتھر کے بارے میں بیان کیا ہے:

ہیلنیس ، پرائم کا بیٹا اور ایک مشہور یونانی پیشن گوئی کرنے والا، پتھر کی مدد سے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرتا تھا۔ اور یہ پتھر اُس کو ایولو نے دی تھی۔ دیوتاؤں سے پیشن گوئی حاصل کرنے کے لیے ، وہ پتھر کو اپنے سر پر ہلاتا تھا اور منتر پڑھتا تھا ۔ پتھر پھر عجیب، مرجھاتی آواز میں بولتا تھا اور مستقبل کا اعلان کرتا تھا۔ (۱۱)

افسس میں ڈیانا کا پتھر

 روائتی طور پر، دیوی کے مجسمہ اور مندر کے پتھروں کے بارے یہ یقین رکھا جاتا تھا کہ یہ آسمان سے گرائے گئے ہیں۔ ڈیانا۔ آرٹرمِس کی طرف مُنہ کرکے پاجا کی جاتی تھی اور یہ غیر یقینی ہے کہ آیا وہ سیارے وینس یا چاند سے آئی تھیھ۔ ڈیانا کو ایولو کی بہن بھی سمجھا جاتا تھا۔ ‘‘ مصریوں کے گیئون اور بعل ییول ، جزیرہ آدم کے پتھر اور ہر میز کے پتھر (۱۲)

سیبلی کے پتھر

اُس پتھر کا مواد لوہے پر مشتمل ہے جس کے بارے یہ ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ شہابِ ثاقب کا ہے اور اس کا تعلق فریجسنیا کی سیبلی دیوی سے ہے۔ ایلیڈ نے اس پتھر کا ایک تاریخی بیان پیش کیا ہے:

 یہ روم میں ۲۰۴ بی ۔ سی ۔ ای میں پہنچا جب روم کو ہینی بال کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ سیبلی کتابیؓ، جن کو شہابِ ثاقب کے دیکھے جانے کے بعد پرکھا گیا، اور یہ پیشن گوئی کی گئی کہ غیر ملکی فوج اٹلی سے نکالی جا سکتی ہے اگر سیبلی کی علامت ایک شہابِ ثاقب روم میں لایا جائے اور اس طرح ہینی بال کو شکست ہوئی ۔ رومی لوگوں نے اس دیوی کا شکریہ اس طرح ادا کیا کہ اُس نے اُس کے لیے ایک مندر بنوایا اور ہر سال اس کی یاد میں تہوار منانے کے لیے اِدھر آیا کرتے تھے ۔(۱۳)

امیہ کا شام میں پتھر

    یہ پتھر مخروطیشکل اور سیاہ رنگ کا تھا۔ فنیقی لوگ اس کی پوجا کرتے تھے۔ لیکن اس کی الوہیت کی شناخت کو بے یقینی کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد، امیہ کے عربی کاہن امیہ کے اس پتھر کو مزار کی شکل دی، سردار کاہن ایلیگابس اس کو روم لے گیا جب وہ شہنشاہ بنا۔

مقدس پہاڑ اور بڑے بڑے پتھر

   جیسے کے پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ ہندوستانی پتھروں کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ یہ مُشق اُن کے لیے مخص بلا شرکت غیر مقامی نہیں تھی، سیکنڈیویا ، کے لوگ بھی اِن خاص پہاڑوں اور بڑے پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔

             مسیحت سے پہلے کے مجسم سازوں کی شمالی سیکنڈیویا میں تحقیق اور کولاپینیسولا پر تحریر کے دوران لکھا گیا کہ : ۵۰۱ میں سویڈن، ۲۲۹ میں ناروے، ۸۰ سے ۹۰ میں فن لینڈ اور تقریباً ۱۰ میں مغربی روس میں وائٹ سی تھا۔ ’’( ۱۴ ) نمونے کے طور پر ایلیڈ سویڈن میں مختلف بدعتی مقاموں کی ایک فہرست پیش کرتا ہے۔

   ۱۴۹ چوٹیاں اور پہاڑ، ۱۰۸ ڈھلوان دار چٹانیں، غار، سوتے، چشمے، جھیلیں، ۳۰ جزیرے اور چٹانی جزیرے، پینی سولز، چراگاہیں اور ویرانے، لیکن بہت سارے پتھروں یا چٹانوں کی پرستش پر مشتمل تھے۔ جو کہ تقریباً ۲۲۰ ہیں ۔ اس گروہ میں، ۱۰۲ مثالیں قدرتی طور پر ظاہر ہونے والے پتھروں کی ہیں۔ الوہیت کے غیر تراشے بُت، صرف ۲ ایسے ہیں جن میں ناقابل تردید انسانی مداخلت کی صورتیں موجود ہیں۔ عام طور پر ان میں بھاری اکثریت گھِسے ہوئے پتھروں کی ہے۔ (۱۵)

  ‘‘ کُچھ معاملات میں، پرستش کا تعلق، لکڑی کے تنوں، مجسم سازی سے رہا ہے ’’(۱۶) بارسنگھے کی قُربانیوں کی روایات کو بیان کرتے ہوئے جو جسم کے پیچھے کی جاتی تھیں، ایلیڑ نے ۱۶۷۱ میں سویڈن سے تفصیلی رپورٹ پیش کی:

اس کے بعد مجسم ساز قُربان گاہ تک پہنچے انہوں نے اپنی ٹوپی اُتاری، گہرے طور پر جُھکے اور قُربان گاہ کو خون سے داغدار لیا اور موٹے تازے جانور سے ریڑھ کی ہڈی، کھوپڑی اور سپنگوں کا ایک بڑا ڈھیرالوہیت کو پیش کیا گیا، جیسے کہ سینگوں کا پتھر کے پیچھے ڈھیر لگایا گیا (۱۷)

 فن لینڈ میں، ایک بیان دیا گیا۔ ‘‘ ایک چھوٹا پتھر دیوتا جو اُٹھایا جا سکتا تھا وہ مالک کہلایا اس دیوتا کو ہاتھ میں اُٹھا کر مجسمہ ساز اپنی دُعاؤں کو بڑی عقیدت اور ضروریات کی فہرستوں کے ساتھ پیش کرتے تھے ’’ (۱۸) اس بات کو بُرا تصور کیا جاتا تھا اگر کوئی اپنے ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا تھا ۔ پجاری اپنی خواہشات کو بار بار دہراتا تھا ۔ ‘‘ جب تک پتھر اس کے ہوتھ میں ہوتا تو وہ اتنا ہلکا ہوتا کہ وہ اپنے ہاتھ اُوپر اُٹھا سکتا تھا ’’(۱۹)

سیکنڈینیویا کے بہت سے پہاڑ مقناطیسی، سیاہ، چمکدار، آہنی ہیں جو اپنی وسعت میں کُچھ حد تک آکسیجن کی آمزیش کا عمل کرتے ہیں، اس کے دو پول ہیں جو اس کو قدرتی مقناطیسی عمل کے قابل بناتے ہیں۔ ایسے سلسلے کی فہرست میں جو بہت مشہور جگہیں ہیں اُن میں ڈینی مورا سویڈن، شمالی لیک واٹر، ٹابرگ، اسی جھیل کا جنوبی حصہ، اور یو ٹو، فن لینڈ ’’ (۲۰)    جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، اسلامی روایت کی رپورٹیں کہ آدم زمین کی ناف سے دریافت ہوا اس ساری قدرتی دنیا کے درمیان جو کہ چمکدار سیاہ پہاڑی سلسلے سے گری ہوئی ہے یہ بات بغیر کسی شک کے مکہ کے پہاڑی سلسلے سے تعلق رکھتی ہے۔

   ‘‘زمین کی ناف ’’ کا تصور یا اس کے مرکز کی کہانی جہاں ہر چیز اس کے گرد گھومتی ہے یہ مذاہب کی تاریخ کا ایک خاص خلاصہ ہے مثال کے طور پہ ایپولو کے پتھر کے لیے مزار کے بارے میں یہ بات سمجھی جاتی تھی کہ یہ یونانیوں کے لیے کائنات کا مرکز ہے استعارراتی طور پر بہت سارے دوسرے لوگ بھی پوری دنیا میں اپنے مزاروں کو کائنات کے مرکز تصور کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں سورہ ۴۲ اُس کی ۷ آیت کو مکہ والے ‘‘ اُمل کرہ ’’ کہتے تھے جس کا مطلب ہے ‘‘ مرکز کی ماں ’’ یا شہروں کہ ماں ’’ مسلمان تاریخ دان اس پیرائے کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ مکہ زمین کا مرکز ہے اور مکہ کے سارے علاقے کا حصہ یعنی ‘‘ مکہ کی ناف ’’ (۲۱)

  محمد کے بارے میں یہ شہادت انس بن ملک کی حدیث میں سے ملتی ہے کہ وہ پتھروں کی پرستش کرتا تھا :

   اُحد کا پہاڑ اللہ کے رسول کی نظر میں آیا تو اُنھوں نے فرمایا، ‘‘ یہ پہاڑ ہے جو ہم سے پیار کرتا ہے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں ۔

 اے اللہ ابرہام نے مکہ کو پاک کیا ہے اور میں مکہ اور مدینہ کے درمیان دو پہاڑوں کو پاک کرتا ہوں ’’۔(۲۲)

     یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ محمد حجرہ اسود کے ساتھ ساتھ اور کعبہ میں پتھروں کی پرستش بھی کرتا تھا اور عرب میں دوسرے پتھروں کی بدعات کا مطالعہ بھی موجود تھا جس کا گہرا اثر محمد کی زندگی پر تھا۔

کعبہ اور ابتدائی عرب کے مزار

عرب کے ابتدائی وقتوں میں بے شمار کعبہ موجود تھے اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے مندر یا مزار بھی تھے اور ان کو تواگت کہا جاتا تھا یہ تمام مقدس عمارتیں ان کا ایک خاص محافظ ہوتا تھا اور ان کے مجسموں کو ہدیے اور قربانیاں پیش کیں جاتی تھیں اور مزید ان کے گرد طواف بھی کیا جاتا تھا ۔( ۲۳ ) مثال کے طور پر ہیمار دیوتا کا ایک مندر ثنا میں تھا جس کو ریاپ کہتے تھے اس کے اندر بڑی ذمہداری کے ساتھ قُربانیاں اور ہدیے چڑھائے جاتے تھے ‘‘ ایک رپورٹ کے مطابق وہ اس کے وسیلہ سے ایک عہد کی بات چیت کو بھی وُصول کیا کرتے تھے ’’۔(۲۴) ثنا کے اسی علاقے میں ایبرا العشرم نے ایک مسیحی گرجہ گھر بھی تعمیر کروایا جس کو الکالس کہا گیا یہ سینگِ مر مر اور اعلیٰ ترین معیار کی لکڑی کے ساتھ بڑے خوبصورت طریقے سے تعمیر کیا گیا ’’ (۲۵) گرجے میں پرستش نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ محض شہادت تھی کہ عرب میں اسلام سے پہلے مسیحیت آچکی تھی ۔

مکہ کے کعبہ کی پرستش اسلامی دنیا کی باقی تمام عمارات سے زیادہ کی جاتی ہے حج کے دوران حاجی اس کے ذریعے اپنے ایمان کی شہادت دیتے ہیں اپنے جسموں کو اس کی دیوار کے ساتھ جُھکاتے ہیں تاکہ اُن کو اِس پاک ڈھانچے کے وسیلہ سے براکا (زوردار برکت) ملے۔(۲۶)

مکہ میں کعبہ کی یہ متبرک فطرت مزید اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ رُسول اکرم کے ۳۵ سالہ دور میں اس کی تجدید کا مظاہرہ ہوا اور بعد کے ۱۵ سالوں میں اسی پر مذہبی لڑائی بھی ہوئی۔

  اُنھیں اس کے پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے کسی قابل شخص کی ضرورت تھی اور خوش قسمتی سے اُنھیں ایک قطبی ترکھان مِل گیا جو مکہ میں یہ کام کر سکے اس طرح اس ماہر ترکھان کی مدد سے اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کے سارے ڈھانچے کو گرائیں اور اسے دوبارہ تعمیر کریں۔ ابووہاب جو کہ محمد کے باپ کے ماموں تھے اُنھوں نے کعبہ میں پتھر لا کر اس کی ابتداء کی ۔ اچانک ہی اُن کے ہاتھ سے نکلتے ہی یہ اپنی اصل شکل میں آگیا ابووہاب اب اس کو ایک مقدس جگہ کے طور پہ یاد کرتے ہیں اور اُنھوں نے خبردار کیا ‘‘ اے قریش والوں اس کے اندر کوئی حرام کی کمائی یا کوئی کرائے پر لائی ہوئی کسبی یا سُود خوری کی رقم اور نہ ہی کوئی بُرا کام اور تشدد اس عمارت میں کرنا ’’ (۲۷) اچانک لوگ تذبذب کا شکار ہو گئے اور مندر کو گرانے سے ڈرے اور اس کی ہیبت سے باہر نکلے اس پیش خیمہ کے باوجود مسلمان تاریخ دان ابن اضحاق کے مطابق محمد کی زندگی ایک ایسے شخص کی زندگی تھی جو نہ ڈر تھا:

     الولید بن المغیرہ نے کہا ‘‘ میں تباہ کاری شروع کروں گا ’’ اُس نے کدال اُٹھایا اور یہ کہتے ہوئے اُوپر چڑھ گیا ، اوہ خُدایا مت ڈر اوہ خُدایا ہم وہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو بہترین ہے’’۔ پھر اُس نے کونوں سے اُس حصے کو تباہ کر دیا اُس رات لوگوں نے دیکھا اور کہا کہ اگر اسے کوئی نقصان پہنچا تو ہم اس کا باقی حصہ برباد نہیں کریں گئے اور اسے دوبارہ بحال کر دیں گئے لیکن اگر اُسے کُچھ نہ ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ دیوتا نہ خوش نہیں ہے اور ہم اسے گرا دیں گئے۔ صبح کے وقت الولید دوبارہ اپنے کام پر آیا اور اُنھوں نے اس کو ابرہام کی بنیادوں تک گرا دیا وہ سبز پتھر جو اُونٹ کی کہان کی طرح تھے اُن کو اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور خُدا کے لیے ایک نسوانی شکل اختیار کرتے ہوئے جو کہ اصل عربی میں استعمال ہوئی اور جس کو کعبہ میں لاگو کیا گیا اُس کا نام لے کر خطاب کیا گیا اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ محمد کے زمانے کے دوران کیسے شہریوں کی زندگی میں ہر روز پتھر کی بدعت کو تعظیم دی جاتی تھی۔

بیت ایل بُت اور مجسمے

عرب کے رہنے والے ابتدائی لوگوں نے اس پرستش کو جہاں کہیں بھی وہ مختلف علاقوں میں گئے جاری رکھا وہ اکثر اپنے خُداؤں کو ساتھ اُٹھا لے جاتے اور اپنے ستانوں میں مزاروں میں اسے نسب کر لیتے عموماً پتھروں درختوں اور ستاروں کی پوجا کی جاتی تھی اور اِن کے اندر متحرک روحیں بستی تھیں (۲۹) جیسا کہ یونانی اور لاطینی مصنفین نے عرب کی ثقافت کے ساتھ تعلق قائم کیا تو وہ پتھروں کی بدعت کے دور دور پھیلے ہوئے تصور کے ساتھ اچانک ملے اُن کے لیے یہ بات بڑی عجیب تھی کہ لوگ پتھروں کی پوجا کرتے ہیں۔ ‘‘ آیا کہ یہ مکمل طور پر غیر متشکل ہیں یا یہ اُس طرح کے ہیں جس طرح کسی بھی پتھر کی ابتدائی شکل ہوتی ہے’’۔ (۳۰) مسلمان تاریخ دان ابن القالبسی کے مطابق :

   مکہ کے ہر خاندان کے گھر میں پرستش کے لیے ایک بُت ہوتا تھا جب کبھی اُن میں سے کوئی گھر سے باہر کسی سفر کے لیے جاتا تھا تو گھر چھوڑنے سے پہلے اُس کا آخری کام اُس بُت کو اِس اُمید پر چُھونا تھا کہ اُن کا سفر مبارک ہو گا؛ اور اُس کی واپسی پر پہلا کام جو وہ کرتا تھا دوبارہ اس بُت کو شکر گزاری کے طور پر چُھونا تھا کہ وہ مبارکل طور پر واپس لوٹا (۳۱)

   اسی طرح ایک اور مسلمان تاریخ دان ابن الاضحاق بھی اِسی طرح کا بیان دیتے ہیں وہ اپنے بیان میں صرف چُھونے کی بجائے اس بُت کو رگڑنے کا ذکر کرتے ہیں (۳۲)

   محمد نے حجرہ اسود کی روایت میں اِن رسومات کو جاری رکھا جب محمد نے چھڑی کے ساتھ پتھر کو چھوہا اور خُوشی سے کہا ‘‘ اللہ اکبر ’’ وہ اس بات پر ایمان رکھتا تھا کہ اس بُت کے اندر الوہیت ہے اس طرح سے وہ ایک عام عربی ذہنی ڈھانچے کی عکاسی کرتا تھا۔ اسلامی الہیات کے حوالے سے بہت ساری مثالیں اور تضادات اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں مثال کے طور پر کیوں محمد اور اُس کے پیروکار واضح طور پر چاپلوسی اور ادب وآداب کے لیے بتوں سے باتیں کرتے تھے جب کہ دوسروں کو بُت پرستی سے روکتے تھے؟ اسی طرح سے مقدس اور پاک اشیاء کو ان پتھروں کے ساتھ اس حقیقت کے ساتھ جوڑا جاتا تھا کہ کوئی بھی حیض میں مبتلا خاتون ان پاک چیزوں یا پتھروں کو چھو نہیں سکتی تھی (۳۳) اور اس کی مخالفت میں حج کی اسلامی روایت میں اس کو نجس قرار دیا جاتا تھا ابن القالبی نے ابتدائی عرب والوں کی رسومات کے متعلق یہ بیان دیا:

    کہ عرب والے بتوں کی پوجا کے لیے بہت زیادہ جذباتی تھے اُن میں سے کُچھ اپنے آپ کو اُن مندروں کے درمیان میں لے جاتے تھے اور وہ اُن کی پوجا کے مرکز تھے جب کہ دوسرے کسی بھی بُت کو جو اُن کو تقدیس کے لیے دیا جاتا تھا اُس کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کرتے تھے وہ ژخص جو اپنے لیے اس مندر کو تعمیر کرنے کے قابل نہ ہوتا یا اس بُت کو لینے کے قابل نہ ہوتا تو وہ کسی بھی دوسرے مندر کے سامنے بُت کو کھڑا کر لیتا جس کو وہ ترجیح دیتا تھا اور پھر اسی طرح وہ اُس کے گرد طواف کرتا جیسے کہ وہ پاک گھر گرد طواف کر سکتا تھا عرب والے اِن بتوں کو بیت ایلز (انسب) کہتے تھے جب کبھی یہ پتھر کسی جیتی جاگتی شکل کی صورت میں ہوتا تھا تو اِس کو بُت (انسب) ابو تصور (اوتھن) اُن کا طواف کا یہ عمل سرکم روٹیسن (دیوار) کہلاتا ہے (۳۴)

  مزید برآں یہ بُت اکثر لکڑی سونے یا چاندی کے بنے ہوتے تھے؛ اور مورتیں اکثر پتھر کی بنی ہوئی ہوئی ہوتی یا ایک پتھر کو بطور بُت طواف کے ذریعے پرستش میں لیا جاتا تھا (۳۵) قالبی مزید ان رسومات کو بیان کرتے ہوئے ذکر کرتا ہے:

     جب کبھی ایک مسافر کسی جگہ یا مقام (ایک ایسی جگہ جو رات گزارنے کے لیے ہوتی) پر رُکتا تو وہ اپنے لیے چار پتھروں کو چُنتا تھا ان میں سے سب سے اعلیٰپتھر کو چُن کر اپنے خُدا کے طور پہ رکھ لیتا اور باقی تین کو اپنے کھانا پکانے کے برتن کی معاونت کے لیے اپنی روانگی پر وہ اِن کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور اگلے مقاموں پر بھی یہی کُچھ کرتا ہے عرب والے ان بتوں بیت الز (انسب) اور پتھروں کے آگے قُربانیاں بھی گزارنتے تھے باوجود اس کے کہ وہ کعبہ کی شان اور برتری کو بھی چاہتے تھے جس کی زیارت وہ حج کے طور پہ کرتے تھے اُنھوں نے اپنے سفروں کے دوران جو کُچھ کیا ہوتا تھا وہی کُچھ وہ کعبہ میں آکے کرتے کیونکہ اُن کی اِس کے ساتھ عقیدت تھی وہ بھیڑ جو وہ پیش کرتے تھے اور ان بتوں اور بیت الز (انسب) کے سامنے قُربان کرتے تھے اُن کو وہ ذبحہے کہتے تھے اور وہ جگہ جس پر وہ یہ قُربانیاں یا ہدیئے قُربان کرتے تھے اُن کو وہ مذبحے کہتے(۳۶)

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقدس بیت ایل دوہرے مقصد کے لیے استعمال کیے جاتے تھے پہلے نمبر پر یہ مجموعی طور پر خاص الوہیت کو پیش کرتا ہے جو بھی مردوزن اس کو انفرادی طور پر اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہے دوسرے نمبر پر یہ ایک مقدس مذبحے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جو اس کو مذبحے کے طور پر قُربانیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بہت سارے اسلامی مفکرین اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حجرہ اسود بلاشبہ مقدس قُربان گاہ کے طور پر پوجا جاتا ہے اور برکات کے لیے اس کو پُکارا جاتا ہے تاہم اس کے اُوپر جانوروں کی قُربانیاں حج کے وقت میں گزارنی نہیں جاتیں۔

ابتدائی عرب کی بتوں اور بیت ایل کی پوجا

بہت ساری اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد حج کے ادا کرنے کی روایات سارے ابتدائی عرب میں موجود ہیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں : بتوں اور بیت ایل ( انسب ) کے مختلف ہدیوں اور قُربانیوں جو پتھروں کے لیے، طوافوں کے ذریعے اور اسی طرح کی مقدس ثٹانوں کے مزاروں کی رسموں کے ذریعے ادا کی جاتی تھیں۔

     تبالہ میں جو کہ مکہ سے سات روتوں کا سفر ہے اس جگہ پر دھو القلاش کا بُت پڑا ہے یہ سلیکہ کی ایک معدنی شکل کی پہاڑی کا تراشہ ہوا ٹکڑا تھا اور اس کی مشابہت ایسے تھی جیسے اس کے سر پر کوئی تاج ہوتا ہے یہودہ کے سائل کے نزدیک یا اس علاقہ میں ایک اور بُت تھا جو سعد کہلاتا تھا یہ ایک لمبی ثٹان کہلاتا تھا ایک اور قبیلہ جس کا نام دھوز تھا اُنکا ایک اپنا بُت تھا جس کو اُنھوں نے مزار میں رکھا ہوا تھا اور اسے وہ دھوایل کفن کہتے تھے ( اس کی دو ہتھلیاں تھیں )۔ ( ۳۷ ) ‘‘ کِسی آزد قبیلے کا بھی ایک بُت تھا جس کو دھوایل شرع ( دُوس راس ) کہتے تھے۔ (۳۸) یہ نباتین کا بھی ایک بڑا دیوتا تھا ‘‘ اس کی سب سے بڑی تقدیس پیترا میں تھی جہاں ایک بڑا سیاہ رنگ کا پتھر جو کہ ایک شاندار مندر میں تھا پوجا کے لیے وقف کیا ہوا تھا ۔ ’’ ( ۳۹)

ابن الا قالبی نے ایک دوسرے بُت کے بارے میں بیان کیا :

 تئیں قبیلے کے پاس ایک بُت تھا جس کو الفالس کہتے تھے یہ ایک سُرخ رنگ کا تھا اس کی شکل اُن کے پہاڑ کے مرکز آجا میں ایک انسان کی سی تھی جو کہ سیاہ تھا وہ اُس کی پوجا کرتے تھے اس کو ہدیے چڑھاتے تھے اور اس کے سامنے اپنی قُربانیاں ذبح کرتے تھے ( ۴۰)

   مزید شام کی پہاڑیوں کے جنوب میں قُادہ، لکھم، جُودھم، امیلہ اور گتفان کا بھی ایک بُت تھا جس کو الُااوکیسر کہتے تھے وہ اکثر زیارت کے لیے جاتے تھے اور اس بُت کے مزار پر اپنی آمد پر اپنے سر منڈلاتے تھے۔ ایک شخص جس کا نام ذوہیب تھا اُس نے کہا، ‘‘ مجھے الاوکیس کے بیتایل کی قسم جس پر سر منڈوائے جاتے ہیں ’’ ( ۴۱ ) اس بات پر غور کیجیے کہ کیسے یہ دیوتا اُوکیسر ایک بُت کے طور پہ پیش کیا جاتا تھا اور بیت ایل ( انسب ) ایک دوسرا دیوتا تھا یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پتھر کی شکل زیادہ اہم نہیں تھی ۔ اناز کا بھی ایک بُت تھا جو سوایر تھا جس کو وہ طواف کے لیے استعمال کرتے تھے ایک مسافر جعفر اس بُت کے قریب آیا اور اُس نے اپنا بیان دیا :

سائر کے گرد میرے جوان اُونٹ قُربانی کا خون دیکھ کر چونک گئے اور زیارت کے دُوران اس کے نزدیک خوفزدہ اور بےحس و حرکت اور خاموش کھڑے رہے اس کی غیبی آواز کے انتظار میں ۔ ( ۴۲ )

ابن الاقالبی سے روایت ہے کہ مسافر بدووں نے بہت زیادہ بیت ایلز بنائے جو کہ در حقیقت ابتدائی تباہکاریوں کے ذریعے سے اکٹھے ہوئے پتھروں سے تھے اُن کو گاڑا گیا اُن کے لیے قُربانیاں چڑھائی گئیں اور بطور بلوتا اُن کا طواف کیا گیا انہی پتھروںکے بارے میں وحی کی بنیاد پر دمشق کا یوحنا اپنے بیان کو درست کرتا ہے کہ حجرہ اسود درحقیقت ایفروٹائیڈ کے بُت کا مجسمہ تھا۔

  مندرجہ بالا اقوال کی فہرست ابن الا قالبی کے تاریخی بیانات سے آتی ہے جن کا تعلق عرب مادی ثقافت میں پھیلی ہوئی پتھر کے متعلق بدعتوں سے

ہے :

غنی ہر شام اپنے بیت ایل کے گرد طواف کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بیت ایلز سے عہد لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوان لڑکے اپنے بیت ایل کے گرد طواف کریں گئے جب تک کہ اُن کے بال سُرمی رنگ کے نہ ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔۔میں اپنی اُونٹینیوں کے آگے آگے چلوں گا اور میرے بیت ایلز میرے پیچھے ہونگے؛ کیا میرے لوگوں کے خُدا میرے پیچھے ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے اپنے بیت ایلز اور پردوں کی قسم کھائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ! آلات اور مقدس بیت ایلوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ میں اور میرا گھوڑا میرا علاقہ میرے بیت ایلز کی طرح خون کی قُربانی سے ملا جائے گا

( ۴۳ )

یہ تمام تاریخی اقوال اس بات کی واضح شہادت پیش کرتے ہیں کہ کیسے ابتدائی عرب میں بتوں کی پوجا کا رُجحان تھا۔

  ایک دوسرے سند جو بتوں کی پوجا یا بدعتوں کے بارے میں عرب کے معاشرے میں موجود تھی کہ وہ اپنے بچوں کے نام اپنے خاندان کے نام ان بتوں کے ناموں پہ رکھتے تھے ۔

مثال کے طور پہ موزینے کے پاس ایک بُت تھا جس کا نام نوہم تھا اور اُس نے اپنے بچوں کا نام اُس بُت کی عزت میں عبد نوہم رکھا اُن کے پاس نوہم کا ایک محافظ بُت بھی تھا جس کا نام کزئی ابن عبد نوہم تھا (۴۴)

 اور یہ بہت اہم بات نظر آتی ہے کہ محمد کے اپنے گھرانے میں قریش کا نام کعبہ کے محافظ کا نام تھا جو کہ اُس کے آباؤ اجداد کے ناموں میں سے مناف نام کا سورج کا دیوتا تھا اور دوسرا نام العضا تھا جو کہ اللہ کی بیٹیوں میں سے ایک ہے خاص طور پہ مزے کی بات یہ ہے کہ محمد کے اپنے باپ کا نام عبداللہ تھا جس کا مطلب ہے ( اللہ کا غلام ) ( ۴۵ )

کیوں اُنھوں نے اپنے نام ان دیوتاؤں کے نام پر رکھے واضح طور پہ یہ ایک مذہب تھا جو ان پتھر کے بتوں کو عزت دیتا تھا ۔

مزید برآں یہ محض ایک تفاق تھا کہ محمد کے باپ نے اسلامی الہیات کا نام اسے دیا یا اللہ محض ۳۶۰ یا اس سے زیادہ بتوں میں سے ایک بُت تھا جو اسلام سے پہلے کعبہ میں موجود تھا۔

باب ۲

اسلام سے پہلے کی متبرک پتھروں کی بدعتیں

ابتدائی دنیا کے پتھر

صرف اسلام سے پہلے عرب والے وہ لوگ نہیں تھے جہنوں نے پتھروں کی پوجا کی ۔ اس بات کی وافر شہادت پُر اثر تشبہیات کے ساتھ ملتی ہے کہ ابتدائی دنیا اور عرب کی رسومات کے درمیان پتھروں کی پوجا کی بدعتیں موجود تھیں ۔ یہاں تک اسلام کے اندر بُتوں کی پرستش یا تعظیم کرنے کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں تھوڑا سا ذہن ہر روز دے کر کوئی بھی اس مذہب سے بے شمار مثالیں دے سکتا اور اس طرح کی باتوں کا تقابلی جائزہ لے سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل حصہ پتھروں کی پرستش کی بدعتوں کا بین الاقوامی تصور پیش کرے گا۔

مقدس پتھروں کی تعریفیں

مقدس پتھروں کی تعلیم تمام دنیا میں انسان کی پیدائش ہی سے کی جاتی رہی ہے ۔ وہ قربانیوں، جادوئی تصورات اور الہیات کا کاروبار کرتا رہا خاص قسم کے پتھر تھے ۔

  جو انسان نے اپنی خاص رسومات کے لیے بنائے یا کھڑے کیے یہ یادگاروں کے طور پر ستونوں یا قطاروں کے طور پر کھڑے کئے گئے، اور کائناتی آغاز سے ہی ان کو مختلف نام دیئے گئے۔ ایلیڈ نے اس قسم کے پتھروں کے بار میں بیان کیا۔

استادہ، ماقبل تاریخ کے دور کا پتھر (یہ لمبے، سیدھے کھڑے رہنے والے یادگار پتھر تھے ) ماقبل تاریخ کا سیدھے نصب کیئے۔ پتھروں کا دائرہ (کھڑے پتھروں کا دائرہ): کلاں سنگی دور کی قبر جس میں دو عمومی پتھروں پر ایک لیٹواں پتھر ٹکا ہوا ہوتا ہے ( یہ میز کی طرح یا لمبا پتھر، جو سیدھا لیٹا ہوا فقی پتھروں کا سلسلہ تھا ) اور پتھروں کے ٹیلے ( پتھروں کے ڈھیر ) (۱)

مزیدبرآں، خاص شکل یا خصوصیات کے ساتھ، قدرتی چٹانوں کو مقدس اہمیت کے نام دئیے گئے۔ جو چھوٹے طرح کے پتھر ہوتے اُنہیں گھر میں بدعت کے نشانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور ان کو جادوئی حفاظت کے طور پر جسم پر اُٹھایا یا باندھا جاتا تھا۔ وہ پتھر جو اتنے چھوٹے ہوتے کہ اُن کو کوئی بھی شخص ہر روز اُٹھا سکتا وہ تعویذوں کے طور پر استعمال کئے جاتے (۲)

   اور مزید خاص طور پر؛ اُن کو ستاروں سے ، شہابِ ثاقب سے گرے ہوئے پتھر جان کر اکثر یہ ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ بھلائی یا بُرائی کے لیے آسمانوں سے آئے ہیں۔( ۳ ) یہ مکاشفاتی پتھر تھے جو گرج کے ساتھ زمین پر گرائے گئے تھے۔ اس بات پر ایمان رکھا جاتا تھا کہ نرسنگے کی آواز سے پانی پر تیر سکتے تھے یا جیسے ہی بُرے اعمال کا نام پُکارا جاتا تو یہ زمین کے نیچے ڈوب جاتے تھے۔ مزید برآں، کُچھ لوگ یہ بھی تصور کرتے تھے کہ یہ پتھر خاص الوہیت کے سبب سے وجود میں آئے ہیں، اس لیے ان کو مزاروں کے طور پر ہیکلوں میں یا عزت و احترام کی جگہوں میں جس جگہ یہ دریافت ہوئے رکھا جانا چاہیے (۴)

شمالی اور جنوبی امریکی انڈین کے پتھر

مقدس پتھروں اور چٹانوں کی امریکی انڈیا کے لوگوں نے اپنی رُوحِ جان کے ساتھ بہت زیادہ عزت کی۔ جنوبی امریکی انڈیا کی ابتدائی سے ایکوڈور کے فرعوں نے جوالا مُکھی کے لیے انسانی قربانیاں چڑھائیں اور انڈس کے پتھر کے ہندوستانیوں نے اس پتھر کی عام پوجا کی ( ۵ ) آئرلینڈ کی جھیل ٹی ٹی کا جو یولیونیا۔ پیرو میں ہے دیا پتھر کے دیوتا دریافت ہوئے۔ اس جگہ پر ہندوستانی لوگوں نے سورج کے مندر میں سیاہ پتھر کی پوجا کی ۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اور یگانو جو انسانوں کی دیوی ماں ہے، وہ آئی اور سیارے وینس سے اپنے ساتھ پتھر لائی (۶) مزید برآں، واریو جو اورنیوکو کی بڑی طاقت تھا 🙁 ۷ )اس کی بطور ایک پتھر پرستش کی جاتی تھی۔

   اسی طرح، شمالی امریکی ہندوستانیوں نے پتھروں کی پوجا کی مشق کی اور ایلیڈ بیان کرتا ہے:

   ڈکوٹا نے پُرانے پتھروں کو سجایا اور رنگ کیا اور اُن کے لیے دُعا کی اور اُن کے لیے کُتوں کی قُربانیاں چڑھائیں۔ شمالی امریکا کے بڑے انڈین قبائل نے کینڈا کی مِسانی جھیل کے پانیوں کو عبور کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ کیوں کہ وہ تصور کرتے تھے کہ اس میں حقیقتاً روحیں آباد ہیں۔ جنوب کی جانب بھی، امریکہ میں یہ یقین رکھا جاتا ہے کہ دیوتا وہاں شخصی طور پر سکونت کرتے ہیں جو پتھروں کی شکل میں ہیں ‘‘ ٹیکساس کیوا میں چھوٹے پتھر کے دیوتا تھے جن کی عبادت وہ سورج کے ناچ کے دوران کرتے تھے۔ نیو میکسکو ٹاؤ میں ایک مقدس پہاڑ جس کا نام ‘‘ پتھر آدم ’’ تھا اس کے قدموں میں تعظیم کی جاتی تھی جو دو جنگ کے دیوتاؤں کو پیش کرتا تھا۔ امریکن انڈیا بستی پبلو میں لوگ ایمان رکھتے تھے کہ شکاریوں کی خوش بختی کا انحصار اُن پتھروں کی ملکیت کے سبب سے بنے جو متجسس شکل کے ہیں ( ۸ ) امریکی انڈین پتھروں کی بدعتیں جو اس پہرایہ میں بیان کی گئیں ہیں ٹھیک اسلام سے پہلے کے پتھروں کی پوجا کی روایات کی مثال پیش کرتی تھیں۔

ابتدائی یونان اور ایشیا مائز کے پتھر

مزید برآں انڈین پتھروں کی بدعتیں ، یونانیوں اور وہ مزید بدعتیں جو مشرک میں تھیں اُن کی بھی روایات موجود ہیں۔ ان پتھر کی بدعتوں کی چند مثالیں مندرجہ ذیل عبارت میں تصدیق کے لیے پیش ہیں۔

رومیوں کا اِنسیلیا

      یہ مادہ شہابِ ثاقب کے لوہے کا مواد تھا جو تقریباً ۷۰۰ بی۔ سی ۔ ای نُوما پمفلیہ کے دورِ حکومت میں تھا۔ سِبلین کی کتابیں نبوت کرتی ہیں کہ اس پتھر کا کھو جانا روم کے گِرنے کا متعارف کرانا تھا ( ۹ )

اُپلو کا پتھر

یہ پتھر ابتدائی یونانیوں کا بہت مقبول مقدس پتھر تھا ۔ یہ سیاہ رنگ کا، مخروطی شکل کا ، بھاری بھر کم پتھر تھا اور یہ ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ شہابِ ثاقب کا ہے اس کو ڈیلفی کی ناف تصور کیا جاتا تھا۔ شاعر یائنڈر ( ۵۲۲۔ ۴۳۸ بی ۔سی ۔ ای ) ایمان رکھتا تھا کہ ‘‘ ڈیلفی کی یہ ناف ٹھیک زمین کے درمیان میں موجود ہے ’’ ( ۱۰ ) یہ تعلق بالکل ٹھیک طور پر اسلامی تصور سے ہے کہ کعبہ زمین پر مرکزی پرستش کا مقام ہے رابراٹ شِیروکس، نے اپنی کتاب ماسٹرز آف دی ورلڈ میں ایولو کے اس پتھر کے بارے میں بیان کیا ہے:

ہیلنیس ، پرائم کا بیٹا اور ایک مشہور یونانی پیشن گوئی کرنے والا، پتھر کی مدد سے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرتا تھا۔ اور یہ پتھر اُس کو ایولو نے دی تھی۔ دیوتاؤں سے پیشن گوئی حاصل کرنے کے لیے ، وہ پتھر کو اپنے سر پر ہلاتا تھا اور منتر پڑھتا تھا ۔ پتھر پھر عجیب، مرجھاتی آواز میں بولتا تھا اور مستقبل کا اعلان کرتا تھا۔ (۱۱)

افسس میں ڈیانا کا پتھر

 روائتی طور پر، دیوی کے مجسمہ اور مندر کے پتھروں کے بارے یہ یقین رکھا جاتا تھا کہ یہ آسمان سے گرائے گئے ہیں۔ ڈیانا۔ آرٹرمِس کی طرف مُنہ کرکے پاجا کی جاتی تھی اور یہ غیر یقینی ہے کہ آیا وہ سیارے وینس یا چاند سے آئی تھیھ۔ ڈیانا کو ایولو کی بہن بھی سمجھا جاتا تھا۔ ‘‘ مصریوں کے گیئون اور بعل ییول ، جزیرہ آدم کے پتھر اور ہر میز کے پتھر (۱۲)

سیبلی کے پتھر

اُس پتھر کا مواد لوہے پر مشتمل ہے جس کے بارے یہ ایمان رکھا جاتا تھا کہ یہ شہابِ ثاقب کا ہے اور اس کا تعلق فریجسنیا کی سیبلی دیوی سے ہے۔ ایلیڈ نے اس پتھر کا ایک تاریخی بیان پیش کیا ہے:

 یہ روم میں ۲۰۴ بی ۔ سی ۔ ای میں پہنچا جب روم کو ہینی بال کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ سیبلی کتابیؓ، جن کو شہابِ ثاقب کے دیکھے جانے کے بعد پرکھا گیا، اور یہ پیشن گوئی کی گئی کہ غیر ملکی فوج اٹلی سے نکالی جا سکتی ہے اگر سیبلی کی علامت ایک شہابِ ثاقب روم میں لایا جائے اور اس طرح ہینی بال کو شکست ہوئی ۔ رومی لوگوں نے اس دیوی کا شکریہ اس طرح ادا کیا کہ اُس نے اُس کے لیے ایک مندر بنوایا اور ہر سال اس کی یاد میں تہوار منانے کے لیے اِدھر آیا کرتے تھے ۔(۱۳)

امیہ کا شام میں پتھر

    یہ پتھر مخروطیشکل اور سیاہ رنگ کا تھا۔ فنیقی لوگ اس کی پوجا کرتے تھے۔ لیکن اس کی الوہیت کی شناخت کو بے یقینی کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد، امیہ کے عربی کاہن امیہ کے اس پتھر کو مزار کی شکل دی، سردار کاہن ایلیگابس اس کو روم لے گیا جب وہ شہنشاہ بنا۔

مقدس پہاڑ اور بڑے بڑے پتھر

   جیسے کے پیچھے بیان کیا جا چکا ہے کہ ہندوستانی پتھروں کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ یہ مُشق اُن کے لیے مخص بلا شرکت غیر مقامی نہیں تھی، سیکنڈیویا ، کے لوگ بھی اِن خاص پہاڑوں اور بڑے پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔

             مسیحت سے پہلے کے مجسم سازوں کی شمالی سیکنڈیویا میں تحقیق اور کولاپینیسولا پر تحریر کے دوران لکھا گیا کہ : ۵۰۱ میں سویڈن، ۲۲۹ میں ناروے، ۸۰ سے ۹۰ میں فن لینڈ اور تقریباً ۱۰ میں مغربی روس میں وائٹ سی تھا۔ ’’( ۱۴ ) نمونے کے طور پر ایلیڈ سویڈن میں مختلف بدعتی مقاموں کی ایک فہرست پیش کرتا ہے۔

   ۱۴۹ چوٹیاں اور پہاڑ، ۱۰۸ ڈھلوان دار چٹانیں، غار، سوتے، چشمے، جھیلیں، ۳۰ جزیرے اور چٹانی جزیرے، پینی سولز، چراگاہیں اور ویرانے، لیکن بہت سارے پتھروں یا چٹانوں کی پرستش پر مشتمل تھے۔ جو کہ تقریباً ۲۲۰ ہیں ۔ اس گروہ میں، ۱۰۲ مثالیں قدرتی طور پر ظاہر ہونے والے پتھروں کی ہیں۔ الوہیت کے غیر تراشے بُت، صرف ۲ ایسے ہیں جن میں ناقابل تردید انسانی مداخلت کی صورتیں موجود ہیں۔ عام طور پر ان میں بھاری اکثریت گھِسے ہوئے پتھروں کی ہے۔ (۱۵)

  ‘‘ کُچھ معاملات میں، پرستش کا تعلق، لکڑی کے تنوں، مجسم سازی سے رہا ہے ’’(۱۶) بارسنگھے کی قُربانیوں کی روایات کو بیان کرتے ہوئے جو جسم کے پیچھے کی جاتی تھیں، ایلیڑ نے ۱۶۷۱ میں سویڈن سے تفصیلی رپورٹ پیش کی:

اس کے بعد مجسم ساز قُربان گاہ تک پہنچے انہوں نے اپنی ٹوپی اُتاری، گہرے طور پر جُھکے اور قُربان گاہ کو خون سے داغدار لیا اور موٹے تازے جانور سے ریڑھ کی ہڈی، کھوپڑی اور سپنگوں کا ایک بڑا ڈھیرالوہیت کو پیش کیا گیا، جیسے کہ سینگوں کا پتھر کے پیچھے ڈھیر لگایا گیا (۱۷)

 فن لینڈ میں، ایک بیان دیا گیا۔ ‘‘ ایک چھوٹا پتھر دیوتا جو اُٹھایا جا سکتا تھا وہ مالک کہلایا اس دیوتا کو ہاتھ میں اُٹھا کر مجسمہ ساز اپنی دُعاؤں کو بڑی عقیدت اور ضروریات کی فہرستوں کے ساتھ پیش کرتے تھے ’’ (۱۸) اس بات کو بُرا تصور کیا جاتا تھا اگر کوئی اپنے ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا تھا ۔ پجاری اپنی خواہشات کو بار بار دہراتا تھا ۔ ‘‘ جب تک پتھر اس کے ہوتھ میں ہوتا تو وہ اتنا ہلکا ہوتا کہ وہ اپنے ہاتھ اُوپر اُٹھا سکتا تھا ’’(۱۹)

سیکنڈینیویا کے بہت سے پہاڑ مقناطیسی، سیاہ، چمکدار، آہنی ہیں جو اپنی وسعت میں کُچھ حد تک آکسیجن کی آمزیش کا عمل کرتے ہیں، اس کے دو پول ہیں جو اس کو قدرتی مقناطیسی عمل کے قابل بناتے ہیں۔ ایسے سلسلے کی فہرست میں جو بہت مشہور جگہیں ہیں اُن میں ڈینی مورا سویڈن، شمالی لیک واٹر، ٹابرگ، اسی جھیل کا جنوبی حصہ، اور یو ٹو، فن لینڈ ’’ (۲۰)    جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، اسلامی روایت کی رپورٹیں کہ آدم زمین کی ناف سے دریافت ہوا اس ساری قدرتی دنیا کے درمیان جو کہ چمکدار سیاہ پہاڑی سلسلے سے گری ہوئی ہے یہ بات بغیر کسی شک کے مکہ کے پہاڑی سلسلے سے تعلق رکھتی ہے۔

   ‘‘زمین کی ناف ’’ کا تصور یا اس کے مرکز کی کہانی جہاں ہر چیز اس کے گرد گھومتی ہے یہ مذاہب کی تاریخ کا ایک خاص خلاصہ ہے مثال کے طور پہ ایپولو کے پتھر کے لیے مزار کے بارے میں یہ بات سمجھی جاتی تھی کہ یہ یونانیوں کے لیے کائنات کا مرکز ہے استعارراتی طور پر بہت سارے دوسرے لوگ بھی پوری دنیا میں اپنے مزاروں کو کائنات کے مرکز تصور کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں سورہ ۴۲ اُس کی ۷ آیت کو مکہ والے ‘‘ اُمل کرہ ’’ کہتے تھے جس کا مطلب ہے ‘‘ مرکز کی ماں ’’ یا شہروں کہ ماں ’’ مسلمان تاریخ دان اس پیرائے کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ مکہ زمین کا مرکز ہے اور مکہ کے سارے علاقے کا حصہ یعنی ‘‘ مکہ کی ناف ’’ (۲۱)

  محمد کے بارے میں یہ شہادت انس بن ملک کی حدیث میں سے ملتی ہے کہ وہ پتھروں کی پرستش کرتا تھا :

   اُحد کا پہاڑ اللہ کے رسول کی نظر میں آیا تو اُنھوں نے فرمایا، ‘‘ یہ پہاڑ ہے جو ہم سے پیار کرتا ہے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں ۔

 اے اللہ ابرہام نے مکہ کو پاک کیا ہے اور میں مکہ اور مدینہ کے درمیان دو پہاڑوں کو پاک کرتا ہوں ’’۔(۲۲)

     یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ محمد حجرہ اسود کے ساتھ ساتھ اور کعبہ میں پتھروں کی پرستش بھی کرتا تھا اور عرب میں دوسرے پتھروں کی بدعات کا مطالعہ بھی موجود تھا جس کا گہرا اثر محمد کی زندگی پر تھا۔

کعبہ اور ابتدائی عرب کے مزار

عرب کے ابتدائی وقتوں میں بے شمار کعبہ موجود تھے اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے مندر یا مزار بھی تھے اور ان کو تواگت کہا جاتا تھا یہ تمام مقدس عمارتیں ان کا ایک خاص محافظ ہوتا تھا اور ان کے مجسموں کو ہدیے اور قربانیاں پیش کیں جاتی تھیں اور مزید ان کے گرد طواف بھی کیا جاتا تھا ۔( ۲۳ ) مثال کے طور پر ہیمار دیوتا کا ایک مندر ثنا میں تھا جس کو ریاپ کہتے تھے اس کے اندر بڑی ذمہداری کے ساتھ قُربانیاں اور ہدیے چڑھائے جاتے تھے ‘‘ ایک رپورٹ کے مطابق وہ اس کے وسیلہ سے ایک عہد کی بات چیت کو بھی وُصول کیا کرتے تھے ’’۔(۲۴) ثنا کے اسی علاقے میں ایبرا العشرم نے ایک مسیحی گرجہ گھر بھی تعمیر کروایا جس کو الکالس کہا گیا یہ سینگِ مر مر اور اعلیٰ ترین معیار کی لکڑی کے ساتھ بڑے خوبصورت طریقے سے تعمیر کیا گیا ’’ (۲۵) گرجے میں پرستش نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ محض شہادت تھی کہ عرب میں اسلام سے پہلے مسیحیت آچکی تھی ۔

مکہ کے کعبہ کی پرستش اسلامی دنیا کی باقی تمام عمارات سے زیادہ کی جاتی ہے حج کے دوران حاجی اس کے ذریعے اپنے ایمان کی شہادت دیتے ہیں اپنے جسموں کو اس کی دیوار کے ساتھ جُھکاتے ہیں تاکہ اُن کو اِس پاک ڈھانچے کے وسیلہ سے براکا (زوردار برکت) ملے۔(۲۶)

مکہ میں کعبہ کی یہ متبرک فطرت مزید اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ رُسول اکرم کے ۳۵ سالہ دور میں اس کی تجدید کا مظاہرہ ہوا اور بعد کے ۱۵ سالوں میں اسی پر مذہبی لڑائی بھی ہوئی۔

  اُنھیں اس کے پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے کسی قابل شخص کی ضرورت تھی اور خوش قسمتی سے اُنھیں ایک قطبی ترکھان مِل گیا جو مکہ میں یہ کام کر سکے اس طرح اس ماہر ترکھان کی مدد سے اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کے سارے ڈھانچے کو گرائیں اور اسے دوبارہ تعمیر کریں۔ ابووہاب جو کہ محمد کے باپ کے ماموں تھے اُنھوں نے کعبہ میں پتھر لا کر اس کی ابتداء کی ۔ اچانک ہی اُن کے ہاتھ سے نکلتے ہی یہ اپنی اصل شکل میں آگیا ابووہاب اب اس کو ایک مقدس جگہ کے طور پہ یاد کرتے ہیں اور اُنھوں نے خبردار کیا ‘‘ اے قریش والوں اس کے اندر کوئی حرام کی کمائی یا کوئی کرائے پر لائی ہوئی کسبی یا سُود خوری کی رقم اور نہ ہی کوئی بُرا کام اور تشدد اس عمارت میں کرنا ’’ (۲۷) اچانک لوگ تذبذب کا شکار ہو گئے اور مندر کو گرانے سے ڈرے اور اس کی ہیبت سے باہر نکلے اس پیش خیمہ کے باوجود مسلمان تاریخ دان ابن اضحاق کے مطابق محمد کی زندگی ایک ایسے شخص کی زندگی تھی جو نہ ڈر تھا:

     الولید بن المغیرہ نے کہا ‘‘ میں تباہ کاری شروع کروں گا ’’ اُس نے کدال اُٹھایا اور یہ کہتے ہوئے اُوپر چڑھ گیا ، اوہ خُدایا مت ڈر اوہ خُدایا ہم وہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو بہترین ہے’’۔ پھر اُس نے کونوں سے اُس حصے کو تباہ کر دیا اُس رات لوگوں نے دیکھا اور کہا کہ اگر اسے کوئی نقصان پہنچا تو ہم اس کا باقی حصہ برباد نہیں کریں گئے اور اسے دوبارہ بحال کر دیں گئے لیکن اگر اُسے کُچھ نہ ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ دیوتا نہ خوش نہیں ہے اور ہم اسے گرا دیں گئے۔ صبح کے وقت الولید دوبارہ اپنے کام پر آیا اور اُنھوں نے اس کو ابرہام کی بنیادوں تک گرا دیا وہ سبز پتھر جو اُونٹ کی کہان کی طرح تھے اُن کو اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور خُدا کے لیے ایک نسوانی شکل اختیار کرتے ہوئے جو کہ اصل عربی میں استعمال ہوئی اور جس کو کعبہ میں لاگو کیا گیا اُس کا نام لے کر خطاب کیا گیا اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ محمد کے زمانے کے دوران کیسے شہریوں کی زندگی میں ہر روز پتھر کی بدعت کو تعظیم دی جاتی تھی۔

بیت ایل بُت اور مجسمے

عرب کے رہنے والے ابتدائی لوگوں نے اس پرستش کو جہاں کہیں بھی وہ مختلف علاقوں میں گئے جاری رکھا وہ اکثر اپنے خُداؤں کو ساتھ اُٹھا لے جاتے اور اپنے ستانوں میں مزاروں میں اسے نسب کر لیتے عموماً پتھروں درختوں اور ستاروں کی پوجا کی جاتی تھی اور اِن کے اندر متحرک روحیں بستی تھیں (۲۹) جیسا کہ یونانی اور لاطینی مصنفین نے عرب کی ثقافت کے ساتھ تعلق قائم کیا تو وہ پتھروں کی بدعت کے دور دور پھیلے ہوئے تصور کے ساتھ اچانک ملے اُن کے لیے یہ بات بڑی عجیب تھی کہ لوگ پتھروں کی پوجا کرتے ہیں۔ ‘‘ آیا کہ یہ مکمل طور پر غیر متشکل ہیں یا یہ اُس طرح کے ہیں جس طرح کسی بھی پتھر کی ابتدائی شکل ہوتی ہے’’۔ (۳۰) مسلمان تاریخ دان ابن القالبسی کے مطابق :

   مکہ کے ہر خاندان کے گھر میں پرستش کے لیے ایک بُت ہوتا تھا جب کبھی اُن میں سے کوئی گھر سے باہر کسی سفر کے لیے جاتا تھا تو گھر چھوڑنے سے پہلے اُس کا آخری کام اُس بُت کو اِس اُمید پر چُھونا تھا کہ اُن کا سفر مبارک ہو گا؛ اور اُس کی واپسی پر پہلا کام جو وہ کرتا تھا دوبارہ اس بُت کو شکر گزاری کے طور پر چُھونا تھا کہ وہ مبارکل طور پر واپس لوٹا (۳۱)

   اسی طرح ایک اور مسلمان تاریخ دان ابن الاضحاق بھی اِسی طرح کا بیان دیتے ہیں وہ اپنے بیان میں صرف چُھونے کی بجائے اس بُت کو رگڑنے کا ذکر کرتے ہیں (۳۲)

   محمد نے حجرہ اسود کی روایت میں اِن رسومات کو جاری رکھا جب محمد نے چھڑی کے ساتھ پتھر کو چھوہا اور خُوشی سے کہا ‘‘ اللہ اکبر ’’ وہ اس بات پر ایمان رکھتا تھا کہ اس بُت کے اندر الوہیت ہے اس طرح سے وہ ایک عام عربی ذہنی ڈھانچے کی عکاسی کرتا تھا۔ اسلامی الہیات کے حوالے سے بہت ساری مثالیں اور تضادات اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں مثال کے طور پر کیوں محمد اور اُس کے پیروکار واضح طور پر چاپلوسی اور ادب وآداب کے لیے بتوں سے باتیں کرتے تھے جب کہ دوسروں کو بُت پرستی سے روکتے تھے؟ اسی طرح سے مقدس اور پاک اشیاء کو ان پتھروں کے ساتھ اس حقیقت کے ساتھ جوڑا جاتا تھا کہ کوئی بھی حیض میں مبتلا خاتون ان پاک چیزوں یا پتھروں کو چھو نہیں سکتی تھی (۳۳) اور اس کی مخالفت میں حج کی اسلامی روایت میں اس کو نجس قرار دیا جاتا تھا ابن القالبی نے ابتدائی عرب والوں کی رسومات کے متعلق یہ بیان دیا:

    کہ عرب والے بتوں کی پوجا کے لیے بہت زیادہ جذباتی تھے اُن میں سے کُچھ اپنے آپ کو اُن مندروں کے درمیان میں لے جاتے تھے اور وہ اُن کی پوجا کے مرکز تھے جب کہ دوسرے کسی بھی بُت کو جو اُن کو تقدیس کے لیے دیا جاتا تھا اُس کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کرتے تھے وہ ژخص جو اپنے لیے اس مندر کو تعمیر کرنے کے قابل نہ ہوتا یا اس بُت کو لینے کے قابل نہ ہوتا تو وہ کسی بھی دوسرے مندر کے سامنے بُت کو کھڑا کر لیتا جس کو وہ ترجیح دیتا تھا اور پھر اسی طرح وہ اُس کے گرد طواف کرتا جیسے کہ وہ پاک گھر گرد طواف کر سکتا تھا عرب والے اِن بتوں کو بیت ایلز (انسب) کہتے تھے جب کبھی یہ پتھر کسی جیتی جاگتی شکل کی صورت میں ہوتا تھا تو اِس کو بُت (انسب) ابو تصور (اوتھن) اُن کا طواف کا یہ عمل سرکم روٹیسن (دیوار) کہلاتا ہے (۳۴)

  مزید برآں یہ بُت اکثر لکڑی سونے یا چاندی کے بنے ہوتے تھے؛ اور مورتیں اکثر پتھر کی بنی ہوئی ہوئی ہوتی یا ایک پتھر کو بطور بُت طواف کے ذریعے پرستش میں لیا جاتا تھا (۳۵) قالبی مزید ان رسومات کو بیان کرتے ہوئے ذکر کرتا ہے:

     جب کبھی ایک مسافر کسی جگہ یا مقام (ایک ایسی جگہ جو رات گزارنے کے لیے ہوتی) پر رُکتا تو وہ اپنے لیے چار پتھروں کو چُنتا تھا ان میں سے سب سے اعلیٰپتھر کو چُن کر اپنے خُدا کے طور پہ رکھ لیتا اور باقی تین کو اپنے کھانا پکانے کے برتن کی معاونت کے لیے اپنی روانگی پر وہ اِن کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور اگلے مقاموں پر بھی یہی کُچھ کرتا ہے عرب والے ان بتوں بیت الز (انسب) اور پتھروں کے آگے قُربانیاں بھی گزارنتے تھے باوجود اس کے کہ وہ کعبہ کی شان اور برتری کو بھی چاہتے تھے جس کی زیارت وہ حج کے طور پہ کرتے تھے اُنھوں نے اپنے سفروں کے دوران جو کُچھ کیا ہوتا تھا وہی کُچھ وہ کعبہ میں آکے کرتے کیونکہ اُن کی اِس کے ساتھ عقیدت تھی وہ بھیڑ جو وہ پیش کرتے تھے اور ان بتوں اور بیت الز (انسب) کے سامنے قُربان کرتے تھے اُن کو وہ ذبحہے کہتے تھے اور وہ جگہ جس پر وہ یہ قُربانیاں یا ہدیئے قُربان کرتے تھے اُن کو وہ مذبحے کہتے(۳۶)

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقدس بیت ایل دوہرے مقصد کے لیے استعمال کیے جاتے تھے پہلے نمبر پر یہ مجموعی طور پر خاص الوہیت کو پیش کرتا ہے جو بھی مردوزن اس کو انفرادی طور پر اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہے دوسرے نمبر پر یہ ایک مقدس مذبحے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جو اس کو مذبحے کے طور پر قُربانیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بہت سارے اسلامی مفکرین اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حجرہ اسود بلاشبہ مقدس قُربان گاہ کے طور پر پوجا جاتا ہے اور برکات کے لیے اس کو پُکارا جاتا ہے تاہم اس کے اُوپر جانوروں کی قُربانیاں حج کے وقت میں گزارنی نہیں جاتیں۔

ابتدائی عرب کی بتوں اور بیت ایل کی پوجا

بہت ساری اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد حج کے ادا کرنے کی روایات سارے ابتدائی عرب میں موجود ہیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں : بتوں اور بیت ایل ( انسب ) کے مختلف ہدیوں اور قُربانیوں جو پتھروں کے لیے، طوافوں کے ذریعے اور اسی طرح کی مقدس ثٹانوں کے مزاروں کی رسموں کے ذریعے ادا کی جاتی تھیں۔

     تبالہ میں جو کہ مکہ سے سات روتوں کا سفر ہے اس جگہ پر دھو القلاش کا بُت پڑا ہے یہ سلیکہ کی ایک معدنی شکل کی پہاڑی کا تراشہ ہوا ٹکڑا تھا اور اس کی مشابہت ایسے تھی جیسے اس کے سر پر کوئی تاج ہوتا ہے یہودہ کے سائل کے نزدیک یا اس علاقہ میں ایک اور بُت تھا جو سعد کہلاتا تھا یہ ایک لمبی ثٹان کہلاتا تھا ایک اور قبیلہ جس کا نام دھوز تھا اُنکا ایک اپنا بُت تھا جس کو اُنھوں نے مزار میں رکھا ہوا تھا اور اسے وہ دھوایل کفن کہتے تھے ( اس کی دو ہتھلیاں تھیں )۔ ( ۳۷ ) ‘‘ کِسی آزد قبیلے کا بھی ایک بُت تھا جس کو دھوایل شرع ( دُوس راس ) کہتے تھے۔ (۳۸) یہ نباتین کا بھی ایک بڑا دیوتا تھا ‘‘ اس کی سب سے بڑی تقدیس پیترا میں تھی جہاں ایک بڑا سیاہ رنگ کا پتھر جو کہ ایک شاندار مندر میں تھا پوجا کے لیے وقف کیا ہوا تھا ۔ ’’ ( ۳۹)

ابن الا قالبی نے ایک دوسرے بُت کے بارے میں بیان کیا :

 تئیں قبیلے کے پاس ایک بُت تھا جس کو الفالس کہتے تھے یہ ایک سُرخ رنگ کا تھا اس کی شکل اُن کے پہاڑ کے مرکز آجا میں ایک انسان کی سی تھی جو کہ سیاہ تھا وہ اُس کی پوجا کرتے تھے اس کو ہدیے چڑھاتے تھے اور اس کے سامنے اپنی قُربانیاں ذبح کرتے تھے ( ۴۰)

   مزید شام کی پہاڑیوں کے جنوب میں قُادہ، لکھم، جُودھم، امیلہ اور گتفان کا بھی ایک بُت تھا جس کو الُااوکیسر کہتے تھے وہ اکثر زیارت کے لیے جاتے تھے اور اس بُت کے مزار پر اپنی آمد پر اپنے سر منڈلاتے تھے۔ ایک شخص جس کا نام ذوہیب تھا اُس نے کہا، ‘‘ مجھے الاوکیس کے بیتایل کی قسم جس پر سر منڈوائے جاتے ہیں ’’ ( ۴۱ ) اس بات پر غور کیجیے کہ کیسے یہ دیوتا اُوکیسر ایک بُت کے طور پہ پیش کیا جاتا تھا اور بیت ایل ( انسب ) ایک دوسرا دیوتا تھا یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پتھر کی شکل زیادہ اہم نہیں تھی ۔ اناز کا بھی ایک بُت تھا جو سوایر تھا جس کو وہ طواف کے لیے استعمال کرتے تھے ایک مسافر جعفر اس بُت کے قریب آیا اور اُس نے اپنا بیان دیا :

سائر کے گرد میرے جوان اُونٹ قُربانی کا خون دیکھ کر چونک گئے اور زیارت کے دُوران اس کے نزدیک خوفزدہ اور بےحس و حرکت اور خاموش کھڑے رہے اس کی غیبی آواز کے انتظار میں ۔ ( ۴۲ )

ابن الاقالبی سے روایت ہے کہ مسافر بدووں نے بہت زیادہ بیت ایلز بنائے جو کہ در حقیقت ابتدائی تباہکاریوں کے ذریعے سے اکٹھے ہوئے پتھروں سے تھے اُن کو گاڑا گیا اُن کے لیے قُربانیاں چڑھائی گئیں اور بطور بلوتا اُن کا طواف کیا گیا انہی پتھروںکے بارے میں وحی کی بنیاد پر دمشق کا یوحنا اپنے بیان کو درست کرتا ہے کہ حجرہ اسود درحقیقت ایفروٹائیڈ کے بُت کا مجسمہ تھا۔

  مندرجہ بالا اقوال کی فہرست ابن الا قالبی کے تاریخی بیانات سے آتی ہے جن کا تعلق عرب مادی ثقافت میں پھیلی ہوئی پتھر کے متعلق بدعتوں سے

ہے :

غنی ہر شام اپنے بیت ایل کے گرد طواف کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بیت ایلز سے عہد لوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوان لڑکے اپنے بیت ایل کے گرد طواف کریں گئے جب تک کہ اُن کے بال سُرمی رنگ کے نہ ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔۔میں اپنی اُونٹینیوں کے آگے آگے چلوں گا اور میرے بیت ایلز میرے پیچھے ہونگے؛ کیا میرے لوگوں کے خُدا میرے پیچھے ہونگے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے اپنے بیت ایلز اور پردوں کی قسم کھائی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ! آلات اور مقدس بیت ایلوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ میں اور میرا گھوڑا میرا علاقہ میرے بیت ایلز کی طرح خون کی قُربانی سے ملا جائے گا

( ۴۳ )

یہ تمام تاریخی اقوال اس بات کی واضح شہادت پیش کرتے ہیں کہ کیسے ابتدائی عرب میں بتوں کی پوجا کا رُجحان تھا۔

  ایک دوسرے سند جو بتوں کی پوجا یا بدعتوں کے بارے میں عرب کے معاشرے میں موجود تھی کہ وہ اپنے بچوں کے نام اپنے خاندان کے نام ان بتوں کے ناموں پہ رکھتے تھے ۔

مثال کے طور پہ موزینے کے پاس ایک بُت تھا جس کا نام نوہم تھا اور اُس نے اپنے بچوں کا نام اُس بُت کی عزت میں عبد نوہم رکھا اُن کے پاس نوہم کا ایک محافظ بُت بھی تھا جس کا نام کزئی ابن عبد نوہم تھا (۴۴)

 اور یہ بہت اہم بات نظر آتی ہے کہ محمد کے اپنے گھرانے میں قریش کا نام کعبہ کے محافظ کا نام تھا جو کہ اُس کے آباؤ اجداد کے ناموں میں سے مناف نام کا سورج کا دیوتا تھا اور دوسرا نام العضا تھا جو کہ اللہ کی بیٹیوں میں سے ایک ہے خاص طور پہ مزے کی بات یہ ہے کہ محمد کے اپنے باپ کا نام عبداللہ تھا جس کا مطلب ہے ( اللہ کا غلام ) ( ۴۵ )

کیوں اُنھوں نے اپنے نام ان دیوتاؤں کے نام پر رکھے واضح طور پہ یہ ایک مذہب تھا جو ان پتھر کے بتوں کو عزت دیتا تھا ۔

مزید برآں یہ محض ایک تفاق تھا کہ محمد کے باپ نے اسلامی الہیات کا نام اسے دیا یا اللہ محض ۳۶۰ یا اس سے زیادہ بتوں میں سے ایک بُت تھا جو اسلام سے پہلے کعبہ میں موجود تھا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

باب سوم

مادہ پرستی کے لیے محمد کی ممانعت

اللہ کی بیٹییاں : مِنا ، ال لات اور ال عُضا

مِنا ( منات )

مِنا ( مِنات ) ایک بُت تھا جِس کو تمام اہل عرب بہت قدیم سے پُوجا کرتے تھے ؛ وہ اکثر اپنے بچوں کے نام عبدمِنا اور زید مِنا اس کو عزت دینے کے لیے رکھتے تھے دیوی مِنا کے سب سے زیادہ عقیدت پر زور دینے والے لوگ مُشلل کے علاقہ میں رہتے تھے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کو دات میں تھا ابن ِال قالبی سے روایت ہے:

خاص طور پر اُوذ اور خضراز والے مدینہ اور مکہ کے باسیوں کی طرح مِنا کو پوجا کے لیے استعمال کرتے تھے اُس کے آگے قُربانیاں چڑھاتے تھے اور اُس کے سامنے اپنے ہدیے لاتے تھے ۔ (۱)

    مزید برآں ابنِ ال قالبی بیان کرتے ہیں کہ محمد کا اپنا قبیلہ قُریش خود بھی اپنے بڑے دیوتاؤں میں سے ایک یعنی مِنا کی پوجا کرتا تھا ۔ ( ۲ ) ابنِ الاقالبی اِسی بیان کو جاری رکھتے ہیں:

حجکے آخر پر ، جب وہ گھر واپس لوٹنے کے قریب تھے تو اُنھوں نے اُس جگہ پر جہاں مَنا کو گاڑھا گیا تھا اپنے سروں کو منڈوایا اور وہاں کُچھ دیر ٹھہرے اُن کا حج اُس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک کہ وہ مِنا کا دورہ نہیں کرتے تھے ۔(۳)

    اِسی کی بنیاد پر ایک حدیث میں محمد نے اِس روایت کو جاری رکھا اِس کے بعد عمرہ ( مختصر حج ) وہ مکہ میں آیا اور اپنا سر منڈوایا۔

  عام طور پر مِنا کو قسمت کی دیوی مانا جاتا ہے بطور                                                                                ۔۔۔تاریکی کے چاند کے بہت ساری قربان گاہیں اِس کے لیے وقف ہیں جن کو تعمیر کے سامان پتھروں اور دوسری چیزوں سے تعمیر کیا جاتا ہے اور اکثر اِن پر مینڈھے اور بیل وغیرہ کو ذبح کیا جاتا ہے اور یہ قُربانیاں ابتدائی چاندوں یعنی پہلی رات کے چاندوں کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں ۔ (۴)یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ جانور چاند دیوتا قُربانی کے لیے پیش کیے گئے ہیں ۔

   یہ تمام قسمت کے حوالے سے ہر طرف پھیلے ہوئے تصورات محمد کی نفسیات کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں جو کہ براہ راست اسلام سے پہلے کی مادیت پرستی سے آئے ہیں ۔ خاص طور پر دیوی مِنات کی بقا کے بارے میں جو کہ اِس بات کی گواہی ہے کہ یہ ابتدائی عرب میں لوگوں کے ذہنوں کے اندر قسمت کی دیوی تھی۔ قسمت یا مقدر کے متعلق ایک بنیادی عقیدہ اسلامی الہیات کے ایمانی نظام کی جڑ کے طور پہ موجود ہے۔

آل لات

ابن ال قالبی کے بیان کے مطابق اللہ کی بیٹیوں میں ایک اور نام نہاد بیٹی ہے:

پھر اُنھوں نے آلات کو اپنی دیوی کے طور پر اختیار کیا ۔ آلات طائف میں گاڑھی گئی اور مِنا سے زیادہ جدید ہے یہ ایک مربعی شکل کا پتھر تھا جِس کو یہودی استعمال کرتے تھے ۔ جِس کو یہودی اپنا سازوسامان تیار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے اِس دیوی پر تھا کف کے رہنے والے بنو اعتاب ابنِ مالک کا قبضہ تھا جِس نے اِس کے گھر کیتعمیر کروائی تھی اہل قریش بھی تمام عرب والوں کی طرح ال لات کی پوجا کرنا چاہتے تھے اُنھوں نے بھی اپنے بچوں کے نام اِس کے نام پر رکھے وہ اُن کو زید آلات اور طیم آلات کہتے تھے یہ دیوی آج مکہ ۔۔۔۔ زمانے میں الاطائف کی مسجد کے مینار کے بائیں ہاتھ کھڑی ہے وہ ایک بُت ہے جس کے لیے خُدا نے ذکر کیا ‘‘جب اُس نے یہ کہا کیا تو نے ال لات اور اُعضا کو دیکھا ہے ’’ ؟ (۵)

ال ُعضا

   یہ یقین کیا جاتا ہے کہ عرب والوں کے لیے ال لات یا مِنا سے زیادہ جدید ال عُضا ہے اور عرب والوں نے ال ُعضا کے نام پر بھی اپنے بچوں کے نام رکھے ابن ال قالبی نے ال عُضا کے بدعت کو بیان کیا :

   اِس کا بُت نخلتاً شامہ کی وادی میں جو کہ حوُرد کہلاتی ہے میں واقع ہے جو کہ الاگھمیر کے ساتھ ساتھ مکہ کی سیدھی سڑک سے الاایراغ کی طرف جاتی ہے جو کہ دھت ایرک کے اُوپر اور الابوُستان سے نومیل دور ہے اِس کے اُوپر اس کا ایک گھر بنایا گیا ہے جس کو بُھس کہا جاتا ہے جس پر لوگ اپنی غائبی گفتگو کو وصول کرتے ہیں۔ عرب والوں کے ساتھ ساتھ قریش والے بھی اِس کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام عبدل عُضا  رکھتے تھے ۔

مزید برآں ال ُعضا قریش کا سب سے بڑا بُت تھا وہ اِس بت کو سفر کا خُدا کہتے تھے اِس کو تھفے چڑھاتے تھے اور قُربانیوں کے ذریعے اِس کی خوشنودی حاصل کرتے تھے ۔ دوسرے عرب والوں کے ساتھ ساتھ قریش والے بھی جو مکہ میں آباد تھے وہ کسی دوسرے بُت کو ال عُضاسے زیادہ قُربانی نہیں دیتے تھے اِس کے بعد وہ ال لات اور مِنا کی پوجا کرتے تھے تاہم ال عُضانے قریش والوں سے اپنی زیادتوں اور قُربانیوں کی وجہ سے بہت عزت پائی اسی بات کی وجہ سے میں ایمان رکھتا ہوں کہ وہ اس بُت کے زیادہ قریب تھے ۔ (۶)

  پہلے بھی جیسے بیان کیا گیا ہے کہ محمد کے اپنے آباؤ اجداد میں سے جو قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے اُنھوں نے اپنا نام عبدل عُضارکھا یہ اُسی خُدا کی پوجا کرنے کے زیرِ اثر تھا ۔

ابتدائی موحدین

بہت ساری مختلف صورتوں میں قرآن نے ( حینف ) کی اصطلاح کو استعمال کیا جس کا ترجمہ ( مومن ) یا ( مسلمان ) ہے بیان کرتا ہے ، ‘‘ ابراہام نہ ہی یہودی تھا نہ ہی مسیحی بلکہ ایک مومن تھا اور اللہ کی مرضی کے سامنے جُھکتا تھا ( جو کہ اسلام ہے ) اور اُس نے اِن بتوں کو اللہ کے ساتھ نہیں جوڑا ۔ ’’

 ( قرآن ۳:۶۷ ) پیٹرز ایک خاص تعریف جس کی بنیاد اسلامی الہیاتی پر ہے پیش کرتا ہے۔

  مسلمان مفکرین نے حینف کا لفْط لیا اور اسی سے اسم مصدر حنیفہ کو دو طرح سے پیش کیا: پہلے اسلام کی تاریخ کے لیے مترادف کے طور پہ پیش کیا جِس کے مطابق یہ مذہب محمد پر نازل ہوا اور مسمانوں نے اس پر عمل کیا اور دوسرے نمبر پر اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا مطلب ہے کہ یہ قدرتی موحدین کی شکل ہے جس کا آغاز ابراہام نے بحیثیت سردار کیا اگرچہ پورے طور پر نہیں اور بعد از اِس اسلامی روایت کو یاد کیا گیا اور مکہ میں ایسے موحدین نے اسلام سے پہلے بھی اس وحی کا فائدہ اُٹھایا۔ (۷)

   محمد کی نبوت کے بلاوے سے قبل بہت سارے حنیف موجود تھے ایک مسلمان تاریخ دان ابنِ اضحاق محمد کی زندگی میں بیان کرتے ہیں جس کا تعلق ان ابتدائی موحدین کے ساتھ ہے: ایک دن جب روزے کے دن اہل قریش کا اکٹھ ہوا اُن بتوں کی پوجا اور طواف کے لیے جن کے آگے وہ ہدیے چڑھاتے اور قُربانیاں دیتے تھے اور اس کو وہ اپنی سالانہ عید کے طور پہ بھی مناتے تھے تو چار آدمی خاموشی کے ساتھ اُن سے الگ ہو گئے اور اِس بات پر متفق ہو گئے کہ اُنھوں نے اپنی ایک علیدہ کونسل بنانی ہے ۔ (۸)

  اِن چار آدمیوں کے نام یہ ہیں ۔ (۱ ) ورقا بن نوفل ۔( ۲) عبید اللہ بِن حبیش ( ۳ ) عثمان بن الا حویرک اور ( ۴ ) زید بن امر ابن ال اضحاق اِس بیان کو جاری رکھتے ہیں : ان لوگوں کی رائے تھی کہ اہل قریش نے اپنے باپ ابراہام کے مذہب کو بگاڑ دیا ہے اور وہ پتھر جو وہ اُٹھائے پھرتے ہیں نہ تو اِن کی سُن سکتے ہیں نہ اِن کو دیکھتے ہیں نہ اِن کو ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ اِن کی مدد کر سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو ضرور ایک مذہب جانو ، اُنھوں نے کہا تمہارے پاس کُچھ بھی نہیں پس وہ زمین پر پھیل گئے اور ابراہام کے مذہب کو حنیفہ کے طور پہ استعمال کیا ۔ (۹)

جب سے اہل قریش کعبہ کے رکھوالے بنے کیا تب سے حجرہ اسود کو ترجیح دی گئی ؟ اس گواہی کا دینا کافی مشکل ہے کیونکہ اُس وقت میں کعبہ کے اندر ۳۶۰ سے زاید بُت موجود تھے جب کہ یہ چار مرد ہر قسم کی بُت پرستی کی ممانعت کرتے تھے ۔

بہت سارے سوالات اُٹھنے چاہیے کیوں بُت پرستی کی تمام شکلیں ختم نہیں کی گئی ؟ کیوں حجرہ اسود کو گھر کی حیثیت دی گئی ؟ کیا حجرہ اسود ماضی کے دوسرے بتوں کے ساتھ پوجا جاتا تھا ؟ اس آخری سوال کا جواب واضح طور پر ہاں میں ہے پھر کیوں اسلامی معاشرے نے آج بھی مادہ پرستی کی اس روایت کو کہ وہ حجرہ اسود کو پوجنا جاری رکھا ہوا ہے ؟

   یہ پہلا حنیف جس کا تزکرہ اُوپر کیا گیا یعنی ورقا بِن نوفل یہ محمد کی پہلی بیوی خدیجہ کا چچا زاد تھا وہ ایک بوڑھا آدمی تھا اس نے خود کو مسحیت کے ساتھ جُوڑے رکھا اور اس کے صحائف کا پورے طور پر مطالعہ کرتا تھا ۔ (۱۰)عائشہ جو کہ محمد کی ایک اور بیوی تھی اُس نے بیان کیا :

  ‘‘ ورقا جو کہ اسلام کے پہلے کے دور میں ایک مسیحی بنا اور اُس نے اپنی تحریریں عبرانی حروف میں لکھی اُس نے اناجیل کو عبرانی میں لکھا جتنا زیادہ وہ اللہ کی مرضی سے لکھ سکتا تھا ’’۔ (۱۱)

    عائشہ نے ایک اور حدیث میں ایک اور بیان دیا ۔ ورقا جو کہ اسلام سے پہلے کے دور میں مسیحی ہوا اُس نے اناجیل کو عربی میں لکھا ۔۔۔۔’’۔ (۱۲)

ان احادیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ بائبل کے عربی مترجمین میں سے ایک تھا ۔ ابنِ اضحاق دوسرے حینف کا بیان بتاتے ہیں ۔

   عبید اللہ نے اسلام کے آنے تک تحقیق جاری رکھی ؛ پھر وہ حبشہ مسمانوں کے ساتھ اپنی بیوی کو لیکر جو کہ ایک مسمان تھی ہجرت کر گیا اُس کا نام اُمہ حبیبہ بن اُبو سفیان تھا جب وہ وہاں آیا تو اُس نے مسحیت کو قبول کیا ، اسلام سے الگ ہوا اور حبشہ میں ایک مسیحی کے طور پہ مر گیا ۔ محمد بن جعفر بن الذبیر نے مجھے بتایا کہ جب وہ ایک مسحیی بنا تو جب عبیداللہ نبی کے ساتھیوں کے قریب سے گذرا جو کہتے تھے ‘‘ ہم واضح طور پہ دیکھتے ہیں لیکن تمہاری آنکھیں صرف آدھی کُھلی ہیں ’’ ہم دیکھتے ہیں کہ تم پھر بھی دیکھنے کی کوشش کر رہے ہو ۔ ’’ اُس نے لفظ ثاثہ استعمال کیا کیونکہ جب ایک کتے کا بچہ اپنی آنکھیں دیکھنے کے لیے کھولنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کو صرف آدھا نظر آتا ہے دوسرا لفظ فقہ ہے جس کا مطلب آنکھیں کھولنا ہے اُس کی موت کے بعد رُسول نے اُس کی بیوی اُمہ حبیبہ سے شادی کر لی۔ (۱۳)

ایک تیسرا حنیف عثمان تھا جو کہ بیذانتن کے حکمران کے پاس سفر کے لیے گیا وہ ایک مسیحی بن گیا اور اُس کو وہاں ایک اعلیٰ عہدہ ملا ۔ اضحاق چوتھے حینف زید کی زندگی کے بارے میں جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

  زید بن امر ویسے ہی رہا جیسے وہ تھا : اُس نے نہ تو یہودیت کو قبول کیا اور نہ ہی مسیحت کو اُس نے اپنے لوگوں کے مذہب سے منع کیا اور بتوں ، جانوروں  کی پوجا اور بتوں کے آگے خون بہانے اور ہدیے دینے سے پرہیز کیا اُس شیر خوار بیٹیوں کو مارنے سے منع کیا اور اُنھیں کہا کہ وہ ابراہام کے خُدا کی پوجا کرتا ہے اور اُس نے اپنے لوگوں کے کاموں کو کھلے عام منع کیا ۔۔۔ اب زید سادہ طور پہ یہودیت اور مسیحیت کو مانتا تھا لیکن وہ اِن کے ساتھ مطمین نہیں تھا ۔ وہ ایک دفعہ مکہ کی تعمیر میں آیا لیکن جب وہ لکھم کے ملک میں آیا تو اُس پر حملہ کیا گیا اور اُسے مار دیا گیا ۔ (۱۴)

  یہ بات قابلِ فہم ہے کہ کیوں زید نے مسیحت یا یہودیت کو قبول نہیں کیا کیونکہ ساتویں صدی عیسوی میں دونوں مذاہب کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی اصلی تعلیم سے پھر گئے ہیں۔

  اِن حینفوں کے علاوہ جن چار کا پہلے تزکرہ ہو چکا ہے دوسرے حینف بھی تھے مثال کے طور پہ اُبو عامر قابلِ ذکر ہیں وہ ایک ‘‘ راہب ’’ کہلاتے تھے اور تارک الدنیا زندگی کی مشق کرتے تھے ۔ یہ بات بھی سمجھی گئی ہے کہ وہ ایک مسیحی زہد تھے ، لیکن بعض بیانات اُن کو ‘‘ حنیفہ ’’ کے ساتھ ملاتے ہیں جن کا عقیدہ یہودی رسم ورواج کے قریب تھا ۔ (۱۵)

ایک دن جیسا کہ تاریخ دان ابنِ اضحاق کے ریکارڈ کے مطابق ابو امر پیغمبر محمد کے ساتھ آمنے سامنے ملے ابو امر رُسول کے پاس مدینہ آئے اور اُن سے اُس مذہب کے بارے میں پوچھا جو وہ لائے تھے ۔ ‘‘ حنفہ ’’ ابراہام کا مذہب محمد نے جواب دیا ۔ ‘‘ یہی ہے جس کی پیروی کرتا ہوں ’’۔ ( ابو امر نے کہا ) ‘‘ تم نہیں کرتے ۔’’ ہاں میں کرتا ہوں لیکن تم محمد نے حنیفہ میں اُن چیزوں کو متعارف کروایا ہے جو اس کا حصہ نہیں ہے ۔ ’’ میں نے ایسا نہیں کیا ’’۔

 ( محمد نے جواب دیا ) ‘‘ میں اسے صاف اور خالص لایا ہوں ۔ ’’ (۱۶)

  وہ ‘‘ چیزیں جو اس کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں ۔’’ یہ چیزیں ان تصورات سے لی گئی ہیں جن کا تعلق مادہ پرست رسومات اور روایات سے ہے جن کو محمد نے اپنے نئے مذہب میں شامل کیا تمام حینفوں نے اس اسلام سے پہلے کے کاموں کو مذہب میں شامل کرنے کی وجہ سے مشکل محسوس کی ۔ اس بات کی بھی شہادت مختلف تاریخ دانوں سے ملتی ہے کہ محمد کے یہودیت اور مسیحیت کے ساتھ ذاتی قریبی تعلقات تھے ۔ مزید برآں اُس کی زیادہ تر بیویاں اور حرمائیں مسیحی تھیں یا اُن کے شخصی تعلقات مسیحیوں کے ساتھ تھے ۔

مزید یہ کہ بہت ساری کلیسائیں اور یہودی گروہ عرب میں رہتے تھے دونوں بڑی اہمیت کے حامل تھے اور بِلا شبہ اُس وقت میں محمد کا آمنا سامنا اِن گروپوں کے ساتھ ہوتا تھا جب وہ کاروان کے ساتھ سفر کرتا تھا ابو امر نے محمد کے نئے مذہب کے لیے ایک دُرست جائزہ پیش کیا ، جس کے مطابق اُس نے ابراہام کے ایمان کے اندر اضافی پہلوؤں کو شامل کیا یہ مذہب چھ بنیادی ذرائع سے بنا جن میں ۱۔ مسیحیت  کی مختلف شکلیں تھیں ۲۔ باطنیت ۳۔ ہر قسم کی یہودیت ۴۔ عرب کے قصے کہانیاں اور روایتیں  ۵۔ سائبین مشقیں اور ۶ ۔ فارسی زرتشی (۱۷)

   محمد نے ال عُضا کو قُربانیاں چڑھانے سے منع کیا ۔

زید بن امر چوتھے حنیف نے جوان محمد کے خلاف اُس کی سخت ممانعت کے لیے تنقید کی ۔ یہ بیان زید بن حارث کے اختیار پر مبنی ہے پیٹرز نے محمد کے ابتدائی مادہ پرست ہونے کی مندرجہ ذیل مثال حدیث سے دی ہے نبی نے بتوں میں سے ایک کے لیے قُربانی چڑھائی ( نسب مِن الانسب ) ؛ پھر اُس نے اِس کو بُھونہ اور پھر اسے لے آیا پھر زید ابن امر ابن نفل ہمیں وادی کے اُوپر والے حصے میں ملے یہ مکہ کے گرم دِنوں میں سے ایک تھا جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملے تو ہم نے اُس دور کے بربریت کے زمانے کے مطابق سلام دُعا لی ۔ ( علیک سلیک لی ) جو کہ اِن ام سُحبان تھا ۔ نبی نے کہا ،

‘‘ میں کیوں تمہیں دیکھتا ہوں اے ابن امریکہ لوگ تجھ سے نفرت کرتے ہیں ؟ ’’ ‘‘ اُس نے کہا کہ میرے نفرت کیے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ خُدا کی ذات کے ساتھ دوسرے الہوں کو جوڑتے ہیں اور میں ایسا کرنے سے بعض آتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ وہ ابراہام کے مذہب کی پیروی کریں ۔۔۔’’ نبی نے کہا ‘‘ کیا تم کُچھ کھانا پسند کرو گے ؟ ’’اُس نے کہا ‘‘ ہاں ’’ پھر نبی نے اُس کے سامنے اُس ‘‘ جانور کا گوشت ’’ رکھ دیا ۔ اُس ( زید ابنِ امر ) نے کہا : ‘‘ محمد تو نے کِس کے لیے قُربان کیا ہے ؟ ’’ اُس نے کہا ، ‘‘ بتوں میں سے ایک کے لیے ’’ ۔

    مندرجہ ذیل واقعہ جو اُوپر بیان کیا گیا اِس میں یہ ریکارڈ کیا گیا کہ زید نے شدید طور پر محمد کی بُت پرستی کی ممانعت کی مندرجہ ذیل میں اُس نے یہ جواب دیا:

‘‘ میں اُن میں سے نہیں ہوں جو خُدا کے علاوہ اور کِسی بُت کی قُربانیاں چڑھاتے ہیں ۔’’ (۱۸)

اس کے برعکس ابنِ قالبی نے بیان دیا : ‘‘ ہمیں بتایا گیا کہ خُدا کے رسُول نے ایک بار یہ ذکر کیا جو کہ ال عُضا کے بارے میں تھا، میں نے ال عُضاکے لیے سفید بھیڑ پیش کی جب کہ میں اپنے مذہب کے لوگوں کا پیروکار ہوں ۔ ’’(۱۹)

بہت سارے مفکرین ایمان رکھتے تھے کہ قرآن مادہ پرستی کی قُربانی کو غلط کہتا ہے سورہ نمبر ۹۶ ، سے ۸ آیت تک ‘‘ کیا اُس نے تمہیں ایک یتیم کے طور پہ نہیں پایا اور تمہیں پناہ نہیں دی کیا اُس نے تمہیں قصور وار نہیں پایا اور تمہاری ہدایت کی ؟ کیا اُس نے تمہیں ضرورت مند نہیں پایا اور تمہاری حاجت رفع کی ۔

محمد کی گناہ آلودہ فطرت

بہت سارے مسلمان اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ محمد نے کبھی غلطی یا گناہ کیا ہے ۔ اسلام کے غلط تصور کے لیے حدیث مکمل طور پر اُس کے گناہگار ہونے کی تصدیق کرتی ہے یہاں تک کہ اُس کے نبوت کے سالوں کے دوران بھی واضح طور پر حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ اپنی گناہ آلودہ فطرت کی وجہ سے وہ ایک کامل آدمی نہیں تھا

مثال کے طور پہ اُس کی بیوی عائشہ سے روایت ہے :

نبی نے کہا ۔۔۔ اے اللہ میرے دل کو برف اور اُولوں کے پانی سےدھو اور میرے دل کو تمام گناہ سے صاف کر جس طرح سے  کپڑا گندگی سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دیا جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ ہے ۔(۲۰)

ابو موسیٰ مزید محمد کی گناہگار فطرت کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں : نبی نے پُکار کر اللہ سے دُعا کی جو کہ مندرجہ ذیل دُعا ہے ۔۔۔ اوہ میرے خُدا میرے گناہ اور میری جہالت کو معاف فرما اور میرے عملوں کے درمیان جو میری راستبازی کے لیے حدیں کھڑی کرتی ہیں دُور کر اور وہ کر جو میرے لیے بھلا ہے۔ اے اللہ میری غلطیاں معاف فرما جو میں نے جان بوجھ کر یا اپنی جہالت کی وجہ سے کی یا میں نے اپنی سنجیدگی سے کی ہیں میں اپنی اُن تمام غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں جو میں نے کیں اے اللہ میرے ماضی کے اور مستقبل کے گناہوں کو معاف فرما جو میں نے کھلے عام یا چُھپ کر کیے ہیں ۔(۲۱)

  ایک اور مشکل مرحلہ جو محمد کو بے شمار دفعہ پیش آیا وہ خُود کشی کرنے کی کوششیں تھیں بہت دفعہ وہ اپنی روح میں رنجیدہ ہوا اور اُس نے خیال کیا کہ وہ بد روحوں کے قبضے میں ہے اور اُس نے کوشش کی کہ اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا لے لیکن اپنی قسمت کے مطابق وہ کُچھ مافوقالفطرت قوتوں کے سبب جو اُس کو غار میں ملتی تھی اور جس کو وہ جبرائیل کے طور پر پیش کرتی تھیں اُنھوں نے اُس کو منع کیا ۔ (۲۲)

  یہ بات غور کرنے کے لیے بڑی دلچسپ ہے کہ محمد نے بعد میں خُود کشی کرنے کو ایک بڑا گناہ کہا جو براہ راست جہنم میں لے جاتا ہے حدیث اس ایمان کی تصدیق کرتی ہے جو کہ جنداب کے بیان کے ذریعے نظر آتا ہے : نبی نے کہا ، ‘‘ ایک آدمی ذخموں سے چُور تھا اور اُس نے خُود کشی کرنے کی کوشش کی ، پس اللہ نے کہا : ، ‘‘ میرا غلام جلدی سے موت کا سبب بنا پس میں اِس کے لیے جنت کے دروازے بند کر دوں گا ۔’’(۲۳)

  جس طرح بیان کیا گیا کہ خُود کشی کرنا گناہ ہے اور کسی بھی شخص کو یہ عمل جنت میں جانے سے روکنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے پانچ ارکان کا ٹھیک طرح سے ادا کیا جانا بھی اسلام میں ایک سنجیدہ معاملہ ہے محمد بذاتِ خود بھی کُچھ وقتوں پر اس کی مشق بھول گیا اُس نے سادہ طور پر اسی بھلکڑ پن میں دو اراکین کو ادا کیا اور پھر اُس نے کہا ‘‘ جب تم میں سے کوئی نمازوں کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آتا ہے اور اُسے شک میں ڈالتا ہے جب تک کہ وہ یہ بُھول نہ جائے کہ اُس نے کتنے ارکان نماز پڑھ لی ہے ۔ ’’ (۲۴)

شیطانی آیات

محمد نے اکثر شیطان کو اپنی غلطیوں یا گاہوں کے لیے مسئلہ پیدا کرنے والا کہا ہے اِس بیان کے لیے ایک جامع مثال نام نہاد ‘‘ شیطانی آیات ’’ متسفر کی جاتی ہیں جو رسُول محمد نے بیان کی بہت ساری کتابیں اور آرٹیکل اِس متضادمضمون کے لیے وقف کیے گئے ہیں ایک لمبے عرصے کے لیے رسُول یہ چاہتا تھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے وہ ناخوش ہوتا جب اُس کے پیغام کا انکار کیا جاتا تھا وہ اپنے دل میں خُدا کی طرف سے ( اللہ یا شیطان ) ایک نئی وحی پاتا جو اُس کے لوگوں کو دوبارہ اکٹھا کرتی اس نئی وحی کے ساتھ وہ خواہش کرتا تھا کہ اِس کا کوئی من پسند نتیجہ نکلے ۔ اس کے بعد جلد ہی اُس کا خُدا

( اللہ یا شیطان ) اُس الیی نبوت کو ظاہر کرتا تھا: ستارے کے ساتھ ہی جیسے ہی آپ کا دوست آپکے ساتھ بدی نہیں کرتا اور نہ ہی آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور نہ ہی اپنی خواہش سے بات کرتا ہے اس طرح سے مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں : ‘‘ کیا آپ نے ال لات، ال ُعضا اور مِنات جو کہ تیسری دیوی ہے اور دیگر دیویوں کے بارے میں سوچا ہے ’’؟ شیطان نے اُس کو متاثر کیا کیونکہ وہ اپنے اندر لفظوں کے ساتھ جدوجہد کر رہا تھا ‘‘ یہ اُس کے بڑے بڑے جھنڈوں کی طرح گاڑھے ہوئے الفاظ تھے ۔ ’’ ایک متبادل ترجمے میں ہم پڑھتے ہیں کہ اُس نے اِن دیویوں کی کی خواہش کی ۔ (۲۵)یہ جھنڈوں کی دیویوں کی طرح گاڑھا گیا تھا جن کو بلند ترین جگہوں پر لہرایا گیا ۔ ایک دلچسپ قصہ جو کہ ایلسی لیچنڈرزدار نے بنایا کہ یہ گرانق زرخیزی کی دیویوں کے طور پر استعمال ہوتے تھے اور یہ مکہ کے علاقہ میں بنجر جگہوں پر نصب کیے جاتے تھے اور زم زم کے کنوے کی کعبہ کے اندر ایک قُدرتی پاک پانی کے طور پر پوجا کی جاتی تھی ۔ (۲۶)

جب اہل قریش نے اس نئے مکاشفے کے بارے میں سُنا تو وہ اِس معاملے میں بہت زیادہ خوش ہوئے کہ محمد نے اُن کے دیوتاؤں کےبارے میں کُچھ کہا اِس کے بعد اہل قریش محمد اور اُس کے روحانی ساتھیوں کے گروہ میں شامل ہو گئے اور اللہ کی تین بیٹیوں کی شفاعت کے ذریعے اللہ تک پہنچنا چاہا ۔ مسلمان نبوی کے ساتھ تھے کیونکہ وہ نبی کے اندر غلطی یا گناہ کے لیے شک میں نہیں تھے ۔ (۲۷)

    اِس طرح سے قرآن نے محمد کو ایک نبی یا ایک پیغمبر کے طور پر پیش کیا اور وہ اسلامی ایمان کی ایک آخری روحانی اختیار بن گیا ابن ِقالبی اہل قریش کے دُعا کے کلیے کو بیان کرتا ہے جِس کو اُس نے عام طور پر بیان کیا ہے :

 قریش کعبہ کے گرد طواف نہیں کرتے تھے اور کہتے کہ ‘‘ ال لات، ال عُضا اور مِنا تین دیویاں ہیں ۔ اس طرح سے وہ خواتین کو شفایات کے وسیلے کے طور پہ سر بلند کرتے تھے ۔’’ وہ بھی ‘‘ اللہ کی بیٹیاں کہلاتی تھیں۔’’ اور اُن کے بارے تصور کیا جاتا تھا کہ وہ خُدا کے سامنے شفاعت کرتیں ہیں ۔ (۲۸)

 حبشہ میں محمد کے پیروکارو کے درمیان یہ خبر پھیل گئی جِس نے دوسروں کو بھی متاثر کیا کہ جبرائیل رسُول پر ظاہر ہوئے اور سوال کیا : ‘‘ محمد تو نے کیا کِیا ہے ؟ تو نے لوگوں کو وہ کُچھ پڑھ کے سُنایا ہے جو میں خُدا کی طرف سے نہیں لایا کیا تو نے وہ کُچھ کیا ہے جو میں نے تم سے نہیں کہا ۔ ‘‘ رُسول پریشان ہو گیا جو کُچھ اُس نے کیا اور کانپےنے لگا خُدا نے نبی کے اِس بے چین ہونے کو دیکھا اور نئی وحی دی ۔

‘‘ ہم نے نبی یا رسُول تمہارے سامنے نہیں بھیجا بلکہ شیطان نے اپنی خواہش اُس میں ڈالی ہے لیکن خُدا اِس کو لے گا جو شیطان نے تجویز کیا ہے پھر خُدا اپنی آیات قائم کرے گا کیونکہ خُدا جاننے والا اور حکم والا ہے ۔’’(۲۹)

خُدا نے پھر سابقہ وحی کو کینسل کرکے نئی آیت کو رکھا :

  کیا تمہارے آدمی اور اُن کی عورتیں نہیں اور بِلا شبہ اِن کے درمیان تقسیم غلط ہے ( بہت زیادہ بے انصافی ہے ) ؛ وہ کُچھ نہیں ہیں بلکہ اُن کے والدوں نے محض اُنھیں نام دیئے ہیں۔ ( قرآن  ۲۳ ۔ ۲۱ : ۵۳ )(۳۰)

  محمد کے اِس نئی وحی کے ساتھ ہی اہل قریش نے اعلان کیا : ‘‘ محمد نے جو کُچھ کہا اُس کی توبہ کی ہے اللہ کے ساتھ دیویوں کی اُس صورتِ حال کے لیے اُس نے اس میں ترمیم کی ہے اور کُچھ اور لے کر آیا ہے۔ ’’

اس پھِر جانے کے نتیجے میں اُن لوگوں نے اپنے تعلقات رسُول اور اُس کے پیروکاروں کے ساتھ لڑائی میں بدل دیئے۔ (۳۱)

ماآنٹ گو مری واُٹ نے اِن ‘‘ شیطانی آیات ’’ کی حقیقت کے بارے میں دو نقاط پیش کیے ہیں : پہلے نمبر پر ، ایک وقت میں محمد نے اِن شیطانی آیات کو قرآن کا حصہ بنا کر لوگوں میں اِس کی تلاوت کی اور یہ ناقابلِ فہم کہانی جو بعد میں مسلمانوں نے ایجاد کی یا اس کو بعد میں غیر مسلمانوں نے بھی دہرایا دوسرے نمبر پہ اِس کے کُچھ عرصہ بعد محمد نے اعلان کیا کہ یہ آیتیں قرآن کا حقیقی حصہ نہیں ہیں ۔ ابتدائی اشاعتیں اِس بات کی بیان نہیں کرتیں کہ کتنی دیر یہ اُس کا حصہ رہیں غالباً یہ ہفتوں اور مہینوں اُس کا حصہ رہی ہونگی ۔(۳۲)

حال ہی میں مسلمان مفکر ایم ایم اعشان نے واٹ کی اس گفتگو پر اختلاف پیش کیا اور اپنی دلیل پیش کی کہ پانچ یا چھ سال کے عرصے کے طوقف سے اِس کا جواب دیا اور اِس کے لیے بنیادی وجہ بتاتے ہوئے اُس نے دعویٰ کیا کہ یہ کہانی غلط ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ محمد کا تعلق اِس سے بہت پہلے عرصے سے ہے ۔ (۳۳)

اس خیال کے لیے منطق کمزور رہا ہے : پہلے نمبر پر محمد لازمی طور پر اپنے اُن ساتھیوں سے ملتا رہا جو اِس بات پہ ایمان رکھتے تھے کہ اُس میں غلطی نہیں ہو سکتی دوسرے نمبر پر محمد کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں کسی کے لیے بھی پورے طور پہ بیان کرنا یہاں تک کہ بڑے بڑے مسلمان مفکرین بھی اس میں مشکل پاتے ہیں۔ اس لیے واٹ کا نظریہ بہت مناسب ہے واٹ ‘‘ شیطانی آیات ’’ کی سچائی کے بارے میں ایک تیسری حقیقت کو شامل کرتا ہے اُس نے بیان کیا کہ تین دیویوں لات ال ُعضا اور مِنا کی مکہ کے قریب مندروں میں بڑے پیمانے پر پوجا کی جاتی تھی۔

ایک چوتھی وجہ کو واٹ کی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے تا کہ اِن آیات کے اختیار کو قبول کیا جائے جدید قرآن کی اشاعتوں میں لفظ  ‘‘گرانِک ’’کو دو فرشتوں کے طور پہ لیا گیا ہے ۔ ( قرآن ۲۷۔ ۲۶ : ۵۳ ) اور ناموإ کے سوا کُچھ نہیں ہے ( قرآن  ۲۳ : ۵۳ ) یہ تعریفیں ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہیں اور اصل آیات کے لیے مزید شک پیدا کرتی ہیں ۔

   اس سارے باب کے دوران محمد کی انسانی کمزوری کی تصدیق کی گئی اور گواہی دی گئی ہے حینفوں نے اکثر اُس کے ابتدائی دور میں اُس کی مادیت پرستی کی روایات اور خیالات کو ملامت کیا ہے جبکہ اسی دوران اُس میں مسیحی اور یہودی عقائد کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے مزید برآں حدیث اِس حقیقت کے لیے کافی گواہی دیتی ہے کہ محمد اکثر گناہ اور غلطیاں کرتا تھا اور اپنی انسانی گناہ آلودہ فطرت کو تسلیم بھی کرتا تھا کیا اُس نے اپنی حجرہ اسود کی روایت کو ماننے ممیں غلطی کی جس کے لیے حینفوں نے اُس کی مخالفت کی ؟ حج کے تعلق سے دوسری مادیت پرستی کی روایتیں بھی ابتدائی عرب والوں کی زندگی میں شامل تھیں اور یہ تاریخی شواہد سے ملتا ہے کہ ایسے ہی تھا کیسے کوئی بھی شخص محمد کے رویے کو بیان کر سکتا تھا؟

   اگرچہ وہ بُت پرستی کی مشق کر رہا تھا رسُول کے ساتھی اس بات پہ ایمان رکھتے تھے کہ محمد ‘‘ اللہ کی بیٹیوں ’’ کی ممانعت کرتا اور اُن سے شفاعت کے لیے منع کرتا تھا اس طرح جیسا کہ پہلے باب میں بتایا گیا ہے کہ اُس کے ساتھیوں میں سے ایک رسُول نے کہا ‘‘ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ۔۔۔ کیا میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسُول نے تمہیں چوما میں تمہیں نہیں چوموں گا ’’۔ (۳۴)

  عمر واضح طور پہ اِن پتھروں کی بدعتوں کے لیے جو کہ پرانے زمانے کے عرب میں عام تھیں کافی مشہور تھا بُت پرستی کے اس مذہب کو ماننے کی بجائے وہ محض نبی کی مصومیت پر یقین رکھتا تھا ۔ تحریری طور پر یہ شواہد بھی ملتے ہیں کہ محمد اور اُس کے پیروکاروں نے حقیقی توحید میں پتھروں کی پوجا اور پرستش کو بھی شامل کیا بُت پرستی کرنا مکمل طور پہ یہواہ پاک خُدا کے قانون کے خلاف اور پاک توریت اور نئے عہد نامے کے مطابق نا فرمانی ہے۔

 

 

 

 

باب چہارم

حجرہ اسود کا تجزیہ

 ساری اسلامی تاریخ کے دوران حجرہ اسود کو عزت دی جاتی رہی ہے اِس کی پوجاکی جاتی رہی ہے جب کہ چند لوگ جانتے ہیں کہ حجرہ اسود کِس چیز کو پیش کرتا ہے ۔ یہ باب بہت ساری سابقہ باتوں کی تحقیق کرے گا جو اس بھید کے نتیجے کے لیے وضاحت ہے۔

حجرہ اسود بطور ایک مقدس قربان گاہ

 اسلامی انسائیکلوپیڈیا حجرہ اسود کے کام کو بطور ایک مقدس قُربان گاہ اور ایک ایسی قُربان گاہ کے طور پہ پیش کرتا ہے جو ابراہام اور یعقوب نے بنائی ۔ (۱) اِس بات کے بیان میں اگر یہ مقابلہ ایک قانونی حیثیت رکھتا ہے تو پتھر کے مذبحوں کو جو ابتدائی دنیا میں تھے اُن کی ضرور پڑتال ہونی چاہیے۔

یونانی بدعات

 یونانی مصنف تھیو فراسٹس ( جو کہ چوتھی صدی قبل از مسیح تھا ) وہ انفاردی مذہب کی عزت کرتا تھا ‘‘ کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ جو کوئی پہلے ہی ان پتھروں کو سڑک کے ایک طرف تیل ملتا یا اُن پر تیل انڈیلتا ہے یہ اُس کا حق ہے ’’ اِن کی شکل عمودی ستونوں کی طرح ہوتی تھی جن کے سرے پر کوئی سر یا پتھروں کا ایک ڈھیر لگا دیا جاتا تھا اور اِس کو ‘‘ حرمز ’’ کہتے تھے یہ نام حرمز کے دیوتا کے برابر تھا ، جِس کا مطلب پتھر تھا ۔ ایلیڈ بیان کرتا ہے : ‘‘ کہ یہ پتھر بطور ایک دیوتا ہے اور دیوتا میں ہی پتھر ہے ’’ اسی طرح حرمز کو بھی ‘‘ سڑکوں کے اطراف کا دیوتا ’’ تسلیم کیا جاتا تھا ’’۔ (۲)

مزید برآں یونانی معاشرےکے اور بھی بے شمار دیوتا تھے جو کہ غیر تراشے اور تراشے ہوئے پتھروں کو پیش کرتے تھے تراشے ہوئے پتھروں میں سے ایک اپلو ، آگو سیو کہلاتا تھا جو کہ سڑک دیوتا تھا عام طور پر گلی میں گھر یا دروازے کے سامنے کھڑا ہوا ملتا تھا ۔ اِن میں سے بہت سارے پتھر تیل سے مسخ کیے جاتے تھے ، اِن پر ربِنوں سے ڈیکوریشن کی جاتی تھی اور بطور مذبحے ان کی شناخت ہوتی تھی ۔ (۳)

یونانی بدعات

عبرانی مقدس مذبحوں کے تصورات ابتدائی یونان سے مختلف تھے ۔ یونانیوں کو پتھروں کو مسحٰ کرنے کی رسم عبرانیوں کی رسم سے ملتی جُلتی تھی لیکن اُن کے استعمال کے مطلب میں فرق تھا ۔ عبرانی اِن پتھروں کو اِس بات کے تصور کے لیے مسحٰ کرتے تھے کہ یہ ایک پاک جگہ ہے جبکہ یونانی اصل میں یہ ایمان رکھتے تھے کہ ہر پتھر کے اندر ایک دیوتا جِسم اختیار کرتا ہے ۔ عرب والے بھی یونانیوں کی طرح اسی ایمان کو مانتے تھے لیکن اُنھوں نے پتھروں کو مسحٰ کرنے کی مشق نہ کی ۔ عبرانی زبان میں مقدس پتھر یا پتھروں کے ستونوں کو میٹس سیوا کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے سیدھا کھڑا ہونا جب یعقوب کی بیوی راخل فوت ہوئی تو اُس نے اُس کی قبر پر ایک پتھر گاڑھا ( پیدائش۳۵:۲۰) یہ سیدھا سیدھا یادگاری کے مقصد کو بیان کرتا ہے ۔

 پتھر کا ستون بھی ایک یادگار پہلو ہے جیسے کہ یعقوب اور ارامیوں کے درمیان معاہدہ ہوا ۔ ( پیدائش ۳۱:۴۳) (۴)

 ابراہام نے ایک مقدس مذبحہ پاک جگہ کی یادگاری کے لیے بنایا جہاں خُدا اُس پر ظاہر ہوا ( پیدائش  ۸۔۷ :۱۲ ؛ ۱۸ : ۱۳ اور ۲۳ : ۲۶ ) یعقوب نے اپنے باپ کی راویت کی پیروی کی اُس نے خواب میں آسمان سے ایک سیڑھی کے ذریعے فرشتوں کو اُترتے اور چڑھتے دیکھا : ‘‘ یقیناً خُدا اُس جگہ پر ہے اور مجھے اِس بات کی خبر نہ تھی ’’ ( پیدائش ۱۶ : ۲۸ ) یعقوب نے خوفزدہ ہو کر کہا یہ کسی بھیانک جگہ ہے یہ خُدا کے گھر کے اور آسمان کے آستانے کے سوا کُچھ نہیں ہو سکتی ’’ اگلی صبح اُس نے اُس پتھر کو جسے اُس نے سرہانے کے طور پر استعمال کیا تھا اُسے پِلر کے طور پر گاڑھا اور اُس پر تیل انڈیلا اور اُس نے اُس جگہ کا نام بیت ایل رکھا

‘‘ خُدا کا گھر ’’ ( پیدائش ۱۶ : ۲۸ ) اور یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ یعقوب نے ہمیشہ یہ کہا کہ یہ کیسی پاک ‘‘ جگہ ’’ ہے یہ نہیں کہا کہ یہ پاک پتھر ہے وہ پتھر محض یادگاری کے طور پہ تھا کہ جگہ کہاں ہے جہاں پہ خُدا ظاہر ہوا ہے اِس کے لیے پتھر مرکز نہیں ہے ۔ حجرہ اسود کی پرستش کی روایات کی پرستش اور بائبل کی پتھروں کو یادگاری کے طور پہ استعمال کرنے کی نسبت میں بڑا متضاد ہے ۔ اسلام سے پہلے عرب والے اِس بات پہ ایمان رکھتے تھے کہ پتھر کے اندر الوہیت ہے اور یہی بات اسلامی حج کے دوران بھی ہوئی محمد نے پتھروں کا بوسہ لیا اور اُنھیں چوما تاکہ وہ اِن خُداؤں کی برکت اور قوت کو وصول کرے ۔ محمد نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حجرہ اسود ایک مقدس مذبحہ ہے جیسے کہ یعقوب یا ابراہام نے کہا پتھر کی بحیثیت ایک مذبحے کے تھیوری بعد میں اسلامی علم الہیات میں نشوونما پا گئی اور اُنھوں نے ابتدائی یہودی اور مسیحی مفکرین والا کلیہ استعمال کیا تاریخی شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واضح طور پر محمد کا دوسرے عرب والوں کی طرح مقدس پتھر پر ایمان لانے کا عقیدہ ہے ۔

کونے کے سرے کے پتھر کے مفروضے

حجرہ اسود کو بہت سارے مسمانوں نے ‘‘ گھر کے کونے کے سرے کا پتھر ’’اور ‘‘ زمین پر خُدا کا دہنا ہاتھ ’’ تصور کیا ۔ (۵)مسلمان مفکر مولانا علی نے اپنی کتاب اسلام کا مذہب میں بیان کیا :

محجرہ اسود اصل میں کعبہ کے کونے کے سرے کا پتھر ہے جو کہ محض ایک نشان کے طور پر کھڑا ہے اور ابراہام کی نسل کے اُس حصے کے طور پر ہے جِس کے لیے اسرائیلیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ خُدا کی بادشاہی کے کونے کے سرے کا پتھر بنے گا ۔ ‘‘ جِس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا ’’۔ ( زبور ۲۲ : ۱۱۸ ) ۔۔۔ اسماعیل نے اس کو رد کیا ۔ (۶)

علی نے نئے عہد نامے میں سے دولہے کی تمثیل کی مثال دیتے ہوئے جاری رکھا : ‘‘ اِس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خُدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائیگی اور اُس قوم کو  جو اُس کے پھل  لائے دے دی جائے گی ) ( متی ۴۳ : ۲۱ ) وہ ایمان رکھتا تھا کہ لفظ ‘‘ قوم ’’ عرب کے لوگوں کے بارے بات کرتی ہے ۔ علی نے اپنے بیان کی معاونت کے لیے ۔ دانیل ۴۵ : ۲ کا بھی حوالہ دیا ۔ پُوری دنیا میں صرف ایک ہی ایسا پتھر ہے جو ‘‘ بغیر ہاتھ لگائے کاٹا گیا ’’ جو کونے کے سرے کا پتھر ہوا جس کی اہمیت پوری دنیا میں قائم ہے۔ (۷) علی نے اسلامی تھیالوجی کے معیار کو دانیل کی کتاب کا حوالہ دیکر توڑ دیا کیونکہ مسلمان صرف توریت ، زبور اور اناجیل کو با اختیار مانتے ہیں۔

  تاریخی اعتبار سے کونے کے سرے کا پتھر کیا تھا ۔ یہ ایک پتھر تھا جو سلیمان کی ہیکل کی تعمیر میں رد کر دیا گیا ۔ کونے کے سرے کے پتھروں کو اکثر عمارت کی بنیادوں کی تعمیر میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ ابتدائی زلزلے اور سردیوں کے بادل کے لیے یہ بات درکار ہے کہ ‘‘ مضبوط بنیادوں کے لیے رکھے گئے پتھر جو چٹانوں سے لیے گئے اور کونے کے سرے کے طور پہ استعمال ہوئے ۔ ’’ ( یسعیاہ ۲۶ : ۲۸ ) ؛ یرمیاں ۲۶ : ۵۱ ؛ ۱۔پطرس ۶ : ۲ ) پتھروں کی دیواریں بناتے ہوئے ، ‘‘ ایک بڑا منصوبہ ایک چھوٹے زاویے کی تعمیر میں پورا ہوتا ہے ۔ یہ زاویے میں جوڑا جاتا ہے اور یہ پتھر تعمیر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’ (۸)

سلیمان کی ہیکل کی تعمیر میں ایک بڑے سائز کا کونے کے سرے کا پتھر درکار تھا اِس طرح سے مکہ کا حجرہ اسود اپنے چھوٹے ہونے اور وزن میں کم ہونے کی وجہ سے کونے کے سرے کا پتھر تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ اِن پتھروں کی شکل کے بارے میں یا کاٹے جانے کے بارے میں تصور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سلیمان اور اخی اب کے دور میں متضاد طور پر موجود تھے ۔ حجرہ اسود کا بحیثیت ایک ہاتھ کے بغیر کاٹے ہوئے پتھر کا تصور جس کا تعلق سلیمان کی ہیکل سے ہے اِس کے ممکنات کی نفی کرتا ہے کونے کے سرے کے پتھر کی صیحح نشاندہی بائبل کے بہت سارے پیراآں میں دی گئی ہے جو کہ یسوع کی بات کرتے ہیں یعنی مسیح کی جِس کو ایمان لانے والے ایمانداروں نے رد کیا ۔ (۹)

ال لات بطور حجرہ اسود

ابتدائی تاریخ دانوں اور جدید ماہر آثارِ قدیمہ نے اِس بات کو تصدیق کیا ہے کہ آلات بھی مادہ پرست لوگوں کی دیوی تھی جِس کو مکہ کے حجرہ اسود کے طور پر بھی پیش کیا گیا ۔

دمشقی جان اور ہیروڈوٹس کی طرف سے گواہی

مسیحی راہب اور علم الہہیات کا ماہر دمشقی جان اسلامی زیر اثر قوم میں رہتا تھا ۔ اُس خاندان نے دمشق کے مُسلمان منظمین کے طور پہ خدمت کی جس کے نتیجے میں جان نے اسلامی لوگوں کی رسومات زبان اور مذہب کو سیکھا اپنے کام میں ۷۴۳ عیسوی میں جان نے اِس نئے مذہب اسلام کے خلاف ایک دہنی تحریر نامہ شامل کیا ۔ (۱۰)جان تصوروں اور تصویروں کا دفاع کرنے والا ایک شخص تھا اور محمد اور اُس کے پیروکاروں کے لیے ایک شدید نفرت رکھتا تھا ۔ جان نے لکھا: وہ مزید ہمیں بُت پرست کہتے ہیں کیونکہ ہم نے صلیب کی پوجا کی اور اُنھوں نے اُس سے نفرت کی اور ہم نے اُنھیں جواب دیا : تو پھر تم کیسے اپنے عقیدے کے خلاف کعبہ میں ایک بُت کا بوسہ لیتے اور اُسے قبول کرتے ہو ؟ ’’ (۱۱)

جان محمد کے مذہب کے کاموں کے واضح تضاد کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یہ ایک عام علم تھا کہ محمد نے کبھی بھی تصورات میں سے یا صلیب کو گھر میں استعمال نہیں کیا ۔ (۱۲) ریاکارانہ طور پر اُس نے پتھر کا بوسہ لیا اور اُس پر ماتھا ٹیکا اور اپنے پیروکاروں سے بھی توقع کی کہ وہ ایسا ہی کریں اُس نے اور اُس کے شاگردوں نے پتھر سے باتیں کی جان اپنے نظریات کو بیان کرتے ہوئے جاری کرتا ہے :

وہ پتھر جس سے وہ باتیں کرتے اور جس کی وہ پوجا کرتے تھے اُس کو وہ خیبر کہہ کر بُلاتے تھے ۔ یہاں تک کہ موجودہ دور میں میں ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو اِس کام کا مظاہرہ واضح طور پہ کرتے ہیں۔ (۱۳)

  جب یہ بات ظاہر ہوئی تو جان نے دیکھا کہ ایسا کرنے والے پہلے پہل اُس کے بیان کو دُرست مانتے تھے جب تک کہ عرب میں ابتدائی بتوں اور مقدس ہیکلوں کو برباد نہیں کیا گیا تھا یوحنا عربوں کی بدعات کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ وہ بُت پرستی میں ملوث تھے اور صبح کے ستارے اور ایفروڈائیٹ کی پرستش کرتے تھے جِس کا مطلب اُن کی اپنی زبان میں بہت بڑا تھا ۔ ہیراکلئیس کے دور میں یہ بہت بڑے بُت تھے۔ (۱۴)

عربی خیبر یا کیبی رن کے الفاظ ان کی عظمت کے سائز کی پہچان تھی۔ محمد جب اس پتھر کو چُھوتا تو وہ یاد کرتا اور اُس کے منہ سے نکلتا ‘‘ اللہ اکبر ’’۔

ہیرو ڈوٹس ایک عظیم یونانی تاریخ دان اور سیاہ ہے وہ ۴۹۰ اور ۴۸۰ قبل از مسیح کے دوران پیدا ہوا وہ یوحنا کے بیان کی تصدیق کرتا ہے اُس نے آسمانی ایفروڈائیٹ  جو کہ یونان کا دیوتا تھا اُس کو عربی دیوی ال لات کے برابر کہا ۔ (۱۵) ہیرو ڈوٹس نے لکھا:

مندرجہ ذیل فارص کی رسومات ہیں جس کو میں اپنے ذاتی علم سے بیان کر سکتا ہوں ۔۔۔ اُن کے نظام میں ذی اس آسمانوں کا ایک مکمل دائرہ ہے اور وہ اُس کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے قُربانی دیتے تھے وہ سُورج ، چاند اور زمین ، آگ ، پانی اور ہواؤں جو کہ اُن کے حقیقی دیوتا تھے اُن کی بھی پوجا کرتے تھے ؛ بعد میں اُنھوں اُسوریوں اور عربوں سے ایفروڈائیٹ کے لیے اُسوری نام مائلیٹا ہے ، عربی میں ال لات ہے اور فارسی میں میسٹرا ہے ۔ (۱۶)

ہیروڈوٹس کی گواہی کی بنیاد پر یہ الا آلات کی دیوی ایک بہت بڑی دیوی بن گئی۔

سُورج کی دیوی ال لات

ال لات کے بہت سارے نام تھے ، اور زیادہ تر ان میں سے عستارات کے ساتھ ( جس کو یسیرت بھی کہا جاتا تھا ) اور عشیرا بھی کہا جاتا تھا اِس حصے کا مرکز اس بات کو ظاہر کرنا ہے کہ ممکنہ طور پر الا آلات سورج کی دیوی تھی اور چاند دیوتا کی بیٹی تھی بلا شبہ ، اگر دمشقی جان ٹھیک کہتا تھا تو حجرہ اسود ال لات کی دیوی کا گھر تھا جو کہ اللہ سے شفاعت کرتا تھا جو کہ مکہ ک‘‘ا بڑا دیوتا ’’تھا۔

نیبیتیا ( پیترا )

بہت سارے آثارں قدیمہ کے ماہرین نے الا آلات کو سورج کی دیوی کے برابر تصور کیا ہے جو کہ ابتدائی زمانے میں تقریباً مشرق میں پھیلی ہوئی تھی۔ نیبیتیا میں ہلال چاند ‘‘ اشارا کا وہ ’’ کہلاتا تھا اور سورج کی دیوی چاند دیوتا کی بیٹی تھی اور وہ ‘‘ مندر کی وہ ’’ کہلاتی تھی نظامِ شمسی کی تجسیم میں سے ایک ال لات یا لات یعنی دیوی ماں جو کہ یونانیوں سے اُدھار لی گئی تھی اُس کو لاٹو کہتے تھے۔ (۱۷)

عرب اور اُس کے قریبی علاقے ابتدائی ۱۹۷۰ءکے دوران لیپنس کی عرب عستارات کی پوجا کرتے تھے اور اس خاص بدعت کی تصدیق کی جا چُکی ہے ‘‘ جو کہ بہت سارے جنوبی عرب کے لوگوں شمالی عرب کے لوگوں اور دو یا تین تولو مودی شخصی ناموں نے بھی کی ہے ’’۔ (۱۸) یہ بہت ساری دریافتیں ۱۹۸۶ ءاور ۱۹۹۲ ء کے درمیان سڈنی کی یونیورسٹی کے آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے کی ہیں ۔ اِن کی دریافت اور تحریر اسلامی دور سے پہلے کے حصوں اور جگہوں کے بارے میں ہے جو کہ جنوبی یردن کے علاقے میں ہے اور وہاں ۲۰۰۰ شمالی عربیوں سے زیادہ لوگ پائے گئے۔ ان کے نقشے کھینچے گئے تصویریں لی گئی اور ریکارڈ بنایا گیا اِن کے درمیان میں دوشارس اور ال لات کی دیویوں کے لیے دُعائیں ہوتی ہیں ۔ (۱۹)

لیپنسکی میں ابتدائی عرب کی دیوی عستارات بابل میں اور یوگرت میں بھی ال لات کو مانا جاتا ہے۔ اُس کا کردار اور اُس کی قسم تحریروں میں بیان نہیں کی گئی۔ لیکن وہ اکثر چاند کی دیوی کے طور پہ بیان کی گئی جس کو شمسی دیوی مانا گیا اگرچہ یہ برائے راست ثابت نہیں ہو سکتا پرانے عربی لوگوں کی حقیقت میں تین بڑی دیویاں ہیں ستارے کی دیوی چاند کی دیوی اور سورج کی دیوی اور یہ سب مختلف ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ (۲۰)

عرب کے سیبئین فرقے کے لوگوں نے بھی اس چاند کی دیوی ، سورج کی دیوی اور ستارے کی دیویوں کی پرستش کی۔ اِن سیبئین لوگوں نے ایتھوپیا کو بھی دریافت کیا۔ (۲۱)

کیتبان کی بادشاہی عرب کے جنوبی ساحل میں واقع ہے یہاں بھی عستارات کی کو کہ ایک بڑا دیوتا یادیوی ہے اور جس کا پرسنل نام آم ہے جس کا ترجمہ انکل ہے اِس سلطنت کے ساتھ ایک علاقہ دیتارت کہلاتا ہے اور یہ بھی عستارات کا علاقہ ہے اور اُسی کے لیے وقف ہے ۔ مااِن اور اوُسان کی سلطنت میں اِس دیوتا کی پوجا چاند دیوتا واد کے ساتھ ہوتی ہے مااِن کی سلطنت میں عطارت کا بھی ایک مہینہ ہے جس کا نام دیتارت ہے جس کا ترجمہ ہے ‘‘ عطارت کا ایک ’’ (۲۲)

بابل

شواہد یہ ملے ہیں کہ ال لات کی اصلی شکل ابتدائی بابل سے بنی اور ایک ارامی شخص نے اس کو طیما میں پایا جو کہ جنوبی عرب میں ہے جِس کا ذکر ‘‘ طیما کے تین خُداوں ’’ میں ہوتا ہے : سالم ذی محرم ، سِن گالا اور اعشیرا۔ سِن گالا کو عام طور پر سُورج دیوتا کے طور پہ جانا جاتا تھا جِس کا ترجمہ ہے ‘‘ بڑا گناہ ’’ اس کی تاریخ پندرویں صدی سے ہے بادشاہ نیبونی دس نے طیما میں اپنی جنگ کے دوران قیام کیا اور یہ غالباً ۵۵۳ سے لیکر ۵۴۴ قبل از مسیح کا دور ہے وہ چاند دیوتا یعنی سِن کا ایک وقف شدہ پُجاری تھا یہ ایک بابلی چاند دیوتا ہے جس کو اعشیرا بھی کہا جاتا تھا اور یہ ایک شمسی دیوی بھی کہلاتی تھی ۔ (۲۳) لیپنسکی نے مزید شواہد کا اضافہ کیا:

زیادہ پرانی بابلی تحریریں یہ بات دکھاتی ہیں تاہم یہ عستارات عشراتیم یا عسیراتم کہلاتی ہیں۔

جو کہ دوسرے ہزار سالہ دور قبل از مسیح میں تھے یہ بھی نظامِ شمسی کا دیوتا تھا جِس کا نام عُمورو تھا ۔ جس کا کردار واضحِ طور پر مختلف تھا اور اُس کے تحریری ذرائع بھی ملتے ہیں ۔ (۲۴)

لیپنسکی اس کے حاشیے کو بھی مزید اس کی وحدانیت کے تصور میں شامل کرتا ہے: اس کا نتیجہ اس حقیقت سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے کہ عمرو باری کم کہلاتا ہے جِس کا مطلب ‘‘ چمکنا ’’ہے عمرو کی باری کم کی ایک خُوبی جب اس کے نام کو دیکھا جاتا ہے تو یہ بھی ہونی چاہیے اور اِس کی یہ خُوبی کتیبان یعنی چاند دیوتا کے ساتھ جو تمنا سے ہے ملتی جُلتی ہے ۔ (۲۵)

عستارات عام طور پر ‘‘ عورت کے قدم ’’ کو کہتے ہیں عشاراطم ، بیلطسری ، گوبارہ اور گِھسان گو عیدنا یہ تینوں خطبات اس کے کردار کی خُوبیاں ہیں کیونکہ یہ ایک خانہ بدوش دیوی ہے ۔ (۲۶) دوسرے اسلام سے پہلے کے دیوتا یا دیویاں مِنا اور الا اُعضا اور الا آلات کی پوجا کی جاتی تھی اور تقریباً مشرق قریب کے سارے کِسان اور چرقاہے اِن کی پوجا کرتے تھے ۔(۲۷) وہ بطور ایک پرانے ترین دیوتا کی فہرست میں ظاہر ہوئی ۔ لیپنسکی نے اس کے ابتدائی ماضی کی زبان کے لیے بھی مدد دیتا ہے۔ جس کے مطابق عشرات الا اِمی ، یعنی ‘‘ عستارات میری ماں ہے ’’ یہ نام اُس کے شگون کے لیے ہے یعنی اُتلو ۔اماں ۔مُو سمس اُمی اور پرانی عقائدی زبان میں اُمی سمس ہے یعنی ‘‘ سمس میری ماں ہے ۔’’ (۲۸)

دیوی کا لفظ بعد میں عقائدین رسم الخط میں شمالی فلسطین میں تا انکا کے مقام پر دریافت ہوا۔ پندرھویں صدی قبل از مسیح کی تاریخ میں یہ تختیوں پر لکھا ہوا ہے جہاں اُس جگہ کے شہزادے کا نام عبدی اسرتی یا عبدی اسراتی یعنی عستارات کا نوکر لکھا ہوا ہے جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ چودھویں صدی قبلاز مسیح تک اس کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ لیپنسکی اس کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: تاانکا رسم الخط کا ذکر ایک اومان کے طور پر ہوا ہے جس کا مطلب ایک خُدا کے عہدے کا تاثر ہے ۔۔۔ سورج دیوتا پر عام طور پر یقین کیا جاتا تھا کہ یہ وحی لاتا ہے اور عستارات کے بارے میں تاانکا میں مشہور تھا کا یہ سورج کی دیوی ہے سورج دیوتا در حقیقت فلسطین میں نسوانی دیوی کے دور میں متصور کی جاتی تھی۔ محض ایک یوگرت ہے۔ (۲۹)

یوگرت

کنعان کے ابتدائی عقیدوں میں عستارات کا عقیدہ جانا پہچانا تھا وہ ذاتی طور پر ایل کے نام سے جانی جاتی تھی یعنی یوگرت کا ایک سب سے بڑا دیوتا ۔(۳۰) ایلیڈ نے اِسے مندرجہ ذیل پیرائے میں بیان کیا ۔ ایل نے اپنی دو بیویوں عشرہ اور عنات کو حاملہ کیا اور اُس سے صبح اور شام کے ستارے نے جنم لیا ۔ عشرہ خود کو ایل کے ہم پلا کہتی ہے جس کا مطلب ہے دیوتاآں کی ماں اُس نے آگے مزید ۷۰ الہی بیٹوں کو پیدا کیا ہے ماسوائے بعل کے تمام دوسرے دیوتا پہلے جوڑے ایل عشرہ سے نازل ہوئے۔ (۳۱) عستارات ( عشرہ ) شاپسو کے نام سے بھی ابتدائی یوگرت میں جانی جاتی ہے ۔ یہ واحد دو نسوانی یوگرت کی دیویاں ہیں جن کو رعباتو کہا جاتا ہے ۔ مزید برآں عستارات اور شاپسو دونوں سورج کی دیویاں تصور کی جاتی ہیں۔ عستارات کو چاند کے دیوتا یارا کے ہم پلا گیا جاتا ہے۔ (۳۲) ایک اور یوگراتی پیرائے کے مطابق ایک نظم مشہور ہے اس نظم کا عنوان رحیم خُداؤں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کی نظم ہے۔ اس نظم میں عستارات کا مقابلہ شاپسو کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (۳۳) عستارتا ( عشرہ ) اور شاپسو کو واضح طور پہ شراب اور بئیر کی خواہش ہوتی تھی۔ ایک پیرائے میں اُس کی ایک دیوی بہن نے اُس پر شراب اور بئیر الڈیلنے کے لیے کہا جو اُس کے سامنے بعل کے بدن کی متلاشی تھی۔ اور اِس پیرائے کے الفاظ یہ ہیں ‘‘ میرے سامنے چمکتی ہوئی شراب انڈیلو اور اپنے ہاں سے بئیر انڈیلو اور میں بعل کی تلاش کروں گی۔ ’’ (۳۴) مندرجہ بالا حصے میں گرائمر کے لحاظ سے لیپنسکی ایک مشکل علم کو سمجھتے ہوئے عستارتیعنی بائبل میں بیان کیا گیا ایک دیوتا اشارہ اور اسلامی دیوتا یعنی ال لات کے بارے میں بیان کیا ہے۔ اصل متن میں یہ سوالیہ شکل میں ہے عبرانی اور ارامی تحریر کی درمیانی شکل ہے ملائی ہوئی شکل یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ بئیر کے لیے استعمال کیا گیا لفظ جُوس کی طرح کے لفظ جِس کی عبرانی کی جڑیں اور ایتھوپیا کی زبان کی جڑیں ایک جیسی ہیں اور عقائدین لفظ بلالو بھی اسی طرح کی اصطلاح میں پیش کیا گیا ہے۔ (۳۵)

عربی رسم الخط میں اگر لات کے لفظ کا جائزہ لیا جائے تو عربیوں کی طرف سے یہ رائے بھی ملتی ہے کہ اس لفظ کی جڑیں بھی جو کہ کھانے کے ساتھ ملتی ہیں۔ (۳۶) ایک عقائدین ٹیکس اس بات کا ریکارڈ مہیا کرتا ہے کہ شمسی دیوتا شراب یا بئیر کو بخارات کی صورت میں اس پیش کیے گئے ہدیے کو لے لیتا تھا (۳۷) ان سارے عقائد میں ایک بڑا لفظ سورج کی دیوی لات کے لیے اُس لفظ کا استعمال کیا جانا ہے جِس کے مطابق وہ ایک ہل کیے ہوئے جو کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔

بائبل کے بیان کے مطابق عستارات ‘‘ حسد کے بُت ’’ کے طور پہ جو کہ یروشلم کی ہیکل کے باہر گاڑھا گیا تھا حزقیایل ۵:۸؛ ۲۔ سلاطین ۵ ۔ ۳ : ۲۱ ؛ ۱۳، ۷ ۔ ۴ : ۲۳ ) ۔ (۳۸) ایک غیرت کا چڑھاوا، یعنی ایضا کے دسویں حصے کے برابر جو کا آٹا غیرت کے چڑھاوے کے طور پر گناہ کے لیے کاہن کے پاس لائے اور یہ پاک توریت کے مطابق ایک ہدیے کے طور پہ پیش کیا جائے۔ (گنتی ۱۵ : ۵ ) ابن الا قالبی جو کہ ایک یہودی تھے جو کہ آٹے کے بارے میں تافل سیوک کے طور پر بیان کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ بعد میں اس کا نام طائف کی چٹان جو کہ ال لات کی علامت تھا پڑ گیا اِس کا تزکرہ اُنھوں نے آلات کے باب میں ایک چٹان کے طور پہ کیا ہے جِس سے یہودی جو کا آٹا اور دلیہ تیار کرتے تھے ۔ اِن تمام تر تشبیہات سے پتہ چلتا ہے۔ ‘‘ کہ یہ عبرانی رسم سے ملتی جُلتی رسم کا نتیجہ ہے یعنی غیرت کی قُربانی کے لفظ اُسی پاک جگہ سے لیے گئے جس کو بعد میں الا آلات کی علامت کے طور پہ استعمال کیا گیا۔ ’’ (۳۹)

نتیجتاً ال لات کو سارے عرب میں پتھروں اور بتوں کے طور پہ مختلف شکلوں اور سائزوں میں پیش کیا گیا جس نے مکہ کے حجرہ اسود کو ایک ممکنہ خُدا کی علامت کے طور پہ استعمال کیا۔

اِن تمام تر مخصوص تعلقات کے باوجود ایک خاص مقام باقی نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ محمد نے طائف میں ال لات کی بدعت کو برباد کیا ۔ نبی کے حکم پر الا مُغیرا ال لات کے بُت کے پاس گئے اور اِس کو برباد کیا ۔ (۴۰) واضح طور پہ محمد اِس پتھر کو اپنے دیوتا اللہ کے دشمن خُدا کے طور پہ تسلیم کرتا تھا اور نتیجتاً اُس نے اس کو ختم کیا ۔ اِس واقع کو تسلیم کرتے ہوئے الآلات کی وحدانیت کو حجرہ اسود کے تصور کے ساتھ ذضرور رد کیا جانا چاہیے۔

ال عُضا بطور حجرہ اسود

جب سے آلات ( یسیرت ) ( ایفروڈائیٹ ) نے بطور حجرہ اسود حکومت کی تو ایک اور وجہ دریافت ہوئی ۔ جِس کے مطابق آثارِ قدیمہ اور تاریخ نے الا اُعضا کی دیوی کو بھی ایفروڈائیٹ کے برابر قرار دیا۔ نظریاتی طور پر دمشقی جان نے اپنے عقیدے کو دُرست کیا کہ ْھجرہ اسود ایفروڈائیٹ کا سربراہ ہے عربی ساحل اتیما کے مقام پر عرب کی ایفروڈائیٹ ال عُضا مقدس مجسمہ موجود ہے۔ (۴۱) اسی طرح قدیم نباتیہ میں الا اُعضا بطور ایک ایفروڈائیٹ بھی تصور کی جاتی ہے۔ (۴۲) نباتیوں کے درمیان ال عُضا ایک مقبول ترین دیوی تھی۔ وہ اکثر ایک مضبوط پتھر کے استعمال کی جاتی رہی ہے اور اِس کے بارے میں مقدس تحریر ‘‘ یہ ال عُضاہے اور خُدا کا گھر ہے ’’۔ (۴۴) میصابُت یعنی بتوں کی آنکھ اکثر تراشی جاتی تھی ۔ بتوں کی آنکھ کے تراشے جانے کی ابتدائی تاریخوں کا تعلق پہلی صدی عیسوی کے وسعت سے ہے اور چوتھی صدی عیسوی کے وسعت سے بھی ۔ (۴۵) نباتیہ میں ایک اور مشکل بالیوں کے ساتھ اِن کی آراہئش اور ناک اور دو آنکھوں کے ساتھ اِن کی دریافتیں بھی سامنے آئیں ممکنہ طور پہ نباتی لوگوں نے مِصر میں سے اس کو اختیار کیا جہاں ایفروڈائیٹ کا ایک بڑا بدعتی مجسمہ موجود تھا اور جس کو وسیع طور پر بنایا گیا تھا ۔ (۴۶)

ال عُضا ایفروڈائیٹ ‘‘ محبت اور خوبصورتی کی دیوی تھی اور یہ عورتوں کے زیور کے پیش کیے جانے کے لیے بہت ہی مناسب تھے۔ ’’ (۴۷) عرب میں اس کی بالیوں کی بقاء کے شواہد مسلمان تاریخ دان ابنِ اضحاق نے بھی دیئے ہیں۔ کاب ملک الا انصاری نے فرمایا ہم ال لات اور اُعضا اور وُود کو رد کرتے ہیں ۔ ہم اُن کے گلے کے ہاروں اور بالیوں کو رد کرتے ہیں ۔’’ (۴۸)

تاریخی ذرائع سے یہ پہلے بھی بیان کیا جا چُکا ہے کہ محمد اور اُس کا قُریش قبیلہ الا اُعضا ( ایفروڈائیٹ ) کی مکہ میں پوجا کرتا تھا ۔

اس طرح سے کیا حجرہ اسود اس دیوی کے لیے وقف کیا گیا تھا ؟ اس کی شناخت میں جواب یہ نظر آتا تھا کہ ال لات کے لیے محمد نے خُود حکم دیا کہ اُسے برباد کیا جائے ۔ رُسول نے خالد کو بھیجا کہ ال عُضا کے بُت جس کی نخلا عبادت کرتے تھے برباد کر دیا جائے۔ ابنِ اضحاق نے اس کی شناخت کو اس مندر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قریش کے نانا اور مندر کے قبیلے اس کی پوجا کرتے تھے ۔ (۴۹) پھر بھی ابنِ قالبی نے اس کو نسوانی شیطان کے طور پر بیان کیا شاہد اس نتیجے کے ساتھ دو  اور ممکنہ خیالات بھی ملے ہوئے ہیں جب مکہ پر دوبارہ قبضہ ہوا تو نبی نے خالد کو نخلا کی وادی میں بھیجا اور اِس بدعت کو برباد کیا ابن الا قالبی نے اس واقعے کو بیان کیا ہے:

 محمد نے خالد کو حکم دیا ‘‘ نخلا کی وادی میں جاؤ وہاں تم تین درخت پاؤگئے پہلے درخت کو کاٹنا ’’ خالد گیا اور اُسے کاٹ دیا اپنی واپسی پر جب خالد نے خبر دی تو نبی نے پوچھا ‘‘ کیا تم نے وہاں کُچھ دیکھا ؟ ’’ خالد نے جواب دیا اور کہا ‘‘ نہیں ’’ نبی نے اُسے حکم دیا واپس جاؤ اور دوسرے درخت کو کاٹو وہ گیا اور اُسے کاٹا اپنی واپسی پہ اُس نے دوبارہ رپورٹ دی نبی نے اُس سے دوسری دفعہ پوچھا ، ‘‘ کیا تم نے وہاں کُچھ دیکھا ؟ ’’ خالد نے جواب دیا ‘‘ نہیں ’’ اس پر نبی نے اُسے دوبارہ حکم دیا کہ واپس جاؤ اور تیسرا درخت کاٹو جب خالد اُس جگہ پر آیا تو اُس نے دیکھا کہ ایک حبشی خاتون بکھرے ہوئے بالوں اور اپنے کندھوں پر بازو رکھے ہوئے اور اپنے دانتوں کو پیستے ہوئے موجود ہے اُس کے پیچھے دبایا الاسلامی کھڑی ہے جو اُس وقت ال عُضامحافظ تھی ۔۔۔ اُس عورت کی طرف مُڑتے ہوئے خالد نے اُسے موت کے گھاٹ اُتارا اور دیکھو وہ جل کر خاک ہو گئی پھر اُس نے اُس درخت کو گرایا اور اُس محافظ دبایا کو مارا اُس کے بعد وہ نبی کے پاس واپس گیا اور رپورٹ دی اِسی پر نبی نے کہا ، ‘‘ وہ ال عُضا تھی ، لیکن اب وہ اور مزید نہیں رہی ۔ عربوں کے لیے وہ مزید نہیں ہو گی اس لیے اُس کی دوبارہ پوجا نہیں کی جائے گی ۔ ’’ (۵۰)

 جب سے محمد نے نخلا میں ال عُضاکی بدعت کو برباد کیا تو یہ بات شکر و شبے کے ساتھ جاری رہی کہ مکہ میں اسی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے یہ بات مزید شہادت بن گئی کہ محمد اللہ کے دشمنوں کی زمین میں گھڑ سواری کر رہا تھا ۔ دمشقی جان کی گواہی کے باوجود اور بے شمار آثارِ قدیمہ اور زباندانی کے رابطوں کے باوجود کوئی بھی شخص منطقی طور پر اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ ال لات اور ال عُضا دونوں حجرہ اسود کی نمائندگی کرتی ہے۔

اللہ بطور حجرہ اسود

 سارے عرب کے اندر یہ تمام بڑے بڑے دیوتا خاص چٹان اور کُچھ مقدس مندروں اور مزاروں کے طور پر پیش کیے جاتے رہے ہیں ۔ ابنِ اضحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک شہادت جو محمد کی خدمت کے دوران مندر کی دوبارہ تعمیر میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے :

مجھے قریش والوں نے بتایا کہ شام کی تحریر کے کونے میں یہ بات پائی گئی اور وہ اِس کو نا سمجھ سکے جب تک کہ ایک یہودی نے نہ پڑھا یہ لکھا ہوا تھا : ‘‘ میں اللہ بکا کا خُدا ہوں میں نے اسے اُس دن پیدا کیا جب میں نے آسمان اور زمین پیدا کی اور سورج اور چاند کو تشکیل دیا اور میں نے اس کو سات برگزیدہ فرشتوں سے گھیرا یہ کھڑا رہے گا جب کہ اِس کے دو پہاڑ ہونگے یہ اپنے لوگوں کو دودھ اور پانی سے برکت دے گا ’’ اور مجھے بتایا گیا کہ وہاں ایک مقام لکھا ہوا ملا ، ‘‘ خُدا کا گھر ہے اور اس کے وسائل تین طرف سے آتے ہیں۔ ’’ (۵۱)

اللہ کو مکہ میں کعبہ کا بڑا دیوتا ’’ مانا گیا اور اس کو حجرہ اسود کے طور پہ پیش کیا گیا بعد میں جِس کی ۳۶۰ دیوتاؤں کے درمیان پوجا کی گئی ۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ محمد نے دوسرے تمام دیوتاؤں کو اللہ کا مخالف جانا اور اللہ اُس کا پسندیدہ ہوا۔ مزید برآں محمد کے باپ کا نام عبدالہ ہوا جس کا مطلب ہے ‘‘ اللہ کا غلام ’’ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اُس کے خاندان میں باقی تمام دیوتاؤں پر اِس کو اپنے خاندانی دیوتا کے طور پہ اختیار کیا۔ اپنی خدمت کے دوران تمام بُت پتھروں اور مورتوں کو باہر نکال دیا گیا ماسوائے حجرہ اسود کے یہ بات تصدیق کرتی ہے کہ بلاشبہ حجرہ اسود مقامی مکہ والوں کے لیے بڑا دیوتا اللہ کہلایا جب محمد پتھر کو چُھوتا تھا تو اعلان کرتا تھا ‘‘ اللہ اکبر ’’

وہ اِس کے مجسم ہونے کی الوہیت کا اعلان کرتا تھا ۔

کوئی شواہد موجود نہیں کہ اُس نے اُس کے مطلب یہ رسموں کو جو عرب کے پتھر کی بدعات کے بارے میں تھی رہنے دیا تاہم یہ پورے طور پہ نہ ہو سکا کیونکہ حجرہ اسود ایک قُربان گاہ یا علامت کے طور پہ پیش کیا یہ واضح ہے کہ محمد نے مادیت پرستی کے پتھروں کی پوجا کرنے کی روایات کو برقرار رکھا ؟ اگر محمد نے عرب کی بُت پرستی کی شدت کے خلاف اسرار کیا ہے تو کیوں اُس نے بُت پرستی کی ایسی ہی رسموں کو ختم نہیں کیا اس بات کے ہم اثر جو شواہد ملتے ہیں وہ اس حقیقت کو پیش کرتے ہیں کہ محمد نے جان بوجھ کر نیتاً پتھر کے دیوتا اللہ کے مقابلے میں اُس کے تمام دشمن بدعتی پتھروں کو برباد کر دیا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حصہ دوئم اللہ چاند دیوتا

پانچوا ں باب

اللہ ‘‘ چاند دیوتا ’’ اور الرحمان

‘‘ اللہ ’’ کے لفظ کا تجزیہ

مسلمان اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ ایک شخصی نام ہے جو دوسرے کسی بھی نام سے مختلف ہے وہ یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ وہی دیوتا ہے جِس کی پوجا ابراہام اور اُس کی نسلیں کرتی تھیں اس بات کی تفتیش میں کہ مسلمان اس ایمان کا اعلان کرتے ہیں اللہ کے نام کا جائزہ لینا ضروری ہے خاص طور پہ اس لفظ کی زبان اور تاریخ سے ۔

اللہ ( الہ ۔ لہ ) مکہ کا ‘‘ بڑا خُدا ’’

مغربی مفکر ماؤنٹ گومری واٹ دعویٰ کرتے ہیں کہ لفظ اللہ آل الہ سے ترمیم کیا ہوا ہے جِس کا مطلب ہے ‘‘ دیوتا ’’ خاص دیوتا ’’ یا بہت ‘‘ بڑا دیوتا ’’۔ اسلام سے پہلے عرب والے اللہ کو بطور مکہ میں کعبہ کے سب سے بڑے دیوتا کے طور پہ پوجتے تھے جیسے کہ طائف میں الہ لات کو سب سے بڑے دیوتا کے طور پر پوجتے تھے اس وجہ سے واٹ نے کہا ، ‘‘ اگر اللہ کا لفظ بھی اُسی خُدا کے لیے استعمال کیا گیا ہے جِس کو یہودی اور مسیحی تسلیم کرتے تھے تو پھر ایک بہت بڑی پریشانی کا موقع ہے ۔’’ (۱)

بہت ساری مثالیں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے موجود ہیں کہ اللہ بنیادی طور پر ایک مقامی ‘‘ بڑا دیوتا ’’ تھا قرآن بیان کرتا ہے۔ اب اگر وہ کشتی پر سفر کرتے تو وہ اللہ کو پُکارتے اُس کے لیے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے لیکن جب وہ خشکی پر اُتر آتے تو دیکھو وہ دوسروں کی پوجا بھی کرتے تھے ۔ ؎

( قرآن ۶۵ : ۲۹ )

مزید برآں

جب تکلیف آدمیوں کو چُھوتی تھی تو وہ اپنے خُداوند کی طرف توبہ کے لیے روتے ہوئے رُجوع لاتے لیکن جب وہ اُن کو اپنے رحم کی لذت عطا کرتا تو اُن میں سے بعض اپنے دوسرے دیوتاؤں کی پوجا کے لیے چلے جاتے ۔ ( قرآن ۳۳ : ۳۰ )

یہ بیان کہ وہ ‘‘ اُس کے ساتھ مخلصانہ عقیدت رکھتے تھے ’’ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اُن کے پاس اللہ کے مقابلے کے لیے دوسرے دیوتا بھی تھے ۔ (۲)

ان دیوتاؤں میں تین کا ہم نے پہلے جائزہ لیا جن کے نام الہ لات ، الہ عُضا اور مِنا ہیں۔

اِسی طرح مکہ کے ۳۶۰ سے زیادہ بتوں کے درمیان ہُبل بھی سب سے بڑا دیوتا تصور کیا جاتا تھا ۔ محمد کے اپنے دادا عبدالمطلب ہُبل کے پاس کھڑے ہوتے تھے اور اُس کو سب سے بڑا مقدس دیوتا جانتے تھے جب وہ اللہ کے سامنے دُعا کر رہے ہوتے۔ (۳) یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کِس طرح سے اسلام سے پہلے مکہ میں مادہ پرست اللہ کے لیے بطور ایک مقامی ‘‘ بڑے دیوتا ’’ کے تصور کرتے تھے اُس نے کائنات میں کسی بڑے دیوتا کے طور پہ پہچان نہیں رکھی تھی قرآن کی ابتدائی صورتیں جو ممانعت کے لیے شامل ہوئیں جن کو شیطانی آیات کہا جاتا ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ محمد خُود اللہ کی بطور وحدانیت عزت کرتا تھا لیکن یہ بعد کی سورتوں میں میں موجود نہیں تھا کہ اللہ ہی بطور ایک بڑے دیوتا کے پوجا جاتا۔ (۴)

ایف۔ ای پیٹرز نے اللہ کی اصلیت کے لیے ایک اندازہ پیش کیا ہے :

اللہ کی بطور ایک دیوتا کے اصطلاح کی بدعت جنوبی شام اور شمالی عرب میں جانی جاتی تھی اور مکہ میں واضح طور پہ اس کو مرکزی اہمیت حاصل تھی جہاں کعبہ کی عمارت بغیر کسی شکوشبے کے اُس کا گھر تھا ۔۔۔ اللہ محض مکہ کا دیوتا نہیں تھا بلکہ وسیع طور پر وہ ایک ‘‘ بڑے دیوتا ’’ کے طور پر پوجا جاتا تھا یعنی چیف اور مکہ کے رہنے والے سردار کے طور پر۔ (۵)

اِس کتاب میں، کہ کیا اللہ خُدا کے لیے ایک دوسرا نام ہے ؟ رابرٹ مورے نے اِس کے استدال کی یہ لائن کھینچی ہے:

قرآن یہ بیان نہیں کرتا کہ اللہ کون ہے کہ محمد ایک مادہ پرست تھا عرب والے پہلے ہی جانتے تھے کہ وہ کون تھا وہ دُرست تھا اللہ کعبہ میں پوجے جانے والے بتوں میں سے مادہ پرستوں کا ایک بُت تھا۔ (۶)

کیا اللہ کا بائبل سے کوئی تعلق ہے؟

مسلمان مفکرین اکثر اللہ کے بائبل کے ساتھ تعلق میں مختلف آراء رکھتے ہیں بدقسمتی سے بہت سارے مسیحی اور یہودی رہنما پورے طور پر اللہ کی الوہیت کو نہیں سمجھتے جب وہ بائبل کے صحیفوں کے ساتھ اس کے تعلق کو جوڑتے ہیں ۔ یہ حصہ اس سوال کے جواب میں آپکے ہر غلط تصور کو صاف کر دے گ ا ۔

اللہ بطور ایک شخصی نام

اسلامی مفکرین اور مومنوں کی ایک اکثریت اس خیال کو تھامے ہوئے ہے کہ اللہ ایک شخصی نام ہے یہ وجہ ہو سکتا ہے کہ ایک مسلمان لھاری مولانا علی نے بیان کی ہو، جس نے بیان کیا :

 اللہ ایک خاص یا شخصی نام ہے ایک الہی ہستی جو تمام ناموں سے مختلف ہے جو اسما الصفات یا ناموں کی خصوصیات کہلاتی ہے بطور خاصیت یہ اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتی لیکن بطور نام یہ اپنے اندر بہت ساری خوبیاں رکھتا ہے جو کہ الگ طور پر صفاتی ناموں پر مشتمل ہے یہ کسی دوسرے لفظ سے نہیں نکالا گیا اور نا ہی اِس کا تعلق لفظ اِلہ سے ہے جس کا مطلب ( دیوتا یا پرستش کی کوئی چیز ہے ) بعض دفعہ یہ کہا گیا کہ اللہ الہ لہ کی ایک شکل ہے لیکن یہ ایک غلطی ہے۔ (۷)

مسلمان جو اس بات پہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ ایک شخصی نام ہے تو اُن کو بائبل کو پورے طور پر رد کرنا چاہیے کیونکہ ایک بھی لفظ اللہ کے نام سے بائبل میں نہیں مسلمان علی کی اسی بات کو پکڑے ہوئے ہیں یا پھر اُن کو یہ دعویٰ کرنا چاہیے کہ بائبل کے نام غلط ہیں یا اُن کو بائبل کے پیراؤں میں کسی ایک میں اللہ کے نام کو دریافت کرنا چاہیے۔ اللہ کے نام کے لیے ایل یا یہواہ کا نام بائبل میں واحد وسیلہ ہے۔

رابرٹ مورے اس بات کی حالت کے لیے جو کہ ایک مسلمان سفیر نے دعویٰ ککررتے ہوئے پیش کی ۔ کہ اللہ عبرانی لفظ ہیلویاہ کے برابر ہے تاہم یہ عبرانی لفظ جمع کا سیغہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک اکیلا لفظ ہے اور اس عبرانی لفظ کا مطلب یہواہ کی تعریف ہے یہ سفیر اس پیرائے میں جس میں یسوع نے ارامی زبان میں ایلی ایلی کہا یہ کہتا ہے کہ وہ حقیقت میں اللہ اللہ ہے درحقیقت نئے عہد نامے میں یہاں ایک ارامی محاورہ حوالے کے طور پہ بیان کیا گیا ہے ۔ جو زبور ۲۲ کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے اور عبرانی خُدا کو پُکارا گیا ہے۔ (۸)

زباندانی میں یہ غیر منطقی کوشش بائبل کے ساتھ اللہ کی ہم آہنگی کو قائم کرنے میں کمزور ہے۔

مزید برآں اکیلا لفظ اللہ عبرانی زبان کی اصل میں ‘‘ درخت ’’ کے معنوں میں یا خاص طور پر ‘‘ بلوط کے درخت ’’ کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ ( یشوع ) ۲۶ : ۲۴ ) ۔(۹) تاہم یہ مقابلے کے الفاظ دُور دُور ہیں اگر مسلمان مفکرین اللہ کو ایک درخت سے تشبہہ دیتے ہیں تو یہ بھی بُت پرستی میں وحدانیت کی ایک شکل ہو گی اور یہ بات اور زیادہ مسائل پیدا کرے گی کہ ابتدائی عرب والے درخت کی پوجا کی گواہی پیش کرتے ہیں کُچھ مسلمان اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ اُنھیں ضرور اس مسئلے کے حل تک پہنچنا چاہیے ۔ اِس طرح سے وہ سادہ طور پہ اعلان کرتے ہیں کہ خُدا کے لیے یہواہ کے نام کو شخصی طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کیا اس دعویٰ کو سچ ثابت کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً نہیں پرانے اسلامی لوگ تو توریت اور زبور کو با اختیار کتابیں مانتے ہیں اور اِن کتابوں میں یہواہ ہی کا نام ہو گا اور اِن کے لیے اللہ کا ن ام نہیں ہے۔

دوسرے مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ پرانا عہد نامہ گُم ہو گیا ہے اور یہ خُود ساختہ کتاب ہے۔ درائے مردار کے طوماروں نے ثابت کیا ہے کہ پرانے عہد نامے کے صحیفے پورے طور پر دُرست ہیں۔ ان طوماروں نے ۲۰۰۰ اور ۲۰۰ سال کی آثارِ قدیمہ کی تاریخ کو دُرست ثابت کیا ہے مزید یہ کہ یہ قابِل بھروسہ بائبل کا ترجمہ مکمل ہے اور یہودی معاشرے کا قانون ہے اور یہ قرآن کے دیئے جانے سے سینکڑوں سال پہلے سے ہے ۔

منطقی طور پر یہ بات غلط ہے کہ اللہ کی جگہ یہواہ کا نام آیا ہے یہاں تک کہ دو دیوتاؤں کی تعریفوں کے اندر بھی تضاد ہے یہواہ خُدا خُود اپنا وجود رکھتا ہے اور خُود کو ظاہر کرتا آیا ہے ۔ جب کہ اللہ محض ایک مجسمے کے جانا جا سکتا ہے وہ جو اس بات پہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ ایک شخصی نام ہے اُن کو بائبل کے یہواہ کے ساتھ اس کو جوڑنے میں نا ممکنہ حد تک کوشش کرنی پڑے گی۔

اللہ بطور ایک غیر شخصی نام

وہ جو اس عقیدے پہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ محض ایک غیر شخصی نام یا خطاب ہے تو اُن کے لیے ایک بہتر موقع ہے کہ وہ بائبل اور قرآن کے درمیان فرق دیکھ سکیں اس اختلاف کے لیے الہیاتی تعمیر کا اس حصے میں مظاہرہ کیا گیا اگر اِل ایک نسلی اصطلاح کے طور پہ استعمال ہوئے ہے تو اللہ کے لیے زباندانی کی جِڑ کو عبرانی اصظلاح ایل جو کہ خُدا کے لیے استعمال ہوا اُس کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ عبرانی نسلوں کے خُدا کو کنعان کی سر زمین ہی سے اس نام کی اصطلاح دی گئی ہے اور یہ نام یوگریٹک زبان میں بھی بطور ایل ہی آیا ہے اور ایل کنعان بطور اُن کے شخصی دیوتا کے نام کے طور پہ استعمال ہوا ہے جس کاتعلق ابراہام کے خُدا کے ساتھ ہے جِس کو ایل ایلون کہا گیا ہے یعنی ‘‘ خُدا سب سے زیادہ بڑا ’’ ( پیدائش ۱۹ : ۱۴ ) تاہم خُدا کے لیے شخصی نام یہواہ ہی رہا ہے ۔ ( پیدائش ۱ : ۱۲ ؛ ۱ : ۱۵ ؛ ۱ : ۱۸ وغیرہ ) اور یہ بطور ابراہام کے خُدا کے ظاہر ہوا اور یہی نام موسیٰ کے لیے اور عبرانی نبیوں کے لیے ظاہر ہوا ۔

یہاں تک ایل کا تعلق ہے تو یہ بائبل میں قائم رہا ہے اور اکثر ناموں کے ساتھ جوڑا گیا ہے جیسے بیت ایل ( بیت ۔ ایل ) ‘‘ خُدا کا گھر ’’ اس لفظ کو انگریزی لفظ ‘‘ خُدا ’’ کےساتھ بھی جوڑا جاتا ہے جو کہ جرمن مادہ پرست بنیاد سے لیا گیا ہے اس لفظ کو بھی ایک زبانی نام کے طور پہ اختیار کیا گیا ہے اور یہ خُدا کے لیے شخصی نام نہیں ہے اور اس کو بھی ضرور واضح کیا جانا چاہیے کہ ایل یا خُدا زباندانی کی اصطلاحیں ہیں جبکہ یہواہ واحد شخصی نام ہے جو پاک توریت میں ظاہر ہوا۔

کیا مسلمانوں نے ایل کو شخصی یا غیر شخصی طور پر اپنے خُداؤں کے لیا ہے اور وہ یقین کرتے ہیں کہ ابراہام ، ہاجرہ اور اسماعیل اس کے تصور کو لیکر مکہ میں آئے اُنھوں نے خُدا پر ایمان کی اُلجھن یعنی ایل کو ذاتی یا غیر ذاتی طور پر خراب کرنے میں مادیت پرستی کو اختیار کیا جِس کو بعد میں مکہ میں قائم کیا ۔کیا اللہ محض ایک مجسماتی قوت یا ایک شخصیت ہے ؟ دونوں صورتوں میں اس کی منطقی صورتِ حالوں کو پیش کرنا نا ممکن ہے ۔

 اس لفظ اللہ کے لیے اس کی تعریف کے حوالے سے تین نمایاں مسائل ہیں : پہلے نمبر پر بہت سارے مسلمان اُس کو اپنے دیوتا کے شخصی الہ ہونے کا نسلی دعویٰ نہیں کریں گئے

دوسرے نمبر پر وہ اسی بات کو محسوس کرتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ اُن کے شخصی خُدا ہونے کا دعویٰ محض اُن کی غیر شخصی نام کی تعلق داری ہے ۔ تیسرے نمبر پہ کہ ابراہام اور اُس کے خاندان نے مکہ کا سفر کیا یہ ایک نیا وحدانی ایمان ہے اور یہ محض اللہ کے خُدا ہونے کو ثابت کرنے کی بنیاد پر ہے۔

 اگر ہم پہلے حصے میں یہاں اللہ کو ایک غیر شخصی طاقت کے طور پہ دیکھا گیا ہے تو وہاں اسلامی الہیاتی نظریات کے خُدا کی فطرت ساکن شکل کی ہے اور یہ انسانی تصور سے پرےہے۔

اور یہ اس بات کو بھی پورے طور پہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خُدا کی شخصیت کو نہیں جانتے اور نہ ہی اُسے دیکھتے ہیں اور نہ ہی اُسے چھوتے ہیں اور نہ ہی اُس کے ساتھ کوئی شخصی تعلق ہے اور وہ انسان سے بہت پرے ہے اُس کے فرشتے ہی اُس کے اور انسان کے درمیان ایک پُل ہیں اور وہ اُن کے متعلق بھی بہت کم جانتے ہیں بہت سارے مسلمان کہیں گئے کہ اللہ کی کوئی بناوٹ نہیں ہے اُس کو وصول نہیں کیا جا سکتا اور وہ ناقابلِ جامع ہے ۔

اسلامی مفکرین اس متضاد مسئلے کے لیے بٹے ہوئے ہیں ۔ وہ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ غیر شخصی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ ‘‘ مکمل الہ ’’ ہے اور ایک روح نہیں ہے اگر اللہ ایک شخص نہیں یا ایک روح نہیں تو پھر وہ کیا ہے ؟ کیا اللہ ایک غیر شخصی قوت ہے ؟ کیا اُس کی کُچھ صفات ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو صرف ایک شخصی خدا ہی کی محبت اور معافی جسی خوبیاں ہو سکتیں ہیں ۔ کیا خُدا ترس کھانے والا اور رحیم ہے اگر وہ ایسا ہے تو پھر وہ ایک ساکن خیال یا قوت کس طرح ہے ۔

مسلمان مفکرین بیان کرتے ہیں کہ اللہ بطور ایک قسمت کے لِکھاری کے ہے اور اُس کا احترام بطور جھوٹوں کے سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ ( سورہ ۵۴ : ۳ ) اس آیت میں عربی لفظ مُکارا کا مطلب ہے جُھوٹا ، دھوکہ دینے والا اور فریبی ۔ مسلمان یہودی شرعیت سے دیکھتے ہیں کہ یہواہ نے برائی کو پیدا کیا ۔( یسعیاہ ۷ : ۳۹ ) اسی سے وہ یہ اغز کرتے ہیں کہ یہواہ بھی اللہ کی طرح مُکارا ہے وہ اس بات سے اس چیز کو مدد دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صحیفوں  میں جب سے یہواہ نے ابلیس کو پیدا کیا تو اُس نے برائی کو پیدا کیا یہ وجہ غیر منطقی ہے ۔ مسلمان یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ اگر یہواہ نے اُسے پیدا کیا ہے تو اُس کی تخلیق بھی اُس کی پہچان ہونی چاہیے یہ وحدانیت رکھنے والا خُدا نہیں جِس کو یہودی یا مسیحی خُدا کہتے ہیں۔ صحیفے اِس بات کو بیان کرتے ہیں کہ یہواہ نے ابلیس کو پیدا کیا تاکہ گناہگاروں کو سزا دے نہ کہ اُس کو غیر راست باز مُکارا کے طور پہ پیدا کیا اگرچہ مسلمان خُدا کو توحید کے ماننے والے کے طور پہ دعویٰ کرتے ہیں لیکن اُن کے بہت سے تصورات ایسے نہیں ہیں کیونکہ وہ ہندو ایمان کی طرح قسمت کے ہونے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ہندو بھی عظیم برہمن کو اچھائی اور برائی دونوں صفات رکھنے والا دیوتا مانتے ہیں۔ اللہ انسانوں پر اپنی رومی اور یونانی دیوتاؤں کی فطرت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اللہ کی صفات پاک یہواہ کی صفات کا عکس نہیں ہیں جِس طرح اُس نے اپنے آپ کو پاک توریت میں ظاہر کیا ہے۔

کوئی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق کیا ہے اِس کے باوجود نوے مختلف فرقے ہیں جو اسلامی ایمان رکھتے ہیں ۔ ہر گروہ مختلف عقیدے رکھتا ہے اور اِن کی تقسیم کے درمیان گرما گرم بحثیں ہوتی ہیں جن میں اللہ کی تعریفوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

یہاں تک تعلق دوسرے مسئلے کا ہے جِس کا تعلق اللہ کی اصطلاح سے ہے تو وہ اِس کو اپنے ذاتی دیوتا کے طور پہ اپنے تصور سے مانتے ہیں۔ اِس نظریے کے حِسا سے یہ ایک سنجیدہ الہیاتی لاگو کرنے کا مسئلہ ہے جو کہ مادہ پرستی کی الوہیت سے اختیار کیا گیا ہے مثال کے طور پہ ‘‘ بڑے دیوتا ’’ ایل کی پوجا کرنا یہ مادہ پرست کنعانیوں سے تھا جو بُت پرستی کے طور پر اِسے شخصی دیوتا تسلیم کرتے تھے جیسا کہ نیچے دیکھا گیا ہے کہ یوگریٹک ایل دیوتا جو کہ عربی زبان کے اِل سے لیا گیا ہے اِس کی تمام عرب میں بطور دوسرے شخصی چاند دیوتا کے پوجا کی جاتی تھی۔

ایک تیسرا بڑا مسئلہ تاریخی اور بائبل کے بیانات کی وظاحت میں اُٹھتا ہے۔ پاک طومار اسماعیل کے آباواجداد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ حویلہ سے شور کے علاقے سے تھے جو کہ مصر کے بارڈر کے پاس تھا جب آپ شور کو جاتے ہیں (پیدائش ۲۵:۱۸) یہ زمین سینا کی پہاڑی سے جنوب مغربی کونے میں دُور واقع تھی جو کہ ساحل سمندر اور پھر مِصر کی طرف جاتی تھی اِس کا حدوددربع مکہ سے بہت فاصلے پر تھا خاص طور پہ اُس وقت جب کوئی یہ تصور کرے کہ یہ زمین صحرا میں ہے اور یہ سفر کے لیے ایک بڑا مشکل مرحلہ ہے۔ عرب کے لوگوں کی حقیقی اصل نسل بدوؤں سے آئی تھی جو کہ سارے عرب میں اسماعیل کی پپپیدائش سے بہت پہلے رہتے تھے اور براہ راست کوئی بھی ایسے تاریخی شواہد نہیں ملتے جِس سے اسرائیلیوں اور عرب کے لوگوں کے درمیان خون کے ایک ہونے کی وجہ مِل سکے۔ صحیفے کے مطابق اُس کی نسل شعیر کے ملک کی پہاڑی میں بستی تھی۔ (پیدائش ۳۸:۸)

قرآن کے باہر کوئی بھی ایسے شواہد نہیں ملتے کہ ابراہام یا اسماعیل نے مکہ کے علاقے کی طرف ہجرت کی یہاں تک کہ اگر ابراہام اِس زمین میں گیا تو اُس کے دیوتا ایل نے اِس کو نسلی طور پر لیا ورنہ وہ ایک کنعانی مادیت پرست دیوتا کی پوجا کریں گئے۔ ابراہام کو شخصی نام یہواہ دیا گیا تاکہ کسی بھی مادیت پرست دیوتا کے تعلق سے بچے ایل کا لفظ دیوتا کے لیے نسلی طور پر برتا گیا اور اِس کی صفات کے سبب سے اِس کو ایل ایلون یا ایل شیڈائی کی خصوصیات بھی دی گئی۔ مکہ کے رہنے والے اور اِس کے اِرد گِرد کے لوگوں نے اِس نام ایل کو اختیار کیا یا دوسرے نمبر پر اِس شخصی نام کو اپنے دیوتاؤں کے حوالے سے استعمال کیا خاص طور پر چاند دیوتا کے بھیس میں یہ مشق یہودیوں اور مسیحیوں کے عقیدے کے لیے استعمال ہوتی تھی جیسا کہ پاک صحیفوں میں ظاہر ہوا ہے۔

اللہ بطور عرب والوں کے چاند دیوتا کے طور پر

سارے ابتدائی قریب مشرق میں چاند دیوتا کی بہت سارے ناموں سے پوجا کی جاتی تھی (۱) سمیرین (نانا)، جو کہ چیف دیوتا این لِلہ کا بیٹا تھا۔ (۲) عقائدین (گناہ)؛  (۳) بابلیوں کے ایمان کے دیوتاؤں کا ابتدائی باپ (۴) انو ، آسمانو کا دیوتا اور تمام دیوتاؤں کا سردار اور (۵) یوگرت مزید برآں خاص نام جو کہ مختلف نسلوں نے دیئے۔ (۱) نمراسُس جِس کا مطلب ہے ‘‘چمکتا طلوع’’۔ (۲) ‘‘ اُور کا خُدا ’’ اور (۳) ‘‘ اِرگیشریگل کا خُداوند ’’ جو کہ اُور میں چاند دیوتا کے لیے مندر کا ایک نام تھا۔ (۱۰)

نتیجتاً چاند دیوتا کی عرب میں بڑے اعلیٰ پیمانے پر پوجا ہوتی تھی اور اِسی کے ساتھ اِرد گرد کے علاقہ جات میں بھی صرف مکہ کا مشرقی حصہ گناہ کا صحرا تھا ، سینہ کا صحرا تھا اور چاند دیوتا کے بعد ہی ممکنہ طور پر اِس کا نام کوہِ سینا پڑا جو کہ سفر کرنے والے بدوؤں نے رکھا ۔ (۱۱)

غالباً بائبل کا ذکر بیان کرتا ہے کہ سینہ کا پہاڑ حُورب کے نام سے ہے۔ اِس لیے یہواہ خُدا کو اِس چاند دیوتا کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ پرانے عہد نامے کے مطابق سختی سے چاند دیوتا کی بدعت کی ممانعت کی گئی ہے۔ (استثنا ۴:۱۹؛ ۱۷:۳؛ ۲۔سلاطین ۲۱:۳؛ ۳:۵ ؛ ۲۳:۵، یرمیاہ ۸:۲ ؛ ۱۹:۱۳ ، صفنیاہ ۱:۵ ) (۱۲) رابرٹ مورے اپنی تحریر چاند دیوتا اللہ : مشرقیِ وسطیٰ کے آثارِ قدیمہ میں بیان کرتے ہیں کہ فلسطین کے علاقہ حُضور میں ۱۹۵۰ ء کی دہائی میں ایک مندر تھا :

چاند دیوتا کے دو بُت ملیں ہیں اُن میں سے ہر ایک ایک آدمی کا مجسمہ ہے جو تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اُس کی چھاتی پر چاند کُھودا ہوا ہے وہاں کے لوگ واضح کرتے ہیں کہ یہ چاند دیوتا کے بُت ہیں بہت سارے چھوٹے مجسمے بھی ملے ہیں جِن کی شناخت چاند دیوتا کی بیٹیوں کے طور پہ ہوتی ہے۔ (۱۳)

بیان کیے گئے باب میں دیوی ال لات بطور ایک سُورج کی دیوی کی مُرید بیان کی گئی ہے لیکن مزید یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ وہ اپنی بہنوں ال عُضا اور مِنا ککے ساتھ چاند دیوتا اور سُورج دیوی کی بیٹیاں بھی ہیں یا شاید ہو سکتا ہے کہ ال لات در حقیقت سُورج دیوی تھی بعض اوقات اِن دیوتاؤں کا اُن کے علاقے کے حِساب سے دوہرا کردار بھی ہوتا تھا مزید یہ کہ حُضور کے علاقہ میں اللہ کی اِن تینوں بیٹیوں کے لیے چھُٹکارے کے باؤلز بھی ہیں یہ بات بڑی خاص ہے کہ مورے کے بیان کے مطابق تینوں بیٹیاں ال لات ، ال عُضا اور مِنا اکھٹی چاند دیوتا کے ساتھ اپنے سروں پر چاند کے نشان کے ساتھ پیش کی گئی۔(۱۴)

جیسے کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ نوبونی دس جو باب کا ٓخری بادشاہ تھا اُس نے چاند دیوتا کے لیے طیما میں جو کہ شمالی عرب میں ہے اُس کے لیے بڑی بدعت کی جگہ تیار کی تھی۔ یہ شہادتیں بھی ملی ہیں کہ جنوبی عرب میں چاند دیوتا کا بھی قبضہ تھا ایلئیڈ بیان کرتا ہے:

ہر شخص اپنے ہی خُدا کی پُوجا کرتا تھا واد (مِناؤں کا خُدا تھا) اُم کتابئین کا خُدا تھا ، سِن ( حیدراماؤتھس کا خُدا تھا) اور ایلمکا (سائبین کا خُدا تھا) جنوبی عرب میں مندروں کے درمیان دو مندر بہت مشہور تھے۔ ۱۔ حُوریدا کا مندر جو کہ حیدرماؤت میں ہے اور یہ مندر سِن کے لیے وقف ہے جو کہ مقامی چاند کا خُدا ہے اور دوسرا عوام کا مندر ہے (اِسے حرم بِلکس بھی کہتے ہیں یہ مارب میں واقع ہے اور ایلمکا کے لیے وقف ہوا ہے اور یہ سائبین کا چاند دیوتا ہے۔(۱۵)

جب کہ ‘‘ایلمکا’’ کا نام ‘‘اِل مُکا’’ ترجمہ کیا گیا ہے جِس کا مطلب ہے پانی کا دیوتا اور اِس کا تعلق سُورج کی دیوی شام سے تھا۔ (۱۶) اگرچہ جِیکس ریکمین نے اپنی کتاب ‘‘لیپینتھان دی اہل عربیہ دُو صد پری اسلامیکا’’ میں دعویٰ کیا ہے کہ دوسرا دیوتا بحیثیت سُورج کا دیوتا تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اِس بات سے بھی متفق ہے کہ بہت سارے مفکرین پہلے دیوتا ایلمکا کا احترام بحیثیت ایک مرد چاند دیوتا کے کرتے تھے۔ (۱۷)

جنوبی عرب میں چاند دیوتا کے لیے تصور کیا جاتا ہے ۔ ایلمکا کا احترام بھی اِس علاقے میں چاند کے خُدا کے طور پہ کیا جاتا تھا۔ عرب کی لسانی تاریخ میں ‘‘اِل’’ یا ‘‘الہ’’ بطور چاند کے محاورے کے ہے۔ (۱۸)

دوسرے کو شار کے نام سے بھی پُوجا جاتا تھا۔ ڈیوڈ ایف گراف نے اپنی تحریر ‘‘ایکمینڈ کے وقتوں کے دوران عرب والے ’’ میں بیان کیا ہے شار کا نام بذاتِ خود چاند دیوتا سِن کے عہدے سے نکالا گیا ہے۔ ثانوی طور پر  ۱۱ ۔ تھہری ۔۔ ال ۔۔ شار۔(۱۹) ریکمین شیران کو بھی چاند دیوتا کے ساتھ ملاتا ہے۔ (۲۰)

یہ خاص دیوتا جِس کی شمال عرب میں پوجا ہوتی تھی اور وہ شارا کا ‘‘وہ’’ کہلاتا تھا۔ (۲۱) چاند دیوتا سِن اور دوسرا دیوتا شمالی عرب میں پوجے جاتے تھے جنوبی عرب اور اِس کے دور دراز علاقوں میں جو کہ نتیجتاً مکہ کی جگہ تھی اور جغرافیہ طور پر ایک تکونی مرکز تھا اِس بیان سے یہ بات نظر آتی ہے کہ اللہ آل الہ کا مساوی ہے اِس طرح سے اِس کا تعلق عرب کے چاند دیوتا کے ساتھ ملانا آسان ہے۔

مورے اِس تعلق کا ایک بڑا اچھا خلاصہ پیش کرتا ہے:

کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ہلال کو اسلام کی علامت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے؟ اور یہی ہلال اِن کی مسجدوں اور میناروں پر نظر آتا ہے؟ اور یہی ہلال اسلامی قوموں کے جھنڈوں پر نظر آتا ہے اور مسلمان روضہ بھی آسمان پر مہنے کے ہلال کے دوران رکھتے ہیں ؟ (۲۲)

کُچھ مسلمان قرونِ وسطیٰ تک اپنی مسجدوں کے اُوپر ہلال کی علامت کو نہیں رکھتے تھے۔ (۲۳) اگر اب ایسا ہوا ہے تو یہ کیوں شروع کیا گیا ؟ کیا یہ محض اتفاق تھا؟ وہ لوگ جو مافوق والفطرت  دنیا پر یقین رکھتے ہیں اُن کے لیے جو اب واضح ہے ۔ نئے عید نامے میں اِس طرح سے واضاحت ہوتی ہے۔

‘‘ خُدا کے سب ہتھیار لو تاکہ تُم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔ کیونکہ ہمیں خُون اور گوشت سے کُشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکومت والوں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔ اس واسطے تم خُدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ بُرے دِن میں مقابلہ کر سکو اور کاموں کو انجام دیکر قائم رہ سکو۔’’(افسیوں ۱۳ ۔ ۱۱ : ۶ )

لوگ یا قومیں اِن آسمانی بُری تاثیروں سے اکثر انداز ہوتی ہیں۔ زور آور دیوتا بطور ایک فریبی اور مُکار شیطانی دیوتا کے اُن سب پر جو اُس کے قبضے میں ہے ۔ حکومت کرتا ہے اسلام سے پہلے کی جڑیں ابتدائی چاند دیوتا کی بدعت اور بابلی عِلم فلکیات سے جنم لیتی ہیں جِس نے بہت سوں کو نفرت اور فریب کا شکار بنایا ہے اِس شیطانیت کے اسلامی پھل بربریت اور جنگ و جدل کی صورت میں چودہ سو سال تک ظاہر ہوتے رہے ہیں۔

   اسلام کی اِس فطرت کے سبب سے اسلام کے لیے نجات کا ذکر مندرجہ ذیل صورت میں ہے، ‘‘ دیکھو وہ جو ایمان نہیں لائے وہ جو صحیفوں میں ہے اور بُت پرست ہیں وہ آگ میں جائیں گئے۔ وہ بد ترین مخلوق ہیں۔ ’’(قرآن ۹۶:۶ ) اِسی طرح سے اوہ تُم جو ایمان لائے ہو تم یہودیوں اور عیسایئوں کو اپنے دوست نہ بنانا دیکھو اللہ غلط کام کرنے والے قبیلے کی راہنمائی نہیں کرے گا۔’’ (قرآن ۵:۵۱)

دوبارہ سورہ ۵:۶۹ میں یہ حکم آیا ہے کہ اللہ کو بطور اپنے بڑے دیوتا کے پُوجو۔

  دیکھو وہ جو ایمان لائے اور وہ جو یہودی اور سائبین اور مسیحی ہیں اُن میں سے جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور آخر تک قائم رہے اور ٹھیک کام کرتا رہے تو اُن کے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ ہی اُن کے لیے کوئی پریشانی ہے۔

نجات کے لیے اللہ پر ایمان لانے کے لیے جو بات درکار ہے کہ وہ پہلے پرانے عہدنامہ اور نئے عہد نامہ کو سمجھے اللہ ایک مادیت پرستی کا چاند دیوتا ہے جِس کی اصلیت آثارِ قدیمہ کے مطابق ابتدائی عرب کی پوجا کے ساتھ اللہ کی درختوں کے درمیان پوجا کی جاتی تھی جِن کو مقدس مزاروں کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن میں اکثر سخت درخت جسے اوک کا درخت جس کا عبرانی زبان میں ترجمہ اللہ کیا گیا ہے یعنی بدعتی پرستش کو بائبل میں منع کیا گیا ہے درحقیقت مادیت پرستی کی روایتوں کے مطابق وہ لوگ دن میں پانچ بار جُھکتے تھے ۔ اور وہ آسمانی کے سامنے خُود کو جُھکاتے تھے اور یہی روایتیں محمد کی نمازوں میں ہونے والی مشق کی جڑیں تھیں لیکن ایسی پوجا کو یہواہ پاک خُدا نے منع کیا ہے اور اِس کو بُت پرستی کے شیطانی اثرات کہا گیا ہے ۔ جیسے جیسے ابانوں نے ترقی کی تو لفظ اور گرائمر وقتوں کے ساتھ آپس میں شامل ہوئیں ابتدائی عبراننی زبان ابراہام کی زبان تھی جو بابل سے آیا اسماعیل اور عیسو کی نسلوں نے عرب کی آبادیوں میں شادیاں کیں اور اِسی طرح سے زبانیں دوسری زبانوں میں شامل ہوئیں۔ ایک دوسرا تصور جو آل لہ کے مطلب کے بارے میں ہے ۔ وہ بھی دُرست نہیں ہے کیونکہ بعد میں اُس کی جکڑیں خاص دیوتا کے ساتھ ملائی گئیں۔ چالدین عبرانی ایل یا اِل دو پہلے حروف ہیں جو کہ لفظ ایلوہیم یزراعیل میں موجود ہے اور اِنھی کو ہو سکتا ہے مثالوں کے طور پہ رکھا گیا ہو تاہم اِس معاملے میں ‘‘آل’’ بلاواسطہ طور پہ اللہ کے طور پہ استعمال ہوا ہے۔ اور ‘‘دی ڈیفینٹ آرٹیکل’’ کے طور پہ عربی زبان میں استعمال کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہ سکتا ہے کہ لفظ حالہ عربی زبان میں ہلال کے لیے استعمال ہوا ہو اور یہ ابتادئی عرب کے بدوؤں لوگوں نے ابتادئی عبرانی گرائمر کے ڈاھانچے سے اختیار کیا ہے ۔

مثال کے طور پہ عبرانی میں ایچ کا حرف ڈیفینٹ آرٹیکل کے لیے استعمال ہو گا اور بعد میں عربی میں یہ آل میں بدل دیا گیا جِس طرح کہ دی ڈیفینٹ آرٹیکل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب جِس طرح کہ یہ کہا جاتا ہے اگر عبرانی زبان کی ابتادئی شکل کے مطابق لفظ آہالہ ہلال کے معنی میں آتا ہے تو عربی زبان میں اِس کی حالت ترقی پزیری سے پہلے کی ہے اور ڈیفینٹ آرٹیکل کے بغیر اے اللہ کا مطلب ایک ہلالی چاند ہے ۔ یہ اللہ کے نام کو واضح کرے گا اور ممِصر اور عرب کے بہت سارے چاند دیوتا کو پیش کرتے ہیں۔

 اِس طرح سے اللہ ہلال چاند کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اِسی لیے بہت سارے اسلامی قوموں کے جھنڈے پر علامت کے طور پر اِس نام کی جڑیں مزاروں اور آثارِ قدیمہ کی پُوجا کے طور پہ استعمال ہوا ہے اِس طرح سے اللہ عبرانی میں سخت لکڑی یا اوک کے درخت کے لیے استعمال ہوا ہے اور پھر آخر کار اِسی طرح کا لفظ چاند دیوتا کے اللہ کے لیے جِس کی پوجا درختوں کے جُھنڈوں کے درمیان ہوتی تھی اِس طرح سے عبرانی کا آہالہ اور عربی کے آہالہ میں ایک قریبی تعلق ہو سکتا ہے یہواہ نے آثارِقدیمہ کے جھنڈوں کی پرستش کو منع کیا اور توریت میں آہالہ یا اللہ کی شناخت کروائی۔ آثارِ قدیمہ اِس ساری معلومات میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اِن کے متغیرات اور تعلقات میں تعلق قائم کر سکتا ہے ۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ عربی زبان نے تمام زبانوں کی طرح ترقی کی ہے اور نہ ہی اِس کی جڑیں آدم کی اصلی زبان کے ساتھ ملتی ہیں جیسے کہ بہت سارے مسلمان اِس کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ مسلمان جو عربی زبان کو انسانی ابتداء کی زبان کہتے ہیں وہ سائنسی مواد کا انکار کرتے ہیں ۔

مزاید برآں وہ بائبل کے ابتدائی بابلی ذکر کا بھی انکار کرتے ہیں جِس کے مطابق لوگوں کی زبانوں میں اختلاف ہو گیا ۔

 اسلام اور مسیحیت دونوں متضاد مذاہب ہیں اگر ایک کو قبول کیا جائے تو دوسرا فوراً رد ہو جائے گا ۔ اسلامی تعلمات کو حقیقی بائبل کی مسیحی معلومات میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ مسلمان مادیت پرستی کے چاند دیوتا کی پوجا کرتے ہیں اُن کے مذہب کی جڑیں یہودیوں کے خُداوند سے نہیں ملتیں بہت سارے مسلمان ابھی بھی یسوع کے خُدا ہونے کا انکار کرتے ہیں اور یسوع کے مجسم ہونے کے واقعے کا بھی کُچھ نام نہاد بدلے ہوئے مسلمان سادہ طور پر یسوع کو ایک اور نبی کے طور پہ قبول کرتے ہیں اور اُس کو تخلیق کے خُداوند کے طور پر قبول نہیں کرتے ایک اور افواہ جو زبانی پھیلی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یسوع نے لوگوں کو خُود کو خُدا ہونے کا کہہ کر دھوکہ دیا جب وہ واپس آئے گا تو یسوع ضرور اللہ سے اپنے جھوٹے ہونے اور لوگوں کی غلط راہنمائی کے لیے معافی مانگے گا ۔ وہ اِس خیال سے نفرت کرتے ہیں کہ اگر ایک سچا مسیحی یسوع کو یہواہ خُدا کہتا ہے یہودی ذہنیت کے مطابق یوحنا رُسول نے بیان دیا کہ ہر آدمی یا روح یسوع کے جِسم اختیار کرنے کا انکار کرتی ہے وہ مخالفِ مسیح کی روح ہے ۔ یسوع یہواہ ، بچانے والا خُدا ہے۔ سوائے یہودی مسیحی کے ، خُدا کی روح کا کوئی بندہ نہیں کہہ سکتا کہ یسوع یہواہ نہیں (یعنی خُدا ) ۔ پینٹی کوست کے دن ۳۰۰۰ ایماندار یہودی یسوع کے نام پر بُلائے گئے کہ انہیں نجات دی جائے اور سارے ایک خُدا کو ماننے والے تھے۔ وہ کسی دوسرے دیوتا یا پیر بابے کو نہیں مانتے تھے کیونکہ یہ جھوٹے خُدا سمجھے جاتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یسوع نے اشارہ کیا ہے یہواہ بچاتا ہے ۔ جو کوئی انکار کرتا ہے کہ یسوع جسم میں حقیقتاً یہواہ تھا خُدا نہیں ہے ! یہ محمد بتاتا ہے جو کہ مخالفِ مسیح کی ایک قسِم کا نبی ہے۔

الرحمٰن

قرآن میں ایک کو نکال کر ساری سورتوں کے آغاز میں ایک کلام کا اضافہ کیا گیا ہے : ‘‘اللہ کے نام سے ، جو بڑا مہربان اور رحم کرنیوالا ہے’’۔ (۲۴) یہ مقولے قرآن کی ایک کتاب میں تالیف کرنے کے بعد شامل کیے گئے۔ عربی کے مترادفات (ہم قیمت الفاظ) رحم کرنیوالا (الرحمان اور ہمدرد (الرحیم) کسی دیوتا کیلیے حوالہ جات تھے جن کی پُوجا محمد کی پیدائش سے بہت پہلے کی جاتی تھی۔ الرحمٰن دیوتا کو اسلامی چاند دیوتا اللہ مذہب میں ملا دیا گیا اور پورے قرآن میں ثبوت دیے گئے۔

مسلمان دلیل دیتے ہیں کہ چاند دیوتا کا عقیدہ دوم ہڈھراموت(یمن) کے شمال میں موجود نہ تھی۔ قیاس کے طور پر جادوئی عمل نے مکہ کے مذہب میں سرایت نہ کی۔ (۲۵) تاہم اِسکو پچھلے حصہ میں پہلے ہی جھوٹا ثابت کیا جا چُکا ہے۔ یقیناً عقیدہ دوم کی جنوبی عرب سے شمالی عرب تک پرستش ہوتی تھی۔ اُسی طرح ، الرحمٰن ( الرحیم) کا عقیدہ جنوبی عرب میں اور اس کے ساتھ ساتھ وسطی عرب الیمامہ میں یہودی اثر کے ذریعے بنایا گیا۔

چوتھی اور پانچویں صدیوں سی۔ای سے کندہ کاریاں جنوبی عرب سے ملی ہیں ‘‘رحمانی’’ عقیدہ کا ثبوت دے رہی ہیں۔ اِس کو قرآن میں ‘‘حنیفہ’’ کی اصطلاح میں برابر تقسیم کیا گیا ہے۔ (۲۶) ایک یہودی بادشاہ بنام دہُو نوواس نے یمن میں ‘‘چھٹی صدی کے نصف’’ کے دوران حکومت کی ۔ وہ سارے مشرقِ قریب میں کئی زبانوں میں بڑے مشہور رہے جیسے : یونانی ، شامی ( ارامی) اور مختلف عربی لہجے ۔ اُسکی شہرت کی وجہ حبشی مسیحیوں کی انتہائی ایذا رسانی تھی جو جنوبی عرب میں ہوئی۔ وہ اکثر ‘‘ ہمائریٹوں کی مسیحی کتاب میں بطور مسروق مار ڈالنے والا مشہور رہا۔’’ وہ جھوٹے وعدوں سے مسیحیوں کو حوالے کرنے کے لیے چال چلتا ؛ کہ اگر وہ ‘‘کسی رحم کرنیوالے’’ (رحمٰن) کی قسم کھائیں تو انہیں نقصان نہیں پہنچایا جائیگا۔ پھر بھی ، یونہی وہ خُود کو ترک کرتے، وہ اُنہیں قتل کر دیتا۔ (۲۷)

قرآن میں دیوتا کے نام کی اِرتقاء اور آخری تالیف کے متعلقہ اپنی دریافتوں کو بیان کرتا ہے:

۔ ۔ ۔ ۔پہلیْ ابتدائی مکی سورتوں میں محمد تقریباً مستقل طور پر اللہ دیوتا کے طور پر نہیں بلکہ کسی دوسرے کا حوالہ دیتا ہے، جیسے ہم نے دیکھا ہے، بطور مالک یا ، کیونکہ اکثر بولنے والا ہوتا ہے آپکا مالک۔ یہ محفوظ شدہ ایجاد کے طور پر کسی نئے دیوتا کا نام نہیں ہے، کوئی دیوتا جسکی موجودگی مکہ میں ہے، سابقہ کے طور پر وہ گمنام ہے؛ بلکہ یہ ایک لقب ہے کسی آشنا کے لیے ایک حوالہ ۔ محمد کا آقا کونہ ہے؟

بعض اوقات اپنی تبلیغ کے آغاز کے بعد، شاید دو سال بعد، محمد الرحیم کا نام استعمال کرنا شروع کرتا ہے، ‘‘ رحیم شخصی’’، اس کے خُدا کے لیے اور نمایاں طور پر سورت ۵۶، ۶۸، ۷۸ ، ۸۹ اور ۹۳ میں مالک اور رحمٰن ساتھ ساتھ استعمال ہوئے ہیں ، اللہ کے ذکر کے ساتھ نہیں۔ مالک ، کے برعکس رحمٰن ایک نام ہے، ہمیشہ حرفِ تنکیر کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور قرآن میں خُدا کے کئی دوسرے القاب جو کام میں لائے گئے بالکل مختلف ہیں۔ اور یہ ایک تاریخ کے ساتھ ایک نام ہے، وہ تاریخ جسکا مکہ کے ساتھ تعلق نہیں، وہاں اسلام سے پیشتر ‘‘الرحمٰن کا مذہب غیر مصدقہ رہتا ہے۔ جہاں رحمٰن کی پرستش یمن میں تھی اور حتیٰ کہ مزید دلچسپ ، کیونکہ اس کا براہِراست محمد سے تعلق ہے ، عرب کا مرکزی علاقہ جو الیمامہ کے نام سے مشہور ہے۔ (۲۸)

پیٹرز نے زور دیا ہے کہ کیسے پچاس سے زیادہ دفعہ الرحمٰن کا لقب ‘‘نام نہاد دوسرے مکی عرصے کی سورتوں میں اور اکثر حقیقت کے لیے واضح حوالہ جو اہل مکہ نے اس کا نام عجیب پایا’’۔ یا ناقابلِ قبول اس سورت ۲۱ : ۳۶ ، ۲۵ : ۶۰ اور ۱۳ : ۳۰ کا بطور ثبوت حوالہ دیا ۔ پیٹرز نے دعویٰ کیا ، ‘‘ ہو سکتا ہے کہ کسی کا خیال ہو کہ محمد کا رحمٰن اور اُن کا اپنا اللہ دو امتیازی دیوتا تھے ، جیسے اُن کے وہ رہے ہوں ’’۔ (۲۹) پیٹرز اسلام کے دیوتا کی نشونما کو بیان کرنا جاری رکھتا ہے:

ہم سورت ۱۷ میں ایک صلح کی شروعات کو دیکھ سکتے ہیں یا ؛ مزید درست طور پر ، محمد کے حصے میں ایک مراعات ہونے کے لیے کیا ظاہر ہوتا ہے، مذہبی نماز میں میں ایک مسلئہ کے فیصلہ کرنے کے سیاقوسباق میں : ‘‘اللہ کی نماز پڑھ یا الرحمٰن کی نماز پڑھ ، جس کو بھی تم پکارو، اس کے لیے بڑے خوبصورت نام رکھنا ۔۔۔ ’’ اس کے بعد، یہاں الرحمٰن کا کوئی مزید ذکر نہیں ، نہیں ، کسی بھی قیمت پر نہیں ، جیسے دیوتا کا عجیب نام ہے ۔ اس کے بعد سے وہ نام مکہ کے اللہ کے نام سے مشہور ہو گیا اور رحمٰن کو اسکی خوبیوں سے کم کر دیا گیا۔ قرآن کی ہر سورت کو بچانے کے لیے اس کے شروع میں یہ کلمہ متبرک سمجھ کر محفوظ کر لیا گیا : ‘‘ شروع اللہ کے نام سے ، جو بڑا مہربان (الرحمٰن) ہمدرد (الرحیم) رحم کرنیوالا ہے ’’۔ (۳۰) درحقیقت، حدیث اور قرآن دونوں نے محمد کے الہامی عمل کو مسلسل قائم رکھا پس اوپر بیان کردہ عمل جو دو دیوتاؤں کا ایک کلام میں ملا دینا ہے۔ اپنے قافلے کے دوروں کے دوران محمد نے الرحمٰن کا یہ نیا مذہب اور اسکی تعلیمات سیکھیں۔

ابنِ اسحاق نے ذکر کیا تھا کہ الیمامہ میں ایک شخص کو الرحمٰن کہا جاتا تھا۔(موسلما) لوگوں کو تعلیم دے رہا تھا ۔ (۳۱) محمد اس مقرر کردہ نبی کا ایک نیک بچہ تھا ۔ اس نے اخلاقی قوانین کا مجموعہ سکھایا کہ شراب کے ذائقے سے پرہیز کرے۔ ہر دیگر مہنے میں روزہ رکھنا ، شادی میں وفاداری ‘‘ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد’’ اور دن میں تین مرتبہ رسمی نمازیں پڑھنا۔ وہ مجموعی طور پر یوم الآخرت میں جسم کے جی اُٹھنے روزِ عدالت اور الیمامہ میں حجر پر خانہ کعبہ کا اقرار پر زور دیا۔’’(۳۲) مزیدبرآں ، موسائلما اور محمد دونوں نے عربی سیرز کے طریقے کی غیر دلچسپ شاعری میں وقت ضائع کیا اور اُن دونوں نے ‘‘جن یا شیطان سے کسی تعلق کا انکار کیا’’۔ موسائلما کا ایمان تھا کہ ‘‘وہ’’ ‘‘خُدا کا ایک رسول ہے’’، اور اس کی وحیاں اوپر سے آتی ہیں، وہ وسیلہ جو یا تو الرحمٰن سے پہچانا جاتا ہے یا واضح طور پر وہ جو آسمان سے آتا ہے’’۔ (۳۳)

دونوں نبیوں کی تعلیمات کے درمیان واضح مشابہات کی وجہ سے سوال پوچھنا چاہیے، کون کس سے چیزیں استعمال کرتا تھا؟ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ‘‘موسائلما بڑا جھوٹا’’ تھا یا ‘‘جھوٹا نبی تھا’’۔ جس نے محمد سے چُرایا خاص طور پر طریقہ کار کے معاملات میں۔ (۳۴) مسلمانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسود یمن سے تھا اور موسائلمامہ سے تھا اور طلحہ اسد ملک میں اُس نے نبی کی بیماری کے دوران خُود کے لیے نبوت کا دعویٰ کرنے کی کوشش کی۔ (۳۵) اس مسئلے کو واضح کرتے ہوئے پیٹرز ایک مزید منطقی خیال دیتا ہے:

یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ موسائلما نے شروع سے الرحمٰن ادھار لیا اور خاص طور پر کامیاب مکہ کا محمد اور پھر بنو حنیفہ کو فرضی اللہ کے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ یہ قبول کرنا زیادہ آسان ہے کہ الرحمٰن کی الیمامہ میں ایک اصلی اور طویل عرصے کی تعلیم تھی، جدید ریاض کے گِردا گِرد ایک مذہب جو ہو سکتا ہے محمد نے بھی بنایا ہو۔ (۳۶)

الرحمٰن یا الریحیم مذہب کی یمن میں بہت تعلیم دی گئی، محمد کے پیدا ہونے سے دو سو سال قبل۔ مزید برآں ، یہ قبول کرنے کے لیے یہ واجب ہو گا کہ یہ مذہب پہلے قائم تھا ، الیمامہ میں اس کا مرکز تھا اور دور دور تک پھیلتا رہا۔ قابلِ منظور ثبوت کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ محمد ظاہر ہونے والے ثقافتی اور مذہبی مقاصد استعمال کرتا تھا۔

سارے ثبوت متواتر بڑے نتیجہ خیز ہیں کہ محمد نے مذہب اسلام کے اصولات ایجاد نہ کیے ۔ اس نے واضح طور پر پہلے سے موجود عربی بُت پرست رسومات کو دوسرے قائم شدہ عقائد میں ملا کر ایک نیا مذہب بنا دیا۔ لاپرواہی سے آج مسلمان اندھے طریقے سے بغیر غور کیے ایسے دھوکے کو نظر انداز کر رہے ہیں ، بجائے اسکے کہ بڑے اچھے آثاِ قدیمہ کے اور تاریخی حقائق کی تحریری شہادت کے۔ بہت سے مسیحی اور یہودیوں کا ایمان ہے کہ اللہ یا اس کے دوسرے فرضی اللہ، الرحمٰن (رحم کرنیوالا) اور یہواہ ایک اور وہی ہیں ۔ اس سبق میں شامل ذریعہ کے مواد پر غور کرتے ہوئے، کوئی ایک اس قسم کی گول مول بات کو منطقی نہیں بنا سکتا ۔ اللہ ستاروں کی یعنی نجومی رسم ورواج کی بُت پرست طریقے سے نکلا ہے اور دیوتاؤں کی پرستش کے درمیان چاند دیوتا کو مرکز بنایا گیا۔ کسی جگہ بھی تاریخی تجزیاتی طور پر ثبوت کا ذکر نہیں نام اللہ یہودیوں اور مسیحیوں کے یہودی خُدا کی طرف اشارہ کرے۔

مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان اور حالیہ ہلچل کا رضحان رہا ہے کہ اسلامی کمیونٹی کو اطمینان دیا جائے۔ اس نئی تحریک کو ‘‘کراسلام’’ کا نام دیا گیا ہے اور مسحیت اور اسلام کو ملانے کی ایک کوشش ہے۔ اس تحریک کی بنیاد نائجیریا میں رکھی گئی ہے اور عالمی طور پر پھیل گئی ہے۔ ییل یونیورسٹی کی ایک کانفرس جو جولائی ۲۰۰۸ میں ہوئی اسلام کو قبول کرنے اور اطاعت کی ایک بہت اعلیٰ مثال کا آغاز ہے؛ ۳۰۰ نمایاں مسیحی رہنماؤں نے ایک خط پر ‘‘ہمارے اور تمہارے درمیان ایک مشترکہ کلمہ’’ پر دستخط کیے۔ یہ خط ‘‘رحم کرنیوالے’’ کے نام لکھا گیا، جو اللہ کی طرح کے ہی دیوتا کی طرف اشارہ ہے۔ یہ انجیل کے خادم کیسے دھوکا کھا سکتے ہیں جب ایسی اہمیت کے واقعات پیش آتے ہیں؟ مزیدبرآں قرآن بار بار مسیح کی الوہیت کا انکار کرتا ہے۔ دوبارہ یہ رہنما کیسے ان حقائق کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور ادھم مچانے والا خُدائی انکار کر سکتے ہیں؟ حتیٰ کہ انہوں نے حقیقت کی غلط تشریح کی کہ خط میں جب محمد کا بطور خُدا کا نبی حوالہ دیا گیا کوبڑا ‘‘پی’’ استعمال کیا گیا جو اشارہ کرتا ہے کہ وہ دوسرے تمام نبیوں سے اعلیٰ تر ہے۔ یہ استعمال اسلامی وسیلہ مواد میں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ حقیقتاً خط کے بڑے حصے میں ان کلیسیائی رہنمائی کی طرف سے کوئی بہانہ نہیں کیا جا سکتا جب قطعی طور پر خُدا کا انکار کیا جاتا ہے ۔ اگر وہ اس قسم کی استعمال کی گئی زبان سے گمراہ ہو گئے یا دھوکہ کھا گئے ہیں تو اُنہیں اس حقیقت کو پہچاننا چاہیے اور اپنی غلطی کا اقرار کرنا چاہیے۔ بہت سی ویب سائیٹس اس خط کے دستخط کنندگان کو دکھاتی ہیں ۔ مصنف کی یہ خواہش نہیں کلیسیا کے اندر خانہ جنگی پیدا کرے بلکہ جب نجات کے بارے ایسے قابلِ غورواقعاتن ہوتے ہیں تو ضرورت مسئلہ زیرِ بحث ہونا چاہیے۔ یہ کلیسیائیں آمنے سامنے آنے کے لیے وسیع برتری ہے، ایک لمحہ کے لیے ، کیا پولس رسُول نے ایک دفعہ پطرس کو ایسا نہیں ڈانٹا ٹھا جب پاک اور ناپاک کے متعلقہ مسئلہ تھا؟ فوراً مسئلہ ٹھیک کر لیا گیا ، پس یہ کہ ابتدائی کلیسیاء میں مزید ابتری نہ پائی گئی۔ اسی طرح ، اس سے پہلے کئی گمراہ ہوں کلیسیا میں یہ اہم مسئلہ بیان کرنا چاہیے۔

 

 مخفف اے

چاند دیوتا کے مندروں کی عرب کے قافلوں کے راہوں پر جگہوں کی فہرست۔

گناہ کا صحرا ۔ ایک ایسا علاقہ جو چاند دیوتا کے گناہ کے لیے وقف ہونے کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اُعور ۔ ابتدائی مندروں میں سے ایک جو چاند دیوتا کے لیے وقف ہوا۔

حاران ۔ چاند دیوتا کے لیے ایک  کھدائی کیا ہوا مندر۔

لمیا۔ بابل کا آخری بادشاہ نیبونی ڈس ( ۵۵۵ ۔۵۳۵ ) نے چاند دیوتا کے لیے اِس شہر کو تعمیر کیا ۔

مکہ۔ کعبہ کے اندر ۳۶۰ بُت نسب تھے اللہ چاند دیوتا تھا اور مندر کے سب سے بڑے دیوتا کے طور پہ جانا جاتا تھا۔

مارب ۔ الیمکا کا مندر سائبین چاند دیوتا کا مندر ۔

ہوریدہ ۔ گناہ کے چاند دیوتا کا مندر جو ۱۹۴۴ء میں جی کیٹن تھامسن نے کھدوایا۔

مِصر ۔ بُہت ساری جگہیں اعسترہ کے لیے وقف تھیں جو کہ گناہ کے چاند دیوتا کی بیٹی تصور کی جاتی تھی ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مخفف بی

وہ حقائق جو اِس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ چاند دیوتا ہیں

۔   ۔ قمری کیلنڈر کا استعمال بطور اسلامی معیار کے استعمال ہونا ۔

۔  ۔ ہلال چاند کا زیادہ تر مسجدوں کے اُوپر موجود ہونا ۔

۔  ۔ بڑے مذہبی تہوار رمضان کا چاند کے حساب سے شروع ہونا اور چاند کے حِساب سے ختم ہونا، جیسا کہ اسلام کے وقتوں سے پہلے ہوتا تھا ۔

۔  ۔ چاند کے مندروں کی جغرافیائی دریافتیں اور عرب کے قافلوں کے راستوں پر اِس کا ملنا۔

۔  ۔ اسلام کے بڑے مندر ( کعبہ)  کا چاند دیوتاؤں کے ساتھ مخصوص ہونا خاص طور پہ دیوتا اللہ کا ( یعنی چاند دیوتا )

۔  ۔ اللہ چاند دیوتا اللہ کی بیٹیاں ( الات ، الُعضا اور مینا ) بنیادی طور پر محمد سے پوجا کی جاتی تھی۔

۔   ۔ بے شمار زباندانی کے تعلقات جو عرب کے مختلف چاند دیوتاؤں سے ملتے جُلتے ہیں۔

 

 

نوٹس

تعارف

 ۱ ۔ میری پیٹ فِشر اور رابرٹ لیوسٹر ، لیونگ ریلیجنز ( اینگل وڈکلپس : ( پرینسٹس ہال ، ۱۹۹۱ ) ، ۲۹۱ ۔

۲۔ سائٹ لکھنی ہے ( مئی ۲۰۱۱ سے شروع ہوئی )

۳۔ رابرٹ سی ڈیگلس ، ‘‘ چیلنج آف دی مُسل ورلڈ ’’ورلڈ ایونجلیزم ۱۵ ، نمبر ۵۵ ( نومبر سے دسمبر ۱۹۸۸ ) : ۱۵

۴۔ رابرٹ ایمورے دی اسلامک اِنویشن : کنفرنیٹک دی ورلڈز فاسٹس گرائنگ ریلجن ( یوجن ، اُعر : ہاروس ہاؤس پبلشرز ، ۱۹۹۲ ) ، ۵ ۔

۵۔ تخفیف ۵ ۔ ۶ ۶۔ سرل گلاسی ، اسلام کا جامع انسائیکلوپیڈیا ( نیویارک : ہارپر اینڈ روپبلشرز ۱۹۸۹ ) ، ۳۱۳

۷۔ تخفیف ۔ ، ۳۸۵

۸۔ تخفیف ۔ ، ۳۱۳

تخفیف ۔ ، ۲۱۴

باب اول

۱۔ گلاسی انسائیکلوپپیڈیا آف اسلام ، ۲۱۴۔

۲۔ ابوالولید محمد الہ ازرقی، ‘‘ اخبار مکہ ’’ فردیند وُسٹن فیلڈ ڈائی خرومینک ڈرستت مکہ والیم نمبر ۱ لِپزگ ( ۱۸۵۸) : ریپ ۔ ( ہِلڈرشم : جارج اُومز ، ۱۹۸۱ ) ، ۱۴۰ سے ۱۴۴ ؛ ایف ای پیٹرز کے بیان میں ، حج : مسلمانوں کا مکہ اور پاک جگہوں میں زیارت کرنا ۔ ( پِنسٹن : یونیورسٹی پریس ، ۱۹۹۴ ) ۶۳۔

۳۔ تخفیف

۴۔ دمشق کا یوحنا ، ‘‘ آن ہیرسیس ’’ دمشق کے مقدس یوحنا میں : تحریریں ، والیم ۳۷ ، دی فادر آف دی چرچ : ایک نیا ترجمہ ، ٹرانس ۔فریڈرک ایچ چیز رائے جوزف ڈیفری ایتھ ایل ۔ ( نیویارک : فادرز آف دی چرچ۔ ، ۱۹۵۸ ) ، ۱۵۷

۵۔ گلاسی ، انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ۷۷۔

۶۔ تخفیف ۔ ، ۳۲۳

۷۔ تخفیف۔ ، ۳۲۲

۸۔ صیححالبخاری، حدیث : ( نبی محمد کی کہی ہوئی اور کی ہوئی روایات جو اُس کے ساتھیوں نے بیان کی ( ۱۹۴ سے ۲۵۶ )

ہجری ۔ ( ۸۱۰ سے ۸۷۰ ) عیسوی ۔ ، والیم ۹ ٹرانس ۔ محمود متراجی ( بیروت : دارلحفکر ، ۱۹۹۳ ) ، والیم ۱ ، نمبر ۳۴۹ : ۱۳۰ سے ۱۳۱

۹۔ جی ۔ ای ۔ ون گرون بوم، محمڈن فیسٹیول ( نیویارک ہنسری شمعون ۔ ، ۱۹۵۱ ) ، ۲۳ ۱۰۔ رچرڈ ایف برٹن ، مکہ کے لیے اور مدینہ کے لیے زیارت کا شخصی بیان ، والیم ۲ ، ایسبل برٹن ( نیویارک : ڈوور پبلیکیشنز۔ : ۱۹۶۴ ) ، ۱۶۹۔

۱۱۔ تخفیف ۔ ، ۳۲۶

۱۲ ۔ گرونے بوم ، فیسٹیول ۲۳

۱۳۔ گلاسی ، انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ، ۲۱۴

۱۴۔ میریسیا الییڈیا، ایڈ ۔  ۔ ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ( نیویارک میکمیلن پبلیشنگ ، سی او ، ۔ ۱۹۸۷ ) ، ۸ : ۲۲۵

۱۵ ۔ گلاسی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ، ۲۱۴

۱۶ ۔ الیسڈیا ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۸ : ۲۲۵

۱۷۔ البخاری ، حدیث ، والیم ۸ ، نمبر ۶۲۲۷ : ۸۳ اور والیم ۴ نمبر ۳۳۲۶ : ۲۲۱

۱۸۔ الیضبات ایلک اور پال ایلک ، ایڈز، مکہ دی بلِسڈ مدینہ دی ریڈینٹ ( نیویارک : کراؤن پبلشرز ۱۹۶۳ )، ۱۶

۱۹۔ تخفیف ۱۶ ۔ ۱۷

۲۰ ۔ تخفیف ، ۱۷

۲۱۔ الطبری ، طبری کی تاریخ ، احسان یا، شاطر اور مترجم فرانز روسنتھل ، والیم ۱، عام تعارف اور طوفانِ نوح کی تخلیق سے ( البینی : سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک پریس ، ۱۹۸۹ ) ۳۰۳

۲۲۔ تخفیف ، ۲۹۳

۲۳۔ تخفیف ، ۳۰۳

۲۴۔ ایف ای پیٹرز ، یہودیت ، مسیحیت اور اسلام : شاندار پیرائے اور اُن کی تغیر ( پرنسٹن : پرنسٹن یونیورسٹی پریس ۱۹۹۰ ) ۹۰۸

ایلک اینڈ ایلک ، مکہ دی بلسڈ ، ۱۸۔

(۲۶) الطبری، طبری کی تاریخ

(۲۷) ایلک اینڈ ایلک، مکہ دی بلسڈ ، ۲۲

(۲۸) تخفیف

(۲۹) پیٹرز؛ کلاسیکل ٹیکٹس ، ۹۰۹

(۳۰) تخفیف

(۳۱) تخفیف ۔ ، ۹۱۰

(۳۲) تخفیف ۹۰۸

(۳۳) ایلسڈ ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ۸ : ۲۲۵

(۳۴) گلاسی، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۷۷

(۳۵) پیٹرز ، حج ، ۱۴ (۳۶) تخفیف ، ۱۵

(۳۷) البخاری ، حدیث ، والیم ۲ ، نمبر ۱۶۱۶ : ۲۵۳

(۳۸) تخفیف ۔ ، ۱۶۰۵  : ۲۵۴

(۳۹) تخفیف ۔ ، ۱۶۱۶ ؛ ۲۵۶

(۴۰) تخفیف ۔ ، ۱۶۰۷ : ۲۵۴، ۱۶۱۲ ۔ ۱۳ : ۲۵۵، ۱۶۳۲ : ۲۶۱،

(۴۱) ایف ۔ای پیٹرز،محمد اور اسلام کی ابتداء (البانی : سٹیٹ یونورسٹی آف نیویارک پریس ؛ ۱۹۹۴)، ۲۳۶۔

(۴۲) البخاری، حدیث والیم ۲، نمبر ۱۵۹۷ : ۲۵۱

(۴۳) گرونےبوم،فیسٹیول ، ۴۴

(۴۴) تخفیف۔ ، ۲۹

(۴۵) تخفیف ، ۔۴۲ ۔۴۳

(۴۶) تخفیف، ۔ ۴۳

(۴۷) تخفیف ۔ ، ۴۴

باب دوم

(۱) ایلیڈ ، انسدائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۱۴:۵۰

(۲) تخفیف

(۳) تخفیف۔ ، ۴۵

(۴) رابرٹ کھاراکس، ماسٹرز آف دی ورلڈ، ٹرانس، لوول بلئر (نیویارک: برکلے پبلشنگ کورپ۔ ، ۱۹۷۴ ) ، ۵۵

(۵) ایلیڈ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ۱۴:۵۳

(۶) کھاراکس ، ماسٹرز، ۵۵

(۷) ایلیڈ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن، ۱۴:۵۳

(۸) تخفیف

(۹) کھاراکس، ماسٹرز، ۵۶

(۱۰) ایلیسڈ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۱۴:۱۵

(۱۱) کھاراکس ، ملسٹرز، ۵۶

(۱۲) تخفیف

(۱۳) ایلسڈ ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۱۴:۴۶

(۱۴) تخفیف۔، ۱۴:۵۲

(۱۵)تخفیف

(۱۶) تخفیف

(۱۷) تخفیف

(۱۸) تخفیف

(۱۹) تخفیف

(۲۰) کھاراکس، ماسٹرز، ۵۷

(۲۱) ایلک اینڈ ایلک، مکہ دی بلسڈ ، ۲۱۱

(۲۲) البخاری ، حدیث، والیم ۹ ، نمبر ۷۳۳۳ : ۶۸

(۲۳) پیٹرز، اوریجنز ، ۱۶

(۲۴) حشام ابن القالبی، بتوں کی کتاب ال صنام کا ایک ترجمہ، ترجمہ، نبی امین فارس ( پرنسٹن : پرنسٹن یونیورسٹی پریس ۱۹۵۲) ۱۰ ۔ ۱۱

(۲۵) تخفیف۔ ، ۴۰

(۲۶) گرونے بوم، فیسیول ، ۲۳

(۲۷) ابن اضحاق، محمد کی زندگی : اضحاق کی سیرتِ رسول اللہ کا ایک ترجمہ ، ترجمہ : گئیول می ( کراچی ، پاکستان : آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، ۱۹۶۷ ) ، ۸۴

(۲۸) تخفیف ۔ ، ۸۵

(۲۹) پیٹرز ، اوریجنز ، ۱۲ ، ۲۷۰

(۳۰) پیٹرز، حج، ۲۱

(۳۱) ابن القالبی ، آئیڈلز، ۲۸(۳۲) پیرز ، اوریجنز ، ۱۵

(۳۳) القالبی ، آٹیٹلز ، ۲۷

(۳۴) تخفیف ۔ ، ۲۸

(۳۵) تخفیف ۔ ، ۴۶

(۳۶) تخفیف ۔ ، ۲۸ ۔ ۲۹

(۳۷) تخفیف ۲۹ ۔ ۳۲

(۳۸) تخفیف

(۳۹) تخفیف ۔ ۳۳

(۴۰) تخفیف ۔ ، ۵۱

(۴۱) تخفیف ، ۔ ۳۳، ۴۲

(۴۲) تخفیف ۔ ، ۳۵ ۔ ۳۶

(۴۳) تخفیف ۔ ، ۳۶ ۔ ۳۷

(۴۴) تخفیف ۔ ، ۳۴

(۴۵) الطبری ، الطبری کی تاریخ ، ایڈ۔ احسان یار شاطر ، ترجمہ ڈبلیو مونٹ گومری واٹ اینڈ ایم وی میکڈونلڈ ، والیم ۔ ۶ ، مکہ میں (البانی : سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک پریس ، ۱۹۸۸) ، ایکس ایکس ایکس ۹، ۴۴

باب سوم

(۱) ابن القالبی ، آیڈلز ، ۱۲

(۲) تخفیف ۔ ، ۱۳

(۳) تخفیف ۔ ، ۳۱

(۴) ایلک اور ایلک ، مکہ دی بلسڈ ، ۳۱ (۵) ابن القالبی ، آئیڈلز ، ۱۴

(۶) تخفیف ، ۱۶ ، ۲۲۔۲۳

(۷) پیٹرز ، اوریجنز ، ۱۲۲

(۸) ابنِاضحاق ، لائف ، ۹۸ ۔ ۹۹

(۹) تخفیف ، ۹۹

(۱۰) تخفیف

(۱۱) البخاری ، حدیث ، والیم : ، نمبر ۳ : ۵ ۔ ۶

(۱۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۹ ، نمبر ۶۹۸۲ : ۴۹ ۔ ۵۰

(۱۳) ابن اضحاق ، لائف ، ۹۹

(۱۴) تخفیف ۔ ، ۹۹ ، ۱۰۳

(۱۵) پیٹرز ، اوریجنز ، ۱۲۳

(۱۶) ابناضحاق ، لائف ، ۲۷۸

(۱۷) مورے، اسلامک اِنویشن، ۱۴۷ ۔ ۱۵۱

(۱۸) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۷ ، نمبر ۵۴۹۹ : ۱۶۱

(۱۹) ابن القالبی ، آئیڈلز ، ۱۶ ۔ ۱۷

(۲۰) البخاری ، حدیث ، والیم ۸ ، نمبر ۶۳۶۸ ، ۶۳۷۵ ، ۶۳۷۷ : ۱۳۰ ، ۱۳۲ ۔ ۳۳ ؛  والیم ۔ ۱ ، نمبر ۷۴۴ : ۲۴۶

(۲۱) البخاری ، حدیث ، والیم ۸ ، نمبر ۶۳۹۸ ۔ ۹۹ : ۱۳۰ ۔ ۴۰ (۲۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۔ ۹ ، نمبر ۔ ۶۹۸۲ : ۵۰

(۲۳) البخاری ، حدیث والیم ۔ ۲ ، نمبر ۱۳۶۳ ۔ ۶۵ : ۱۶۲

(۲۴) تخفیف ، ۱۲۲۸ ۔ ۲۹ ، ۱۲۳۲ :  ۱۱۷ ۔ ۱۹

(۲۵) الطبری ، تاریخ ، والیم ۶ : ۱۰۸

(۲۶) اِلسی لِچڈن سٹر، قرآنی مسائل سے متعلقاً ایک تحریر، اسرائیل کی بنیاد پر ایک مطالعہ ۵ ( ۱۹۷۵ ) : ۶۰

(۲۷) الطبری ، تاریخ ، والیم ۶ ، ۱۰۸ ۔ ۰۹

(۲۸) القالبی ، آئیڈلز ، ۱۷

(۲۹) ابناضحاق ، لائف ، ۱۶۶ ۔ ۱۶۷

(۳۲) مونٹگومری واٹ ، مکہ میں محمد ( آکسفورڈ کلیرنڈن پریس، ۱۹۵۳) ۱۰۳

(۳۳) ایم ۔ ایم ۔احسان ، ‘‘ سٹینکورسزاینڈدیاورنیٹلیسٹس : نام نہاد شیطانی آیات کے مستند ہونے پر تحریر ، ہمدرد اسلامکس ۵ ؛ نمبر ۔ ۱ ( ۱۹۸۲) : ۲۷ ۔ ۳۶

(۳۴) البخاری ، حدیث والیم ، ۲ ، نمبر ۱۵۹۷ : ۲۵۱

باب چہارم

(۱) گکاسی ، انسائیکلوپیڈیا آف اسلام ، ۷۷

(۲) ایلسڈ ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۱۴: ۵۰

(۳) تخفیف ، ۱۴: ۵۱ (۴) تخفیف ، ۱۴: ۵۰

(۵) تخفیف ، ۸ : ۲۲۵

(۶) مولانا محمد علی ، دی ریلجن آف اسلام ، اسلام کے ذرائع ، اصول اور عمل پر ایک جامع بحث ( لاہور ، پاکستان : احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام، ۱۹۸۳ ) ، ۵۲۰

(۷) تخفیف

(۸) جیفری ڈبلیو بروملی، ایڈ۔، دی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ بائبل انسائیکلوپیڈیا والیم ۔ ۱ ، ( گرینڈ ریپڈز : ولیم بی ۔ ایرڈمینز پبلشنگ کو۔ ، ۱۹۷۹ ) ۷۷۱۔

(۹) میرل سی۔ٹینی ، دی زونڈروین پکٹوریل انسائیکلوپیڈیا آف دی بائبل ، والیم ۔ ۱ ، (گرینڈریپڈز وین کروپ ، ۱۹۷۶ ) ۹۷۹۔

(۱۰) پیٹرز ، کلاسیکل ٹیکٹس ، ۲۴۹

(۱۱) دمشقی یوحنا ، اون ہیرسِس ، ۱۵۶

(۱۲) البخاری ، حدیث ، والیم ۷ ، نمبر ۵۹۵۲ : ۲۸۷

(۱۳) دمشقی یوحنا ۔ اون ہیرسیس ، ۱۵۷

(۱۴) تخفیف ، ۱۵۳

(۱۵) تخفیف

(۱۶) ہیروڈوٹس، تواریخ ، ۱ : ۱۳۱

(۱۷) ایلک اینڈ ایلک ، مکہ دی بلسڈ ، ۳۱ ۔ ۳

(۱۸) ایڈورڈ لِپنسکی ، ابتدائی عرب میں ، بابل میں اور یوگرٹ میں عستارات دیوی اُس کے چاند دیوتا اور سورج دیوتا کے ساتھ تعلقات ، اور ئینتلیہ لوینینسیاپیریوڈیکا این۔ وی (۱۹۷۱) : ۱۰۱

(۱۹) ڈبلیو جے جوبلنگ، ڈیزرٹ ڈی ایٹیز : سم نیو ایپی گرافک ایوڈینس فار دی ڈی ایٹیز وشریز اور الاٹ فرام دی ایکابا مان ایریا آف ساوتھرن جورڈن، ‘‘ رلیجنس ٹریڈیشن ۷ ۔ ۹ ( ۱۹۸۶ ) : ۲۶

(۲۰) تخفیف ۔ ، ۲۶ ۔ ۷

(۲۱) ایلسڈ ، انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۱ : ۳۶۴

(۲۲) لِیپنسکی ، عستارت ، ۱۰۲

(۲۳) تخفیف ۔ ، ۱۰۳

(۲۴) تخفیف

(۲۵) تخفیف

(۲۶) تخفیف ، ۱۰۴

(۲۷) جوبلنگ ، ‘‘ ڈیزرٹ ڈی ایٹیز، ’’ ۳۳

(۲۸) لِپنسکی ، ستعارت،’’ ۱۰۴

(۲۹) تخفیف ۔ ، ۱۰۵

(۳۰) تخفیف ۔ ، ۱۱۶

(۳۱) مِرسیا ایلسڈ مذہبی تصور کی ایک تاریخ ، ٹرانس۔ ولارڈ آر ٹراسک ، والیم ۱ ، فرام دی سٹون ایج ٹو دی الوسنین مائسٹریز ( شکاگو : یونیورسٹی آف شکاگو پریس ، ۱۹۷۸) ، ۱۵۱۔

(۳۲) لِپنسکی ، ‘‘عستارات ’’۱۱۶ ۔ ۷

(۳۳) تخفیف

(۳۴) تخفیف۔ ، ۱۱۸

(۳۵) تخفیف

(۳۶) جوبلنگ ، ‘‘ ڈیزرٹ ڈی ایٹیز ’’ ۳۳

(۳۷) لِپنسکی ‘‘ عستارت’’، ۱۱۹

(۳۸) جوبلنگ ، ‘‘ ڈیزرٹ ڈی ایٹیز ’’ ۳۳

(۳۹) تخفیف ۔ ، ۳۳ ۔ ۴

(۴۰) ابن اضحاق ، لائف ، ۶۱۶

(۴۱) ایلک ایلک مکہ دی بلسڈ، ۳۸

(۴۲) جوبلنگ ‘‘ ڈیزرٹ ڈی ایٹیز ، ۲۸

(۴۳) جوزف پیٹرک ، اُلعضا ایر رنگز، ‘‘ اسرائیل ایکسپلوریشن جرنل ’’ ۳۴ ، نمبر ۔ ۱ ( ۱۹۸۴ء ) : ۳۹

(۴۴) تخفیف

(۴۵) تخفیف ۔ ، ۴۱

(۴۶) تخفیف ۔ ، ۴۲ ۔ ۳

(۴۷) تخفیف ۔ ، ۴۴

(۴۸) ابن اضحاق ، لائف ، ۳۶

(۴۹) تخفیف ۔ ، ۵۶۵ ۔

(۵۰) ابن القالبی ، آئڈلز ، ۲۱ ۔ ۲

(۵۱) ابن اضحاق ، لائف ، ۸۵ ۔ ۶

باب پنجم

(۱) واٹ ، مکہ میں محمد ، ۲۶ ۔ ۷

(۲) ماوئنٹگومری واٹ ، اسلام سے پہلے مکہ میں ‘‘ اعلیٰ خُدا پر ایمان ’’ جرنل آف سیمٹیک سٹیڈیز ۱۶ (۱۹۷۱) : ۳۸

(۳) الطبری ، تاریخ ، والیم ۔ ۶ ، ۲ ۔ ۵

(۴) تخفیف ۔ ، ۳۳ سے ۳۵

(۵) پیٹرز ۔ اُوریجنز ، ۱۰۷ ۔

(۶) رابرٹ اے مورے ، کیا ‘‘ اللہ ’’ خُدا کا ایک دوسرا نام ہے ؟ ( آسٹن ، ٹیکس ۔: ریسرچ اینڈ ایجوکیشن فاوئنڈیشن ، ۱۹۹۲ء) ، ۷۔

(۷) علی ، رلیجنز آف اسلام ، ۱۵۴

(۸) مورے ، اسلامک اِن ویشن ، ۶۳

(۹) ولیم ایل ۔ ہولا ڈے ، آکونسائز ہیبریو اینڈ ارامک لیکسیون آف دی اولڈ ٹیسٹامنٹ : بیسڈ آن دی فرسٹ ، سیکنڈ ،اینڈٹھرڈ ایڈیشن آف دی کوہیلر بوم گاٹنر لیکسیکن اِن ویٹریز ٹیسٹامینٹی لبروس ( گرینڈ ریپرڈ : ولیم بی ایلڈمین پبلشنگ کو ۔ ، ۱۹۹۳ء) ، ۱۶۔

(۱۰) عائزق مینڈیلسن ، ایڈ ۔ ، رلیجنز آف دی اِنییایشینٹ نیر ایسٹ : سومیرو ۔ آکارڈین رلیجنز ٹیکس اینڈ یوگارٹک ایپکس ، دی لائبیری آف رلیجن ، والیم ۔ ۴ ( نیویارک : دی لبرل آرٹس پریس ، ۱۹۵۵ ) ، ۱۶۰۔۱۶۳

(۱۱) رابرٹ اے مورے قرونِوسطیٰ کے جغرافیہ میں چاند دیوتا اللہ ( نیوپورٹ ، پی اے ۔ : ریسرچ اینڈ ایجوکیشن فاوئنڈیشن ، ۱۹۹۴ء ) ، ۸

(۱۲) تخفیف ۔ ، ۴

(۱۳) تخفیف ۔ ، ۶ ۔ ۷

(۱۴) تخفیف ۔ ، ۷ ۔ ۸

(۱۵) الائیڈ انسائیکلوپیڈیا آف رلیجن ، ۱ : ۳۶۴(۱۶) ورنرڈوم ، ‘‘ جنوبی عرب میں اسلام سے پہلے کی رسم، ’’ جرنل آف دی رائل ایشیاءٹک سوسائٹی آف گریٹ بریٹن اینڈ آئرلینڈ این۔ وی ۔ ، نمبر ۔ ۱ (۱۹۸۷ء) : ۱۱۔ (۱۷) جیکس ریکمین ، دی پینتھین ڈی لاربے ڈئیوسد پری اسلامک : اٹیٹ دس پرابلیمس ایت سینٹھسی ، ‘‘ اینالیس ڈیئوموسی گیومیت ۲۰۶ (اپریل جون ۱۹۸۹ء) : ۱۶۳۔

(۱۸) مورے، چاند دیوتا اللہ ، ۱۱

(۱۹) ڈیوڈایف۔گراف، ‘‘ الیربیہ ڈیئورنگ ایکا مینڈ ٹائم، ’’ ایکامینڈیسرٹی ۴ ( ۱۹۸۷ء) : ۱۴۰

(۲۰) ریکمین ، پینتھیسی ان ۱۶۳

(۲۱) ایلک ایلک مکہ دی بِلسڈ، ۳۱، ۳۳۔

(۲۸) مورے چاند دیوتا اللہ ۱۴

(۲۳) رابرٹ امورے، دی گریٹ ڈیبیٹ مسیحیت بمقابلہ اسلام۔ ۲ گھنٹے۔ ( نیوپورٹ، پی اے : سچائی کے متلاشی، ۱۹۹۶ء) ، ویڈیو کیسٹ

(۲۴) تخفیف

(۲۵) تخفیف

(۲۶) پیٹرز، اوریجنز ، ۴۸۔۹

(۲۷) تخفیف۔، ۵۲۔۴

(۲۸) تخفیف ۔ ، ۱۵۶ ۔ ۷

(۲۹) تخفیف ۔ ، ۱۵۷

(۳۰) تخفیف

(۳۱) ابن الحضاق ، لائف ، ۱۴۰

(۳۲) پیٹرز، اوریجنز ۱۵۹

(۳۳) تخفیف۔ ، ۲۹۳

(۳۴) اطبری، اطبری کی تاریخ ، ایڈ۔ احسان یار شاطر، ٹرانس اسماعیل کے ۔ پونا والا ، والیم ۔ ۹ ، نبی کے آخری سال (البانی : سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک پریس ، ۱۹۰)  ؛ ۵۸ ، ۱۰۶ ۔ ۷ ، ۱۶۴ ، ۱۹۵۔

(۳۵)تخفیف ۔ ، ۱۶۴

(۳۶) پیٹرز ، اوریجنز ، ۱۵۹